میرے شہر والے۔۔۔۔۔۔۔50
کبھی ہم خوبصورت تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ٓاپ کبھی دوبئی ٓائیں تو ایرپورٹ سے دیرہ دوبٗی کی طرف جاتے ہوٗے جب پہلے ٹریفک سگنلز پر جہاں سے داہنے ہاتھ پر شارجہ کا راستہ شروع ہوتا ہے، ویاں سڑک کی دوسری جانب ایک سفید رنگ کی عمارت دیکھیں گے۔ یہ عمارت مشرقی طرز تعمیر کا نمونہ ہے اور اسکی محراب نما کھڑکیاں کسی تاریخی یا قدیم عمارت ہونے کا تاثر دیتی ہیں۔
اب ذرا ان تصویروں پر نظر دوڑائیں۔۔ سفید حاشیوں والی تصویر میں بھورے رنگ کی ایک وسیع و عریض عمارت کے گنبد اور محرابوں وغیرہ سے لگتا ہے کہ یہ بھی کوئی تاریخی عمارت ہے۔
دوبئی کی جس عمارت کا میں نے ذکر کیا وہ صرف چند سال پرانی ہے اور تصویر میں جو شارجہ والی عمارت ہے یہ اب تک زیر تعمیر ہے۔
عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ قدیم عمارتوں اور طرز تعمیر کا اپنا ایک حسن، ایک جاذبیت ہوتی ہے۔ دوبئی جہاں جدید عمارتوں کی بھرمار ہے وہ بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ اصل حسن پرانی عمارتوں ہی کا ہوتا ہے۔
اگر ٓاپ لندن جائیں تو وہاں کوئی ٓاپ کو کسی نئی عمارت میں نہیں لے جائے گا۔ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز، پارلیمنٹ ہاوس، بگ بین، ویسٹ منسٹر ایبے، بکنگھم پیلس اور ٹیمز کا پل ہی ہوتے ہیں۔
دہلی میں لال قلعہ، قطب مینار ٓاپ کی دلی کی سیر کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور اپنے لاہور میں واپڈا ہاوس نہیں بلکہ بادشاہی مسجد، شالامار باغ اور قلعہ ہوتے ہیں جو لاہور پہلی بار ٓانیوالوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔
میں ٓاپ کو اکثر بتا چکا ہوں کہ میں ہمیشہ شہر کے مضافات ہی میں رہا۔ بچپن میں جب کبھی بہار کالونی سے شہر ٓانا ہوتا تو میرے شہر کا ایک عجیب ہی سحر ہوتا۔ ٓاپ کو شاید لندن ، پیرس، نیویارک میں وہ حسن نظر نہ ٓائے جو مجھے اس زمانے کے کراچی میں نظر ٓاتا تھا۔
سڑکیں عام طور پر صاف ستھری ہوتی تھیں۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ بندر روڈ پر اکثر سڑکوں کے کنارے فٹ پاتھ کے ساتھ گھاس کا قطعے ہوتے جنکے ساتھ، پام (ناریل) کے بلند بالا درخت ہوتے جن پر پاکولا والوں نے اپنی بوتلوں کے اشتہار پینٹ کئے ہوتے تھے۔۔ جہانگیر پارک، برنس گارڈن میں لوگ باگ دفتروں سے واپسی پر دن بھر کی تھکن اتارنے کیلئے مالشیوں کے ٓاگے بیٹھے نظر ٓاتے۔ شہر کے خوبصورت ساحل کلفٹن، ہاکس بے، سینڈزپٹ اور منوڑا میں نہ صرف میرے شہر کے لوگ بلکہ غیر ملکی بھی غسل ٓافتابی لیتے نظر ٓاتے۔ روما شبانہ، تاج، لیڈو، ایکسلسئر، میٹروپول، بیچ ؛لگژری جیسے نائٹ کلبس تھے جہاں اکثر غیر ملکی رقاصائیں دعوت نظارہ دیتیں۔ سینماوں میں نہ صرف اردو اور انگریزی کی بہتریں فلمیں لگتیں بلکہ بہت سے سینیما ہالوں کی کافی، سینڈوچ، ٓالو چھولے اور بند کباب وغیرہ بھی مشہور ہوتے۔ لوگ باگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ فلمیں دیکھنے جاتے اور فلم دیکھنا ایک خوشگوار اور یاد گار تجربہ ہوتا۔ شام کے وقت شہر کے پرانے باسی یعنی گوانیز کرسچینز اور بوڑھے پارسی وکٹوریہ گاڑیوں میں ہوا خوری کیلئے نکلتے۔ الفی یعنی الفنسٹن استریٹ پر کتابوں، پھولوں اور ہر مشہور برانڈ کی اشیاٗ کی دکانیں ہوتیں۔ ریسٹورنٹس صاف ستھرے ہوتے اور بعض علاقے اور ریستوران اپنے مخصوص کھانوں کیلئے مشہور ہوتے۔
میرے شہر کا وہ علاقہ جو اولڈ ایریا کہلاتا ہے یہ جمشید روڈ، ؑعامل کالونی، پارسی کالونی، سولجر بازار، بندر روڈ، صدر، سول لائنز اور کینٹ وغیرہ کے علاقے تھے جہاں نہ صرف برطانوی راج کے دور کی عمارتیں بلکہ، ہندووں، پارسی، کرسچئنز یہاں تک کہ یہودیوں کی بنا ئی ہوئی عمارتٰیں، جو کہیں گوتھک تو کہیں راجھستانی اور کہیں سندھی طرز تعمیر کے دلپذیر نمونے پیش کرتیں۔
پورٹ ٹرسٹ ہاوس، میری ویدر ٹاور، لکشمی بلڈنگ، ریڈیو پاکستان، کراچی گرامر اسکول، سینٹ پیٹرک، سینٹ جوزف، سینٹ اینڈریوز، ہولی ٹرینیٹی اور میتھوڈسٹ چرچ اور اسکول، ماما پارسی، این جے ویی، سندھ مدرسہ اسکول، ڈی جے اور این ای ڈی کالج، میٹھارام ہوسٹل، کینٹ اور سٹی اسٹیشن، کراچی جیمخانہ، کراچی کلب، سندھ کلب، خالقدینا ہال، ڈینسو ہال؛، تھیوسوفیکل ہال، فری میسن کلب، سٹی کورٹ، ہائکورٹ، سندھ اسمبلی، گورنر ہاوس، فلیگ اسٹاف ہاوس، ہندو جیمخانہ، پارسی جیمخانہ، لیمارکیٹ، سولجر مارکیٹ، بلدیہ کراچی کی عمارت، وکٹوریہ مویزیم، منوڑہ کا لائٹ ہاوس، گاندھی گارڈن، اسٹار گیٹ، بوہری بازار، صدر اور بندر روڈ اور بولٹن مارکیٹ، پیلس اور برسٹل جیسے خوبصورت ہوٹل، گورا قبرستان، یہانتک کہ سنٹرل جیل اور نجانے کیا کیا تھا جو قیام پاکستان سے پہلے سے تھا اور ہمیں تحفے میں ملا تھا۔
یہ تمام عمارتیں اور علاقے اپنے سحر میں جکڑ لیتی تھیں۔ ان میں سے بہت کچھ اب بھی موجود ہے لیکن۔۔۔۔۔۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب تو یوں لگتا ہے کہ ہماری قسمت میں صرف نوحے، مرثیے اور ماتم ہی رہ گئے ہیں۔ اقدار کی بے قدری کانوحہ، رویوں کی ارذلی کا مرثیہ، روایات کی پامالی کا ماتم، عمارتوں اور اداروں کی بربادی کا رونا دھونا اور شہر کے پرسکون اور رواداری والے دنوں کا دکھڑا۔
کراچی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب۔۔۔۔۔اسے ،،اپنوں،، نے لوٹ کے ویران کردیا
میرے شہر کو برباد کرنے میں کسی دشمن کا ہاتھ نہیں۔ اسے ہماری پیسے کی ہوس، بدزوقی اور بد اعمالیاں کھا گئیں۔ اس شہر ناپرسان کو کسی نے اپنا شہر جانا ہی نہیں۔ یہ تو صرف پیسہ کمانے اور اپنی اپنی زندگیاں سنوارنے کی جگہ سمجھا گیا۔
کیا یہ بد نصیبی نہیں کہ ہمیں ہیرے ملے اور ہم نے انھیں کوئلوں میں بدل ڈالا۔ دنیا کے اور شہروں کی کیا مثال دوں، صرف دوبئی کی مثال لے لیں۔ ٓاج سے تیس سال قبل جب میں یہان ٓایا تو یہ شہر ہمارے میٹھادر اور کھارادر جیسا تھا اور ٓاج دنیا جانتی ہے کہ دوبئی کیا ہے۔
ہم چونکہ مسلمان ہیں شاید اس لئے ہماری حمیت نے گوارا نہیں کیا کہ انگریز، ہندو، پارسی اور دیگر کفار کی نشانیاں رہنے دیتے یا تو انہیں ختم کردیا یا انکی شکل و صورت ہی بگاڑ دی۔ سب سے پہلے تو انکے ناموں سے جان چھڑائی۔ گرومندر کو مشرف بہ اسلام کرکے سبیل والی مسجد بنایا، رام باغ ٓارام باغ قرار پایا، گاندھی گارڈن، زولوجیکل گارڈن بن گیا، جہانگیر پارک منشیات کے عادی لوگوں کی ٓاماجگاہ بن گیا، بندر روڈ(پرانی نمائش)، جمشید روڈ صدر وغیرہ کے خوبصورت بنگلے اور فلیٹس ڈھا کر شاپنگ پلازے اور بھدے سے رہائشی اپارٹمنٹس کھڑے کئے گئے۔
جن سینمائوں میں کبھی، ناٗئلہ، لاکھوں میں یک، کنیز، ارمان اور چکوری جیسی خوبصورت فلمیں لگتی تھی،وہاں مولاجٹ، وحشی گجر، جیرا بلیڈ جیسی فلمیں لگنے لگیں اور آہستہ ٓاہستہ شہر کا ماحول ہی وحشی جٹ ہوگیا۔
اس بد نصیب شہر کا رونا رؤں تو ساری رات بیت جائے ۔ کراچی کی بربادی پر کڑھنے والے، میرے شہر کے قدیم باسی، مشہور افسانہ نگار اور کالمسٹ جناب امر جلیل کی ایک ڈاکومینٹری بعنوان MY VANISHIN KARACHI دیکھ لیں۔
جسطرح ایمپریس مارکیٹ، ڈی جے کالج اور شہر کی دوسری خوبصورت یاد گاروں کو برباد کیا گیا ہے، یہ ڈاکومینٹری ٓاپ کو خون کے ٓانسو رلادے گی۔
چلیں رونا دھونا چھوڑیں۔ ٓائیں اپنے شہر کی چند ایک خوبصورت عمارتوں کی بات کرتے ہیں۔ شاید ہمارے دلوں میں اس شہر کی محبت جاگے اور ہم اس شہرکو اس کی کی خوبصورتی لوٹانے کے بارےمیں سوچیں۔
جہانگیر کوٹھاری پریڈ
Jahangir Kothari Parade & Lady Lloyd Pier
……………………………………………………………..
وہ کون ہے جس نے کراچی دیکھا اور کلفٹن نہ دیکھا۔ کلفٹن پر عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے کچھ پہلے ایک خوبصورت چبوترۃ جس پر ایک برج بنا ہوا ہوا ہے۔ یہ کلفٹن کی برجی کہلاتی ہے لیکن شاید بہت کم اس کا اصل نام جانتے ہیں۔
یہ خوبصورت یاد گار دو حصوں پر مشتمل ہے ایک تو سلامی کا چبوترہThe Promenade Pavilion اور دوسرا حصہ وہ طویل سیڑھیان ہیں جو سمندر تک اترتی چلی جاتی ہیں جہان شاید اب بھی دیوار پر سنگ مرمر کی تختی پرلکھا ہوا ہے Lady Lloyd Pier
سر جان لائیڈ ، گورنر ٓاف بمبئی کی بیگم ، لیڈی لائیڈ سے متاثر، میرے شہر کے ایک پارسی تاجر اور سماجی کارکن سیٹھ جہانگیر ہرمزجی کوٹھاری نے تین لاکھ کی لاگت سے یہ خوبصورت یادگار 1919 میں تعمیر کی اور 1920 میں لیڈی لائییڈ کے ہاتھوں ہی اس کا فتتاح کروایا اور کراچی والوں کو بظور تحفہ عطا کیا۔
شکریہ سیٹھ جہانگیر
ایک خوشگوار چیز یہ ہوئی کہ سب 2005 میں اسکے ساتھ میرے شہر کی حکومت نے 130 ایکڑ پر پھیلا ہوا ایک انتہائی خوبصورت اور پاکستان کا سب سے بڑا پارک، ابن قاسم باغ تعمیر کیا جس کا افتتاح اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے ہاتھوں ہوا۔۔
شہر کے ہنگاموں سے تنگ ٓاکر لوگ یہان ٓاکر سکون پاتے ہیں۔ یہ میرے شہر کیلئے ایک نعمت ہے۔
شکریہ سید مصطفے کمال
ایمپریس مارکٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید میرے بچے اور نوجوان دوست یقین نہ کریں۔ کسی زمانے میں کبھی اپنے والد اور کبھی والدہ کے ساتھ گھر کی ماہانہ خریداری کیلئے صدر کے بیچوں بیچ واقؑع اس مارکیٹ میں جایا کرتا تھا او میرے ہفت زبان ابا جان کسی دکاندار سے گجراتی، میمنی ، کسی سے پشتو یا بلوچی میں بات کرتے اور ہیمیں اوروں کی نسبت کچھ زیادہ رعایت مل جاتی۔ امی کو یہاں وہ چیزیں مل جاتیں جو شہر کے کسی علاقے میں نہیں ملتیں اور جن چیزوں کے نام سے بھی لوگ واقف نہیں ہوتے۔ یہاں گوشت اور مچھلی کی بے حد صاف ستھری مارکیٹ بھی ہوا کرتی تھیں۔
ٓاج شاید میرے شہر والے اس یاد گارعمارت میں داخل بھی نہ ہوتے ہوں جو 1889 میں کوئین وکٹوریہ ایمپریس ٓاف انڈیا کے نام پر تعمیر کی گئی تھی۔ کوئین وکٹوریہ اگر اس مارکیٹ کی موجودہ حالت دیکھ لے تو اپنے نام کو ہٹانے کی درخواست کردے۔
اس کی تعمیر سے کچھ ناخوشگوار تاریخی واقعات بھی وابستہ ہیں۔ 1857 کی ناکام بغاوت جسے فرنگی ، غدر کا نام دیتے ہیں، کے بعد، اسی جگہ سینکڑوں دیسی سپاہیوں کو توپ سے اڑا دیا گیا تھا۔
گورنر ٓاف بمبئی جیمز فرگوسن نے اس کا سنگ بنیاد رکھا، اس کا ڈیزائن اسٹریچن جونز نے اور تعمیر مقامی ٹھیکیداروں محمود نوان اور، دلو کھیجو، کی کمپنی نے کی۔
میرے شہر کی یہ خوبصورت پہچان اپنے باسیوں کی طرف دیکھ رہی ہے کہ کون ٓاکر مجھے سنوارتا ہے اور میرے بیتے دن مجھے لوٹا تا ہے۔
فریر ہال
Frere Hall
………………
میرے شہر والے اور باہر سے ٓانیوالے چھٹی کے دن سیر و تفریح کیلئے بیوی بچوں کو لیکر، کلفٹن، سی ویو، منوڑا، مزار قائد اعظم، ہل پارک، سفاری پارک اور چڑیا گھر وغیرہ جانتے ہیں، مجھے یہ تجسس ہے کہ کیا کبھی کوئی اپنے اہل خانہ کو سول لائنز(عبداللہ ہارون روڈ) اور بونس روڈ(فاطمہ جناح روڈ) کے درمیان واقع گوتھک طرز کی اس انتہائی خوبصورت عمارت اور اس سے متصل پارک کی سیر کرانے لے گیا ہے۔
زرد چونے اور جنگ شاہی کے سرخ اور اودے پتھروں سے 1865 مین ایک لاکھ اسی ہزار روپے سے تعمیر شدہ یہ عمارت سر ہنری بارٹل ایڈورڈ فریر کے اعزاز میں تعمیر کی گئی جنہوں نی سندھ کی معاشی اور تعلیمی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے علاوہ سندھی کو واحد سرکاری زبان قرار دینے کا کارنامہ انجام دیا تھا۔
برطانوی راج میں اسے ٹاؤن ھال کی حیثتیت حاصل تھی۔شہر کے مخیر تاجر ایڈولجی ڈنشا نے اسے شاہ ایڈورڈ کے بے حد خوبصورت مجسمے عطیہ کئے جو فواروں پر نصب تھے۔
پاکستان بننے ک بعد اس سے متصل پارک کو باغ جناح کا نام دیا گیا، کسی زمانے میں یہان لیاقت نیشنل لائبریری ہوا کرتی تھی۔ لائبریریوں کے شوق کا مارا ، میں ایک زمانے میں یہان پہنچا تو اس پر تالا پڑا ہوا تھا کہ عمارت کی مرمت ہو رہی ہے۔ بعد میں سنا کہ یہاں صادقین کے فن پاروں کی گیلری قائم کی گئی۔ اب نجانے یہان کیا ہے۔
یہ عمارت میرے شہر کی شان ہے۔ اسے برباد نہ ہونے دینا میرے شہر والو
موہٹہ پیلس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلفٹن پرعبداللہ شاہ غازی کی درگاہ سے اتر کر اگر ٓاپ شاہراہ ایران کی طرف چلیں تو کچھ ہی فاصلے پر ایک بے حد خوبصورت محل نما عمارت نظر ٓئے گی۔ اس سہ منزلہ عمارت کی محرابیں، گنبد، مینار، جھروکے ٓاپ کو اپنے سحر میں جکڑ لیں گے۔ گلابی جودھپوری پتھر اور مقامی، گذری کی زرد مٹی سے بنی یہ راجستھانی طرز تعمیر کا یہ شاہکار، مارواڑ کے سیٹھ شیوارتن چندر رتن موہتہ کا گرمائی محل تھا جو انھوں نے 1927 میں تعمیر کیا تھا۔ مگر قسمت نے انہیں صرف بیس برس اس محل میں رہنے دیا۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد سیٹھ موہٹہ نے اپنے خوابوں کا محل چھوڑ کر ہندوستان کی راہ لی۔ اول اول اس میں نئی مملکت کی وزارت خارجہ کا دفتر قائم ہوا۔ 1964 میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اس میں رہائش اختیار کی اور یہ قصر فاطمہ کہلانے لگا۔ محترمہ کا انتقال بھی اسی عمارت میں ہوا۔
1995 میں حکومت سندھ نے اسے خرید کر یہاں ٓارٹس ٓاف پاکستان میوزیم قائم کردیا۔ عمارت کے عقب میں کچھ مجسمے (جس میں ملکہ وکٹوریا کا مجسمہ بھی تھا) ہوا کرتے تھے۔ نجانے اب وہ وہاں ہیں یا نہیں۔
موہٹہ پیلس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ کچھ ٓاسیب زدہ وغیرہ ہے۔ اسکے مالک موہٹہ کو صرف بیس سال اس میں رہنا نصیب ہوا۔ مادر ملت کا انتقال بھی مشکوک حالات میں ہوا۔
میں ان باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ لیکن وزارت خارجہ کا پہلا دفتر یہاں ہونے سے کچھ شبہ ہوتا ہے کہ ہماری خارجی پالیسی پر جو ٓاسیب کا اثر ہے وہ شاید اسی وجہ سے ہو،،،
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے شہر والو۔۔۔ ہمارا شہر اب بھی بہت خوبصورت ہے اور بہت زیادہ خوبصورت اور پر سکون بن سکتا ہے اور انشا اللہ ضرور بنے گا۔ خدا کرے ہمارے شہر کی پہچان مزار قائد، ابن قاسم پارک، موہٹہ پیلس اور فریر ھال جیسی عمارتیں ہوں نہ کہ کٹی پہاڑی، کھجی گراونڈ یا سہراب گوٹھ میرے شہر کا حوالہ بنیں۔
شاد باد منزل مراد
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔