میرے شہر والے…..24
باباۓ اردو…مولوی عبدا لحق
اردو ہے جس کا نام ہمی جانتےہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
زبانیں ساری خوبصورت ہوتی ہیں لیکن کچھ زبانیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں وہ بھی پسند کرتےہیں جنکی اپنی زبان کوئی اور ہوتی ہے. مثلاﹰ انگریز اپنی زبان میں لاطینی یا فرانسیسی گھولتے رہتےہیں یا ہم فارسی کے جملے یا اشعار استعمال کرکے اپنے پڑھے لکھے ہونےکا ثبوت دیتے رہتےہیں.
تین چار دن پہلے مجھے دوبئی میں ایک کل ہند مشاعرہ اور کوی سمیلن سننے کا اتفاق ہوا. نظامت کے فرائض ایک ھندی کے کوی سرانجام دے رہے تھے. وقتاًفوقتاً وہ اردو کے اشعار بھی سناتے اور اس وقت ان کے چہرے پر فخر کی لہر نظر آتی کہ وہ بھی اردوداں لوگوں کی طرح نستعلیق ہیں
اردو کی ہی خوبی ہے کہ اس کو جو مقام عطا ہوا وہ غیر اہل زباں کا مرہون منت زیادہ ہے.
علامہ اقبال،فیض، حفیظ ،ندیم، منیر نیازی اور سینکڑوں ایسے اہل ادب ہیں جنکی مادری زبان اردو نہیں ہے.
میرے فیس بک کے بہت سے احباب ( مجھ سمیت) اہل زبان نہیں ہیں لیکن انکی اردو کی قابلیت اور اردو سے محبت اہل زبان سے کہیں زیاده ہے.
جیسے میرے اپنے.
میں دوسری جماعت میں تھا کہ یوم آزادی کی چھٹی کے دو دن بعد اسکول لگنے کے ایک گھنٹے بعد ہی چھٹی کی گھنٹی بج گئی(جس سے تمام طلبہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی) . معلوم ہوا کہ با بائے اردو کا انتقال ہوگیا ہے. ہم نہیں جانتے تھے کہ یہ کون صاحب ہیں. اسکول سے نکل کر ایک قریبی چائے کے ہوٹل،( جی ہاں آج بھی کراچی میں چائے خانوں اور ریستوران کو ہوٹل ہی کہا جاتا ہے) میں اخبار "نئی روشنی " میں باباۓ اردو کے انتقال کی خبر پڑھی اور تصویر دیکھی جو بالکل ہمارے ایک رشتہ کے دادا سے ملتی تھی. اس دن کے بعد سے با بائے اردو ہمیشہ اپنے اپنے سے لگے. انکی تصویر دیکھ کر ان کا ایسا ہی احترام کرتےتھے جیسا اپنے بزرگوں کا.
شاید نویں یا دسویں جماعت کے اردو کے کورس میں انکی کتاب "چند ہم عصر" سے ایک مضمون "نامدیومالی" شامل تھا. تب جاکے ان کے تفصیلی حالات یاد کرنے پڑے کہ نام عبدالحق، ہاپڑ ضلع بجنور میں پیدا ہوئے، وغیره وغیرہ
مجسم اردو
اگر اپنے مشن اور مقصد سے وابستگی کی اعلیٰ ترین مثال دیکھنا ہو تو باباۓ اردو کا ثانی نہیں ملیگا. ان کی ساری زندگى صرف اور صرف اردو پر ہی محیط ہے. ان کا اوڑھنا بچھونا، دوستی دشمنی سب کچھ اردو ہی تھی.
مولوی صاحب سرسید اور شبلی نعمانی کی آنکھیں دیکھے ہوئےتھے اور ان ہی کی طرح اپنے مقصد سے دیوانوں کی طرح وابستہ.
حیدرآباد دکن میں اردو کی پہلی یونیوسٹی، جامعہ عثمانیہ ،پھر انجمن ترقی اردو، دار الترجمہ،پاکستان آنے کے بعد اردو کالج کا قیام اور ایک طویل فہرست اردو کی خدمت کی.
وہ نہ صرف اپنی تنخواہ بلکہ پنشن بھی انجمن پر خرچ کر دیتےتھے. یہاں تک کہ اپنے لکھنے پڑھنے کی آمدنی،اپنے قلم کی مزدوری بھی انجمن پر لگا دیتے.
مرض الموت میں مبتلا، بستر مرگ پر بھی قاموس الکتٰب کا مقدمہ لکھتے رہے.
با بائے اردو نے تو اپنے آپ کو اردو کیلئے وقف کردیا لیکن اردو ان کے بعد یتیم ہوتی چلی گئی. آج اردو زبان حال سے اپنے محسن کو آواز دے رہی ہے کہ
گیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔