(Last Updated On: )
رائو مظہر الیاس ( خانیوال )
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا شمار دینا کے ان ادباء و شعرا میں ہوتا ہے جن کی اپنی ایک الگ امتیازی شان تھی۔ وہ ایک بلند پایہ مفکر، عظیم فلسفی،تاریخ ادبیات کے متجر عالم، باکمال استاد اور اردو و فارسی کے قادر الکلام و بالغ نظر شاہر تھے۔ انہیں اردو، عربی، فارسی، پنجابی، انگریزی کے علاوہ کئی اور علاقائی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے اپنای شاعری کے ابتدائی زمانے ہی میں دنیائے ادب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ ان کی حیثیت مشرقی فلسفہ دانوں اور شاعروں کے کہکشاں میں ماہتاب کی سی تھی۔ غرض یہ کہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی دین علامہ محمد اقبالؒ اور ان کی شاعری ہی تھی۔ اقبال نے نہ صرف اپنے عہد کے مفکروں، شاعروں اور دانشوروں کو متاثر کیا بلکہ بعد میں آنے والے شعراء و ادبا بھی ان کے سحر میں آئے بغیر نہ رہ سکے۔ ’’اقبال کا فن اور فلسفہ‘‘ میں پروفیسر ضیاء الدین احمد قلم بند کرتے ہیں:
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال عظیم المرتبت شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا شمار دینا کے ان ادباء و شعرا میں ہوتا ہے جن کی اپنی ایک الگ امتیازی شان تھی۔ وہ ایک بلند پایہ مفکر، عظیم فلسفی،تاریخ ادبیات کے متجر عالم، باکمال استاد اور اردو و فارسی کے قادر الکلام و بالغ نظر شاہر تھے۔ انہیں اردو، عربی، فارسی، پنجابی، انگریزی کے علاوہ کئی اور علاقائی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ انہوں نے اپنای شاعری کے ابتدائی زمانے ہی میں دنیائے ادب کو اپنی طرف متوجہ کر لیا تھا۔ ان کی حیثیت مشرقی فلسفہ دانوں اور شاعروں کے کہکشاں میں ماہتاب کی سی تھی۔ غرض یہ کہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی دین علامہ محمد اقبالؒ اور ان کی شاعری ہی تھی۔ اقبال نے نہ صرف اپنے عہد کے مفکروں، شاعروں اور دانشوروں کو متاثر کیا بلکہ بعد میں آنے والے شعراء و ادبا بھی ان کے سحر میں آئے بغیر نہ رہ سکے۔ ’’اقبال کا فن اور فلسفہ‘‘ میں پروفیسر ضیاء الدین احمد قلم بند کرتے ہیں:
’’ان کی ذہنی تخلیقات اور تصانیف نے گہری اور فکر انگیزی میں موجودہ شاعری کے انداز پر حیرت انگیز اثر ڈالا ہے۔ شاعرانہ وسعت نظر اور ندرتِ خیال کے بانی اور خالق ہونے کی بناء پر وہ حیات انسانی اور اسرارِ قدرت کا مطالعہ بھرپور تخیلی محویت سے کرتے تھے۔ ان کی شاعری میں جوش اور ولولہ کا وہ زور ہے جس سے انہوں نے دنیائے فکر و عمل میں انقلابی اور ہیجانی کیفیت پیدا کر دی جو بھی ان کی شاعری کے جادو کا حریف ہوتا ہے اس کو ہذا بیان سحراً کہہ کر ہار ماننا پڑتی ہے۔(۱)
اقبال نے اردو شاعری کی دنیا میں اچھوتی اور نئی روش اختیار کرتے ہوئے ایک نیا طرزِ احساس پیدا کیا۔ انفرادی تجربہ کی شاعری کو اجتماعیت سے روشناس کرایا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں منفرد اُسلوب کو اپناتے ہوئے ایسی زبان کو تشکیل دیا جس کے دامن میں علمی و فلسفیانہ موضوعات عام فہم انداز میں باآسانی سما گئے ہوں۔ انہوں نے شاعری میں نغمہ و آہنگ کے ساتھ ساتھ زندگی کے تلخ حقائق کو اس طرح بیان کیا کہ ان کی شاعری ایک تحریک کی صورت اختیار کر گئی۔ ’’اقبال کے کلاسیکی نقوش‘‘ میں ڈاکٹر انور سدید ر قم طراز ہیں۔
’’اردو ادب میں اقبال کی تحریک نے مستقبل کو اس شدت سے متاثر کیا کہ اب تک برصغیر میں لفظ و معنی کی جو تحریک بھی ابھری ہے اس کا سوتا اقبال کی تحریک سے ہی پھوٹا ہے۔ چنانچہ بیشتر ترقی پسند شعراء جنہوں نے اصلاحی اور معاشرتی امور سر انجام دینے کے لیے شاعری کو منطقی صداقت کے اظہار کا وسیلہ بنانا قبول کیا اقبال کے الفاظ اور تارکیب سے متاثر ہوئے اور ان کے بنے ہوئے لفظی سانچوں کو بے محا با استعمال کرنے لگے۔‘‘(۲)
اقبال نے اردو شاعری کو روز مرہ اور محاورہ کا کھیل سمجھنے کی بجائے نئے نئے سانچے تیار کرتے ہوئے افکار و نظریات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے نادر تشبیہات ، لطیف استعارات، اچھوتی تراکیب، جدید مصطلحات اور نئے نئے الفاظ و علامات کو اردو شاعری میں متعارف کرواتے ہوئے نہ صرف ہم عصر شعراء بلکہ بعد میں آنے والے شعراء کو بھی اپنے مخصوص اسلوب کو برتنے کا ڈھنگ سکھا دیا۔ اردو شاعری کی تاریخ میں غالب کے علاوہ کوئی اور دوسرا شاعر دو دور تک نظر نہیں آتا جس نے زبان و ادب پر اتنے انمٹ نقوش چھوڑے ہوں۔ عہد ِاقبال اور بعد میں بہت سے ادنیٰ و اعلیٰ، ادیبوں، مفکروں اور شاعروں نے اثرات قبول کیے۔ گویا کہ ایک پوری نسل ہے جس نے کسی نہ کسی صورت اقبال سے اکتساب ِفیض کیا۔ ان شعراء میں سید علی حیدر نظم طباطبائی، احمد علی شوق قدوائی،علامہ دتا تریا کیفی، سید وحید الدین سلیم، مولانا ظفر علی خاں،درگاسہائے سرور جہاں آبادی، سید غلام بھیک نیرنگ، مولانا محمد علی جوہر، عاشق حسین سیماب اکبر آبادی، محمد دین فوق پنڈت برج نرائن چکبست، خواجہ محمد مسیح پال امین ِحزیں، تلوک چند محروم، عظمت اللہ خان، جگت موہن لال رواں، ابو الاثر حفیظ جالندھی، خواجہ عبدالسمیع پال، آنند نرائن ملا، مولانا ابوالحسن ناطق ، سیماب اکبر آبادی، جگر مراد آبادی، جوش ملیح آبادی، اسد ملتانی، علی سردار جعفری، جگن ناتھ آزاد، ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، رگھو پتی فراق گور کھپوری، سید عابد علی عابد، اخترشیرانی، مصطفی زیدی، جمیل مظہری، ساغر نظامی، ماہر القادری، ن۔ م راشد۔ سکندر علی واجد، احسان دانش، کیفی اعظمی، ساغر نظامی، اسرار الحق،اسرار الحق مجاز، راجہ مہدی علی خاں کے علاوہ اور بھی بہت سے شعراء شامل ہیں۔
ان شعراء پر اقبال کے اثرات ہیئت، مواد، اسالیب، موضوعات اور طرزِ فکر کے اعتبار سے دکھائی دیتے ہیں۔انہوں نے نہ صرف شعری تجربوں میں اقبال کی تقلید کی بلکہ ان موضوعات کو بھی بطورِخاص اپنی شاعری میں سمویا جو اقبال کے پسندیدہ تھے۔اقبال کے معاصر شعراء جن پر اقبال کے فکر و فن کے اثرات مرتے ہوئے ان میں سے چند کا مختصر تذکرہ ملاحظہ فرمائیں۔
۱۔علی حیدر نظم طباطبائی (۱۸۵۳۔۱۹۳۳)
علی حیدر نظم طباطبائی نے شاعری میں ایک خاص اسلوب اختیار کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسم کی حیات ِطیبہ پر خوبصورت قصیدے لکھے۔ ان کی اخلاقی نظموں میں ان کی قوم سے محبت کے نمایاں نمونے دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کئی نظموں میں فکری، فنی اور موضوعاتی لحاظ سے استفادہ کیا ہے۔ ان کی نظموں ’’طلوع آفتاب‘‘، ’’خطاب بہ جوانان ِاسلام‘‘، برسات کی فصل‘‘، ’’بے ثباتی دنیا‘‘، ’’پھول‘‘، ’’آہِ سرد‘‘، ’’ساقی نامہ‘‘ اور ’’گور ِغریباں‘‘ (انگریزی شاعر گرے کی نظم کا آزاد ترجمہ ہے) اس میں اقبال کے اسلوب سے بھرپور استفادہ کیا گیا ہے۔ اقبال کی نظم ’’گورستان شاہی‘‘ کے اثرات کی واضح جھلکیاں واضح دیکھی جا سکتی ہیں۔ چند اشعار دیکھیں۔
اندھیرا چھا گیا ہے دنیا سے چھپتی جاتی ہے
جدھر دیکھو اٹھا کر آنکھ ادھر اک ہُو کا ہے عالم
مگس لیکن کسی جا بھیرویں بے وقت گاتی ہے
جریں کی دور سے آواز آتی ہے کبھی پیہم
کبھی ایک گنبدِ کہنہ پہ بوم خانماں ویراں
فلک کو دیکھ کر شکوئوں کا دفتر باز کرتا ہے
کہ دنیا سے الگ گوشہ عزلت میں ہوں پنہاں
کوئی پھر کیوں قدم اس کنج تنہائی میں دھرتا ہے
نفس بادِ سحر، نالہ پٍُردرد بلبل کا
ہوئے بیکار سب ان کو اٹھا سکتا نہیں کوئی
رہی بے فائدہ مستوں کی ہُو حق، شور قلقل کا
ہیں ایسے نیند کے ماتے جگہ سکتا نہیں کوئی
(۳)
۲۔احمد علی شوق قدوائی (۱۸۵۳ء۔۱۹۲۸ء)
احمد علی شوق قدوائی کی نظموں میں خاص جان اور تنوع پایا جاتا ہے۔ احمد علی شوق کے نزدیک ایسی شاعری جو فائدہ نہ پہنچائے اس کا ترک کر دینا ہی بہتر ہے۔ انہوں نے فکری، فنی و موضوعاتی اعتبار سے اکتساب ِفیض کیا۔ لیل و نہار، اکل ِحلال، برسات اور بہار، حسن، بہر میں اقبالیاتی نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔ مذہبی رنگ، خیالات کی پاکیزگی اور الفاظ کے حسن ِانتخاب کے پیش ِنظر شوق کی نظم ’’اکل ِحلال‘‘ میں اقبال کی نظم’’ سرودِحلال‘‘ مشمولہ ’’ضرب کلیم‘‘ کی صوتی ہم آہنگی او رخیال افروزی ملاحظہ فرمائیں۔
نکلے ابراہیم ادہم طالب اکل حلال
چھان ڈالا سب عراق آیا نہ ہاتھ ان کو کہیں
پھرتے پھرتے ہو گئے وہ سب وہاں سے ناممید
تب گئے طرطوس کو دلکش تھی جس کی سرزمیں
دس درہم طے پا گئی تنخواہ ان کو ماہوار
باغبانوں میں وہ نوکر ہو گئے آخر وہیں
باغ کے مالک نے مانگا ایک دن شیریں انار
توڑ لائے وہ ترش تو جھڑکیاں خوب ان کو دیں
پھر انہیں بھیجا کہ جا کے لائو اب کے شیریں ڈھونڈ کے
لائے تو پھر بھی ترش، پا کر ہوا وہ خشمگیں
تب دیا ان کو یہ ابراہیم ادہم نے جواب
میں تو میوں کو رکھاتا ہوہں فقط کھاتا نہیں
(۴)
۳۔پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی (۱۸۶۶ء۔۱۹۵۵ء)
پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی کو اُردو کے علاوہ کئی دوسری زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے نظیم کی طرف زیادہ توجہ دی۔ کیفی نے اقبال کے اُسلوب، طرز ِادا اور کئی دوسرے افکار و نظریات کو وسیلہ اظہار بنایا ۔ عہد ِاقبال میں کسی شاعر یا ادیب کا اقبال کے اثرات سے بچ نکلنا ممکن نہ تھا ۔ انہوں نے منظر نگاری کے ساتھ ساتھ قومی و ملی رجحانات کو بھی فروغ دیا۔ اقبال کی شاعری ایک ایسا سورج ہے جس نے ہر طرف اُجالے ہی اُجالے بکھیر دئیے اور ہر شاعر نے اپنی بساط کے مطابق خوشہ چینی کی۔ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی اپنا الگ مقام رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری زندہ رہنے والی شاعری ہے جس کا واحد مقصد دنیائے علم و ادب کو اپنے افکار و خیالات سے آگاہ کرنا ہے۔ اقبالؒ کی شاعری میں ہمیں جو اُسلوب دکھائی دیتا ہے اسی کے نقوش ہمیں صنائع بدائع یا پھر تراکیب لفظی کی صورت میں کیفی کی شاعری میں ملتے ہیں۔کیفی کی نظم ’’باغ دل‘‘ پر اقبالؒ کی نظم ’’تخلیق‘‘ کے اثرات تراکیب لفظی کی صورت میں نظر آتے ہیں مثلاً چشم ِبینا، بحر عرفاں، عشق ِحقیقی، تصور اور عمل وغیرہ کیفی کی نظم ’’باغ دل‘‘ دیکھیں۔
طلب سچی خوشی کی ہے تو اس گلزار میں آ کر
رگ گل میں تو موج بحرِ عرفاں کا تماشہ کر
یہ باغ دل ہے اس میں ہے عمل عشقِ حقیقی کا
نظارہ اس کا جب ہوا پہلے حاصل چشم بینا کر
نہیں کرتاب ہجراں کی تو خواہش وصل کی مت کر
جو ہاتھ آ کر نکل جائے کبھی اس کا نہ پیچھا کر
انانیت نہ ہو تجھ میں تو کیا دھڑکا رقیبوں کا
جو منظور یار اپنا ہو تو غیروں کو اپنا کر
یہ کہہ دینا تو ہے اک بات میں تو دو نہیں ذاتیں
تصور اور عمل میں اپنے تو یہ رنگ پیدا کر
(۵)
کیفی کی نظم ’’حسن ِفطرت‘‘ ، ’’ایک منظر جگ بیتی‘‘ میں بھی اقبال کے اسلوب اور الفاظ و تراکیب کا پرتو دیکھا جا سکتا ہے۔
۴۔سید وحید الدین سلیم (۱۸۶۹ء۔۱۹۲۷ء)
وحید الدین سلیم کی نظموں میں ایک خاص قسم کی نغمگی و رنگینی فطرت نگاری و منظر نگاری کے حسین مرقعوں کے علاوہ فکر و فلسفہ کا حسین امتزاج بھی پایا جاتا ہے۔انہوں نے اپنی نموں میں فلسفیانہ انداز اپناتے ہوئے کئی ایسی نظمیں تخلیق کی ہیں جو اقبال کے فکر و فلسفے کی دین ہیں۔ ان کی نظم ’’آریوں کی پہلی آمد ہندوستان میں‘‘ بانگ درا کی نظم ’’موج ِدریا‘‘ کا سا آہنگ لئے ہوئے ہے۔ اقبال کی ایک اور نظم’’انسان اور بزم ِقدرت‘‘ کے اثرات سلیم کی نظم’’زندگی‘‘ میں نمایاں ہیں۔ سلیم نے نظم زندگی کو ایک خاص اسلوب سے نئے آہنگ میں ڈھالا ہے۔ اس آہنگ کو اقبال کے اثر کا پَرتو کہا جا سکتا ہے۔
ذرے ذرے میں دواں، روح پاتا ہوں میں
زندگی کو ایک بحرِ بیکراں پاتا ہوں میں
غنچہ غنچہ نطق پر آمادہ آتا ہے نظر
پتے پتے کی زباں کو نغمہ خواں پاتا ہوں میں
زندہ ہنستی کی خبر دیتی ہے رفتار نفس
بوئے گل کو زندگی کا ترجماں پاتا ہوں میں
برق کو جنبش ہو یا بادِصبا کو ہو خرام
زندگی کا ہر تموج میں نشاں پاتا ہوں میں
الغرض سمجھے ہو جن کو موت کی بربادیاں
زندگی کے انقلاب ان میں نہاں پاتا ہوں میں
(۶)
۵۔مولانا ظفر علی خاں (۱۸۷۰ء۔۱۹۵۹ء)
مولانا ظفر علی خاں ایک بلند پایہ صحافی اور قادر الکلام شاعر تھے۔ اقبال ہی کی طرح ان کا دل قومی جذبے سے معمور تھا۔ ظفر علی خاں نے فکری،فنی اور موضوعاتی لحاظ سے کلام اقبال کے اثرات قبول کیے۔ ظفر علی خاں کے کلام میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عقیدت و محبت، شعر کے اعجاز سے مسلم قوم کو جگانے کی سعی اور ان کا انقلابی و جوشیلہ انداز ان سب میں اقبال کے اثرات کی ہی کارفرئیاں دکھائی دیتی ہیں۔
یورپ کا بین الاقوامی قانون، ’’عقل جنوں خیز‘‘،’’تہذیب نو کابت خانہ‘‘، ’’انقلاب‘‘،’’مرقص‘‘، ’’ملت ِبیضا کی دعا‘‘،’’اُمت کے حق میں پیغمبر کی دعا‘‘، ’’آزادی‘‘، ’’لمعات‘‘، ’’مسلمان کی شان‘‘، طاقت و ایمان‘‘، اور ’’پھولوں کا تار بلبل‘‘ کے علاوہ اور بھی کئی نظموں میں اقبال کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ ظفر علی خاں کی نظم ’’آزادی‘‘ دیکھئے جس میں وہی تلمیحات استعمال کی گئی ہیں جو اقبال نے اپنی نظم ’’بلال‘‘ میں استعمال کی ہیں۔ ظفر علی خاں کی نظم ’’آزادی‘‘ سے چند اشعار دیکھیں۔
عمرو بن العاص کے بیٹے نے مارا بے خطا
مصر کے بازار میں ایک قبطی ناشاد کو
کوئی طاقت دستگیری اس کی کر سکتی نہ تھی
قیصر و پایا بھی آ سکتے نہ تھے امداد کو
جس کی نظروں میں مسیحی اور مسلم ایک تھے
جس نے قرباں کر دیا ایمان پر اولاد کو
لوحِ دل پر نقش ہے فاروق اعظمؓ کا یہ قول
ہم نہ بھولیں گے کبھی اس آپ کے ارشاد کو
(۷)
مولانا ظفر علی خاں نے اقبال کی پیروی کرتے ہوئے نظمیں ضرور لکھیں ۔ ان میں بیان کی پختگی و فکر کی وہ بلندی پیدا نہ کر سکے جو اقبال کا خاصہ تھی کیونکہ وہ ایک صحافی تھے اس لیے وہ اقبال کی طرح تفکر اور بلند خیالی سے کام نہ لے سکے تاہم ان کی نظموں کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے۔
۶۔درگا سہائے سرور جہاں آبادی (۱۸۷۲ء۔۱۹۱۰ء)
سرور جہاں آبادی کی نظمیں قومی و سماجی تقاضوں کی عکاس اور حب الوطنی کے جذبہ سے معمور ہیں۔ سرور نے اقبال کی تشبیہات و استعارات ، ترکیب و لفظیات سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ سرور کی نظموں کے عنوانات اور مکالماتی انداز سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اقبال کی فکر سے کس قدر متاثر ہیں۔ ’’مزارِ دوست‘‘، ’’دعائے سرور‘‘، ’’نظم گل خزاں دیدہ‘‘ پر بالترتیب اقبال کی نظموں ’’خفتگان ِخاک سے استفسار‘‘ ، ’’التجائے مسافر‘‘ اور ’’گل ِپژمردہ‘‘ کے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اقبال کی نظموں ’’شمع و شاعر‘‘ ، ’’پہاڑ اور گلہری‘‘، ’’ایک گائے اور بکری‘‘ کا سا مکالماتی انداز سرور کی نظم ’’بچہ اور ہلال‘‘ میں دیکھیں۔
رنگیں ادا ہیں دونوں، رنگیں جمال ہیں دونوں
نو رس ثمر ہیں دونوں اور نونہال دونوں
بچے اگرچہ ہیں خرد سال دونوں
بڑھ کر کریں گے اک دن کسب کمال دونوں
آ مل کے ساتھ کھیلیں، ہم تم ہلال دونوں
تو بڑھ کے بدر ہو گا جس طرح آسماں پر
ڈالے گا اپنی کرنیں اس تیرہ خاک داں پر
میرا شباب یونہی آئے گا عنفوان پر
شفقت کا نور میں برسائوں گا جہاں پر
آ مل کے ساتھ کھیلیں، ہم تم ہلال دونوں
(۸)
۶۔میر غلام بھیک نیرنگ (۱۸۷۲ء۔۱۹۵۲ء)
غلام بھیک نیرنگ کا تعلق ایک مذہنی گھرانے سے تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ قومی و ملی خدمات میں گزرا۔ نیرنگ اقبال کے ہم جماعت اور قریبی دوستوں میں شامل تھے۔ نیرنگ کی شاعری میں وہی بازگشت سنائی دیتی ہے جو اس زمانے کے عام موضوعات تھے ان کا دل قوم و ملت کی بھلائی کے لیے تڑپتا تھا اور یہ تڑپ ان کی نظموں ’’شرط ِزندگی‘‘، ’’درد پنہاں‘‘،’’آہنگ عمل‘‘، ’’نوائے انقلاب‘‘،’’کار زارِ ہستی اور صدائے اسلام‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ’’درد ِپنہاں‘‘، ’’صدائے اسلام‘‘ اور ’’شرط ِزندگی ‘‘ جیسی نظموں میں اقبال کی نموں ’’تصویر ِدرد‘‘، ’’طلوع اسلام‘‘ اور ’’خطاب بہ جوانان اسلام‘‘ کی بازگشت محسوس کی جا سکتی ہے۔ طلوع اسلام اور صدائے اسلام میں اُسلوب اور طرزِ فکر کی نمایاں مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ نیرنگ کی نظم ’’صدائے اسلام‘‘ ملاحظہ کیجئے۔
گلشنِ عرفان کو دینے رنگ و بو آیا ہوں میں
اس چمن میں بن کے آئینِ نمو آیا ہوں میں
دردِ دل ہی حضرتِ انسان کے دکھ کی ہے دوا
دل میں بن کر دردِ ل کی آرزو آیا ہوں میں
سب رسولوں کی زبانوں پر میرا افسانہ تھا
شمع بزم راج تھا میں ہر نبی پروانہ تھا
اختلافِ فرع کی گوڈال رکھی تھی نقاب
جگوہ گر اول سے میرا عرض جاتا نہ تھا
تم سے خود اپنا علاج دردِ نکہت ہو تو ہو
نسخہ امداد خود کر دل سے صحت ہو تو ہو
پھوٹ کی تلوار نے زخمی کیا ہے جس قوم کو
اس کا درماں نوش دا روئے اخوت ہو تو ہو
عزت و ذلت کا کیا احساس جب غیرت نہیں
جوشِ غیرت رہنمائے راہِ ہمت ہو تو ہو
(۹)
٭
۷۔سیماب اکبر آبادی (۱۸۸۰ء۔۱۹۵۲ء)
سیماب اکبر آبادی نے تقریباً تمام اصناف ِسخن میں طبع آزمائی کی ہے مگر ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کے جوہر نظموں میں زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کی شاعری میں اس عہد کے اہم واقعات، سیاسی رجحانات اور سماجی میلانات کی جھلکیاں جا بجا نظر آتی ہیں۔ سیماب،اقبال کے معاصرین میں شامل ہیں جس طرح اس دور کے دیگر شعراء نے اقبال کے اثرات کو قبول کیا تو سیماب بھی اس اثر سے محفوظ نہ رہ سکے۔اقبال کی تقلید میں خودی، بے خودی، عقل و عشق، حسن، انسان، خدا، جوان ِکامل، حیات و کائنات، معاشرتی اصلاح اور حب الوطنی جیسے موضوعات پر طبع آزمائی کی۔شاعری کا آہنگ و رنگ مکمل طور پر اقبال کے زیر ِاثر ہے۔ سیماب کی نظموں ’’سرگزشت‘‘، ’’رسول کائنات‘‘، بساط ِسیاست‘‘ میں اقبال کی نظموں ’’سرگزشت ِآدم‘‘ ،’’حضور رسالت مآب ﷺ‘‘، ’’لینن خدا کے حضور‘‘ دین و سیاست کے براہ ِراست اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اقبال کی نظم ’’لینن خدا کے حضور‘‘ کی تراکیب، تشبہیات و استعارات سیماب کی نظم ’’بساط ِسیاست‘‘ میں نظر آتے ہیں، چند اشعار دیکھیں۔
مست ہو کر ایک نئی انگڑائی لی یونان نے
جنگ کی دیوی کو دیں قربانیاں انسان نے
روم سے آیا جو ایک طوفان رودِ نیل میں
حسن یوسف جاگ اٹھا مصر کی تخیل میں
غازی ملت نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا
آسماں پر پائے حریت اٹھا کر رکھ دیا
جذب ِوحدت ہو گیا طویان مواّج صلیب
یعنی کثرت آ گئی خود اپنے مرکز کے قریب
عزم سے سرشار نکلے اس کامانِ فرانس
چبھ گئی ان کے دنوں میں نازنین پلکوں کی پھانس
مرد بیمار ایک تخیلِ گراں میں کھو گیا
موت یہ سمجھی میرا ترکی پر قبضہ ہو گیا
اس نے ثابت کر دیا یہ سب فریب کار ہے
ترک ابھی زندہ ہے، ترقی قوم ابھی بیدار ہے
۷۔پنڈت برج نرائن چکبست (۱۸۸۲ء۔۱۹۲۶ء)
پنڈت برج نرائن چکبست کے کلام میں متانت، پختگی اور استادانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ انہوں نے گل و بلبل کے افسانوں کی بجائے اپنے اشعار کو قومی درد کے جذبات سے سجایا ہے اور یہ جذبات اقبال کے اثرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اقبال کی شاعری کا درجہ آفاقی ہے جبکہ چکبست کی شاعری محض ہندوستان تک محدود ہے اس کے باوجود کسی بھی ہندو شاعر کا لطافت ِبیان، نازک خیالی، پختگی اور اسلوب کے حوالے سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ چکبست کا درجہ تمام ہندو شعرا سے بلند ہے۔ چکبست کی زیادہ تر نظمیں اقبال کی نظموں کا تتبع دکھائی دیتی ہیں۔ چکبست کی نظم ’’خاک ہند‘‘، اقبال کی نظم’’ترانہ ہندی‘‘ اور ’’مرقع عبرت‘‘ اقبال کی نظم ’’سرمایہ و محنت‘‘ کے زیر ِاثر ہونے کی واضح مثالیں ہیں۔ ’’مرقع عبرت‘‘ سے چند اشعار دیکھیں ۔
جو صاحب تہذیب ہیں اور صاحب جوہر
ان میں بھی نہیں قوم کے ہمدرد میسر
ہے سر میں ہوا حرص کی، دل میں ہوسِ زر
نے فلک کے حامی ہیں نہ قوم کے رہبر
بس زر کی پرستش انہیں فرض ازلی ہے
بت ہے تو یہی ہے خدا ہے تو یہی ہے
بالعکس یہاں قوم کی ہمت میں ہے پستی
وہ مرد کہاں ہیچ سمجھتے ہیں جوہستی
یہ جو فقط جہل و تکبر کی ہے مستی
اصلاح کے پردے میں ہے بس نفس پرستی
(۱۱)
۹۔مولاناابوالحسن ناطق (۱۸۸۶ء۔۱۹۶۹ء)
مولانا ابوالحسن ناطق نے تقریباً تمام اصناف سخن میں شاعری کی ہے لیکن ان کے جو ہر غزل اور نظم میں زیادہ کھلے ہیں زانوئے تلمذ حضرت بیان یزدانی میرٹھی اور داغ دہلوی کے سامنے ان کی شاعری میں داغ کے اثرات کے ساتھ ساتھ اقبالیاتی نقوش بھی بہت گہرے ہیں۔ انہیں زبان و بیان پر مکمل قدرت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں تقلید کے ساتھ نئے پن کا مزہ بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کی نظموں ’’شمع پروانہ‘‘،’’گل رنگیں‘‘،’’ترانہ ہندی‘‘ کے براہ راست اثرات ناطق کی نظموں ’’پروانہ و شمع‘‘ ، ’’پھول‘‘ اور ’’ترانہ‘‘ کے حب ِوطن کے جذبات سے سرشار ہو کر لکھی گئی ہیں دونوں میں بحر قافیہ اور ردیف ایک جیسے ہی ہیں۔ اقبال کی نظم ’’ترانہ ہندی‘‘ کے دو اشعار دیکھیں۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں ان کی یہ گلستاں ہمارا
غربت میں ہوں اگر ہم، رہتا ہے دل وطن میں
سمجھو وہیں ہمیں بھی دل ہو جہاں ہمارا
(۱۲)
ناطق کی نظم ’’ترانہ وطن‘‘ ملاحظہ فرمائیں، اس کے پڑھنے سے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اقبال کی نظم پڑھی جا رہی ہو۔
ہم جانثار ہیں اس کے یہ مہرماں ہمار
ہندوستان کے ہیں ہم ہندوستان ہمارا
دنیا کی نعمتیں سب ہندوستان میں ہیں
سارا جہاں ہے گویا ہندوستان ہمارا
موسم یہاں کے اچھے فصلیں یہاں کی اچھی
یاور زمیں ہماری، یار آسماں ہمارا
سارے جہاں سے بالا ہے اپنی سربلندی
چوٹی ہمالیہ کی، قومی نشاں ہمارا
ہیں دلفریب منظر، پہلو میں نربداکے
روح رواں ہے گنگا، آب رواں ہمارا
پیران پارا کی دنیا ہماری دنیا
سہراب، گیو، رستم ہر نوجواں ہمارا
ہندو ہیں اور مسلمان، عیسیائی، پارسی، سکھ
مل جل کے ہم سفر ہے یہ کارواں ہمارا
ناطق کی دیگر نظموں کے موضوعات میں خودی و بے خودی، فقر و قلندی، اشتراکیت و جمہوریت اور سیاست و تعلیم وغیرہ شامل ہیں جن کے مطالعہ سے عیاں ہوتا ہے کہ یہ اثرات ِاقبال کا پرتو ہیں ان میں ہمیں ناطق کی وسعت ِفکر اور بلدی پرواز واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔
۱۰۔تلوک چند محروم (۱۸۸۷ء۔۱۹۶۵ء)
تلوک چند محروم نے غزل، نظم، قطعہ، رباعی جیسی اصناف ِسخن میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کی شاعری میں سادگی، خلوص، جذبات کی صداقت، مناظرِفطرت کی رنگینی، جذبہ حب الوطنی اور مجاہدانہ جوش و خروش کے ساتھ ساتھ ان کا ،خطیبانہ انداز اقبال کی پیروی کا ہی نتیجہ ہے۔ تلوک چند محروم اقبال کی محبت و عقیدت کے جذبے سے سرشار تھے او راپنے بیٹے جگن ناتھ آزاد سے اقبال کی نظمیں اکثر سنا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں کے عنوانات زیادہ تر وہی ہیں جو عنوانات اقبال نے اپنائے ہیں اقبال کی نظموں کے عنوانات دیکھیے۔ ’’کنار ِراوی‘‘، ’’مرزاغ غلب‘‘، ’’ہلال ِعید‘‘،’’نوید ِصبح‘‘، ’’صبح کا ستارہ‘‘، ’’طفل ِشیر خوار اور نالہ یتیم‘‘ محروم کی نظموں کے عنوانات ملاحظہ فرمائیں۔ ’’کنار ِراوی‘‘، ’’مرزا غالب‘‘، ’’ہلال ِعید‘‘، ’’وقت ِسحر‘‘، ’’صبح کے ستارے‘‘، ’’بچہ اور فریاد یتیم‘‘ محروم کی ان نظموں میں اقبال کے اثرات کے گہرے نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اقبال کے اسلوب و تراکیب سے خوب استفادہ کیا ہے۔ اقبال کی نظم ’’طفل ِشیر خوار‘‘ کے اثرات محروم کی نظم ’’بچہ‘‘ پر دیکھنے کے لئے نظم ’’بچہ‘‘ کے چند استعار دیکھئے۔
ایک اپنے ساتھ گھر بھر کی خوشی لایا ہے تو
کس وطن کی یاد میں روتا ہوا آیا ہے تو
کونسی دنیائے خدا یاد آتی ہے تجھے
رونے والے یاد کس کس کی رلاتی ہے تجھے
کیا کوئی زریں جزیرہ چھوڑ کر آیا ہے تو
گلشنِ فردوس سے منہ موڑ کر آیا ہے تو
ہم کو بھی معلوم ہے، تو ہے مسافر دور کا
مطلقاً اس دیس کی بولی سے ہے نا آشنا
ہاں بتا وہ سر زمین عافیت تھی کون سی
بستی ہے دل میں تیرے دلخواہ کون سی
(۱۴)
۱۱۔عظمت اللہ خاں (۱۸۸۷ء۔۱۹۲۷ء)
عظمت اللہ خاں ایک منفرد اسلوب اور لہجے کے شاعر ہیں۔ انہوں نے روایتی رشتوں میں جکڑی ہوئی نظم سے بغاوت کرتے ہوئے ہندی بحروں کا استعمال کیا اور نظم کی ہیت کو بدلنے میں مدد دی۔ انہوں نے اردو نظموں میں ہندی الفاظ کے استعمال سے ایک خاص قسم کی نغمگی پیدا کر دی۔ عظمت اللہ خاں نے اپنی نظموں میں ہیئت کے جو تجربے کئے ان کی ترسیل کے لئے الفاظ در دروبست، تراکیب لفظی، صنائع بدائع اور تشبیہات و استعارات وہی ہیں جو اقبال نے اپنی نظموں میں استعمال کی ہیں۔ اقبال کی نظم ’’ترانہ ہندی‘‘ ،’’صدائے درد‘‘، ’’ہندوستانی بچوں کا گیت‘‘، ’’نیا سوالہ‘‘ حب وطن کے حوالے سے بہترین نظمیں ہیں۔عظمت نے بھی وطن کی محبت میں ڈوب کر نظم ’’وطن‘‘ لکھی جس کا انداز اقبال کی نظموں کا ساہی ہے۔ فرق صرف ہیئت کی تبدیلی کا ہے۔ اقبال کی نظموں ’’ابر‘‘، ’’ابر کہسار‘‘ میں منظر کشی کے جو نمونے پیش کیے ہیں، انہی نمونوں سے عظمت نے بھی اپنی نظم ’’برسات کی رات دکن میں‘‘ بھرپور استفادہ کیا ہے۔ نظم سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
رکھارت کی کالی گھٹا چھائی ہے
بالوں کو کھولے رات آئی ہے
اندھیاری میں گہرائی ہے
جھڑی لگی ہے ہلکی ہلکی
جانوروں نے لیا بسیرا
تاریکی نے جگ کو گھیرا
اور ہوا بھی اٹھلاتی ہے
بوندوں کے پگو کی بھی چھم چھم
جھینگر کے سروں سے ملتی ہے
زور کیا ہے مینہ نے تھم تھم
(۱۵)
۱۲۔جگت موہن لال رواں (۱۸۸۹ء۔۱۹۳۴ء)
جگت موہن لال رواں اپنی محنت، کوشش اور ذوق و شوق کی بدولت شعرو ادب کی دنیا میں متعارف ہوئے۔ مختلف اصناف ِسخن میں طبع آزمائی کی۔ خصوصاً ان کی نظموں اور رباعایات میں فلسفہ، تازگی، نیا پن، رعنائی خیال، نشاط و غم کی اہم آہنگی کے ساتھ ساتھ سوز و گداز بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ رواں کی نظموں میں اقبال کی سی جرأت ِرندانہ، حرکت اور عمل پیہم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اقبال کی نظم ’’عہد طفلی‘‘ کے آہنگ میں لکھی گئی رواں کی نظم ’’لاوارث بچہ ‘‘ دیکھئے۔
آہ اے نووارد بزم رباط و روزگار
آہ اے تازہ اسیر گردشِ لیل و نہار
آہ اے دیباچہ شرح کتاب دردِ دل
آہ اے عنوان باب اضطراب جانگسل
سچ بتا بچے تیرا والی ہے کون
پھول ہے تو کس چمن کا اور ترا مالی ہے کون
زینبِ آغوش ہے تو جس کا وہ مادر ہے کون
نور ہے جس گھر کا تو بچے بتا گھر ہے کون
اختصارِ طول آزارِ نہانی سچ بتا
کیا خمارِ بادہ جوش جوانی سچ بتا
کیا اڑا لائی کسی گلاز سے تجھ کو ہوا
پھول ہوتے ہیں جہاں، ایسے ہی خوش نما
یا عناصر میں ہوئی ترتیب پیدا اس قدر
خود مرکت ہو گئے اور بن گئے شکلِ بشر
(۱۶)
اقبال کی نظم ’’شاعر‘‘ کے اثرات رواں کی نظم ’’شاعری‘‘ میں بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں اور اقبالیاتی نقوش رواں کی رعبائیوں میں بھی موجود ہیں۔
۱۳۔ابوالاثر حفیظ جالندھری (۱۹۰۰ء۔۱۹۸۲ء)
ابو الاثر حفیظ جالندھری کا شمار اردو کے نامور شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی نظمیں اور گیت وجہ شہرت بنے۔ ’’شاہنامہ اسلام‘‘ منظوم تاریخ اسلام ان کا عظیم کارنامہ ہے۔ مذہبی ذہن رکھتے تھے اس لیے اقبال کی فکر، فلسفہ اور تصوف کے اثرات ان کی شاعری پر نمایاں ہیں۔ اقبال کی براہ راست تقلید کرنے والوں میں حفیظ کا شمار کیا جاتا ہے۔ اقبال کی نظموں ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘، ’’انسان اور آرنلڈ کی یاد میں‘‘ حفیظ نے اسی ہیئت اور اسلوب میں ’’والدہ کی موت‘‘ ، ’’فرصت کی تمنا میں‘‘ اور ’’غروب آفتاب ِسخن‘‘ جیسی نظمیں لکھیں۔ حفیظ نے ’’غروب آفتاب ِسخن‘‘ میں اپنے استاد ِمحترم حضرت مولانا غلام قادر گرامی کی وفات پر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے۔ حفیظ کی یہ نظم دیکھیے۔
صبح کے ساحل سے جو کشتی چلی تھی نور کی
آخر کار اس نے طے کر لی مسافت دور کی
شکر ہے دریائے ہستی کا کنارہ مل گیا
بے سہارا حسرتوں کو اک سہارا مل گیا
اس مسافر کے لئے منزل ہے ساحل شام کا
کٹ گیا لمبا سفر وقت آ گیا آرام کا
آرزو نے پائوں پھیلائے ہیں سونے کے لئے
ولولے بے تاب میں آسودہ ہونے کے لئے
اب یہ محشر خواب کے طوفان میں کھو جائے گا
نیند آ جائے گی چپ ہو جائے گا سو جائے گا
شام نے کچھ اس طرح پھیلا دیا دام خواب
موت کی تاریکیوں میں گھر کر گیا ہے آفتاب
نو ر کے شعلے کو یہ کالا کفن پہنائیں گے
پھر اٹھا کر پردہ ظلمات میں لے جائیں گے
(۱۷)
علامہ محمد اقبال نے بچوں کے لیے بھی بہت سی لکھیں۔ ان کا مقصد ہمیشہ یہی رہا کہ بچوں کی اخلاقی تربیت اس طرح کی جائے کہ بچوں میں اعلیٰ اوصاف کی صفات کے ساتھ ساتھ بچوں میں تحقیق و جستجو اور آگے بڑھنے کی لگن پیدا ہو۔ انہوں نے بچوں کے لئے نہایت سادہ اور آسان الفاظ استعمال کرتے ہوئے ’’بچے کی دعا‘‘، ’’ایک مکڑا اور مکھی‘‘، ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘، ’’پرندے کی فریاد‘‘ وغیرہ جیسی نظمیںتخلیق کیں ۔ حفیظ جالندھری نے بھی اقبال کی تقلید کرتے ہوئے دلکش و خوبصورت، ترنم اور نغمگی سے بھرپور اخلاق سنوارنے والی دلچسپ نظمیں لکھیں۔ حفیظ جالندھری بچوں کی نظموں میں ’’مانو بلی کا سبق‘‘، ’’بول میرے مرغے‘‘، ’’عید‘‘، ’’جگنو‘‘، ’’شبرات‘‘، ’’بہار‘‘، ’’دھنک‘‘، ’’برسات‘‘، ’’بھکاری‘‘، ’’دھوبی کا راگ‘‘، ’’چڑیا بلی‘‘، ’’کسان لڑکا‘‘، ’’خدا سب کچھ دیکھتا ہے‘‘، ’’مچھلیوں کے ماسٹر جی‘‘، ’’استاد آ گئے‘‘، ’’ننھے منے بچے‘‘ اور ’’کبڈی‘‘ جیسی نظمیں شامل ہیں۔ حفیظ کی نظموں میں خوشی و مسرت کے عناصر پائے جاتے ہیں اور یہ نظمیں سادگی و شگفتگی کا حسین امتزاج ہیں۔ نظم ’’جگنو‘‘ سے چند اشعار
لو رات ہو گئی ہے لو چھا گیا اندھیر
باغوں میں بسنے والے سب لے چکے بسیرا
ہر سمت آسماں پر تارے چمک رہے ہیں
تارے جو ہیں زمین پر ان کو یہ تک رہے ہیں
دیکھو چمک رہے ہیں باغوں میں باڑیوں میں
کیا اڑ رہے ہیں ہر سو کھیتوں میں جھاڑیوں میں
یہ ننھی لالٹینیں کیا جگمگا رہی ہیں
اس سمت آ رہی ہیں اس سمت جا رہی ہیں
ہیں آگ کے پتنگے یا پھول پھل جھڑی کے
کیا نور سے بھرے ہیں یہ ننھے ننھے کیڑے
تم جانتے ہو ان کو؟ جگنو ہے نام ان کا
اندھیاریوں کو روشن کرتا ہے کام ان کا
۱۴۔خواجہ عبدالسمیع پال اثر صہبائی (۱۹۰۱ء۔۱۹۶۳ء)
خواجہ عبدالسمیع پال، متخلص اثر صہبائی ایک فطری شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں رنگینیاں کم اور حکیمانہ اسرار ر رموز کی عقدہ کشائیاں زیادہ ہیں۔ وہ اپنے سادہ اور سلیس اسلوب میں دقیق فلسفیانہ باتوں کو شاعری کا روپ دینے میں ماہر تھے۔ انہوں نے غزل، نظم، قطعات و رعبایات میں اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں۔ رباعی ایک مشکل اور پیچیدہ صنف ِسخن ہے اس لیے اکثر شعرا نے اس صنعت سے دامن بچائے رکھا۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے شعراء نے بھی چند ایک رعابیاں ہی لکھی ہیں مگر اثر صہبائی کا طرۂ امتیاز اور اصل وجہ شہرت ان کی رباعیات ہی ہیں۔ سیّدسلیمان ندوی اثر صہبائی کی رباعیات کے حوالے سے اپنے خیالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’صہبائی کی فطری شاعرانہ استعداد کا اصل جلوہ گاہ ان کی رباعیات ہیں اور ان کو اسی حیثیت سے شاعروں کی صنف میں ممتاز جگہ دی جا سکتی ہے۔ رباعی گوئی کے لیے ضرورت ہے کہ زبان صاف اور شیریں ہو، ترکیبیں چست اور رواں ہوں اور پہلے مصرعہ سے بتدریج ترقی کر کے چوتھے مصرعہ میں پورا زور نمایاں ہو جائے۔ یہ تو لفظی خوبیاں ہیں معنوی خوبی یہ ہے کہ اس میں بلند حقائق اور معافی ادا ہوں، صہبائی کی رباعیات میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔‘‘(۱۹)
ابتداء میں غالب و اقبال سے متاثر تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور کے اثرات بھی ان کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ ابتداء میں انہوں نے اپنا کلام اپنے بڑے بھائی امین حزیں کو دکھایا اور اصلاح لیتے رہے۔ یہ امین حزیں کی ہی تربیت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے شاعری میں اتنا نام کمایا۔ بعدازاں اقبال سے اتنے متاثر ہوئے کہ تادم زیست اقبالی رنگ میں ڈوبے رہے۔ اثر کی شاعری میں ایک خاص قسم کی فکر و سوچ نمایاں ہے جو مختلف ارتقائی منازل طے کرتی ہوئی اقبال کے دامن میں پناہ لیتی دکھائی پڑتی ہے۔ اثر صہبائی اقبال کی شاعری کو دو پہلوئوں سے دیکھتے ہیں۔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال کی شاعری کے کئی پہلو ہیں جن میں سے دو نہایت واضح اور جامع ہیں۔ اس کی شاعری کے ایک پہلو میں حیات اجتمائی کا فلسفہ ہے ۔ یہ اسلام کے عروج و زوال کی ایک خونچکاں دانستان ہے لیکن اس کی شاعری کا یہ حصہ ان عالمگیر حقائق و معارف کا حامل ہے جن میں ہمیں قوموں کے عروج و زوال کے حقیقی اسباب نظر آتے ہیں۔ فلسفہ اقوام کو واضح کرنے کے لئے اقبال نے اس قوم کو مثال کے طور پر لیا ہے جس کا وہ خود بھی ایک فرد ہے۔‘‘(۲۰)
اثر صہبائی اقبال کی شاعری کے دوسرے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال کی شاعری کا دوسرا پہلو انفرادی اور کائناتی حیات ہے۔ اس کا موضوع صرف حیات انسانی ہی نہیں بلکہ وہ زندگی ہے جو کائنات کے پیکر کے اندر ایک بے قرار موج کی طرح تڑپ رہی ہے۔ یہ دونوں موضوع ازلی اور ابدی ہیں اور حق یہ ہے کہ اقبال نے اس رنگ میں اپنے شاعرانہ کمالات بہت زیادہ خوبی کے ساتھ دکھائے ہیں۔‘‘(۲۱)
اثر صہبائی نے اقبال سے بہت زیادہ اثرات قبول کیے ہیں۔ ان کی رباعیات کے اکثر اشعار اقبال ہی کی صدائے بازگشت دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے اقبال کے اسلوب و آہنگ سے اپنی شاعری میں خوب استفادہ کیا ہے۔ اثر صہبائی اپنی شاعری پر اقبال کے اثرات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اقبال کی شاعری کے دوسرے پہلو کے اثرات میری شاعری میں بہت نمایاں ہیں۔ اگرچہ میرے ان تصورات کے اور بھی ماخذ ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ان تصورات کا مرکزی اخذ اقبال ہی ہے۔‘‘
(۲۲)
اثر صہبائی کی چند روایات بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیں جن میں اقبال کے اثرات بخوبی ظاہر ہیں۔
مردان خود انشا ہیں ممتاز بلند
پھیلی ہوئی دو جہاں پہ ہے ان کی کمند
ظاہر میں ہیں مشتِ خاک باطن میں ہیں نور
ذروں میں تجلیوں کے خورشید ہیں بند
٭
جب ہمت اہلِ دل سنبھل جاتی ہے
تقدیر سے تدبیر کی چل جاتی ہے
گھر صدقِ طلب ہو اور شمشیرِ عمل
تقدیر بھی اے دوست بدل جاتی ہے
٭
ہے خونِ جگر سے لالہ رو جلوہ عشق
ہے دار و رہن بدوش ہنگاہ عشق
عصیاں بہت بلند نیکی ہے مگر
نیکی سے بہت بلند ہے رُتبہ عشق
(۲۳)
ہے پیکرِ نور ابنِ آدم اب بھی
ہے بزمِ جہاں میں سب سے اعظم اب بھی
کونین ہوں اب بھی اس کے قدموں پر نثار
ہو جائے اگر یہ حق کا محرم اب بھی
(۲۴)
امین حزیں کی شاعری پر اقبال کے اثرات
امین حزیں سیالکوٹی اردو اور فارسی کے ایک بلند پایہ شاعر تھے۔ انہوں نے شاعری کی تقریباً ہر صنف ِسخن میں اپنے افکار و نظریات کو پیش کیا۔ امین محض شعر برائے شعر کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی وہ شاعری کو محض ایک فنی مشغلہ یا تفریح و طبع کا باعث گردانتے تھے۔ ان کے نزدیک شعور ِادب اور فن کا زندگی سے گہرا اورقریبی تعلق ہے۔ اگر ادب اخلاقی اقدار اور زندگی کے مقاصد کی تکمیل میں ناکام ہے تو وہ انہیں بالکل بھی قابل قبول نہیں۔ امین کے خیال میں ایک شاعر یا ادیب کو اپنی عظمت کا احساس ہونا چاہیے اور اسے یہ شعور ادرات ہو کہ ایک تخلیق زندگی کو بنانے یا بگاڑنے میں کتنا اہم کردا ر ادا کر سکتی ہے۔ امین ایک شاعر کو پیغامبر مانتے ہیں لیکن وہ پیغامبر اسی صورت میں بن سکتا ہے جب وہ ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی کا قائل ہو اور ایسا ادب تخلیق نہ کرے جو مایوسی و افسردگی پیدا کرنے کا سبب بنے۔ امین کا نظریہ ہے کہ شاعری ایسی ہو جس سے پڑھنے والے کی طبع ناز پر مثبت اثر پڑے اوروہ زندگی کو رفعت ِپرواز عطا کرے۔ بقول امین حزیں
زندگی شہبازِ فطرت ہے امیں
جس کا جوہر رفعتِ پرواز ہے
(۲۵)
امین حزیں اقبال سے بہت متاثر تھے۔ وہ نہ صرف اقبال سے گہری عقیدت و محبت رکھتے تھے بلکہ انہیں اپنا مرشد مانتے تھے۔ اگرچہ شعر و سخن کی طرف میلان سید میر حسن کے تلمذ کے زمانے میں ہی پیدا ہو گیا تھا مگر اقبال کی صحبتوں نے انہیں دوام بخشا اور وہ مستقل طور پر شاعری کی طرف راغب ہوئے اور اقبال کے رنگ میں ایسے ڈوبے کہ تادم زیست اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ بقول امین حزیں
ہے یہ اعجاز نغمۂ اقبال
اب عجم کو عجم نہیں کہتے
شعر کہتے ہو تم امیں بخدا
ساز کا زیرو بم نہیں کہتے
(۲۶)
امین حزیں کی شاعری پر اقبال کے افکار و نظریات کا گہرا اثر دکھائی دیتا ہے۔ امین حزیں کے کلام میں اکثر مقامات پر اقبالی رنگ ِسخن کی جھلکیاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ ’’گلبانگ حیات‘‘ کے دیباچہ میں سر شیخ عبدالقادر لکھتے ہیں:
’’اقبال کی شاعری کا گہرا اثر ان کے دور کے شاعروں پر ہوا۔ کلام امین اس اثر کی ایک نمایاں مثال ہے۔ ہم وطنی کے علاوہ جو بات دونوں میں مشترک ہے وہ یہ ہے کہ دونوں نے اپنی عمر کی ابتداء میں ایک ہی استاد سے فیض پایا ہے۔دونوں شمس العلماء مولوی سید میر حسن صاحب مرحوم کے شاگرد ہیں۔‘‘
(۲۷)
’’روایات اقبال‘‘ میں عبداللہ چغتائی، امین حزیں کی اقبال سے ایک ملاقات کا احوال امین حزیں کی ہی زبانی اس طرح بیان کرتے ہیں۔
’’میں جب آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا تو حضرت علامہ اقبال ایف اے میں پڑھتے تھے۔ مجھے خوب یاد ہے کہ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب نے ایک دفعہ کالج سے سکول میں تشریف لا کر اپنے کچ اشعار سنائے تھے۔‘‘
(۲۸)
ڈاکٹر سید سلطان محمود اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔ وہ رقم کرتے ہیں۔
’’امین حزیں کا سال ولادت ۱۸۸۴ء ہے۔ اقبال ۹۵۔۱۸۹۴ء میں سیکنڈ ائیر کے طالب علم تھے۔ ۹۵۔۱۸۹۴ء میں امین حزیں آٹھویں جماعت کے کس طرح طالب علم ہو سکتے تھے؟ تیسری یا چوتھی جماعت کے طالب علم ہو سکتے تھے۔ یہ ماننے والی بات نہیں ہے کہ سیکنڈ ائیر کا ایک لڑکا تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھنے والے لڑکے کو اپنے اشعار سنائے۔‘‘
(۲۹)
سر شیخ عبدالقادر ’’گلبانگ حیات‘‘ کے دیباچہ میں امین حزیں کی شاعری کی ابتدا اور اقبال سے ملاقات کا ذکر اس طرح بیان کرتے ہیں۔
’’امین کو اپنی موزو نئی طبع کا احساس تو زمانہ طالب علمی ہی میں ہو گیا تھا اور کبھی کبھی اردو غزل لکھتے تھے۔۱۹۰۲ء ان کی ایک غزل لکھنو کے ’’پیام یار‘‘ میں چھپی اور پسند کی گئی۔ اس وقت ان کو خیال ہوا کہ اقبال کی شاگردی کریں۔ ان سے ملے اور اپنے ارادے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا’’شاعری خداداد چیز ہے۔ اگر شعر گوئی کا جذبہ سچا ہے تو مشق ِسخن کیے جائیے اور اساتذہ کا کلام بغور پڑھئیے۔ تاکہ کان بحروں سے مانوس ہو جائیں اور زبان میں کوئی سقم باقی نہ رہے۔‘‘ اس دن سے امین اس مشورے پر عامل ہیں۔ ابتداء میں مولوی ظفر علی خان اور مولانا محمد علی مرحوم کے رنگ سے متاثر تھے لیکن بعدازاں ان کی طبیعت پر اقبال کا رنگ بالکل چھا گیا۔‘‘(۳۰)
حبیب کیفوی اپنے مضمون ’’امین حزیں۔ خواجہ عبدالسمیع پال میں‘‘ علامہ اقبال سے ملاقات کے حوالے سے لکھتے ہیں۔
’’علامہ اقبال سے ہم وطنی کی وجہ سے مراسم تھے اور ان کے کلام سے بھی حد درجہ متاثر تھے۔ انہیں علامہ اقبال کا اندازِ سخن اتنا پسند تھا کہ انہوں نے علامہ سے اصلاحِ سخن کی خواہش کی۔چونکہ علامہ عام طور پر اصلاح دینے سے گریز کرتے تھے اس لیے انہوں نے یہ بات تو نہ مانی البتہ مشورہ دیا کہ وہ اساتذہ کا کلام دیکھتے رہیں۔ اور مشق ِسخن جاری رکھیں۔ اس سے مراسم میں کوئی فرق نہ آیا۔ بعد میں کثرت ِمطالعہ اور فطری ذوق ِشعر کی بدولت شاعری میں اپنے لیے خاص مقام پیدا کر لیا۔‘‘(۳۱)
اقبال کی فکر اور طرزِبیان سے اردو شاعری میں انقلاب برقا ہوگیا۔ معاصرین اور بعد میں آنے والے بہت سے شعراء بھی اقبال کے اسلوب کی طرف مائل ہوئے۔ امین حزیں کا شمار بھی انہی شعراء میں ہوتا ہے جنہوں نے اقبال کے تصورات و نظریات کا گہرا اثر قبول کیا۔ ’’تذکرہ معاصرین‘‘ میں مالک رام رقم کرتے ہیں۔
’’ہماری پچھلی دو نسلیں اقبال سے متاثر ہوئی ہیں اور ان میں سے بے شمار لوگوں نے ان کے تتبع کی کوشش کی لیکن کامیابی الا ماشاء اللہ معدودے چند کو نصیب کو ہوئی۔ ان چند خوش نصیبوں میں امین حزیں کا نام سرفہرست ہے۔ جیسا کہ ان کے مجموعہ کلام ’’گلبانگ حیات‘‘ کے ہر صفحے سے عیاں ہے۔ اسرارِ حیات کی تفسیر و تعبیر، اخلاقیات اور الٰہیات سے شغف، عظمت ِآدم اور عمل کی برتری، ان کے بھی دل پسند موضوع ہیں۔‘‘(۳۲)
امین حزیں سیالکوٹی کا پہلا مجموعہ کلام ’’گلبانگ حیات‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس پر بہت سے لوگوں نے اچھے خیالات کا اظہار کیا کیونکہ اس مجموعہ میں علامہ اقبال کے انداز میں شاعری کی گئی ہے تو اکثر نقادان ِعلم و ادب نے امین حزیں پر علامہ اقبال کی نقالی کا الزام لگایا ہے لیکن وہ اس الزام کی مکمل تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’میرے اولین مجموعہ کلام ’’گلبانگ ِحیات‘‘ پر نوے، پچانوے فیصد ریویو بفضل ِخدا اچھے تھے جس کے لئے میں دل سے شکر گزار ہوں۔ البتہ ایک مغالطہ ایسا ہے جو مجھے ہمیشہ کھٹکتا رہا ہے اور وہ کھٹک آج بھی باقی ہے۔ یعنی اکثر نقادوں کا خیال ہے کہ میری شاعری مخدومی و سیدی علامہ اقبال مرحوم کی نقالی ہے۔ گو علامہ مرحوم ایسے پیر کامل کی پیروی یا نقالی بھی بجائے خود فخر و مباہات کی بات ہے۔ لیکن حقیقت یہ نہیں۔ میں بصد معذرت یہی کہوں گا کہ میرے ’’ایسے خیال کے نقادوں‘‘ کا یہ فتویٰ میرے کلام کے سطحی مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ اگر میرے کلام کو بغور ملاحظہ فرمایا جائے تو اس پر کم از کم سیدی علامہ اقبال مرحوم ومغفور کی نقالی کا لیبل چسپاں کرنا ہرگز ثابت نہ ہو سکے گا۔‘‘(۳۳)
امین حزیں مزید وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وہ علامہ اقبال کے افکار نظریات سے متاثر ضرور ہیں لیکن انہوں نے ان کی کورانہ تقلید نہیں کی بلکہ ان کا اپنا ایک الگ انداز ہے۔ اس ضمن میں کچھ اس طرح اپنے خیالات کے الفاظ کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے کلام سے سو فیصدی متاثر ہوا ہوں اور مجھے اس نیک اثر پذیری پر بجا نازہے مگر یہ اثر پذیری کو رانہ تقلید نہیں بلکہ مرحوم کے ’’مرکزی خیال‘‘یعنی ’’خودی‘‘ کو ہر طرح پرکھ چکنے کا نتیجہ ہے۔ میں نے مرحوم کی مشعل ہدایت سے ضرور فائدہ اٹھایا لیکن اپنے طریق پر اور اپنی وادی حیات کے تاریک اور بے نور گوشوں کو منور کرنے کے لیے دنیا میں سوائے پیغمبروں کے کون ہے جو ماحول سے متاثر نہیں ہوا؟اور اس نے دونوں، معتقدمین اور معاصرین کے علم یا تعلیم سے فائدہ نہ اٹھایا ہو؟ اس تاثر کے بغیر ماضی کا سلسلہ حال اور مستقبل سے قائم رہ ہی نہیں سکتا۔
یہ ہماری(یعنی انسانی )زندگی کی نشو و نما کے لئے از بس ضروری ہے لیکن اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ ایک آزاد ’’فکر و نظر‘‘ طبیعت پر یہ اثر کڑی زنجیر کا ’’عمل‘‘ ثابت ہو بلکہ یہ تاثر آزاد فکر و نظر رکھنے والی طبیعتوں کو ’’سمندناز پہ ایک اور تازیانہ ہوا‘‘ کا حکم رکھتا ہے۔‘‘(۳۴)
ڈاکٹر عبدالوحید نے اپنی کتاب’’ جدید شعرائے اردو‘‘ میں امین حزیں کی شاعری پر مختصر مگر جامع انداز میں بھرپور تبصرہ کیا ہے۔ ’’خواجہ صاحب ایک مشتاق و قادر الکلام سخنورہیں۔ انہوں نے تقریباً ہر صنف ِسخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ وہ نظم میں اقبال اور غزل میں غالب کے پیرو ہیں۔ ان کے مجموعہ کلام ’’گلبانگ حیات‘‘ پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ امین حزیں صاحب اصلاحی، اخلاقی اور خطیبانہ شاعری کے علمبردار ہیں اور ان کے خیالات فکر ِاقبال سے اس درجہ متاثر ہیں کہ انہیں اقبال کا معنوی شاگرد کہنا غلط نہ ہو گا۔
ان کے کلام میں بھی آپ کو زندگی کی تفسیر، تلاش، تجسس اور قوت ِعمل کی اہمیت ، یقیں محکم کی توضیح اور چراغ خودی کی تنویر نظر آئے گی۔ لیکن ان کا اسلوب یقینا اقبال کے مقابلہ میں زیادہ سلیس اور عام فہم ہے۔ یہاں ان باتوں کے تذکرے سے امین حزیں اور علامہ اقبال مرحوم کا تقابل مقصود نہیں بلکہ مقصود صرف یہ ہے کہ حضرت امین حزیں کے رنگ ِسخن کی وضاحت ہو جائے کہ انہوں نے اس مخصوص رنگ کے قائم کرنے میں کن کن اساتذہ کا اثر قبول کیا ہے۔‘‘(۳۵)
مندرجہ ب الا آراء سے امین حزیں کی اقبال سے عقیدت و محبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری پر اقبال کے افکار و نظریات کے اثرات، نفوذ پذیری اور رنگ سخن کی گہری چھاپ کی جھلکیاں نمایاں طور پر دیکھنے کے لئے امین حزیں کی شاعری کی مختلف اصناف سخن ملاحظہ کیجئے۔
امین حزیں کی نظم گوئی
نظم۔ معنی و مفہوم
اردو شاعری میں اصناف ِسخن کو عمومی طور پر دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلی قسم کی غزل اور دوسری کو نظم کا نام دیا گیا ہے۔ اردو شاعری میں غزل کے ساتھ ساتھ نظم کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نظم تسلسل ِخیال، ارتکازِفکر اور بے پناہ معنوی وسعت کی حامل صنف ہے۔ عربی لغت ’’المنجد‘‘ میں نظم کا معنی کچھ اس طرح ہے۔
نَظَمَ۔ یَنْظِمُ،نَظْمً، اَلْلُوئْ و نَحْوَہ۔ موتی پرونا، آراستہ کرنا، موزوں کرنا۔(۳۶)
’’فیروز اللغات ‘‘ کے مطابق:
نظم۔(ع۔ ا۔ مونث) ۱۔ لڑی، سلک۔۲۔ موزوں کلام، ۳۔ شعر۔(مذکر) بندوست ،انتظام(۳۷)
پروفیسر بشیر احمد قریشی STANDARD DICTIONARY(اردو سے انگلش) اور PRACTICAL DICTIONARY(انگلش سے انگلش اور اردو) میں نظم کے ضمن میں نقل کرتے ہیں۔
naz’m 1۔ peotry;verse 2۔ (lit) string نظم1۔ order, arrangement 2۔ disipline
(۳۸)
پروفیسر انور جمال نظم کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’نظم ایک شعری اصطلاح ہے جس سے مراد پرورنا، ترتیب، تشکیل صنعت یا انتظام ہے۔ کسی بے ترتیب اور بکھرے ہوئے مواد کو موزوں اور مرتب شکل میں پیش کرنا نظم کہلاتا ہے۔‘‘(۳۹)
بالعموم ہر قسم کے شعر موزوں کو نظم کہا جاتا ہے اور پروفیسر انور جمال نے بھی اسی مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے نظم کی تعریف کی ہے لیکن وہ اس تعریف سے مکمل طور پر متفق نہیں ہیں۔ وہ اس کے لئے تخلیقیت، تخیل اور غنائیت کے عناصر کو لازم ہے ۔
(مقالہ ایم فل اُردو بعنوان : ’’امینِ حزیں سیالکوٹی کی شاعری پر اقبالؒ کے اثرات‘‘
مقالہ نگار: رائو مظہر الیاس خانیوال ۔سال 2018ء )
٭٭٭
حوالہ جات:
۱۔ پروفیسر ضیاالدین احمد ، اقبال کا فن اور فلسفہ ، لاہور، بزم اقبال ط ن ، دسمبر ۲۰۰۱ء، ص۳۵
۲۔ انور سدید، ڈاکٹر، اقبال کے کلاسیکی نقوش، لاہور، اقبال اکادمی، ط دوم ۱۹۸۸ء، ص۷۲
۳۔ عبدالوحید، ڈاکٹر، جدید شعرائے اردو، لاہور، فیروز سنز، ط اول، س ، ن، ص۱۱۳
۴۔ مظہر علی خان، اردو نظم پر اقبال کے اثرات، کراچی، ط ن ، س ن، ص۷۳
۵۔ ایضاً، ص۶۶
۶۔ آل احمد سرور، عزیز احمد، انتخاب جدید، کراچی، انجمن ترقی اُردو پاکستان، ط اوّل۱۹۵۸، ص۱۵۴
۷۔ مظہر علی خان، اردو نظم پر اقبال کے تاثرات، محولہ بالا، ص۵۳
۸۔ ایضاً، ص۶۸
۹۔ ایضاً،ص۴۹،۵۰
۱۰۔ ایضاً، ص۵۸
۱۱۔ ایضاً، ص۵۷
۱۲۔ اقبال، کلیات ِاقبال اردو، لاہور، شیخ غلام علی سنز، ط دوم۱۹۷۵،ص۸۳
۱۳۔ مولانا ابوالحسن ناطق، دیوان ِناطق، ناگپور انڈیا، انصاری آرٹس مومن پورہ،
ط ن۱۹۷۶،ص۲۱۶
۱۴۔ مظہرعلی خان، اردو نظم پر اقبال کے اثرات، محولہ بالا، ص۶۱
۱۵۔ ایضاً، ص۸۵
۱۶۔ ایضاً،ص۶۳
۱۷۔ ایضاً،ص۳۲۳
۱۸۔ حفیظ جالندھری، بہار کے پھول، لاہور، دارالاشاعت پنجاب ط سوم۱۹۴۰، ص۱۵،۱۶
۱۹۔ سید سلیمان ندوی، دیباچہ خمستان، سیالکوٹ، اقبال برقی پریس ، ط اول۱۹۳۳،ص۴
۲۰۔ اثر صہبائی، جام ِطہور، لاہور، تاج کمپنی، ط اول، ۱۹۳۶، ص۱۳
۲۱۔ ایضاً،ص۱۴
۲۲۔ ایضاً،ص
۲۳۔ ایضاً،ص۱۵
۲۴۔ ایضاً،ص۱۶
۲۵۔ امین حزیں، نوائے سروش، لاہو، الفیصل ناشران، ط اول اگست۲۰۰۶،ص۱
۲۶۔ ایضاً،ص۵۸
۲۷۔ سر شیخ عبدالقادر، دیباچہ گلبانگ حیات لاہور، الفیصل ناشران ط دوم مئی۲۰۰۶، ص۱
۲۸۔ عبداللہ چغتائی، روایات اقبال، لاہور، مجلس ترقی ادب، ط اول ۱۹۷۷، ص۱۸۹
۲۹۔ سید سلیمان محمود، ڈاکٹر، اقبال کی ابتدائی زندگی، لاہور، اقبال اکادمی پاکستان،
ط دوم۱۹۹۶، ص۳۲
۳۰۔ سر شیخ عبدالقادر،دیباچہ گلبانگ حیات ، محولہ بالا، ص ب
۳۱۔ حبیب کیفوی، امین حزیں، خواجہ عبدالسمیع پال (مضمون ) مشمولہ سہ ماہی مجلہ اقبال ریویو
لاہور، اقبال اکادمی، س ۱۹۷۷، ص۵۵
۳۲۔ مالک رام، تذکرہ معاصرین، راولپنڈی الفتح پبلی کیشنز، ط اول،۲۰۱۰ص۱۶۳
۳۳۔ امین حزیں کلا م امین حزیں سیالکوٹی، کراچی آر بی پبلشرز ط اول اگست۲۰۱۰، ص۵۷
۳۴۔ ایضاً،ص
۳۵۔ عبدالوحید، ڈاکٹر جدید شعرائے اردو، لاہور فیروز سنز، ط ن، س ن، ص ۴۸۹
۳۶۔ اویس معلوف، المنجد (عربی ئوا اردو) لاہور، مترجم ابو الفیصل عبدالحفیظ بلیاوی س ن،
ط ں ص۱۰۲۳
۳۷۔ فیروز الدین ، فیروز اللغات ، لاہور، فیروز سنز، ط ن، سن ن، ص۲۸۳
۳۸۔ بشیر احمد قریشی، پروفیسر، سٹینڈرڈ ڈکشنری، لاہو، کتابستان پبلشنگ کمپنی ،
ط ن، س ن، ص۲۴۴
۳۹۔ انور جمال، پروفسر، ادبی اصطلاحات، اسلام آباد نیشنل بک فائونڈیشن،
ط دوم، فروری۲۰۱۵ ص۱۷۲
۴۰۔ ایضاً،ص
۴۱۔ شمیم احمد، اصناف ِسخن اور شعری ہیئتیں، لاہور، مکتبہ عالیہ، ط اول،۱۹۸۳، ص۱۱،۱۲
۴۲۔ انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی مختصر تاریخ، لاہور، عزیز بک ڈپو،
ط پنجم،۲۰۰۶، ص۳۵۷
۴۳۔ ایضاً،ص۳۶۱
۴۴۔ امین حزیں، گلبانگ ِحیات، لاہور، الفیصل ناشران، ط دوم مئی ۲۰۰۶، ص۱۱۷
٭٭٭