مرتب : توصیف ترنل
ادبی متن ہمیشہ تنقید و تشریح کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی ضرورت کی بنا پر معاشرہ ادب پروردگی میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ مختلف جغرافیائی حدود کے اعتبار سے ادب کی تشکیلی، معنوی، ہیئتی اور لسانی ترتیب و تہذیب میں بھی نمایاں فرق ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ ادب تنقید و توضیح کا متقاضی ہے، سچ ہے۔ اسی ادبی احتیاج کے نتیجے میں متن کی گرہ کشائی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ اور پھر ناقد یا شارح متن کے ابہامات کو کھولتا جاتا ہے اور پھر تفہیم کا معاملہ ساحلِ اختتام سے ہمکنار ہوتا ہے۔
تنقید کی روایت کافی پرانی ہے۔ ارسطو کی Poetics سے موجودہ دور تک ہر نہج اور سطح پر یہ کام ہوتا آ رہا ہے۔ اور جب تک ادب ہے، یہ سلسلہ جنباں رہے گا۔
سوشل میڈیا نے امورِ مہمہ کو سہل تر بنا دیا ہے اور اب ایک انسان ایک جگہ بیٹھ کر عالمی ادب کا مطالعہ اور تنقید و تشریح پر گذشتہ تمام کام کی تفصیلات جان سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کی وساطت سے ادب پروری کا سلسلہ جاری ہے۔ اور اسی کی ایک کڑی ادارہ ,عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری ہے۔ ادارے نے بہتیرے تنقیدی پروگرامز کا انعقاد کیا، کئی کتابیں شائع کیں، کئی مجلے نکالے اور کئی تخلیقات پہ تبصروں و تجزیوں کا ایک ریکارڈ قائم کیا۔
زیرِ نظر کتاب “میزانِ غزل” مختلف شعراء کی منظوم کاوشوں پر ادارے کے بہترین ناقدین کی تنقیدی گفتگو کا حسین گلدستہ ہے۔ جہاں شاعر کے مزاج کا علم ہوتا ہے وہیں اس شعری متن میں غوطہ گیری کرکے معانی کے گوہر نکالنے والے ناقدین و شارحین کی گفتگو سے بھی علم و دانش کے کئی ابواب وا ہوتے ہیں۔ محترم توصیف ترنل صاحب خصوصی طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے یہ ادارہ قائم کیا اور متنوع پروگرامز منعقد کیے، کتب کی پبلشنگ کے لیے ایک مظام ترتیب دیا اور کئی کتب مرتب کیں۔ انھی کی قائم کردہ “تنقید کمیٹی” نے زیرِ نظر کتاب میں موجود غزلیات و منظومات پر بے باک رائے دی ہے۔ قارئین کے لیے یہ کسی انمول تحفے سے کم نہیں۔ بلاشبہ اپنی نوعیت کی منفرد کاوش منظرِ عام پہ لانے پر جملہ منتظمین ستائش کے لائق ہیں۔ دلی طور پر سب کے لیے دعا گو ہوں۔
غلام مصطفی دائمؔ
ہے ادب کی شان میزان غزل
شاعری کی جان میزان غزل
طالب ہاشمی برہان پور بھارت
ذوق کا سامان میزانِ غزل
دیکھیے ہر آن میزانِ غزل
ڈاکٹر نبیل احمد نبیل لاہور پاکستان
مجھکو شاعر مانتے ہیں لوگ اب
ہے ترا احسان میزانِ غزل!
امین اڈیرائی سندھ پاکستان
جانتا ہے اک جہاں اُس کو نبیل
اُس کی ہے پہچان میزانِ غزل
ڈاکٹر نبیل احمد نبیل لاہور پاکستان
شاعری کے فن سے ہوں گے آشنا
دے گا وہ فیضان میزانِ غزل
شکیل انجم مینانگری بھارت
جب کبھی بھی آئے گا وہ سامنے
کھینچ لے گا دھیان میزانِ غزل
شکیل انجم مینانگری بھارت
رفتہ رفتہ آج دیکھو بن گئی
شاعری کی جان میزانِ غزل
ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد
چار سو علم و ادب میں دیکھیے
بن گئی پہچان میزانِ غزل
ڈاکٹر شاھد رحمان فیصل آباد
عہدِ نو کی شان میزانِ غزل
ہے ادب کی جان میزانِ غزل
عبدالرزّاق بے کل آزاد کشمیر
ہے محبّانِ ادب کی یادگار
پیار کا عُنوان میزانِ غزل
عبدالرزّاق بے کل آزاد کشمیر
جس کی خوشبو سے معطّر ہے سخن
ایسا ہے گُل دان میزانِ غزل
طالب ہاشمی برہان پور بھارت
شاعری کی شان میزان غزل
علم کی پہچان میزانِ غزل
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا
شاعری کی جان میزانِ غزل
دکھ بھرا دیوان میزانِ غزل
امین اڈیرائی سندھ پاکستان
آئیگی وہ جلد ہاتھوں میں امین
ہے یہی اعلان میزانِ غزل
امین اڈیرائی سندھ پاکستان
اے خدا اس کو تو شہرت کر عطا
چڑھ گئی پروان میزانِ غزل
طالب ہاشمی بھارت
اس میں شائع ہو مری کوئی غزل
ہے یہی ارمان میزانِ غزل
ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی انڈیا
دیباچہ
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کی روز اول سے سعی رہی ہے کہ کچھ نیا کر دکھائے ،جو سب سے الگ تھلگ ہو نیز جو اردو ادب کے فروغ کے لیے ہو ،جو عصر حاضر اور مستقبل کے قلمکاروں کے لیے راہ نما ہو ۔۔۔۔ادب اپنے زمانے کے تاریخی ،معاشرتی و تمدنی عوامل کو درشاتا ہے ۔وہ عصری تغیرات میں سانس لیتا ہے ۔۔وہ حال کی اساس پر مستقبل کا لائحۂ عمل تیار کرتا ہے ۔۔وہ انقلاب تو برپا نہیں کرتا مگر اانقلابی روح بیدار کرتا ہے ۔وہ معاشرے کو آئینہ دکھاتا ہے ۔ اس پر جو گزرتی ہے رقم کرتا ہے ۔تبھی غالب سے ،،شہر آشوب ،،لکھواتا ہے ۔جوش سے ،،فرزندان ہند کے نام ،،لکھواتا ہے ۔فیض سے ،،اے روشنیوں کے شہر ،،تو ساحر سے ،،تیئس برس گزرے آزادیِ کامل کو ،،جیسے الفاظ کے ساتھ اردو دشمنوں پر وار کرتا ہے ۔
بالا امثال یقیناً نظم کے متعلق ہیں مگر اب غزل کا کینوس وسیع ہو گیا ہے ۔۔اب تنگ دامنی کی شکایت رفع ہوچکی ہے ۔۔حالی سے تا حال غزل کی حالت میں نمایاں فرق دیکھنے کو ملتا ہے ۔۔وہ صرف محبوب سے باتیں نہیں کرتی بلکہ زمانے کو آنکھیں دکھاتی ہے ۔ادب برائے ادب نہ ہوکر ادب برائے زندگی ہو تو وہ ہر دور میں تازہ کاری کی تصویر ہوتی ہے ۔۔۔غالب کی حکایت خونچکاں اور فیض کی ہم دیکھیں گے سوشل کمٹمنٹ لیے جاوداں ہیں ۔ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کی یہی کوشش ہے کہ نہ صرف ادب تخلیق ہو بلکہ اسے تنقید کی بھٹی سے گزار کندن بنایا جائے ۔۔
عصر حاضر کے معروف قلمکاروں کی غزلیات مع تنقید ،،میزان غزل ،،میں پیش کی گئی ہیں ۔اس کا روشن پہلو یہ ہے کہ ۔تنقیدی گفتگو بے لاگ و بے باک ہے ۔۔شاعر کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں !۔نقد ونظر اس محرک کی منہ بولتی تصویر ہے کہ ،
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری کے کے اس مستحسن اقدام کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے ۔ادارے کے بانی و چیئرمین توصیف ترنل کو دلی مبارکباد اس خواہش کے ساتھ کہ وہ مستقبل میں بھی اردو ادب کے فروغ کے لیے نئے ابواب وا کریں گے ۔۔اور شفافیت کے ساتھ نئی ادبی تحریکات کو اردو دنیا سے متعارف کرائیں گے ۔