میرے شہر والے۔۔۔۔۔۔۔47
یہ ریڈیو پاکستان کراچی ہے۔
کیا بودوباش پوچھو ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا شہر، عالم میں انتخاب، کبھی ایک بہت پرسکون شہر ہوا کرتا تھا۔ یوں نہین تھا کہ یہاں ابادی نہ تھی اور لوگوں کی چہل پہل نہ تھی۔ میں نے تو ہمیشہ یہاں رونقیں ہی دیکھیں۔بڑے سے بڑا سانحہ یا واقعہ ہو، میرے شہر میں زندگی رواں دواں رہتی ہے۔ ان دنوں بھی جوڑیا بازار، بولٹن مارکیٹ ، صدر اور بوہری بازار میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ لیکن ٹریفک اس قدر بے ہنگم نہیں تھا۔رکشا اور منی بسوں کی ایسی ریل پیل نہیں تھی اور سب سے بڑھکر ان منحوس گولیوں اور دھماکوں کی اوازیں نہیں تھیں جن سے میرا پورا ملک گونج رہا ہے۔ ٓادمی کو ادمی کاڈر نہ تھا۔ بازار میں چلتے ہوئے جان کا خوف نہیں تھا، دن دھاڑے مال و متاع لٹ جانے کی فکر نہ تھی۔
اس وقت بھی یہ زندگی سے بھر پور، روشنیوں کا شہر تھا جہاں ملک کے کونے کونے سے لوگ ٓانکھوں میں خواب سجائے ٓاتے اور انکی تعبیریں پاتے تھے۔میرے شہر نے کھی کسی کو مایوس نہیں کیا۔
ہم ہمیشہ شہر کے مضافات میں رہے جہاں زندگی عموما پرسکون ہوا کرتی تھی۔ پڑوسی ایکدوسرے کا خیال رکھتےتھے محلے کی مائیں سب کی خالہ ہوا کرتیں تھیں۔بزرگ چاہے دوسرے محلے کے ہوں انہیں ٓاتا دیکھ کر ہم کھیل روک دیتے اور انہیں گذرنے دیتے۔ سگرٹ پینے والے اپنی سگریٹ چھپا لیتے۔ بسوں میں نوجوان، عمر رسیدہ لوگوں کیلٗے نشست خالی کر دیتے۔
اب سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ کیسے مختلف زبانیں بولنے والے اور مختلف قوموں اور مذہب اور مسلک کے لوگ باہم شیر وشکر رہتے تھے۔
بہار کالونی میں جہاں سب سے پہلے ہم رہے، ہمارے ہمسایہ ایک عیسائی خاندان تھا۔ ہم کرایہ پر رہتے تھے۔ مکان کے نچلے حصے میں کبھی میمن تو کبھی پنجابی کرایہ دار رہتے۔ سامنے کے گھروں میں ایک گھر کچھی میمن، جنکے پڑوس میں ایک بوہری خاندان رہتا تھا۔ اگلا گھر امروہے کے سادات کا تھا جہان مجالس عزا منعقد ہوتیں۔ اس سے جڑے ہوئے مکان میں حیدرٓابادی اور ٓاخری مکان ایک پشتون خاندان کا تھا۔
گورنمنٹ اسکول بہار کالونی میں ہمارے ساتھ، اوروں کے علاوہ شیدی مکرانی، بلوچ اور یہانتک کہ کچھی ہندو بھی پڑھتے تھے۔ یہاں کے ڈاکٹروں کی ایک جوڑی بڑی مشہور تھی۔نام تو جنے ان کا کیا تھا مگر وہ بنگالی اور بہاری ڈاکٹر کے نام سے پہچانے جاتے۔
غرضیکہ لانڈھی، کورنگی،بہادرٓاباد سوسائٹی، گلشن اقبال جہاں کہیں ہم رہے پاس پڑوس اور محلے میں، بنگالی، پٹھان، پنجابی، رانگڑ راجپوت، کاٹھیا واری، بوہری، خوجے، گلگتی، بلتی، شیدی، بلوچ، یہان تک کہ سوسا ئٹی میں ہمارے دوست انڈونیشی بھی تھے۔ کالج میں زنجباری، ایسٹ افریکن، عرب لڑکے ہمارے ساتھ پڑھتے تھے۔ پارسی طلبہ تو ہمارے کالج کی شان تھے اور امتحانوں میں اکثر ہمارے کالج کی پارسی لڑکیاں پوزیشن حاصل کیا کرتیں۔
خیر یہ ایک لمبی کہانی ہے اس دور کی رواداری اور بھائی چارے کی۔ عرض یہ کرنا تھا کہ مجموعی طور پر راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔
ہوا کے دوش پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ایک آواز ایسی تھی جو اس سکوت کو توڑنے کے باوجود خوش کن لگتی تھی اور وہ تھی ریڈیو کی ٓاواز۔
بھلے دنوں میں وقت گذاری کا سب سے بڑا سہارا ریڈیو ہی تھاریڈیورکھنا بھی ہر کس و ناکس کے بس مین نہیں تھا۔ لیکن بقول فراز
ہوا کسی کی نہیں
ہوا کی لہروں کے دوش بدوش پاس پڑوس کے لوگ بھی اس سے مستفید ہوتے۔ ہوٹلوں ، چائے خانوں اور دکانوں پر سارا دن فلمی گانے اور خبریں وغیرہ با آواز بلند جاری رہتے۔ یادش بخیر، سن ساٹھ کے ابتدائی سالوں کی بات ہے، ہمارے محلے کے ایک درزی کی دکان پر کرکٹ کی کمنٹری چلتی رہتی۔ محلے کے لڑکے ایک بورڈ پر تازہ ترین اسکور لکھتے رہتے، کوئی راہگیر رک کر پوچھتا کہ حنیف کی سنچری ہو گئی یا فضل کی کتنی وکٹیں ہوئیں۔۔
ہمارے معمولات بھی ریڈیو پروگرام کے مطابق طے پاتے۔ بارہ بجے کمرشیل سروس کا میوزک سنتے ہی میں اپنا بستہ سنبھال اسکول کی راہ لیتا کہ لڑکوں کے اسکول دوپہر ساڑھے بارہ بجے شروع ہوتے تھے۔۔
ریڈیو کے شوقین صرف ایک ہی اسٹیشن پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ ان دنوں اچھے ریڈیو کو جانچنے کا پیمانہ صرف یہ تھا کہ اس پر ،، سیلون،، صاف سنائی دیتا ہو۔
ریڈیو سیلون سے صبح سویرے پرانے گیت اور بدھ کی شام کو بناکا گیت مالا کے علاوہ ٓاکاش وانی دلی، ایران زاہدان اور ریڈیو جنوبی ایشیا کے علاوہ خبروں کیلئے بی بی سی بھی بڑے شوق سے سنے جاتے تھے۔
لیکن یہ اسٹیشن خاص پروگراموں کیلئے تھے۔ ہمار اپنا ریڈیو پاکستان، کراچی اتنے دلچسپ اور متنوع پروگرام پیش کرتا کہ ٓاج بھی کانوں میں وہ ٓاوازیں گونجتی ہیں۔
کراچی ریڈیو کی خوش قسمتی کہ اسے زیڈ اے بخاری جیسا براڈکاسٹر اور منتظم ملا۔ اسکے علاوہ ایک سے ایک نادر روزگار صداکار، لکھنے والے، موسیقار، گلوکار اور دیگر فنکار اور ہنر مند میسر ٓائے۔
آیئے ٓاج چند پروگراموں کو یاد کرتے ہیں۔
ان کا نہ کوئی ریکارڈ میسر ہے نہ ہی مجھے وثوق سے یاد ہے کہ کونسا پروگرام کس دن ہوتا تھا۔ یہ ساری ماضی کی دھندلی سی یادیں ہیں۔ مجھے خوشی ھوگی کہ میرے باخبر احباب، عابد علی بیگ،، احمد خان، ناظم الدین ناظم اور عقیل عباس جعفری مناسب تصحیح اور رہنمائی فرمائیں۔
قرٓان حکیم اور ہماری زندگی۔
دن کا ٓاغازعلی الصبح عام طور پر قاری زاہر قاسمی کی تلاوت قرٓان سے ہوتا جسکے بعد مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کا درس قرٓان ہوتا۔ پھر اکثر مہدی حسن کی پرسوز آواز میں انکی ساتھیوں نسیمہ شاہین، فریدہ علی اور مدھو الماس کی ہمنوائی میں حمد باری تعالیٰ اور نعت رسول مقبول پیش کی جاتیں جو فضا میں ایک نور بکھیر دیتیں۔ شاید ٓاپ کو بھی یاد ہوں
دوسرا کون ہے جہاں تو ہے
زمین کے فرش پر عرش الٰہی کے مکیں ٓائے
شافع روز جزا، اللہ اکبر ٓاگیا
وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اور پھر کبھی ناصر جہاں کی منفرد اور پاکیزہ ااواز میں۔۔۔جب مدینے کا مسافر کوئی پاجاتا ہوں، کانوں میں رس گھولتی۔
اسکے بعد دینی موضوعات پر سید حسن مثنٰی ندوی، افتخار احمد بلخی اور حمید نسیم جیسے دانشوروں اور علما کی گفتگو ہوتی۔
۸۸ بجے اردو، انگریزی اور بنگلہ میں خبریں ہوتیں۔ میں اپنی ایک بلاگ میں دادا، شکیل احمد، انور بہزاد اور شمیم اعجاز کا ذکر کر چکا ہوں۔ بنگلہ خبریں عندل چوہدری اور دلارا ہاشم پڑھتیں۔ جبکہ انگریزی خبریں انیتا غلام علی، انور حسین، رضوان واسطی اور ایک بہت ہی مقبول ٓاواز والے ایڈورڈ کیرپیڈ پیش کرتے۔ اس سے ٓاپ خبروں کی ادائیگی کے معیار کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔۔
گیارہ بجے نشریات پھر شروع ہوتیں۔ ساڑھے گیارہ بجے طلبہ کا مقبول پروگرام اسکول براڈکاسٹ شروع ہوتا۔ یہ ناچیز بھی دو بار اس میں شامل ہو چکا ہے۔ بارہ بجے کمرشیل سروس شروع ہوتی جسمیں رنگ برنگے اشتہارات کے ساتھ فلمی گانے اور اسپانسرڈ پروگرام پیش کئے جاتے۔ بزم حئی سنز، ایس ایم سلیم پیش کرتے جسمیں فلمی ستاروں اور کھلاڑیوں وغیرہ سے بات چیت سنوائی جاتی۔ خواتین کا پروگرام ، سلمٰی باجی، جسے شاید ڈالڈا والے پیش کرتے تھے، طلعت صدیقی پیش کرتیں۔
شام کو مقامی خبروں کے ساتھ فوجی بھائیوں کا پروگرام ہوتا جسے شمیم اعجاز پیش کرتیں۔ بازار کے بھاٗو ابراہیم نفیس سناتے۔
یہ وہ پروگرام ہیں جو تقریبا ہر روز پیش کئے جاتے جبکہ کچھ پروگراموں کے دن مخصوص تھے۔
جمعہ کی دوپہرنعتیں اور قوالیاں پیش کی جاتیں۔ اسی دن ٓاپ کی خدمت میں زیڈ اے بخاری بھی ٓاتا تھا۔
جمعرات کی شب جب مولانا سلیم الدین شمسی اپنی پاٹ دار ٓاواز اور منفرد ترنم کے ساتھ مثنوی مولانائے روم پیش کرتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔
اور شاید جمعرات کی رات ہی ، دیکھتا چلا گیا۔ پیش کیا جاتا، جسے پہلے عبدالماجد اور ان کے انتقال کے بعد ایس ایم سلیم جیسے باکمال صداکار پیش کرتے۔ یہ ہمارے روزمرہ کے رویوں پر تبصرہ ہوتا جس کے ٓاخر میں ۔، سیلانی یہ سب دیکھتا رہا ، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلاگیا، شاید میرے دوستوں کی سماعتوں میں ٓاج بھی رس گھولتا ہوگا۔
منگل کی رات یاور مہدی شہر میں ہونے والی سرگرمیوں کی تفصیل پیش کرتے جسے وراثت مرزا کی خوبصورت ٓاواز میں پیش کیا جاتا۔ منگل ہی کی شب ایک مقبول پروگرام دھنک، جسے بعد میں کہکشان کا عنوان دیا گیا، پیش کیا جاتا تھا۔ مزاحیہ خاکوں کے اس پروگرام میں ، میرے دوستوں کو شاید، فسانہ ٓازاد کے کردار میاں خوجی کا "، نہ ہوئی قرولی ورنہ ہو جاتا کچھ" ، تو یاد ہوگا۔
پیر کی شب پورا گھر ریڈیو کے پاس بیٹھ جاتا۔ جی ہاں اس دن اسٹودیو نمبر نو پیش کیا جاتا تھا۔ مجھے ابتک بخاری صاحب اور ایس ایم سلیم کا لائٹ ہاوس کا محافظ، ٓاواز کے سائے اور کریم کے جوتےاور بہت سے ڈرامے یادٓاتے ہیں جو کئی بار پیش کئے گئے۔
پینسٹھ کی جنگ کے بعد ، شاہ بلیغ الدین کا ، ہماری کہانی تاریخ کی زبانی ایک بہترین اور سبق ٓاموز پروگرام تھا۔ اسی طرح اکہتر کی جنگ کے دوران طلعت حسین گھن گرج کے ساتھ ، جواباُ عرض ہے میں دشمن کے پروپگینڈے کا جواب دیتے۔ اس پروگرام کو چند ایک بار اداکار محمد علی نے بھی پیش کیا لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی۔
ہفتہ طلبا کیلئے نہ صرف طلبا بلکہ شہر کے بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی رات دیر گئے تک جاگتے۔ اس میں مقابلہ حسن قرات، مشاعرہ، اردو اور انگریزی مباحثے کے علاوہ میرا سب سے پسندیدہ پروگرام، مقابلہ معلومات عامہ جسے میجر ٓافتاب اور محمد فاٗئق پیش کرتے اور ٓاخری دن ادبی محاکمہ خاصے کی چیز ہوتا۔
کشتی، فٹبال اور ہاکی کی کمنٹری میں ایس ایم نقی اور کرکٹ کی کمنٹری میں عمر قریشی اور جمشید مارکر کی جوڑی کا جوڑ ٓاج تک نہیں پیدا ہوسکے۔
موسیقی کے پروگرام، ںذر حسین، مہدی ظہیر، لعل محمد اقبال، امراو بندو خان وغیرہ پیش کرتے۔ نجانے کس دن ، رات کے وقت گیتوں بھری کہانی پیش کی جاتی تھی۔
ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بہت سے پروگرام میرے دوستوں کی یاد سے محو ہو گئے ہوں۔ لیکن اتوار کے دن کے چند پروگرام ایسے ہیں جنھیں شاید ہی کوئی بھلا پائے۔
اتوار کی صبح پیامی (عبدالحکیم) ٓاپ کے خط پیش کرتے۔ اسکے بعد کراچی ریڈیو کی تاریخ کا طویل ترین عرصہ تک چلنے والا اور مقبول ترین پروگرام ، حامد میاں کے ہاں، جسے انتصار حسین لکھتے تھے ٓاتا۔ یون لگتا جیسے ہم حامد میاں کے گھر بیٹھے ہوں۔ حامد میاں (امیر خان) ک"ا یہ دیکھئے گ"ا، انکی بیگم صفیہ معینی کا ،" میں کہے دیتی ہوں! اور انکے سالے انجم (افضل صدیقی) کے "، جناب والا،" ٓج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں اسکے علاوہ، صفدر(جمشید انصاری) اور احسان (محمود ؑعلی) اور حامد میاں کے پڑوسی (نام یاد نہیں رہا) انکی ملازمہ اب بھی زندہ محسوس ہوتے ہیں۔
دس بجے ، السلام علیکم بچوں اور السلام علیکم بھائجان کے ساتھ ایک ہنستی ،کھلکھلاتی ٓاواز ابھرتی تو گویا سارے گھر میں گھنٹیاں سی بج اٹھتیں۔ جی ہان یہ سب کی محبوب منی باجی کی ٓاواز ہوتی اور پروگرام ہوتا بچوں کی دنیا جس میں ظفر صدیقی بھائجان ہوتے۔ ہر دوسرے تیسرے مہینے ، گویا کہ کراچی کا قومی ترانہ، یعنی ؛ بندر روڈ سے کیماڑی ضرور سنوایا جاتا۔
اتوار کی صبح ایک نہایت شاندار پروگرام ، صبحدم دروازہ خاور کھلا ، ٓاتا جسے محمد فائق کے ساتھ، کوئلوں جیسی ٓاواز اور پریوں کی سی صورت والی غزالہ رفیق پیش کرتیں۔ یوں جانیں یہ ان دنوں کا ، فیس بک، تھا۔ اس میں بڑی نادر اور نایاب چیزیں، مشہور لوگوں کے انٹرویو، بھولے بسرے گیت، دلچسپ باتیں اور نجانے کیا کیا کچھ ہوتا جو ٓاپ کو ایک لمحے کیلئے بھی ریڈیو کے پاس سے ہٹنے نہ دیتا۔
اسی طرز کا ایک پروگرام طلبہ کیلئے رات کو محمد نقی، شب کو ہے گنجینہ گوہر کھلا، کے عنوان سے پیش کرتے لیکن اتوار کی صبح، حلوہ پوری یا نہاری کے ناشتے کے ساتھ جو مزہ ، صبحدم دروازہ خاور کھلا، میں ٓاتا اس کا ؑعالم ہی نرالا تھا۔
اب سنا ہے کہ سائنس نے بڑی ترقی کرلی ہے۔ ریڈیو اسٹیشنوں کے پاس جدید سازو سامان اور ٹکنالوجی ٓاگئے ہیں۔ چوبیس گھنٹے چلنے والے اور ایف ایم اسٹیشن بن گئے ہیں۔
لیکن ٓاپ ایمانداری سے بتائیں ان میں سے کسی کے پاس بخاری صاحب، شکیل احمد، امیر خان، ایس ایم سلیم، عبدالماجد، مہدی ظہیر کا پاسنگ بھی ہے۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔