1979 میں جب میں یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہوا تو اُس وقت میری عمر بائیس سال تھی۔ میں مڈل کلاس گھرانے کا ایک ایسا نوجوان تھا جس کی آنکھوں میں آئیندہ زندگی کے خوبصورت سپنے سجے ہوتے ہیں کہ اب برسرِ روزگار ہو جانے کے بعد ایک خود مختار زندگی کا آغاز ہو گا،
بہرحال جب میں نے پہلی بار دفتر جانا شروع کیا تو شام کو میں پبلک بس سے گھر واپس جاتا تھا، وہ پبلک بس "آرام باغ" (کبھی یہ رام باغ ہوا کرتا تھا) کے اسٹاپ پر کچھ دیر کے لیے رکتی تھی تو میری نظر اکثر اس بورڈ پر پڑتی تھی جو سامنے ہی سڑک کنارے ایک دکان پر آویزاں تھا (یہ بورڈ ابھی بھی آویزاں ہے) اُس بورڈ پر مجھے سب سے عجیب لفظ "سادھنا اوشد ھالیه" لگتا تھا۔
اب میری متجسس طبیعت نے اس کا کھوج لگا کر اس کی حقیقت اور تفصیل جاننے کی کوشش شروع کر دی، جس کے نتیجے میں ایک دلخراش خونچکاں داستان سامنے آئی۔
اس کہانی کے مظلوم ہیرو کا نام ہے "جوگیش چندر گھوش" جو متحدہ ہندوستان کی تقسیم سے کئی دہائیوں قبل یعنی 1887 میں "برطانوی ہند" کے شہر ڈھاکہ میں پیدا ہوئے۔
آپ ایک اسکالر، آیور وید پریکٹیشنر، کاروباری اور مخیر انسان تھے۔ جوگیش چندر گھوش نے 1908 میں بھاگل پور کالج میں کیمسٹری کے پروفیسر کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔
بھاگل پور میں گھوش نے "آیور وید" میں دلچسپی لینا شروع کردی تھی۔ 1914 میں انہوں نے ڈھاکا میں "سادھنا اوشدالیہ" کے نام سے ایک "آیورویدک دوائی اسٹور" قائم کیا۔ سادھنا اوشادالیہ کی آیورویدک دوائیں بہت مقبول ہوئیں۔ بنگال کے ساتھ ساتھ برطانوی ہند کے دوسرے حصوں میں بھی شاخیں کھولی گئیں۔ اس کی چین، شمالی امریکہ اور افریقہ میں بھی تقسیم کار ایجنسیاں قایم ہو گئیں۔
"جوگیش چندر گھوش" لندن کی کیمیکل سوسائٹی (ایف سی ایس) کے فیلو اور یو ایس کیمیکل سوسائٹی (ایم سی ایس) کے ممبر بھی تھے۔ انہوں نے بیماریوں کی وجوہات، آیورویدک دوائی و علاج، اور صحت کی سائنس پر متعدد کتابیں بھی لکھیں۔ انہوں نے جلد ہی آیورویدک دوائیوں کی تیاری کے لئے ایک کیمیکل لیبارٹری بھی قائم کر لی تھی۔
1914 میں قائم یہ لیبارٹری مشرقی بنگال میں سدھانا اوشادالیہ اسٹور کی طرح اپنی نوعیت کی پہلی لیبارٹری تھی اور اس نے آیورویدک دوائیوں کو فروغ دینے میں کئی دہائیوں تک شاندار خدمات سر انجام دیں۔ ان کی وسیع تر تحقیق اور مشق سے ہی آیور ویدک علاج اور آیورویدک دوائی تیار کرنے کے طریقہ میں کمال حاصل ہوا۔
"آیور وید" برصغیر کا ایک قدیم طبی نظام ہے۔ یہ نظام ہندوستان میں پانچ ہزار سال پہلے شروع ہوا تھا۔
لفظ آیور وید دو سنسکرت الفاظ ”آیوش“ جِس کا معنی زندگی ہے اور ”وید“ جس کا معنی ”سائنس“ ہے سے مل کر بنا ہے، اس لیے اس کے لغوی معنی ہیں "زندگی کی سائنس"۔
دیگر ادویاتی نظاموں کے برعکس "آیور وید" بیماریوں کے علاج کے ساتھ ساتھ صحت مند طرز زندگی پر زیادہ دھیان مرکوز کرتا ہے۔ آیور وید علاج مکمل طور پر قدرتی جڑی بوٹیوں سے کیا جاتا ہے۔
ہندوستان 1947 میں تقسیم ہو گیا اور اس کے نتیجے میں نئے وجود میں آنے والے خطوں کو مشرقی پاکستان و مغربی پاکستان کا نام دیا گیا۔۔۔اس دوران خون ریز فسادات بھی ہوئے، بہت سے لوگ مارے گئے، بہت سے بےگھر ہو کر ہجرت کی صعوبتوں سے گزرے اور یوں وقت گزرتا گیا۔۔۔ لیکن آنے والی دو دہائیوں کے بعد پھر سے تقسیم کا بھیانک عمل شروع ہوا اور اس نئی ہونے والی تقسیم کے دوران ہی ہماری کہانی کے اسکالر ہیرو کو ختم کر دیا گیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 1971 میں بنگلا دیش کی جنگ آزادی کے آغاز کے ساتھ ہی "پاک فوج" نے ڈھاکہ میں خاص طور پر "ہندوؤں" کی رہائش گاہوں پر چھاپہ مار کارروائیوں شروع کر دیں۔
"سادھنا آشڈھالیہ" کے تمام ہندو ورکرز نے ہندوستان میں محفوظ پناہ کے لیے سرحد عبور کر لی اور فیکٹری کو چھوڑ دیا، مگر "جوگیش گھوش" نے اپنی جنم بھومی کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور تن تنہا اپنی اس بڑی اسٹیبلشمنٹ میں رہنے لگے۔۔۔ چار اپریل 1971 کی صبح کو "پاک فوج" کا ایک گروپ مقامی امن کمیٹی کے ایک ممبر کی سربراہی میں 71 دینناتھ سین روڈ، گندریہ، ڈھاکہ میں سادھنا آشڈالیہ کی فیکٹری میں دفتر کی تلاشی لینے کے بہانے داخل ہوا۔ ان میں سے چار فوجیوں نے 84 سالہ "جوگیش چندر" کو اوپر کی منزل پر چلنے کو کہا، ساتھ ساتھ ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ انہوں نے "آزادی پسندوں" کو پناہ اور مدد بھی فراہم کی تھی اور یوں ان کو عمارت کی پہلی منزل پر ان کے اپنے چیمبر میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ چند گھنٹوں میں ہی "سدھانا آشڈھالیہ" کے دیگر اداروں سمیت پوری فیکٹری کو تباہ کر دیا گیا اور قیمتی سامان لوٹ لیا گیا۔
میں سوچتا ہوں کہ وہ عالم شخص جس نے 1947 کے صدمے کو بھی جھیلا تھا لیکن ترکِ وطن کا خیال بھی کبھی دل میں نہیں لایا ہو گا کہ اسے اپنی اس زمین سے محبت تھی اور اسے اس طرح مار دیا گیا۔۔۔ وہ چاہتا تو آرام سے ترکِ وطن کر کے اپنی زندگی کو ان وحشی درندوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے محفوظ بنا سکتا تھا۔۔۔ کبھی کبھی تو میں حیران بھی ہوتا ہوں اور پریشان بھی کہ عبدالکلام کو بھارت کا صدر بنا دیا جاتا ہے اور عبدالقدیر خان کو ہمارے یہاں بےعزت کیا جاتا ہے، یہاں پر پروفیسر ڈاکٹر ظفر عارف پُراسرار حالات میں قتل کر دیے جاتے ہیں اور وہاں جامعہ میلیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذاکر حسین کو بھارت کا صدر بنایا جاتا ہے۔۔۔ حکیم محمد سعید ہمارے ہی شہر کی ایک سڑک پر جیتے جاگتے انسان سے لاش بنا دیے جاتے ہیں اور بھارت میں ان کے بڑے بھائی "حکیم عبدالحمید" کو بھارت کے سب سے بڑے ایواڈ "پدما بھوشن" سے نوازا جاتا ہے۔۔۔
آہ افسوس کہ یہاں پر جوگیش چندر جیسے باکمال عالم اپنے ہی ہم وطن فوجیوں کی طرف سے چلائی جانے والی گولیوں سے بھون دیے جاتے ہیں!
“