خاندانی پس منظر
میرے والد کانام مرزا غلام نبی قادری ، دادا عبدالکریم اور پردادا کانام پیراں دتہ ہے ۔ہمارا تعلق مغل برادری سے ہے ۔ قیام پاکستان سے قبل ہمارا گھرانہ مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر کے گاؤں’’ سوہیاں کلاں‘‘ میں رہائش پذیر تھا ۔ میرے والد مرزا غلام نبی1920میں امرتسر میں پیدا ہوئے ۔میرے ایک چچا مرزا رشید احمد قادری اور دو پھوپھیاں تھیں ۔چچا رشید احمد قادری اباجان سے عمر میں بیس برس چھوٹے تھے۔1947میں میرے دادا جان امرتسر میں’’ ہال بازار‘‘ میں لکڑی اور لوہے کاکام کرتے تھے ، وہ راج گیری کاکام بھی جانتے تھے ۔
ہجرت کا سفر
ہال بازار امرتسر میں ہمارا ایک کنال کا گھر تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد میرے داداجان کی سربراہی میںہمارے گھرانے نے گھر کا سارا سامان ، مال مویشی وہیں چھوڑ دیے اور گڈوں کے قافلے کے ساتھ ہجرت کا سفر کیا ۔یہ قافلہ لاہور کے والٹن کیمپ میں پہنچا ۔ہجرت کے سفر میں میری دونوں پھوپھیاں اور ان کے گھرانے بھی دادا جان کے ساتھ تھے ۔ہمارے گھرانے اور امرتسر کے گاؤں سوہیاں کلاں کے دیگر گھرانوں نے لائل پور کے چک 54ڈھوٹیاں کو اپنا مسکن بنایا ،اباجان نے ہجرت کے بعد کسی قسم کا کلیم داخل نہیں کیا ۔انہوں نے ڈھوٹیاں گاؤں میں خراد مشین اور آٹے کی چکی لگائی اور اس طرح نئے وطن میں زندگی کا پہیہ ایک بار پھر رواں دواں ہو گیا۔
ننھیال
میرے ننھیال کاخاندان بھی امرتسر کے گاؤں ’’سوہیاں کلاں ‘‘ کا رہنے والاتھا ۔ میرے ناناجان کا نام عبد العزیز تھا اور وہ لکڑی کاکام کرتے تھے ۔میری والدہ کانام حمیدہ بی بی تھا ۔وہ قرآن شریف پڑھی ہوئی تھیں ۔میرے دوماموں حاجی محمد حنیف اور محمد حفیظ اور ایک خالہ تھیں ۔ میرے ننھیال کے خاندان نے بھی گڈوں کے قافلے کے ساتھ امرتسر سے ہجرت کا سفر کیا ۔ہجرت کے بعد یہ لوگ پہلے لائل پور کے گاؤں 54چک ڈھوٹیاں میں مقیم ہوئے اور چند ماہ بعد کوٹ ادو چلے گئے جہاں ان کو کلیم میں اراضی الاٹ ہو گئی تھی ۔
میرے والد ، ایک عظیم شخصیت
میرے والد نے امرتسر میں چھٹی جماعت تک سکول کی تعلیم حاصل کی ۔ان کی ہال بازار امرتسر میں خراد مشین تھی۔ انہیں فارسی شعر و ادب سے خصوصی شغف تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے اپنے گھر کا سارا سامان امرتسر میں چھوڑ کر پاکستان ہجرت کی ، وہ صرف ایک صندوق اپنے ساتھ لائے تھے جس میں مثنوی معنوی مولانا روم ، علامہ اقبال کی کتابیں ، امام غزالی کی کتاب کیمیائے سعادت ، دیوان مرزا صائب ، دیوان طاہر ، دیوان حافظ ،تصوف اور معرفت سے متعلق موضوعات پر کتب کا ذخیرہ موجود تھا ۔میرے والد کو فارسی کی تعلیم ان کے مرشد بابا فضل شاہ قادری ؒ نے دی تھی جو سلسلہ قادریہ فاضلیہ کے بزرگ تھے ۔بابا فضل شاہ قادریؒ کیرہائش بھی امرتسر کے گاؤں ’’سوہیاں کلاں ‘‘ میں تھی ۔میرے داداجان اور میرے دونوں پھوپھا بھی ان کے مرید تھے ۔بابا فضل شاہ صاحبؒ فرماتے تھے کہ میں نے آپ کو فارسی اپنی نگاہ سے پڑھا دی ہے ۔وہ اباجان سے مثنوی مولانا روم کے اشعار سنتے اور پھر کہتے کہ مجھے ان کا ترجمہ بھی سنائیں ۔
ڈھوٹیاں سے غلام محمد آباد منتقلی
1954میں میرے والد کو پتہ چلا کہ غلام محمد آباد کے نام سے نئی کالونی آباد ہو رہی ہے تو وہ چک54ڈھوٹیاں سے اکیلے غلام محمد آباد آ گئے اور یہاں لکڑی کے دروازے بنانے کا کام کرنے لگے ۔اس وقت انہیں ایک روپے دیہاڑی ملتی تھی ، وہ اپنی اجرت جمع کرتے رہے اور دو سو روپیہ جمع کر کے الہی مسجد کے قریب ساڑھے تین مرلے کے دو پلاٹ خرید لیے ۔ان پلاٹوں پر مکان کی تعمیر کے لیے اباجان نے یہ راستہ نکالا کہ پلاٹ میں ایک بڑی کھوئی بنا دی ۔میرے والد اور والدہ اس کھوئی کی مٹی سے کچی اینٹیں تیار کرتے تھے ۔انہوں نے ان کچی اینٹوں دیواریں کھڑی کیں ، پھر ان دیواروں پر چھٹ ڈالی گئی اور اس طرح غلام محمد آباد میں ہماری رہائش گاہ تیار ہو گئی جس کے بعد ہمارا گھرانہ ڈھوٹیاں سے غلام محمد آباد منتقل ہو گیا ۔
الکاسب حبیب اللہ
میرے والد لکڑی کی چیزوں کی تیاری کے ماہر تھے ۔قیام پاکستان کے بعدکھڈیوں کے کاروبار کو عروج حاصل ہوا تو اباجان گھر میں ہی لکڑی کی کھڈیاں تیار کرنے لگے۔ اس کام میں انہوں نے ایسی مہارت حاصل کی کہ ان کی تیار کردہ کھڈیاں پورے پاکستان میں فروخت ہوتی تھیں ۔ اباجان اپنی تیار کردہ کھڈیوں پر ’’مستری غلام نبی امرتسری ‘‘ کی مہر لگاتے تھے ۔ غلام محمد آباد پاورر لومز کے کاروبار کا مرکز بنا اور کھڈیوں کی مانگ میں کمی ہوئی تو اباجان پاور لومز کے لیے لکڑی کاسامان سائیڈ لیور، ریس بورڈ وغیرہ تیار کرنے لگے ۔
میری پیدائش اور بچپن میں لاہور کا سفر
میں 6مئی 1965کو لائل پور (فیصل آباد ) کے علاقے غلام محمد آباد میں پیدا ہوا ۔اباجان نے چک 122گ ب کی روحانی شخصیت میاں نثار احمد قادری کے چھوٹے بھائی میاں ریاض احمد کے نام پر میرا نام ریاض احمد رکھا ۔میری عمر چار پانچ برس ہو گی جب میرے داداجان مجھے لاہور میں داتا گنج بخش حضرت علی ہجویری ؒکے مزار پر لے کر گئے ۔اس سفر کے مناظر ابھی تک میری یادداشت میں محفوظ ہیں ۔
چاندنی چوک غلام محمد آباد
1971میں اباجان نے ساڑھے تین مرلے کے دونوں مکانات 12ہزارروپے میں بیچ دیے اور چاندنی چوک غلام محمد آباد میں سات مرلے کامکان 18ہزار روپے میں خریدا ۔میرا بچپن ، لڑکپن اور نوجوانی اسی مکان میں گزری ، میں 2018تک اس مکان میں رہا اس طرح میں نے اپنی زندگی کے 47سال اس مکان میں گزارے ۔
میرے بہن بھائی
ہمارا گھرانہ تین بھائیوں اور نو بہنوں پر مشتمل ہے ۔میرے بڑے بھائی مشاق احمد قادری 1958میں پیدا ہوئے ،میرے دادا جان کو پوتے کی پیدائش کی خبر ملی تو وہ پیر غلام محی الدین قادری جالندھری کے ’’ دیوان قادری ‘‘کی ایک غزل پڑھ رہے تھے جس کی ردیف ’’مشتاق دیدار تو ام ‘‘تھی ۔اسی مناسبت سے انہوں نے پوتے کانام مشتاق رکھ دیا ، مشتاق بھائی نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ، مشتاق بھائی پاور لومز کی مرمت اور پرزہ جات کی تیاری کاکام کرتے ہیں ۔ان کی شادی ہماری خالہ کی بیٹی سے ہوئی ۔ مشتاق بھائی کی رہائش گاہ لیاقت چوک غلام محمد آباد میں ہے ۔میرے چھوٹے بھائی نیاز احمد قادری 1978میں پیدا ہوئے۔ اباجان نے ان کانام مشہور صوفی شاعر نیاز احمد نیاز بریلوی کے نام پر رکھا۔ وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں ۔ان کی رہائش خیابان گارڈن میں ہے ۔ ان کی اہلیہ پلاسٹک سرجن ہیں ۔ نیاز احمد قادری کے دو بیٹے ہیں ۔میری ہمشیرہ ڈاکٹر صفیہ مغل بھی ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں ، ان کے شوہر ڈاکٹر عبدالرزاق مغل کارڈیالوجسٹ ہیں ۔میری ہمشیرہ ڈاکٹر روبینہ کوثر نے اردو میں پی ایچ ڈی کی ہے اور وہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج برائے خواتین میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تدریسی خدمات انجام دے رہی ہیں ۔میری ہمشیرہ رضیہ حنیف کامل نعت گو شاعرہ ہیں ۔
مولانا غلام رسول سمندری والے ؒ
1971میں جب ہمارا گھرانہ چاندنی چوک غلام محمد آباد کے مقام میں منتقل ہوا تو میری عمر چھ برس تھی ، میرے داداجان جمعۃ المبارک کے دن مجھے اپنے کندھے پر اٹھا کر مجددی مسجد والی گراؤنڈ میں لے کر جاتے تھے جہاں امام خطابت مولانا غلام رسول سمندری والے ؒ خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا کرتے تھے ۔ مولانا صاحب کی بطور خطیب مقبولیت کایہ عالم تھا کہ گراؤنڈ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی تھی۔ لوگ دور دور سے ان کا خطاب سننے کے لیے آیا کرتے تھے ۔ دادا جان تقریر شروع ہونے سے کافی دیر پہلے ہی گراؤنڈ میں پہنچ جایاکرتے تھے تاکہ بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ مل جائے ۔ میںکہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے بچپن میں عشق رسول کا سبق مولانا غلام رسولؒ کے خطبات جمعہ سے حاصل کیا ۔
1971کی جنگ
1971کی جنگ شروع ہوئی تو دیگر علاقوں کی طرح غلام محمد آباد میں بھی لوگوں نے گھروں کے باہر مورچے کھود رکھے تھے ۔ سائرن بجتے ہی سب لوگ ان مورچوں میں چلے جاتے تھے ۔آسمان پر جنگی جہاز ایسے دکھائی دیتے تھے جیسے چیلیں اڑتی پھر رہی ہوں ۔
پرائمری تعلیم
میں نے قرآن مجید کی تعلیم گھر میں اباجان سے ہی حاصل کی جس کے بعد اباجان نے مجھے 1971میں ایم سی پرائمری سکول’’ رب شاہ چوک‘‘ غلام محمد آباد میں داخل کروایا جہاں مجھ سے پہلے میرے بڑے بھائی مشتاق احمد قادری بھی چوتھی جماعت میں زیر تعلیم تھے ۔سکول میں استاد صاحب نے مجھ سے ابتدائی جماعتوں کے قاعدے سنے جو میں نے فر فر سنا دیے ۔ اس زبانی ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد استاد صاحب نے مجھے متوقع کلاس سے ایک کلاس آگے داخلہ دیا ۔ایم سی پرائمری سکول رب شاہ چوک میں ہم فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کیا کرتے تھے ۔ ہمارے استاد رانا عمر دراز کان ریاضی پڑھاتے تھے ، وہ ٹوٹے ہوئے فرش سے کنکر اٹھا کر ہمیں جمع تفریق کے قاعدے سمجھا دیا کرتے تھے ۔اس طرح وہ ٹوٹے ہوئے فرش سے تدریسی عمل میں سمعی بصری معاون کاکام لیتے تھے ۔سکول کے گراؤنڈ میں بڑا تالاب ہوتاتھا تفریح کا وقفہ ہوتا تو سب بچے اس تالاب کے پانی سے اپنی تختیاں دھوتے اور گراؤنڈ میں ہی دھوپ میں تختیاں سکھاتے ۔تختیاں دھونے کے بعد بچے کھیل کود میں مصروف ہو جاتے اور میں کلاس میں بیٹھ کر کوئی رسالہ یا ناول پڑھا کرتا تھا ۔ مجھے بچپن ہی سے کسی کھیل کا شوق نہیں رہا ۔ میں نے کرکٹ، ہاکی کھیلی نہ پتنگیں اڑائیں ۔
گھر کا ادبی ما حول
میرے بچپن میں ہمارے گھر میں ٹی وی نہیں تھا ۔( میرے والد نے ٹی وی 1981میں خریدا ۔) بچپن میں رات کے وقت میرے داداجان اور دادی جان حکم دیتے کہ ہیر رانجھا ، سیف الملوک یا مولوی غلام رسول عالمپوری کی کتاب احسن القصص میں سے اشعار پڑھ کر سناؤ ۔مولانا ظفر علی کی کتابیں ’’بہارستان‘‘، ’’چمنستان ‘‘ اور حفیظ جالندھری کی کتاب’’ شاہنامہ اسلام‘‘ بھی گھر میں موجود تھی اورداداجان اور اباجان شام کے وقت بچوں سے شاہنامہ اسلام کے اشعار بھی سنا کرتے تھے ۔میں سمجھتا ہوں شاہنامہ اسلام کے اشعار تحت اللفظ پڑھنے سے مجھ میں شاعری کی صلاحیت پیدا ہوئی ۔
دادا جان اور دادی جان کا انتقال
میری دادی جان کا انتقال1971میں ہوا ۔ اس کے دو برس بعد1973میں میرے دادا مرزا عبدالکریم کا بھی انتقال ہو گیا ۔
اخبارات میں تحریریں ارسال کرنے کامعصومانہ طریقہ
بچوں کے ایڈیشنز کا مطالعہ کر کے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میری تحریر بھی اخبار میں شائع ہونی چاہیے ۔میری عمر صرف آٹھ نو برس تھی اور مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ ڈاک لفافے کہاں سے ملتے ہیں۔گھر میں اباجان کے جو خطوط آتے تھے۔ میں ان خطوط کے لفا فوں میں اپنی تحریر رکھتا اور لفافے پر لکھے ایڈریس پر سفید کاغذ چسپاں کر کے اخبار کا ایڈریس لکھ دیتا ۔ میں یہ خط لیٹر بکس میں ڈال دیتا جو ظاہر ہے کہ منزل مقصود پر نہیں پہنچ پاتے تھے ۔میری ڈا ک نہ پہنچتی تو میں بہت پریشان ہوتا ۔ ایک روز مجھے پتہ چلا کہ آدم چوک میں ڈاک خانہ ہے اور وہاں سے ڈاک لفافے ملتے ہیں ۔ان دنوں پانچ پیسے میں پوسٹ کارڈ اور دس پیسے میں نیلے رنگ کا لفافہ ملتاتھا ۔
وظیفے کا امتحان
پانچویں جماعت میں وظیفے کا ا متحان بھی دیا ۔ یہ ا متحان صابریہ سراجیہ سکول پہاڑی والی گراؤنڈ میں ہواتھا ۔غلام محمد آباد سے رانا عمر دراز خان اور دیگر اساتذہ بچوں کو ویگن کے ذریعے پیپلز کالونی لائے جہاں ایک ہی دن میں تمام مضامین کا امتحان ہوا ۔ہم قلم دوات ساتھ لے کر آئے تھے ، قلم ہمارے استاد طالب حسین گل قلم تراشنے میں مہارت رکھتے تھے ۔ ان کے پاس اس مقصد کے لیے ایک چاقو ہواکرتا تھا ۔
’’رہبر‘‘ اور ’’عاجز‘‘
میں نے پرائمری تعلیم کے دوران ہی اخبارات کو اپنی تحریریں ارسال کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ میں نے دوسری جماعت میں اپنا تخلص ’’رہبر‘‘رکھا اور یوں میرا نام ریاض احمد رہبر ہو گیا ۔دو برس بعد میں نے تخلص بدلا اور ’’عاجز‘‘ تخلص اختیار کیا ۔ بعد میں اباجان نے مجھ سے کہا کہ تم اپنے پیر خانے کی نسبت سے ’’قادری ‘‘لکھا کرو ۔ اس طرح 1976میںمیرا نام ریاض احمد قادری ہو گیا ۔اس وقت میری عمر گیارہ برس تھی ۔
اخبار بینی کا شوق
مجھے بچپن ہی سے اخبار بینی کا شوق تھا ۔ گھر سے روزانہ دس یا پندرہ پیسے جیب خرچ ملتا تھا ۔ میں دو دن کا جیب خرچ جمع کرتا اور پچیس پیسے میں روزنامہ مشرق یا امروز خرید لیتا ۔ یہ اخبار نہ صرف میں پڑھتا بلکہ میرے استاد اقبال انصاری صاحب بھی اخبار کا مطالعہ کرتے تھے ۔مشرق اور امروز میں بچوں کے ہفتہ وار ایڈیشن بھی شائع ہوتے تھے ۔میں ان ایڈیشنز میں شائع ہونے والی کہانیاں اور نظمیں بہت شوق سے پڑھتا تھا اور خود بھی کہانیاں لکھنے کی کوشش کرتاتھا ۔اخبار بینی کی عادت سے مجھے بہت فائدہ ہوا ، اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ایم سی ہائی سکول غلام محمد آباد میں چھٹی جماعت میں ٹیسٹ کے لیے داخلہ ہوتا تھا۔ اس ٹیسٹ کے دوران ٹیچر نے جو پیرا گراف لکھایا وہ ایک روز قبل روزنامہ ’’مشرق‘‘ کے بچوں کے ایڈیشن میں شائع ہواتھا اور میں اس کا مطالعہ کرچکاتھا ۔
منفرد ڈیوٹی
ایم سی ہائی سکول میں چھٹی جماعت میں مولوی محمد اکرم ہمارے کلاس انچارج تھے ۔میں نے چھٹی جماعت کے ا متحان میں اول پوزیشن حاصل کی ۔ساتویں جماعت میں رانا محمد اختر خان کلاس انچارج تھے ،وہ ریاضی ، اردو اور جنرل سائنس پڑھاتے تھے ۔ انہوں نے میرا رول نمبر ایک کردیا اور مجھے کلاس مانیٹر بنا دیا ۔استاد صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ بازار میں دستیاب اردو کی تمام گرائمرز لے کر آئیں ، میں سب گرائمرز لے کر گیا تو استاد صاحب نے کہا کہ تمام گرائمرز سے تمام اسباق کے الفاظ معانی ایک کاپی پر لکھ لو ، میں نے یہ کام کر لیا تو میری ڈیوٹی لگائی گئی کہ آپ یہ تمام الفاظ معانی کلاس میں سب بچوں کو لکھوائیں ۔ساتویں اور آٹھویں میں میری یہ ڈیوٹی رہی ۔ میں کلاس کے تمام امتحانات میں اول آتا رہا ۔
کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی
میری قابلیت اور محنت کو دیکھتے ہوئے بعض اساتذہ نے مجھے ٹیوشن پڑھانے کی پیشکش کی لیکن میں نے اپنے تعلیمی کیریئر میں کبھی ٹیوشن نہیں پڑھی ۔اباجان نے 1975میں چاندنی چوک والے مکان میں آٹا چکی لگا لی تھی اور میں سکول سے گھر جانے کے بعد کام میں ان کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔
محمد ارشد قاسمی
1976میں میری ملاقات محمد ارشد قاسمی سے ہوئی ، انہوں نے صدر بازار غلام محمد آباد میں ٹائپنگ سنٹرقائم کیاتھا جس کے ساتھ ہی سیرت سنٹر بھی تھا جس میں بچوں کو فن تقریر سکھایاجاتاتھا ۔ میرا ہم جماعت عبد الجبار ، ارشد قاسمی کا ہمسایہ تھا ، اسی نے مجھے سیرت سنٹر کے بارے میں بتایا تھا۔ارشد قاسمی سے دوستی کا رشتہ نصف صدی سے قائم ہے ۔ وہ مجھے مشہور شاعر اقبال شیدا ر عبد الوحید اختر کے پاس لے گئے جنہوں نے ’’بزم نوید علم و ادب ‘‘ قائم کر رکھی تھی ۔ ان دونوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی ۔ ان دنوں اے ایچ عاطف اور شاہد اشرف بھی ’’بزم نوید علم و ادب ‘‘کی سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے تھے ۔
1977میںپہلی تحریر کی اشاعت اور پہلی تقریر
1977میں ایم سی ہائی سکول میں بزم ادب کا آغاز ہوا تو ہمارے استاد رانا محمد اختر خان نے کلاس میں آ کر کہا کہ کوئی بچہ ’’علم کے فائدے‘‘ کے موضوع پر تقریر کرے ۔میں نے فی البدیہہ تقریر کی جس کے بعد استاد صاحب نے مجھے بزم ادب کا جنرل سیکرٹری بنا دیا ، انہوں نے مجھ سے کہا کہ بازار سے رجسٹر لے کر آؤ اور پھر مجھے بزم ادب کا ایجنڈا اور کارروائی تحریر کرنے کا طریقہ سکھایا ۔ استاد رانا محمد اختر خانصاحب نے ہی مجھے سٹیج سیکرٹری بننے کے آداب بھی سکھائے ۔1977میں ہی میری پہلی کہانی ’’ننھی مجاہدہ ‘‘روزنامہ ’’امروز ‘‘ کے ایڈیشن ’’بچوں کی دنیا ‘‘ میں شائع ہوئی جس کے انچارج ناول نگار عزیز اثری تھے ۔اس کہانی کی اشاعت پر مجھے سکول میں استاد صاحب نے ایک روپیہ انعام دیا ۔ اس کے بعد میں مختلف قومی تہواروں یوم پاکستان ، یوم آزادی ، یوم دفاع وغیرہ پر مضامین لکھتا رہا جو ’’نوائے وقت ‘‘ اوردیگر اخبارات کے ادارتی صفحے پر شائع ہوئے ۔1978میں ہیڈ ماسٹر چوہدری غلام نبی نے مجھے’’Dignity Of Labour‘‘ کے موضوع پر انگلش میں تقریر لکھ کر دی ۔میں نے تقریر یاد کر کے سرگودھا بورڈ کے زیر اہتمام ڈویژنل پبلک سکول میں منعقد ہونے والے تقریری مقابلہ میں حصہ لیا اور دوم انعام حاصل کیا ۔
تحریک نفاذ نظام مصطفی ﷺ
میں نے1977میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نفاذ نظام مصطفی ﷺکے دوران دھوبی گھاٹ اور غلام محمد آباد میں مختلف مقامات پر منعقد ہونے والے تمام بڑے جلسوں میں شرکت کی ۔ان جلسوں میں مولانا شاہ احمد نورانی ، سردار شیر باز مزاری ، خان عبد الولی خان ، نوابزادہ نصر اللہ خان اورمولانا عبدالستار خان نیازی جیسے مشاہیر کی تقاریر سننے سے فن خطابت کی نزاکتوں کا شعور حاصل ہوا ملا ، صاحبزادہ فضل کریم کی نوجوانی کا دور تھا ، وہ ان جلسوں میں سٹیج سیکرٹری ہوتے تھے ، وہ شعلہ بیان مقرر تھے ۔1977کے انتخابات میں چوہدری صدیق رندھاوا ، میاں زاہد سرفراز اور میاں طفیل احمد ضیاقومی اتحاد کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے ۔قومی ا تحاد کی تحریک کی وجہ سے سکول میں ا متحانات نہیں ہوئے اور میں امتحان دیے بغیر ہی ساتویں جماعت سے آٹھویں جماعت میں پہنچ گیا ۔ان دنوں ہمارے گھر سمیت تقریباًہر گھر میں بی بی سی کی خبریں سنی جاتی تھیں اور عوام کی اکثریت نمائندہ بی بی سی’’ مارک ٹیلی ‘‘ کی پیشہ ورانہ قابلیت کی معترف تھی ۔ صدر بزم ادب ، سٹوڈنٹس لائبریری
1979میں جب میں نویں کلاس میں پہنچا تو مجھے پورے سکول کی بزم ادب کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا ، ایک برس بعد میں دسویں جماعت کے طالب علم کے طور پر سکول کی بزم ادب کا صدر نامزد ہوا ۔ میں نے ایم سی ہائی سکول غلام محمد آباد میں 1979 میں اپنی مدد آپ کے تحت سٹوڈنٹس لائبریری قا ئم کی جس میں ہر ایک طالب علم نے ایک ایک کتاب عطیہ کی۔
’’بچوں کی باجی ‘‘
1970کے عشرے میں حکیماں والا چوک غلام محمد آباد کے شیخ حمید تبسم ’’بچوں کی باجی ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ شائع کرتے تھے ۔انہوں نے چلڈرن رائٹرز ایسو سی ایشن قائم کی تھی ۔میرے علاوہ ڈاکٹر شبیر احمد قادری ، انجم سلیمی ، طالب فیصل آبادی ، غلام حسین زاہد ، جاوید تسکین ،زاہد سرفراز زاہد، دلاور عسکری ، راشد قمر بھی چلڈرن رائٹرز ایسو سی ایشن کی کیبنٹ میں شامل تھے ۔ ہم سب کی ادبی زندگی کا آغاز 1977کے لگ بھگ ہوا ۔
روزنامہ’’ جنگ‘‘ کا فیصل آباد ایڈیشن
1981میں روزنامہ’’ جنگ‘‘ لاہور نے فیصل آباد ایڈیشن کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا ، میری زود نویسی کا یہ عالم تھا کہ فیصل آباد ایڈیشن کے ایک صفحے پر میرے ایک سے زیادہ مضامین شائع ہوتے تھے ۔ میں نے ان دنوں ’’بزم نوید علم و ادب ‘‘،’’ بزم چناب رنگ‘‘ ، ’’فیصل آباد کے ادبی ستارے‘‘ ،’’ غلام محمد آباد کے ادبی ستارے ‘‘اور ایسے ہی دیگر عنوانات پر مضامین تحریر کیے جنہیں بہت سراہا گیا ۔
میٹرک اور ایف ایس سی
میں نے میٹرک کا امتحان 1981میں سائنس کے مضامین کے ساتھ پاس کیا ۔ میں نے 683 نمبر حاصل کیے اور ایم سی ہائی سکول میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ مجھے وظیفہ بھی ملا ۔میٹرک کے بعد میں نے گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ میں ایف ایس سی پری میڈیکل میں داخلہ لیا ۔ میں بائیسائیکل پر کالج جایا کرتاتھا اور اباجان مجھے روزانہ ایک روپیہ جیب خرچ دیتے تھے ۔
میرے مثالی اساتذہ
میرے آئیڈیل اساتذہ میں ایم سی ہائی سکول غلام محمد آباد کے چوہدری غلام نبی ، رانا اختر خان ، چوہدری سلیم بندیشہ اور قاضی غلام مرتضی ، گورنمنٹ کالج دھوبی گھاٹ کے خالد عباس بابر ، منظر مفتی ، بشیر احمد رانا ، ڈاکٹر زاہد حسین نقوی اور عبدالحمید چوہدری شامل ہیں ۔
نیشنل سنٹر اور روزنامہ ’’عوام ‘‘
1981میں ڈاکٹر عبد الشکور ساجد پہلی بار مجھے نیشنل سنٹر میں لے کر گئے اور میں نے مختلف مذاکروں میں ۔بطور سامع شرکت شروع کر دی ۔اسی برس روزنامہ ’’عوام ‘‘ کے دفتر میں میری آمد و رفت بھی شروع ہو گئی اوروہاں ظہیر قریشی اور قمر لدھیانوی سے ملاقات ہوئی ۔ گورنمنٹ کالج کے ماحول میں ڈاکٹر ریاض مجید ، ڈاکٹر احسن زیدی ، پروفیسر عظمت اللہ خان ، پروفیسر عصمت اللہ خان جیسی ادبی شخصیات سے بھی شناسائی ہوئی ۔ روزنامہ ’’عوام ‘‘ میں پروفیسر اقبال شاد بچوں کا ایڈیشن اور محمود احمد مفتی سپورٹس ایڈیشن نکالتے تھے ۔ میں بچوں کے ایڈیشن کے لیے نظمیں اور کہانیاں لکھتا تھا ۔بچوں کے ایڈیشن میں تقریباً ہر ہفتے میری نظم شائع ہوا کرتی تھی۔
’’یاران نکتہ دان ‘‘
1983میں نوجوانوں کی تنظیم ’’یاران نکتہ داں ‘‘ کا قیام عمل میں آیا ۔ ڈاکٹر شبیر قادری اس تنظیم کے صدر تھے ار میں جنرل سیکرٹری تھا ، اس تنظیم کے تحت تسلسل سے ادبی تقریبات منعقد ہوئیں ۔ہم نے اس تنظیم کا ماہانہ چندہ پانچ روپے مقرر کیاتھا ، تقریباًپچاس ارکان چندہ دیتے تھے اور اس طرح اڑھائی سو روپے ماہانہ جمع ہو جاتے تھے ،اس ’’بجٹ‘‘ میں ہم کامیاب ادبی تقریب منعقد کر لیتے تھے ، یہ تقریبات میونسپل لائبریری میں منعقد ہوتی تھیں ، نڑوالہ چوک میں واقع یہ لائبریری شہر کے وسط میں ہے اس لیے یہاں شہر کے ہر کونے سے شعرا اور ادبا کا پہنچنا آسان تھا ، ہم تقریبات کا دعوت نامہ تحریر کر کے فوٹو کاپیاں کراتے اور میں بائیسائیکل پر شہر بھر میں گھوم کر وہ دعوت نامے تقسیم کرتاتھا ۔شاعر ، ادیب ویگن پر ایک روپیہ کرایہ دے کر میونسپل لائبریری پہنچ جاتے ، تقریب کے بعدان کی تواضع چائے اور بسکٹ سے کی جاتی تھی ، ان دنوں چائے کا کپ ایک روپے میں مل جاتاتھا ۔ 1980کے عشرے میں شہر میں ادبی تنظیموں کی سرگرمیاں عروج پر تھیں ۔
مختلف ادبی تنظیموں کی سرگرمیاں
چنیوٹ بازار میں بابا شوق عرفانی کا ادبی ڈیرہ اہل قلم کا اہم مرکز تھا ، غلام محمد آباد میں عبد الوحید اختر اور اقبال شیدا کی ’’بزم نوید علم و ادب ‘‘متحرک تھی، سمن آباد میں ڈاکٹر عبد الواحد نقیب اوراسط ممتاز سید نے ’’ کاروان ادب ‘‘کے عنوان سے تنظیم قائم کر رکھی تھی ، ڈاکٹر احسن زیدی ، حاتم بھٹی اور علی اختر کی ’’بزم چناب رنگ ‘‘ کے زیر اہتمام بھی کامیاب ادبی نشستیں منعقد ہوا کرتی تھیں ۔
’’حلقہ ارباب ذوق‘‘ اور ’’صدف‘‘
اسی دوران میں ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘ کی تنقیدی نشستوں میں بھی شرکت کرنے لگا ۔میاں اقبال اختر کی تنظیم ’’ہیومن گائیڈز ‘‘ کے ادبی ونگ ’’صدف‘‘ کے زیر اہتمام بھی تنقیدی نشستیں منعقد ہوتی تھیں ، میں نے ان نشستوں میں بھی شرکت کی ۔
ایم اے انگلش، پنجاب یونیورسٹی کی یادیں
ایف ایس سی پری میڈیکل میں میری سیکنڈ دویژن آئی جس کے بعد میں نے بی اے کا امتحان پرائیویٹ
امیدوار کے طور پر 520نمبر لے کر پاس کیا اور فرسٹ ڈویژن حاصل کی ۔ بی اے پاس کرنے کے بعد میں نے 1986میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے انگلش میں داخلہ لیا ۔یونیورسٹی کے شعبہ انگلش میں پروفیسراسماعیل بھٹی ،پروفیسر رضی عابدی ، ڈاکٹر نسیم ریاض بٹ ، پروفسیر افتخار احمد شیخ ،پرو فیسر نوید شہزاد، پروفیسر کنیز اسلم اور پروفیسر شائستہ سراج الدین سے علمی استفادے کا موقع ملا ۔ایم اے انگلش کے بعد میں نے انگلش ٹیچنگ کا ایک سالہ ڈپلومہ بھی کیا ۔ ان دنوں میں باقاعدگی سے پاک ٹی ہاؤس بھی جایا کرتا تھا ۔ ٹی ہاؤس میں مجھے احمد ندیم قاسمی ،انتظار حسین ، منو بھائی، استاد دامن اور اصغر ندیم سید جیسی شخصیات سے ملنے کے مواقع میسر آئے ۔میں 1988تک لاہور میں مقیم رہا ،مجھے یاد ہے کہ ان دنوں فیصل آباد سے لاہور کا بس کا کرایہ 13روپے تھا اور میں طلبا کرعایتی کارڈ پر نصف کرایہ ساڑھے چھ روپے دے کر سفر کیا کرتاتھا ۔ سرکاری ملازمت
1990میں میرا بطور سبجیکٹ سپیشلسٹ گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول کھرڑیانوالہ میں تقرر ہوا ۔ میں نے 28اگست1990کو سرکاری ملازمت کا آغاز کیا ، روزانہ کھرڑیانوالہ آمدورفت کے لیے موٹر سائیکل میری ضرورت تھی ۔میری پہلی تنخواہ 2600روپے تھی ۔ ملازمت ملنے سے پہلے ہی میں انگلش کی ٹیوشن پڑھایا کرتاتھا اور میرے پاس موٹر سائیکل خریدنے کے لیے رقم موجود تھی ۔ جس روز مجھے پہلی تنخواہ ملی ، میں نے اسی روز27000روپے میں نئی موٹر سائیکل ہنڈا سی ڈی70خرید لی ۔
بطور لیکچرارانتخاب
1994میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میں بطور لیکچرار انگلش منتخب ہوا اور میں نے 29ستمبر 1994کو گورنمنٹ کالج آف سائنس میں ڈیوٹی جوائن کی ۔میرے چھوٹے بھائی نیاز احمد قادری ان دنوں اسی کالج میں ایف ایس سی کے طالب علم تھے ، صرف چار ماہ بعد5 جنوری1995کو میں نے سائنس کالج کو خیر باد کہا اور اپنی مرضی سے اپناتبادلہ گورنمنٹ کالج سمن آباد میں کروا لیا ۔ اس فیصلے کی وجہ یہ تھی کہ سائنس کالج میں انٹر کے بعد انگلش کی کوئی کلاس نہیں تھی جبکہ گورنمنٹ کالج سمن آباد میں ڈگری کلاسز میں بھی انگلش کو بطور اختیاری مضمون پڑھایا جاتا تھا ۔اس کے علاوہ گورنمنٹ کالج سمن آباد میں پروفیسر عظمت اللہ خان اور پروفیسر ارشاد اعجاز رانا جیسی ادبی شخصیات کی موجودگی بھی مجھے اس کالج کی طرف راغب کرنے کا سبب بنی ۔
پروفیسر عظمت اللہ خان
میری شاعری کی نوک پلک سنوارنے میں پروفیسر عظمت اللہ خان نے اہم کردار ادا کیا ۔ وہ گورنمنٹ کالج سمن آباد میں شعبہ اردو میں بطور ایسو سی ایٹ پروفیسر خدمات انجام دے رہے تھے ، مجھے تقریباًچھ برس ان کے رفیق کار رہنے کا اعزاز حاصل رہا ۔ ان دنوں شام کے اوقات میں وہ دھوبی گھاٹ کے سامنے پرائم ہوٹل میں بیٹھا کرتے تھے ۔کالج کے علاوہ شام کو بھی ان سے ملاقات اور ادبی موضوعات پر تفصیلی گفتگو ہو تی تھی ۔ پروفیسر عظمت اللہ خان انتہائی نفیس اور نستعلیق شخصیت تھے ۔ وہ بہت خوش لباس تھے ، صاف گوئی ان کی شخصیت کا خاص جوہر تھا ۔ان کا انتقال27 دسمبر2000کو ان کی ریٹائرمنٹ سے صرف تین روز قبل ہوا ۔
پنجابی شاعری اور صحافت
1990 سے 2000 تک میں نے پنجابی شاعری اور ادبی صحافت پر خصوصی توجہ دی ۔ ا س دوران میں میرا کلام پنجابی کے معتبر ادبی جریدوں ساہت ، رویل، میٹی،سویر، سانجھاں ، اور لہراں میں تسلسل سے شائع ہوا ۔میں’’ ساندل رت‘‘ میں ’’ فیصل آبادی ادبی ڈائری ‘‘کے زیرعنوان ہفتہ وار کالم بھی لکھا کرتا تھا ۔مشہور شاعروں بابا عبیر ابوذری، اسیر سوہلوی ، بری نظامی اورسردار حسین سردار کی وفات پر میں نے جو مضامین لکھے وہ دنیا بھر کے پنجابی اخبارات میں حوالے کے مضامین کے طور پر شائع ہوئے۔
احسن پبلی کیشنز
میں نے1999میں احسن پبلی کیشنز کے نام سے اشاعتی ادارہ قائم کیا جس کا اہم مقصد نعت گو شعرا کے مجموعہ ہائے کلام شائع کرنا تھا ۔ احسن پبلی کیشنز کے زیر اہتمام سب سے پہلے 1999میں ہی استاد شاعر پروفیسر عظمت اللہ خان کا مجموعہ نعت’’گلشن صل علی ‘‘ شائع کیا گیا ،اسی برس میری اردو نعتوں کا مجموعہ ’’نکہت نعت‘‘ شائع ہوا ۔شروع میں ارشاد اعجاز رانا ، سید اظہر شاہ گیلانی ، قاری سردار محمد کی کتابیں منظر عام پر آئیں ۔اس کے بعد یہ سلسلہ چل نکلا اور گزشتہ23 برس میں احسن پبلی کیشنز کے زیر اہتمام400کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ میں نے یہ کام صد فی صد غیر تجارتی بنیادوں پر کیا ۔1999میں عام پبلشر 500کتابوں کی اشاعت کے لیے40سے 50ہزار روپے کے لگ بھگ رقم وصو ل کرتے تھے ۔، میں نے صرف10ہزار روپے میں 500کتابیں چھاپ کر دی یعنی کتاب کی ایک کاپی پر صرف بیس روپے خرچہ ہوا ۔ کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ تاحال جاری ہے اور ہمارے ادارے نے گزشتہ ہفتے آزاد نقیبی کا مجموعہ نعت ’’یانبی ، یا نبی ‘‘ شائع کیا ہے ۔ احسن پبلی کیشنز کی شائع کردہ کتب نے فیصل آباد تعلیمی بورڈ کے مقابلوں میں متعدد انعامات حاصل کیے ہیں ۔
سائنس کالج کا یادگار واقعہ
میں نے1994میں سائنس کالج سمن آباد میں بطور لیکچرار جوائنگ دی تو اگلے روز پروفیسر اسلم کمال پوری کی ریٹائرمنٹ کے سلسلے میں تقریب منعقد ہونے والی تھی ۔ میں نے اس تقریب میں اسلم کمال پوری کے بارے میں نظم پڑھی اور اظہار خیال بھی کیا جس پر بہت داد ملی اور ساتھی اساتذہ نے حیرت کا اظہار بھی کیا ۔اس کے بعد یہ سلسلہ ایک روایت کا درجہ اختیار کر گیا کہ ریٹائرڈ ہونے والے تمام اساتذہ پر میں نے نظمیں بھی کہیں اور مضامین بھی لکھے ۔
گورنمنٹ گریجوایٹ کالج سمن آباد کے لیے متنوع خدمات
گورنمنٹ کالج سمن آباد (جسے اب گورنمنٹ گریجوایٹ کالج سمن آباد کہا جاتا ہے)میں مجھے ادبی تقریبات کا انچارج بنایا گیا ۔میں نے سینکڑوں طلبا کو اردو ، انگریزی اور پنجابی نظم، غزل اور مباحثوں کے مقابلہ جات کی تیاری کروائی جن میں سے اکثر نے اول ، دوم اور سوم انعامات حاصل کیے ۔کالج کی تقریبات میں نقابت کی ذمہ داری بھی میرے سپرد ہے۔ کالج کے ادبی مجلہ ’’القمر ‘‘ کے حصہ انگریزی کا ایڈیٹر بھی ہوں ۔ میں نے کالج کی علمی و ادبی سرگرمیوں کی کوریج کر کے پمفلٹس کی صورت میں متعدد خبر نامے شائع کیے ۔میں کالج کا پریس ریلیشنز آفیسر، چیف سکیورٹی آفیسر ، ممبر کریکٹر بلڈنگ سوسائٹی اور ممبر پیس اینڈ ہارمنی کمیٹی بھی ہوں ۔
فیصل آباد کی صحافت کے ستارے
روزنامہ ’’تجارتی رہبر‘‘ کے ایڈیٹر اختر سدیدی نقابت کے بے تاج بادشاہ تھے ۔وہ ہزاروں کے مجمع کو اپنے جملوں کے حصار میں لے لیتے تھے بالخصوص میلاد النبیﷺ اور نعت کی محفلوں میں ان کا انداز نقابت بے حد پر کشش ہوتاتھا اور ہزاروں لوگ ان کی نقابت سننے کے لیے ان محفلوں میں آتے تھے ، ان کو اختر سدید فصیح اللسان کہاجاتاتھا اور وہ حقیقی معنوں میں فصیح اللسان تھے ۔ان کا انتقال بھی محفل نعت کے دوران میں ہوا جو ان کے جذبہ حب رسول ﷺ کی قبولیت کی دلیل ہے ۔روزنامہ’’ سعادت ‘‘کے ایڈیٹر ناسخ سیفی سر پر جناح کیپ پہنتے ، ان کا چہرہ انتہائی نورانی تھا ، سفید داڑھی چہرے کی نورانیت میں اضافہ کرتی تھی ۔ غازی عبدالرشیدجدید صحافت کے تقاضوں کو بخوبی سمجھنے والے ایڈیٹر تھے ۔ انہوں نے ’’ڈیلی بزنس رپورٹ ‘‘ کو ہر سٹال کی ضرورت بنا دیا ۔روزنامہ ’’عوام ‘‘ کے چیف ایڈیٹر ظہیر قریشی بہت نفیس ، شائستہ اور مہذب شخصیت تھے ۔ وہ روزانہ صبح دفتر پہنچنے کے بعد قبلہ رو ہو کر انتہائی رقت آمیز لہجے میں اللہ تعالی سے دعا کرتے تھے کہ اے خالق و مالک ! مجھے آج کا دن عزت اور آبروگزارنے کی توفیق عطا فرما ۔ ایم اے انگلش کرنے کے بعد میں ایک برس فارغ رہا ۔ اس دوران میں نے روزنامہ ’’عوام ‘‘ میں بطور پروف ریڈر کام کیا ۔ ظہیر قریشی صاحب نے میرے اصرار پر مجھے پروف ریڈر رکھ لیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ پروف ریڈر کی ماہانہ تنخواہ ایک ہزار روپے ہے جو آپ کی صلاحیتوں سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ آپ اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ، یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھیے کہ آپ ایک روز میری سیٹ پر بھی بیٹھ سکتے ہیں ۔خلیق ریشی اور ظہیر قریشی کی زیر ادارت’’ عوام‘‘ نے شعرا اور صحافیوں کی ایک کھیپ تیار کی جو آ ج بھی ادب و صحافت کے شعبوں میں متحرک اور فعال ہے ۔
اخبارات میں ادبی ایڈیشن کی اشاعت
میں نے متعدد مقامی اخبارات میں ادبی ایڈیشن شائع کیے ۔یہ سلسلہ 1994میں روزنامہ ’’غریب ‘‘ کے ایڈیشن ’’شعر و آگہی ‘‘ سے شروع ہوا۔1998میں روزنامہ’’شیلٹر ‘‘میں’’ شعر و ادب ‘‘ کے عنوان سے ایڈیشن کی اشاعت کا آغاز کیا ۔اپریل 1998میں ’’ڈیلی یارن ‘‘ کا ادبی صفحہ ’’ شعر و سخن ‘‘ کے زیر عنوان منظر عام پر آیا ۔1999میں ڈیلی یارن ہی نے اپنا ایک ہفتہ وار ایڈیشن نعت اور متعلقہ موضوعات کے لیے مخصوص کر دیا جسے ’’حی علی النعت ‘‘کانام دیا گیا ۔ یہ سعادت بھی مجھے حاصل ہوئی ۔ بعد ازاںمیں نے 2004میںروزنامہ ’’پیغام ‘‘ میں علم و آگہی کے نام سے ادبی ایڈیشن کا اجرا کیا ۔
والدین کا انتقال
میرے والد مرزا غلام نبی کا 27مارچ2000میں اسی برس کی عمر میں انتقال ہوا ، ان کی نماز جنازہ مشہور صوفی بزرگ اور شاعر پیر سید امین علی شاہ نقوی نے پڑھائی ۔ میری والدہ کا انتقال5جون کو 2005ہوا ۔میرے والدین کی آخری آرام گاہیں غلام محمد آباد کے ڈھیرا سائیں والے قبرستان میں ہیں ۔
محکمانہ ترقیاں
28 اکتوبر2010 کو میری بطور اسسٹنٹ پروفیسر گریڈ 18میں ترقی ہوئی ۔ آٹھ برس بعد 31مئی 2018کو میری بطور ایسو سی ایٹ پروفیسر گریڈ19میں ترقی ہوئی۔ دونوں مرتبہ میرا تقرر گورنمنٹ کالج سمن آباد ہی میں ہوا ۔ اس طرح مجھے اس کالج میں تڈریسی فرائض انجام دیتے ہوئے 27برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے ۔
اخبارات اور کتب کادور عروج واپس آئے گا
الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے عروج کے باوجود مجھے اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ اخبارات اور کتابوں کادور عروج ایک بار پھر واپس آئے گا۔حرف مطبوعہ کی اپنی کشش ہے ۔ کتاب اور اخبار کا لمس ایک بہت بڑا احساس ہے ۔ میرا بڑا بیٹا احسان قادری کتاب کا مطالعہ کرنے سے قبل اسے سونگھ کر اس کی خوشبو محسوس کرتا ہے ۔سوشل میڈیا ہو یا ای لائبریری ، کتاب کا کوئی متبادل نہیں ۔
پاکستان نعمت خداوندی
پاکستان اللہ تعالی کی ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ہمیں اللہ تعالی کا ہر لمحہ شکرادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں ایک آزاد وطن میں پیدا کیا ۔قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں میں شرح خواندگی انتہائی کم تھی ۔پاکستان کی برکت سے مسلمانوں نے تعلیم ، صنعت و تجارت ، کاروبار ، غرض ہر شعبہ میں ترقی کی ۔پاکستان نہ ہوتا تو آج ہم ان پوسٹوں پر نہ بیٹھے ہوتے ۔
تخلیقی سفر
میرا اردو مجموعہ نعت ’’ نگہت نعت‘‘ 1999 میں شائع ہوا جبکہ پنجابی نعتوں کا مجموعہ’’ تصور سبز گنبد دا‘‘ 2000میں منظر عام پر آیا ۔ بچوں کے لیے نظموں پر مشتمل کتاب’’کلیاں، چاند ستارے‘‘ 2002 میں شائع ہوئی ۔علامہ اقبال کی شخصیت اور فن کے بارے میں نظموں پر مشتمل کتاب’’ سلام اے شاعرمشرق‘‘ 2003 میں شائع ہوئی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے نظموں کی کتاب ’’ہمارے قائداعظم‘‘ 2004 میں شائع ہوئی۔ میری کتاب ’’عقیدت دے پھل‘‘ 2006 میں شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ مجھے تین نعتیہ انتخاب ’’زر مدحت ‘‘2008، ’’زر عقیدت‘‘2010اور’’زر نعت‘‘2012 مرتب کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔
ایوارڈز
میرے پنجابی نعتوں کے مجموعہ’’تصور سبز گنبد دا ‘‘کو وفاقی اور صوبائی سیرت ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ بچوں کی نظموں کے مجموعے ’’ کلیاں ، چاند ، ستارے ‘‘ کو2006میں انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی دعوۃ اکیڈمی کے زیر اہتما م مقابلے میں پچیس ہزار روپے کا پہلا انعام ملا ۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ پر نظموں کی کتاب ’’ہمارے قائد اعظم ‘‘ اور علامہ اقبال کے بارے میں نظموں کی کتاب ’’سلام اے شاعر مشرق ‘‘ کو بھی حکومتی اداروں طرف سے ایوارڈز ملے۔ اس کے علاوہ مجھے ساؤتھ ایشیا ایوارڈ ،ڈاکٹر ریاض مجید ادبی ایوارڈ ، جھنگ سے شیر افضل جعفری ایوارڈ ،نارووال سے ہاشم شاہ ایوارڈ ، گجرات سے عارف ایوارڈ سمیت متعدد دیگر ایوارڈز بھی مل چکے ہیں ۔
نقابت
ادبی تقریبات بالخصوص نعتیہ مشاعروںکی نقابت کا شوق مجھے ڈاکٹر شبیر احمد قادری کو دیکھ کر ہوا۔میں گزشتہ چالیس برسوں میں میں تقریبا تین ہزار نعتیہ مشاعروں ، ادبی تقریبات ، تعلیمی اداروں اور ملی و سماجی تنظیموں کی تقریبات کی نقا بت کر چکا ہوں ۔
میرے شاگرد
فن شاعری میں میرے شاگردوں میں اویس ازہر مدنی ، محمد عمیر لبریز ، زاہد سرفراز زاہد، خان منیراحمد خاور، رضوان تقی شاہ بخاری ، محمد حسین آصل ، طارق جاوید طارق ، منصور نواز اعوان ، فقیر حسین چشتی ، سید محمد ذیشان حیدر بخاری ،مبشر حسین کامل ، محمد سلیم محروم اورلیاقت علی انجم کے نام نمایاں ہیں ۔
تنظیمی وابستگی
میں انجمن فقیران مصطفی کا تاحیات صدر ہوں جس کے کے زیر انتظام 228 ماہانہ مشاعرے منعقد ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ میں عالمگیر شہرت کی حامل ادبی تنظیم حلقہ ارباب ذوق اور پاکستان رائٹرز گلڈ کا ممبر ہوں۔میں مجلس معین ادب ، بزم مراد نعت اور بزم قرطاس و قلم کا بھی رکن ہوں۔
فیصل آباد ’’شہر نعت‘‘
اہل فیصل آباد کے لیے یہ بہت بڑا ہے اعزاز ہے کہ دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں فیصل آباد کو ’’شہر نعت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد علامہ صائم چشتی اور حافظ لدھیانوی جیسے بڑے نعت گو شعرا نے لائلپور میں قیام کیا اور بڑی مقدار نعتیہ شاعری تخلیق کی ۔پیر سید امین علی شاہ نقوی نے غیر منقوط اور بلا الف مجموعے تخلیق کیے ۔1989 میں ضلع کونسل ہال میں منعقدہ نعت کانفرنس میں محمود احمد مفتی نے مشاہیر نعت کی موجودگی میں فیصل آباد کے لیے پہلی بار’’ شہر نعت‘‘ کا نام استعمال کیا، بعد میں پیر آصف بشیر چشتی بھی اپنے مقالہ جات اور مضامین میں فیصل آباد کو’’ شہر نعت‘‘ لکھتے رہے ۔فیصل آباد میں ڈا کٹراحسن زیدی ، نورمحمد کپور تھلوی ،احمد شہباز خاور ،نادر جاجوی ،پروفیسر عارف رضا، حکیم شریف ،حکیم رمضان اطہر، فقیر مصطفی امیر، ذوالفقار زلفی، سید مظہر گیلانی اور باسط ممتاز سعید جیسے ممتاز نعت گو شعرا نے اپنی تخلیقات سے فیصل آباد میں نعت کا ماحول برقراررکھا ۔اس وقت بھی شہر میں ڈاکٹر ریاض مجید ، افضل خاکسار ،کوثر علی ،طاہر صدیقی،صاحبزادہ لطیف ساجد چشتی ، ندیم اخترپیرزادہ ،عبدالخالق تبسم ، کوثر علیمی ، طالب کوثری اور مسعود الرحمن مسعود جیسے نعت گو موجود ہیں۔ شہر میں نعت اکیڈمی بھی فعال ہے۔ میں فیصل آباد کی سطح نعتیہ شاعری اور تحقیق کے مستقبل سے مطمئن ہوں ہو اور سمجھتا ہوں کہ آنے والے وقت میں میں تحقیق و تخلیق نعت کے کام کومزید فروغ حاصل ہو گا ۔میں نے شعور مدحت ٹی وی چینل پر مسلسل دو سال تک ہفتہ وار نعتیہ مشاعروں کی نقابت بھی کی جس میں فیصل آباد کے تمام اہم نعت گو شعرا نے حصہ لیا ۔ ان مشاعروں کے ذریعے مجھے کئی نئے شعرا کو متعارف کرانے کا شرف بھی حاصل ہوا۔
شعبہ تعلیم کی حالت زار
اپنے 32 سالہ طویل تدریسی تجربے کی بنا پر میں سمجھتا ہوں ہو کہ بی ایس پروگرام اور سمسٹر سسٹم صرف ڈگریاں تقسیم کر رہاہے اور اس سسٹم سے نکلنے والے طلبا و طالبات کی قابلیت بتدریج ختم ہوتی جا رہی ہے ۔ہمیں سالانہ ا متحانات ، بی اے اور ایم اے والے نظام کی طرف پلٹنے کی ضرورت ہے جس میں طالب علم کو معمول نہیں ہوتا تھا کہ امتحانی پرچہ کون بنائے گا اور چیک کون کرے گا ؟ پون صدی سے تعلیمی نظام میں تجربے جاری ہیں اور کسی سسٹم کو چلنے نہیں دیا جاتا ۔ یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے لیکن پی ایچ ڈی اور ایم فل کا تحقیقی معیار گر گیا ہے۔ اقرباپروری، ذاتی تعلقات اور واقفیت کی بنا پر ڈگریاں تقسیم کی جا رہی ہیں۔کئی یونیورسٹیاں ایک موضوعات پر تحقیقی کام کی منظوری دے دیتی ہیں۔ یہ صور ت حال انتہائی افسوس ناک ہے ۔
میرے معمولات
میں صبح 8 بجے سے شام 4 بجے تک کالج میں تدریسی فرائض انجام دیتا ہوں۔ نماز عصر سے عشا تک کا وقت مشاعروں میں شرکت اور نقابت کے لیے مختص ہے ۔ میں رات 10 بجے سو جاتا ہوں اور ایک بجے بیدار ہو کر نماز فجر تک میں لکھنے پڑھنے کا کام کرتا ہوں۔ شاعری اورملک بھر سے موصول ہونے والی کتابوں پر تبصرے اور دیباچے لکھنے کے لیے مجھے رات کا پچھلا پہر بہترین وقت لگتا ہے۔ میں نے 2011 میں اپنا یوٹیوب چینل بنایا تھا جس پر اب تک 6 ہزار ویڈیوز اپ لوڈ ہوچکی ہیں۔ میں جن مشاعروں میں شرکت کرتا ہوں، ان کی تفصیلی رپورٹ بھی تحریر کرتا ہوں اور فیس بک اور سوشل میڈیا پر یہ رپورٹس اپ لوڈ کی جاتی ہیں ہیں۔
شادی اور اولاد
میری شادی 15اپریل 1993کو ہوئی ۔ میرے سسر ال کا تعلق ہماری مغل برادری سے ہے اور یہ گھرانہ فوارہ چوک پیپلز کالونی میں رہائش پذیر ہے ۔ میرے سسر نواب دین کنسٹرکشن کا کاروبار کرتے ہیں ۔میری
اہلیہ زاہدہ پروین نے تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز ڈگری حاصل کر رکھی ہے ۔ میرے چار بیٹے ہیں ۔ بڑے بیٹے احسان احمد قادری نے بی اے تک تعلیم حاصل کی ہے ۔ اسرار احمد قادری نے انگلش میں ایم فل کیا ہے ۔ وہ گزشتہ پانچ برس سے گورنمنٹ گریجوایٹ کالج سمن آباد میں بطور سی ٹی آئی پڑھا رہے ہیں ۔توصیف احمد قادری اور احسن ریاض سی اے کر رہے ہیں ۔
عمرہ ، چناب گارڈنز میں رہائش
اللہ تعالی کے فضل و کرم سے میں نے اور میری اہل نے2006میں عمرے کی سعادت حاصل کی ۔میں نے 2009میں پہلی کار سوزوکی مہران خریدی۔بچے بڑے ہوئے تو چاندنی چوک غلام محمد آباد والے مکان کی رہائشی سہولت ناکافی محسوس ہونے لگی جس پر میں نے سمندری روڈ پر چناب گارڈنز میں دس مرالے کامکان تعمیر کروایا اور 2018میں ہمارا گھرانہ غلام محمد آباد سے چناب گارڈنز میں منتقل ہو گیا ۔
کچھ چیف ایڈیٹر محمد اسلم اور ’’ڈیلی یارن ‘‘ کے بارے میں
میں نے1998میں ’’ڈیلی یارن‘‘ میں ادبی ایڈیشن کا آغاز کیا تو چیف ایڈیٹر محمد اسلم سے بھی ملاقاتیں ہونے لگیں۔ نظریہ پاکستان فورم کی مختلف تقریبات اور شہر کی دیگر سماجی تقریبات میں بھی ان سے کئی بار ملاقات ہوئی ۔حاجی محمد اسلم صاف گو اور پر خلوص شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ دین اسلام اور نظریہ پاکستان سے پختہ وابستگی رکھتے ہیں۔’’ڈیلی یارن‘‘ ایک نظریاتی اخبار ہے جس کا مقصد قومی تاریخ اور شہر فیصل آباد کی تاریخ کو محفوظ کرنا ہے۔اس اخبار کے مضامین اور انٹرویوز میں شخصیات کے حوالے سے تاریخ محفوظ کی جا رہی ہے ۔حاجی محمد اسلم کی کتابوں ،کالموں اور مضامین میں یہ انفرادیت ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں کو تاریخ کے طور پر پیش نہیں کرتے بلکہ خود متعلقہ شخصیات سے مل کر ان سے تاریخی حقائق معلوم کرتے ہیں ۔ وہ آپ بیتوں کی شکل میں تاریخ تحریر کر رہے ہیں جو اپنی نوعیت کا منفرد اور قابل تحسین کام ہے ۔
حرف آخر
اپنی زندگی میں کسی تعلیمی ادارے میں داخلے ، ملازمت ، اعزاز یا ایوارڈ کے لیے کبھی سفارش کا سہارا نہیں لیا اور اللہ تعالی کے فضل وکرم سے ہر کامیابی میرٹ پر پورا اتر کر حاصل کی ۔میں نے اپنے پورے تعلیمی کیریئر میں ایک دن بھی ٹیوشن نہیں پڑھی ، کبھی کسی امتحان میں نقل نہیں کی ، امتحان میں جتنے نمبر آئے ، کو اپنی محنت کا نتیجہ سمجھ کر قبول کیا ۔ میں میرٹ کا قائل ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر شعبے میں میرٹ کو اولیت دی جائے تو پاکستان کی تقدیر سنور سکتی ہے ۔
تنویر بخاری دی نذر ۔۔۔۔ گروآ تینوں سدا سلام
نذرانہ عقیدت : نور محمّد نور کپور تھلوی پنجابی دے ہرمن پیارے بوٹے نوں گل و گلزار کرن والیاں وچ...