پاکستان اور دنیا بھرمیں پچھلے دو سال کرونا کی وبا رہی جس سے کاروبار ِ زندگی شدید مثاثر ہوا۔لوگ وبا کے پھیلنے کے خدشے سے گھروں تک محصور رہے۔ دکانیں، دفتر، شاپنگ مال وغیرہ سب بند رہے۔ لوگوں کے کاروبار بک گئے۔ ملازمت پیشہ افراد کے لیے مختلف کمپنیوں نے گھر سے کام کرنے کی سہولت رکھ دی۔ ایسے میں ایک بڑا متوسط طبقہ گھر بیٹھ گیا۔ جن کے پاس کچھ جمع پونجی بھی تھی اور اب وقت بھی کافی میسر تھا۔ ایسے میں آن لائن بزنسز کی بڑی کمپنیاں جیسے کہ ایمازون، ای بے وغیرہ کی چاندی ہو گئی۔
ایمازون کا ماڈل ایک ماڈل ہے جسے FBA کہتے ہیں۔ یہ ماڈل یوں کام کرتا ہے کہ آپ اپنی بیچی جانے والی مصنوعات ایمازوں کے وئیر ہاؤسز میں بھیجیں اور آرڈر آنے پر وہ ایمازوں کچھ فیس کاٹ کر آپکی پراڈکٹ گاہک کو بھیج دیتی ہیں۔ یہ ماڈل کافی مقبول رہا اور بڑے لوگوں نے اس ماڈل کیوجہ سے آن لائن بزنس شروع کیا جس میں سے اکثریت کا پیسہ ڈوب گیا۔ اسی طرح وقت اور کچھ پیسہ کمانے کے چکر میں امریکہ اور دنیا بھر کے بڑے لوگوں نے سٹاک ایکسینج میں بھی خوب پیسہ لگایا ۔۔انٹرنیٹ کی سہولت، وقت اور سٹاک ایکسچینج اور آن لائن بزنس کی ویب سائٹس اور ایپ کی سہولت ہونے پر پیسہ انوسٹ کرنا اب عام لوگوں کی دسترس میں بھی تھا۔
اتنی تعداد میں لوگوں کا پیسہ کیوں ڈوبا؟ یہ بتانے سے پہلے اُن گروؤں کی بات کرتے ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن بزنس اور سٹاک ایکسچینج کے “گُر” بتاتے پھرتے ہیں۔ کرونا کے وقت ان لوگوں کی بھی خوب چاندی ہوئی۔
انہوں نے دراصل کیا یہ کہ لوگوں کو آن لائن بزنس کے بڑے بڑے سبز باغ دکھائے۔ یہ “اُستاد” لوگ پیسے کی نمائش کر کے اور اپنا بہتر لائف سٹائل بتا کر لوگوں کو متاثر کرتے۔ اور بتاتے کہ یہ سب پیسہ انہوں نے آن لائن بزنس کر ذریعے کمایا ہے۔ اس میں کتنی حقیقت اور کتنا جھوٹ تھا یہ تو نہیں معلوم مگر یہ ضرور ہے کہ یہ سب بتانے کے بعد وہ لوگوں کو راغب کرتے کہ انکے کورسز کریں جو چند ہزار روپوں کے ہوتے۔ جس میں یہ آن لائن بزنس اور سٹاک ایکسچینج کے گُر بتائے جاتے۔ اِنکا مقصد آپکا بزنس چمکانا ہرگز نہ ہوتا بلکہ اپنے کورسز بیچ کر پیسہ کمانا ہوتا۔ یہ کتنے مخلص تھے اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا یے کہ ہر آئے روز یہ اپنے “سٹوڈنس” کے جو انکے کورسز سے فارغ التحصیل ہوتے اور انکی “ماہرانہ” سرپرستی میں کاروبار کرتے، اُنکے جمعہ جمعہ آٹھ دن کے کاروبار کی کامیابیوں کی کہانیاں بتاتے پھرتے کہ فلاں نے اتنا کم ہیسہ لگایا اور چند ماہ میں ہی اب وہ لاکھوں کی کمائی کر رہے ہے۔
مگر اس سب میں ایک مسئلہ ہوتا۔ وہ یہ کہ “کامیاب” کاروبار کی کل کمائی بتاتے ۔ منافع نہیں !! اسے یوں سمجھتے ہیں۔مثال کے طور پر ایک آدمی نے 100 پانی کی بوتلیں 50 روپے فی بوتل بیچی۔ اب اُسکی کل کمائی ہوئی 5 ہزار روپے۔ مگر اس میں منافع کتنا ہے ۔۔بوتل بیچنے والے شخص کو اگر ایک بوتل 30 روپے کی ملی اور اس پر بقایا دکان کا کرایہ، پیٹرول کا خرچ اور دیگر خرچے ملا کر بوتل 40 روپے کی ہوئی تو اسکا منافع فی بوتل 10 روپے بنا۔تو آسان حساب یہ کہتا کے 100 بوتلیں بیچنے پر اسکا کل منافع ہوا 1 ہزار روپے۔ مگر آن لائن کاروبار کی کامیابی کی کہانیاں بتانے والے یہ “گُرو” لوگوں کے سامنے انکا منافع نہیں بلکہ کل کمائی کو پیش کر کے لوگوں کو متاثر کرتے۔
اسکے علاوہ اور بھی کئی مسائل نہ بتائے جاتے۔۔مثال کے طور پر آپ اگر کوئی پراڈکٹ ایمازون پر بیچتے ہیں تو جب کوئی شخص کوئی چیز ایمازون پر سرچ کرے تو اگر آپکی پراڈکٹ پہلے پیج پر سامنے آئے تو لامحالہ اس بات کا امکان قوی ہو گا کہ وہ شخص آپکی پراڈکٹ خریدے گا۔گاہک کی نظر میں آپکی پراڈکٹ کو سامنے لانے کے لیے آپکو ایمازون کو کچھ اضافی پیسہ اشتہار کی مد میں دینا ہوتا یے۔ اب جب آپ یہ تمام اخراجات ملاتے ہیں تو آخر میں اپکا منافع یا تو بہت کم رہ جاتا ہے یا آپ اُلٹا نقصان میں بھی جا سکتے ہیں۔ میرے امریکہ یا دیگر ممالک میں ایمازون کی کمپنی میں کام کرنے والے دوست اس بات پر متفق ہیں کہ جس طرح سے جوا خانے میں فائدہ ہمیشہ جوا خانے کا ہوتا ہے بالکل ایسے ہی ایمازون اور دیگر بڑی کمپنیاں ہر طرف سے آپ سے بھی پیسہ کماتی ہیں اور گاہک سے بھی۔دوسرا اہم مسئلہ اس طرح کے آن لائن کاروبار میں سپلائی چین کا ہوتا یے۔ یعنی آپکو اپنی پراڈکٹ، پراڈکٹ بنانے والی کسی چائنہ کی کمپنی سے بڑی تعداد میں متواتر منگوانی پڑتی ہے جسکے لیے شروع می لگائی گئی رقم جو گرو بہت کم بتاتے ہیں سے مزید پیسہ درکار ہوتا ہے تاکہ آپکا پراڈکٹ ایمازون پر سرچ کرنے کے دوران پہلے یا دوسرے پیج پر نظر آتا رہے۔ اسے رینکنگ کہتے ہیں۔سو رینکنگ کے لیے آپ کو سپلائی چین رکھنا ضروری ہے تاکہ آپکی پراڈکٹ ختم نہ ہو ۔ اس کے لئے چونکہ آپ اپنا سامان چائنہ سے سستے داموں لے رہے ہوتے ہیں اور سامان کے بننے اور اسکی چائنہ سے ایمازوں کے وییر ہاؤسز میں ترسیل میں مہینوں لگتے ہیں تو آپکو پیشگی بڑی رقم خرچ کر کے بڑی تعداد میں سامان مہینوں پہلے منگوانا ضروری ہوتا ہے۔ گویا سپلائی چین بنائے رکھنے کے لیے کاروبار کے شروع میں لگائے گئے پیسے سے بھی زیادہ پیسہ۔
یہ تمام باتیں آپکو “گرو” لوگ یا تو صحیح سے بتاتے نہیں یا ہھر اس انداز میں بتاتے ہیں کہ یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ اس لیے بے فکر ہو کر ہمارا چند ہزار کا کورس کیجیے اور گھر بیٹھے راتوں رات چند ہزار یا چند لاکھ روپوں سے امیر ہو جائیے۔ مقصد انکا محض اپنے کورسز بیچنا اور عوام میں نظر میں خود کو مسیحا ثابت کرنا ہوتا ہے کہ بھائی ہم نے اپنا فرض نبھا دیا۔ دیکھو ہم کتنے اچھے ہیں۔ سب کا کتنا بھلا سوچتے ہیں۔ وطن کا قرض چکا رہے ہیں۔ وطنِ عزیز کے بھٹکتے اور بے روزگار نوجوانوں کو کسی مثبت راہ پر لگا رہے ہیں اور اسی طرح کے بے کار کے بھاشن۔ جس پر شخصیت پرستی کی لعنت میں ڈوبے انکے چیلے واہ واہ کرتے پھرتے ہیں اور انکو اپنا مسیحا مان کر انکی دفاعی فوج بن جاتے ہیں۔ یہ سب اب ایک Cult Culture بنتا جا رہا ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں سوچ میں شدت ایک عمومی مسئلہ ہے۔
یہ تو ہو گئی گروؤں کی بات۔ اب بات کرتے ہیں اعداد و شمار کی کہ دنیا بھر میں ہر سال کتنے فیصد آن لائن بزنس ناکام رہتے ہیں۔تو اسکا جواب ہے تقریباً 90 فیصد۔ جی آپ نے صحیح سنا۔ اور وہ بھی محض پہلے 120 دن کے اندر اندر۔ تو اتنی تعداد میں ان عام۔ وگوں کے آن لائن بزنس کیوں ناکام ہوتے ہیں۔
معاشی اور معاشرتی سائنس کے نقطہء نظر سے دیکھیں تو اسکی چار بنیادی وجوہات سامنے آتی ہیں۔
1.راتوں رات پیسہ کمانے کی غیر حقیقی توقع۔جب آپکی توقعات زیادہ ہوں اور پوری نہ ہوں تو آپ بہت جلد ہمت اور شوق دونوں کھو بیٹھتے ہیں۔
2. عموماً جو لوگ آن لائن کاروبار شروع کرتے ہیں اُنکا پہلے سے کوئی کاروباری تجربہ نہیں ہوتا۔ وہ لوگوں کی سُنی سنائی باتوں اور لالچ میں آ کر اپنی جمع پونجی لگا دیتے ہیں۔
3. مناسب منصوبہ بندی کا فقدان۔ ناکام ہونے کی صورت میں کیا دوسرا لائحہ عمل ااختیار کیا جانا چاہیے یا کس طرح سے نقصان ہونے کی صورت جلد سے جلد اس کاروبار سے نکل جانا چاہئے۔ یعنی Exit Strategy کا نہ ہونا۔
4. مستقل مزاجی کا فقدان۔کوئی بھی کاروبار چاہے وہ عام دکان ہو، ٹھیلہ ہو یا آن لائن بزنس، مستقل مزاجی مانگتا ہے۔ اِسکے ساتھ ساتھ ہر کاروبار میں محنت اور لگن درکار ہوتی ہے۔ عموماً آن لائن بزنس میں لوگوں کو یہ غلط فہمی لاحق ہوتی ہے کہ صبح اُٹھ کے عام کاروبار کیطرح گھر سے نکل کر کھجل خوار نہیں ہونا ہوتا تو کمپوٹر کے سامنے بیٹھ کر چند کاموں سے خوب پیسہ جب چاہیں جہاں چاہیں کمایا جا سکتا ہے۔ یہ عقدہ کاروبار شروع کرنے کے بعد جب ان لوگوں پر کھلتا ہے تو انکی آزادی اور آسان پیسہ کمانے کی اُمیدوں ہر پانی پھیر دیتا ہے ۔
مگر کیا آن لائن کاروبار میں کامیاب ہوا جا سکتا ہے ؟ جی بالکل مگر حقیقت پسندی کو اپنا کر۔ جسکو آن لائن کاروبار کرنا ہے پہلے وہ جا کر اپنے رشتہ داروں یا محلے کے لوگوں کو کچھ بیچ کر یہ سیکھے کہ بیچنے خریدنے کے عمل میں وہ کتنا فائق ہے۔ یہ تجربہ کرنے کے بعد آپکو حقیقت کا اندازہ ہو جائے گا کہ آپ آن لائن کاروبار کر سکتے ہیں یا نہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ان تمام باتوں اور کاروبار کے آن لائن رسک سے واقف ہو کر کی اپ مناسب منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔ورنہ چڑھتے رہیں ان آن لائن کاروبار کے خواب دکھانے والے گرؤوں کے ہتھے جنکا پیسہ آپکی کم علمی اور لالچ پر بن رہا ہے۔ کس نے روکا ہے؟
نوٹ: آن لائن کاروبار کرنے میں یا آن لائن اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ذریعے پیسہ کمانے( مثال کے طور پر گرافک ڈیزایننگ یا کمپوٹر پروگرامنگ” وغیرہ) میں فرق ہے۔ دوسرے طریقے میں اپ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کام کر کے پیسہ کما رہے ہوتے ہیں جسے فری لانسِنگ کہا جاتا ہے۔ اور اس میں آن لائن کاروبار کی نسبت ناکامی کے امکانات کم ہوتے ہیں کہ یہ آپکی اپنی صلاحیتوں پر منحصر ہے۔
ہزار جہانِ جستجو
1992 سے 2023 کم و بیش تیس سال میں سائنسدانوں نے صفر سے 5500 ایسے سیارے ڈھونڈے ہیں جو ہماری...