ناسا یا کوئی بھی دوسری سپیس ایجنسی جب خلا میں کوئی سپیس کرافٹ کسی دوسرے سیارے یا سیارچے پر بھیجتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ زمین سے راکٹ داغا اور وہ سیدھا اُس سیارے تک پہنچ جائے۔
ایک راکٹ کے مختلف حصے ہوتے ہیں جن میں مختلف قسم کا فیول بھرا ہوتا ہے۔ انہیں سپیس سائنس کی زبان میں stages کہا جاتا ہے۔ راکٹ کے مختلف حصے اپنا ایندھن جلا کر راکٹ کو خلا میں لے جاتے ہیں اور ایندھن ختم ہونے کے بعد بالترتیب راکٹ سے الگ ہوتے جاتے ہیں۔
راکٹ کے سب سے اوپری حصے میں مشن کے مطابق پے لوڈ ہوتا ہے۔ یہ پے لوڈ ، سٹلائٹ بھی ہو سکتے ہیں، سپیس کرافٹ بھی جن میں انسان بھی ہو سکتے ہیں، سائنسی آلات جیسے کہ جیمز ویب ٹیلیسکوپ بھی وغیرہ وغیرہ۔
جب پے لوڈ مثلآ سپیس کرافٹ خلا میں راکٹ کے ذریعے بھیجے جاتے ہیں اور اُنہیں کسی خاص سیارے مثال کے طور پر مریخ پر جانا ہو تو ایسا ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ سیدھا مریخ کی جانب بڑھنا شروع کر دیں۔ اس سے پہلے سپیسکرافٹ زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ اور بتدریج ہر چکر میں سپیس کرافٹ کا زمین کے گرد مدار کا فاصلہ بڑھتا رہتا ہے۔ ایک خاص مقام پر آ کر سپیس کرافٹ مدار سے نکلتا ہے اور تیزی سے اُس سمت جانا شروع ہو جاتا ہے جہاں اُسکی منزل ہوتی ہے۔ زمین یا کسی بھی دوسرے سیارے کے گرد چکر لگا کر تیزی سے مدار سے نکلنے سے سپیسکرافٹ کی رفتار میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔ اس عمل کو Gravity assist maneuver کہتے ہیں۔ یعنی گریویٹی کی مدد سے سپیس کرافٹ کی رفتار بڑھانا یا سمت بدلنا۔۔اسکی مثال یوں لیں کہ جیسے رسی سے پتھر باندھ کر گھمایا جائے اور ہھر اچانک چھوڑ دیا جائے تو وہ تیزی سے دائرے سے باہر نکلے گا۔
اس طرح کے عمل کے ذریعے سپیس ایجنسیاں خلا میں سپیس کرافٹ کی رفتار کو بڑھا کر مشن کے اگلے حصوں کے لیے اسکا فیول بچاتی ہیں۔ یہ ضروری ہوتا ہے کیونکہ سپیس کرافٹ جب کسی سیارے تک پہنچتا ہے تو پہنچنے سے پہلے اسکی رفتار کم کرنا ضروری ہوتی ہے۔ اسکی رفتار میں کمی کرنے کے لئے بہت سا فیول درکار ہوتا ہے۔
اگر ہم نے کوئی سپیسکرافٹ یا انسانی مشن مریخ تک بھیجنا ہو تو اسکے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی اور خاص وقت درکار ہوتا ہے جس میں اگر سپیسکرافٹ کو بھیجا جائے تو وہ جلد سے جلد مریخ تک پہنچ سکے۔۔اس خاص وقت کو “لانچ ونڈو” کہا جاتا ہے۔
ایک خاص وقت میں کیوں؟ ہر وقت کیوں نہیں ؟
زمین سے مریخ کا فاصلہ پورا سال تبدیل ہوتا رہتا ہے کیونکہ مریخ اور زمین اپنی اپنی رفتار سے اور اپنے اپنے مدار میں سورج کے گرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ہر 26 ماہ یعنی تقریباً دو سال بعد ایک ایسا وقت آتا ہے جب دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں۔۔اگر زمین سے بھیجا جانے والا سپیس کرافٹ اس ٹائم میں مریخ تک پہنچے تو 7 سے 9 ماہ میں پہنچ سکتا ہے۔
مگر رکیے!! ایسا نہیں ہوتا کہ جب مریخ اور زمین کا فاصلہ ایک دوسرے سے قریب ہو تو تب ہی سپیس کرافٹ کو راکٹ کے ذریعے چھوڑا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو مریخ چونکہ مسلسل حرکت میں ہے لہذا سپیس کرافٹ جب اُس جگہ نو ماہ بعد پہنچے گا جہاں مریخ تھا تو مریخ تو آگے نکل چکا ہو گا۔
اسکا حل یہ ہے کہ سائنسدان پہلے سے منصوبہ بندی کرتے ہیں کہ مریخ اور زمین کے دو سال بعد قریب ترین فاصلے کے موقع سے, کم از کم 7 یا نو 9 ماہ پہلے سپیس کرافٹ بھیجا جائے تاکہ جب تک سپیس کرافٹ اس جگہ تک پہنچے، مریخ بھی وہاں ہہنچ چکا ہو۔ یعنی سپیس کرافٹ اور مریخ ایک ہی وقت میں ایک ہی جگہ پہنچیں۔
سید محمود گیلانی کی شاعری میں دعائیہ عناصر اور کھوار تراجم
سید محمود محمود گیلانی کا تعلق دبستان لاہور پاکستان سے ہے، پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں۔ وکالت کے ساتھ...