ماحول بچاؤ
آدم زاد کے قدموں کی آہٹ محسوس کرتے ہی ساراجنگل سائیں سائیں کرنے لگا۔خوف کے مارے پیڑپودوں کی جان ہی نکل رہی تھی۔آدم زاد کے کلہاڑے کی ضرب جب معصوم بوٹے کے تنے پر پڑی تونوجوان بوٹوں کی چیخ پکارسے بوڑھے دیودار اور کائیرو کی مضبوط شاخیں بھی خوف سے لرز اٹھیں ۔آدم زاد کے بے رحم ہاتھوں سے جنگل کا صفایا ہوتے دیکھ کر جنگل کے چرند و پرندبھی دکھی ہورہے تھے کیونکہ انہیں بھی اپنے ٹھکانے ختم ہوتے نظر آرہے تھے۔کلہاڑے کی دہشت ناک آواز سے کائیرو پر بیٹھی مینا کادل غم سے ڈوبتا جارہا تھا۔دیودار پر بیٹھے طوطے نے جب مینا کی پریشان صورت دیکھی تو وہ اس خطرے کو ٹالنے کے بارے میں سوچتے ہوئے مینا سے گفتگو کرنے لگا:
طوطا: تو کیوں بغل میں چونچ دبائے مایوس بیٹھی ہو؟
مینا: تمہیں کیا موسم کی تبدیلی کا احساس نہیں ہورہا ہے۔
طوطا: احساس کیوں نہیں ہے۔اس جلستی گرمی نے ہمارے کتنے ہی ہمجنس مار ڈالے'مگر ہم کر بھی کیاسکتے ہیں۔
مینا: وہ تو میں بھی دیکھ رہی ہوں ‘لیکن کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔
طوطا: یہ انسان کتنا لالچی بن گیا ہے۔سارا ماحول بگاڑنے پرتلا ہوا ہے۔
مینا: ہاں اب تو اس پولیوشن میں سانس لینی بھی مشکل ہورہی ہے۔
طوطا: سانس ہی کیا ‘جب سے اس نے جنگلوں کا بے دریغ کٹاؤ شروع کر دیا ہے ۔ تب سے موسم بھی آگ برسا رہا ہے۔
مینا: اورپانی بھی ختم ہورہا ہے۔
طوطا: ہاں‘ لیکن کچھ نہ کچھ توسوچنا پڑے گا۔
مینا: وہی تو میں کہہ رہی ہوں۔
طوطا: وہ دیکھو‘کبوتر آرہا ہے۔اسی سے پوچھ لیتے ہیں۔ یہ ہمیشہ اچھا مشورہ دیتا ہے۔ مینا: ہاں ٹھیک ہے۔
طوطا: رکو رکو کبوتر بھائی۔تم سے ایک مشور ہ کرنا ہے۔
کبوتر: اچھا ٹھیک ہے‘بتاو۔
طوطا: ویسے تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ انسان کے ہاتھوں ماحول خراب ہورہا ہے۔اس لئے انسان کوسمجھانے کا کوئی طریقہ بتاؤ تاکہ وہ جنگل کاٹنے سے بھی رک جائے اور نئے پیڑ بھی لگائے۔
کبوتر: بے شک یہ انسان اب اتنا لالچی اور ناسمجھ بن گیا ہے کہ جنگلوں کا صفایا کرتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتا ہے کہ پیڑپر کلہاڑی چلانا خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلانے کے برابر ہے۔
طوطا: جی کبوتر بھائی‘آپ نے صحیح کہا لیکن ہمیں تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا کیونکہ ہم بھی تو اسی ماحول میں سانس لیتے ہیں۔ماحول صاف رہے گا تو ہماری زندگی بھی خوشحال رہے گی ۔
کبوتر: جی ٹھیک ہے طوطا چاچا۔ میں اکثر انسانوں کی بستی میں ہی رہتا ہوں۔کچھ نہ کچھ سوچتا ہوں۔
مینا: تو جلدی سوچو کبوتر راجا‘ تاکہ ہم سب کے ساتھ ساتھ انسان کا بھی بھلا ہوسکے۔
کبوتر: مجھے ایک ترکیب سوجھی ہے۔
مینا: ہاں بولو بولو۔
کبوتر: ہمیں کوئے سے بھی مدد لینی پڑے گی۔
طوطا: کس لئے؟
کبوتر: وہ جنگل سے ایک چھوٹا بوٹا اٹھائے گااور میرے ساتھ بستی چلے گا۔
مینا: اسے سے کیا ہوگا۔
کبوتر : ہم روز انسان کے صحن میں بوٹے لے کر جائیں گے اور جونہی اس کا چھوٹا بیٹا صحن میں کھیلنے کےلئے آئے گا تو کوا گڑھا کھودنا ٍ ٍٍٍشروع کرے گا اور میں اس میں پودا لگادونگا۔
طوطا: کیا اس طرح سے وہ تمارا مقصد سمجھ پائیگا۔
کبوتر: جی وہ میرے بہت سے اشارے سمجھتا ہے اور مجھے روز دانے بھی ڈالتا ہے۔جب ہم کئی دن تک یہی کام کریں گے تو وہ سمجھ جائیگا اورٍ شاید انسان پھر سے پیڑ اگانا شروع کردیں۔
طوطا: ہاں یہ ترکیب ٹھیک رہے گے۔ امید پر ہی تو دنیا قائم ہے۔
مینا: اب جلدی کوے کو بلاؤتاکہ ہمارا ماحول پھر سے ٹھیک ہوجائے۔نہیں تو زمین سے زندگی ختم ہوجائے گی۔
کبوتر : جی اب میں جارہا ہوں اور کوے کے ساتھ مل کریہ نیک کام شروع کرونگا۔
طوطا: اچھا جاولیکن کام جلدی شروع کرنا اور اگر ہماری بھی ضرورت پڑیگی تو بتا دینا۔
مینا: ہاں میری بھی دعائیں ساتھ رہیں گیں۔
تھوڑی ہی دیر میں کبوتر اور کوا چونچ میں بوٹے لئے بستی کی جانب پرواز کررہے تھے اور طوطا مینا خوشی سے اپنے پرپھڑ پھڑا رہے تھے۔پرندوں کے اس ماحول بچاؤ مشن سے جنگل کے مایوس پیڑپودوں کی شاخیں بھی خوشی سے جھوم اٹھیں۔
……………………………………………………
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔