ابھی پاکستان، اپنی سرزمین پر ہونے والے یو ایس سیلز (US Seals) کے حملے کے اثرات سے نکلنے ہی نا پایا تھا کہ تین ہفتے بعد 22مئی، 2011 کو تقریباً درجن بھر اسلحہ برداروں نے بظاہر اُسامہ بن لادن کی موت کا بدلہ لینے کے لئے کراچی میں نیول بیس پی این ایس مہران پر حملہ کردیا۔ دس کے قریب نیوی کے اہلکار اس حملے میں ہلاک، بیس زخمی، اور بیس (base)پر کھڑے ہوئے امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ دو نگرانی کے ہوائی جہاز، اور ایک ہیلی کاپٹر تباہ ہو گئے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق یہ حملہ سولہ گھنٹے جاری رہا جس میں چار حملہ آوروں کو مار دیا گیا اور پاکستانی فورسز نے بیس کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا۔ اس سے قبل 28 اپریل کو اسی بیس کے فرنٹ گیٹ کے سامنے نیوی کے اہلکاروں کو لے جانے والی بس پر حملہ ہو چکا تھا۔ تو منطقی بات ہے کہ اس بیس پر سیکورٹی ہائی الرٹ پر ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود حملہ آور بیس میں نا صرف داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے، بلکہ اُنھوں نے کچھ لوگوں کو یرغمال بھی بنایا، اور کافی دیر تک سیکورٹی فورسز کو اپنے ساتھ الجھائے بھی رکھا۔ پاکستانی طالبان نے حملے کی ذمّہ داری قبول کی۔
پانچ دن بعد پاکستان میں ایشیا ٹائمز آن لائن کے بیورو چیف سید سلیم شہزاد نے ایک آرٹیکل لکھا جس میں سرکاری بیانیہ کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس آرٹیکل کی سُرخی تھی، “القائدہ نے پاکستان کو حملے کی دھمکی دی تھی”۔ اس آرٹیکل میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ حملہ ٹی ٹی پی یا اُس کے اتحادیوں نے نہیں بلکہ القائدہ نے کیا تھا اور اس حملہ کی وجہ اُس بات چیت کی ناکامی تھی جو پاکستانی حُکّام اور القائدہ کے درمیان القائدہ کے ہمدردوں کی رہائی کے لئے کی گئی تھی جن کا سُراغ ملٹری نے لگایا تھا اور اُن کو اپنی تحویل میں لیا ہوا تھا۔ آرٹیکل میں نامعلوم عسکری ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملٹری میں القائدہ کے ہمدرد سرائیت کر گئے ہیں۔
نیوی کے ایک سینیئر اہلکار نےایشیا ٹائمز آن لائن کو نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، “اسلامی جذبات عام طور پر مُسلّح افواج میں پائے جاتے ہیں۔”
“ہمیں اُن سے کبھی بھی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ دنیا کی تمام مُسلّح افواج چاہے وہ امریکی، برطانوی، یا انڈین ہوں وہ اپنے جوانوں کے جذبات میں گرمجوشی لانے کے لئے مذہب کا کسی حد تک سہارا لیتی ہیں۰۰۰” اہلکار نے بتایا۔
“بہرحال ہم نے کراچی کی مختلف نیول بیسز پر کچھ مشکوک گروپنگ کا مُشاہدہ کیا۔ اگرچہ مُسلّح افواج کے افراد کو مذہبی رسومات کی ادائیگی یا اسلام کے مُطالعہ سے کوئی بھی روک نہیں سکتا، لیکن جس گروپنگ کا ہم نے مُشاہدہ کیا وہ مُسلّح افواج کے نظم و ضبط کے خلاف تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب نیوی میں اُن سرگرمیوں کو چیک کرنے کے لئے انٹیلیجنس آپریشن کا آغاز ہوا”
اہلکار نے مزید بتایا کہ یہ گروپنگ مُسلّح افواج کی قیادت اور اُس کی اسلامی عسکریت کے خلاف امریکہ سے اتحاد کے خلاف تھی۔ جب کچھ ایسے پیغامات پکڑے گئے جن میں دورہ کرنے والے امریکی حکّام پر حملہ کا اشارہ تھا، انٹیلیجنس حُکّام کے پاس کاروائی کا جواز تھا اور احتیاط سے کام لے کر دس اہلکاروں جن میں سے بیشتر کا تعلق نچلے رینکس سے تھا کو آپریشنز کر کے گرفتار کیا گیا۔
“یہ ایک بڑی پریشانی کا آغاز تھا۔” اہلکار نے کہا
شہزاد اپنی رپورٹ جاری رکھتے ہوئے مزید لکھتا ہے۔
ایک ہفتے کے اندر اندر پی این ایس مہران میں موجود اندر کے بندوں نے نقشے، مختلف داخلے اور اخراج کے راستوں کی دن اور رات میں لی گئی تصاویر، ہینگرز کا محلِ وقوع اور بیرونی سیکورٹی فورسز کے متوقّع ردِ عمل کی تفصیلات فراہم کردیں۔
نتیجتاً مسلح افراد ایک ایسی facility میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے جو سخت حفاظتی حصار میں تھی۔ وہاں ایک گروپ نے ایئر کرافٹ کو نشانہ بنایا، دوسرے گروپ نے فرسٹ اسٹرائیک فورس کو نشانہ پر لیا جبکہ تیسرا گروپ دوسروں کی فائرنگ کا کور لیتے ہوئے فرار ہوگیا۔ جو پیچھے رہ گئے وہ مارے گئے۔
اس نیوز اسٹوری اور شہزاد کی کتاب شائع ہونے کے بعد جس میں مُسلّح افواج میں عسکریت پسندوں کی دراندازی اور آئی ایس آئی کے عسکری تنظیموں کے ساتھ مبینہ تعلقات کی تفصیل بیان کی گئی تھی نے عوامی غم و غصہ پیدا کیا اور یہ مُسلّح افواج میں دراڑیں پیدا کرسکتی تھی۔ شہزاد سے اس سے قبل آئی ایس آئی نے 25 مارچ کی نیوز اسٹوری کے بارے میں رابطہ کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اُسامہ بن لادن پاکستان میں چھپتا پھر رہا ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ پاکستانی انٹیلیجنس اُس کی نقل و حرکت سے واقف تھی۔
اس بارے میں مزید تفصیل امریکی صحافی ڈیکسٹر فلکنز (Dexter Filkins) نے نیو یارکر میں 19 ستمبر، 2011 کو The Journalist and the Spies” کے نام سے مضمون میں لکھی۔
“اگلی صبح، اُس کو آئی ایس آئی کے افسر کی جانب سے کال موصول ہوئی جس میں اُس کو اسلام آباد کی نواحی علاقے آبپارہ میں واقع ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر میں طلب کیا گیا تھا۔ جب شہزاد وہاں پہنچا تو اُس کی ملاقات آئی ایس آئی کے تین افسران سے ہوئی۔ اُس نے بتایا کہ اُس میں اعلیٰ افسر ریئر ایڈمرل عدنان نذیر تھا جو آئی ایس آئی کا میڈیا ڈویژن کا ہیڈ تھا۔
“اُنھوں نے بہت نرم لہجے میں بات کی” شہزاد نے مجھے بتایا۔ اُس نے اپنے کندھے پر نظر ڈالی۔ “وہ چیختے چلّاتے نہیں نا ہی آپ کو دھمکی دیتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ کام کرتے ہیں۔ لیکن وہ مجھ پر بہت ناراض تھے۔” آئی ایس آئی کے افسر نے اُسے دوسری اسٹوری لکھنے کا کہا جس میں پہلی اسٹوری کا رد کیا گیا ہو۔ اُس نے انکار کردیا۔
اُس کے بعد ایڈمرل نزیر نے ایک تبصرہ کیا جس کے بارے میں شہزاد نے کہا کہ اُس کے بعد وہ ہر اُس کے بارے میں روز سوچا کرتا تھا۔ “ہم چاہتے ہیں کہ دنیا اس بات کا یقین کرلے کہ اُسامہ مر چُکا ہے۔” نذیر نے کہا۔
جس وقت یہ گفتگو ہورہی تھی بن لادن ہنوز زندہ تھا، اُس کے ٹھکانے کے بارے میں لوگ لاعلم تھے۔ میں نے شہزاد سے زور دے کر پوچھا۔ اس سے اُن کا کیا مطلب تھا؟
اُس نے کندھے اچکائے اور ایک دفعہ پھر اپنے کندھوں پر نظر ڈالی۔ “وہ لوگ واضح طور پر اُسامہ بن لادن کو بچانا چاہ رہے تھے۔” اُس نے کہا۔ “کیا تم سمجھتے ہو آئی ایس آئی اُسامہ بن لادن کو چُھپا رہی تھی؟” میں نے اُس سے پوچھا
شہزاد نے دوبارہ کندھے اُچکائے اور کہا ہاں۔ لیکن وہ اس کو ثابت نہیں کر سکا۔ (آئی ایس آئی نے اس دعویٰ کو انتہائی سنجیدہ نوعیت کا غیر یقینی الزام قرار دیا”
نو دن بعد شہزاد غائب ہوگیا۔ اُس کے دو دن بعد اُس کی انتہائی تشدد زہ لاش جہلم میں ایک نہر کے کنارے ملی۔ نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا، “اوبامہ انتظامیہ کے اہلکار یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی طاقتور انٹیلیجنس ایجنسی نے پاکستانی صحافی کے قتل کے احکامات جاری کئے جس نے ملک کی مُسلّح افواج میں عسکریت پسندوں کے سرائیت کرجانے کے بارے میں رپورٹنگ کی تھی۔” لیکن اخبار نیویارک ٹائمز نے مزید لکھا،”جس دن صحافی سلیم شہزاد کی اسلام آباد سے 60 میل کے فاصلے پر پانی میں ڈوبی ہوئی لاش برآمد ہوئی اُس کے ایک دن بعد آئی ایس آئی نے پاکستانی میڈیا میں عائد الزامات کی تردید کی کہ وہ صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی ذمّہ دار ہے اور اُس نے اُن الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔”
آئی ایس آئی نے صحافی کی موت کو افسوسناک قرار دیا لیکن کہا کہ اس کو ایجنسی کو نشانہ بنانے کے لئے نہیں استعمال کرنا چاہئیے۔ جب میں نے بہت بعد میں ایک سینیئر پاکستانی انٹیلجنس اہلکار سے اس قتل کے بارے میں پوچھا تو اُس نے کہا اُسے نہیں پتہ کہ یہ کس نے کیا ہے۔ جب میں نے اُس سے کہا کہ آپ اس قتل کی تحقیقات کیوں نہیں کرواتے کہ اس میں آئی ایس آئی پر الزام آرہا ہے تو جواب میں اُس نے کندھے اُچکا دئیے۔
اس قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں صحافیوں نے حکومت پر سخت دباؤ ڈالا۔ 16 جون، 2011 کو حکومت نے صحافیوں کے مطالبات مان کر صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا۔ کمیشن کی سربراہی جسٹس ثاقب نثار کر رہے تھے جبکہ دوسرے ممبران میں جسٹس آغا رفیق، ایڈیشنل آئی جی پنجاب انویسٹیگیشن، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر، اور فیڈرل پولیس کے ڈپٹی ڈی آئی جی۔ کمیشن کو چھ ہفتوں میں اپنی کاروائی مکمل کرنی تھی۔ اپنی ابتدا سے ہی کمیشن متنازعہ تھا کیونکہ صرف سُپریم کورٹ کا چیف جسٹس ہی اس طرح کا کمیشن بنا سکتا تھا۔ بہرحال کمیشن نے اپنی کاروائی مکمل کی اور جنوری 2012میں 146 صفحات کی ایک رپورٹ جاری کی جس میں انٹیلیجنس ایجنسیز اور میڈیا کے درمیان تناؤ کی وجوہات کو دور کرنے کے لئے تجاویز دی گئی تھی لیکن یہ کمیشن صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی پیچھے محرکات یا قاتل کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ کرنے میں ناکام رہا۔ کمیشن کے سامنے کئی صحافیوں نے پیش ہوکر بیان ریکارڈ کرایا کہ اُن کو انٹیلیجنس ایجنسیوں کی جانب سے دھمکایا گیا تھا۔ البتہ ملٹری انٹیلیجنس اور آئی ایس آئی دونوں نے کمیشن کو تحریری بیان جمع کرایا کہ اُن کا شہزاد کے قتل سے کوئی لینا دینا نہیں اور اُن سے مزید سوال جواب نہیں پوچھے گئے۔
آئی ایس آئی نے کمیشن کے سوالات کے جواب میں اپنے تحریری جواب میں القائدہ پر اپنا شبہ ظاہر کیا اور اس کے علاوہ اُنھوں نے اس کیس میں امریکہ کی دلچسپی کی طرف بھی اشارہ کیا۔ کیا وہ امریکہ مہرہ تھا جسے مناسب وقت پر امریکی مقاصد کے لئے استعمال کیا جانا تھا اور اسٹیبلشمنٹ اور سوسائٹی میں دراڑ پیدا کروانی تھی۔ وسطی اسلام آباد میں آئی ایس آئی کے سیکٹر ہیڈکوارٹرز کے بریگیڈیئر زاہد محمود جنھوں نے عدالتی کمیشن کے سامنے آئی ایس آئی کا جواب داخل کروایا تھا نے اس بات کی نشاندہی کی کہ شہزاد کے انڈیا اور برطانوی انٹیلیجنس ایجنسیوں سے بھی رابطے تھے۔ کمیشن نے سلیم شہزاد کے قتل کے سلسلے میں آئی ایس آئی کے حوالے سے کچھ نہیں کہا۔ یہ قتل بھی دوسری گمشدگیوں اور عوامی قتل کی طرح پاکستان کی تاریخ میں غیر حل شدہ رہا۔
اس واقعہ نے پاک امریکہ تعلقات میں ایک اور غیر حل شُدہ مسئلہ چھوڑ دیا اور یہ اس بات کی عکّاسی تھا کہ اسلام آباد میں موجود سول انتظامیہ میں پاکستان کے شہریوں کی حفاظت کی قابلیت کا فُقدان تھا۔ اس نے اُس خلا کی بھی نشاندہی کی جو حکومت اور خودمختار ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان پایا جاتا تھا جس کے سپرد حکومت نے سیکورٹی کے معاملات کردئیے تھے۔ بلاشبہ پی پی پی کی حکومت آرمی کی زبردست طاقت کے سامنے خود کو مُستقل خطرے میں محسوس کرتی تھی جیسا کہ 2011 میں دوسرے رُونما ہونے والے واقعات نے اس طرف اشارہ کیا۔