مرشد کیا حال سناوں
جانے کس ڈگر چل پڑا ہوں
خود سے ہی بھاگ رہا ہوں
چاہتا تھا کہ کچھ بن جاوں
مگر راستوں سے قطعی انجان تھا
بھٹک گیا ہوں….
مرشد آپ نے بھی اچھا نہیں کیا
بیج راستے میں چھوڑ دیا
ہر اک سے الجھ رہا ہوں
دراصل خود سے الجھا بیٹھا ہوں
مرشد میں تو چاہتا تھا کہ سب میرا ہو جائے
نادان تھا اتنا کہ کھو دیا سب اس چاہ میں
مرشد میں تو اچھا جینے چلا تھا
مگر یہاں جینے سے مرنا بھلا
مرشد کتنا اچھا ہے نہ وہ انسان
کسی طمع کے بغیر اطمینان سے جیتا ہے
پر مرشد وہ ہے کہاں
دکھتا کیوں نہیں
مرشد صحیح غلط کی کچھ سمجھ نہیں
بیچ کہیں میں الجھ گیا ہوں
مکڑی کے جالے سا الجھا جال ہے
کیسے سلجھاوں مرشد
سمجھنا کچھ چاہتا ہوں
سمجھتا کچھ ہوں
بہت بھاگا ہوں اسکی طلب لیے
پھر بھی خالی ہاتھ لیے ہوں
لوگ کہتے ہیں زمانہ خراب ہے مرشد
سوچتا ہوں زمانہ لوگ ہی تو ہیں
مرشد پڑھ پڑھ کتابیں
سمجھ دار بنا پھرتا ہوں
اندر سے بکھرا بیٹھا ہوں
مرشد اب حال سناوں کس کو
آپ سے بھی تو الجھا بیٹھا ہوں
“