بروز ۵ اگست ٢٠٢٠ کو حکومت پاکستان نے مقبوضہ کشمیر پہ ظلم و ستم کے خلاف یومِ استحصالِ کشمیر منانے کا اعلان کیا گیا ۔۔۔
اس موقع پہ ملک بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور ہر طرح سے اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا ۔ اس موقع پہ حکومت نے پاکستان کا نیا نقشہ بھی منظور کیا ہے ،جس میں مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ دیکھایا گیا ہے نیز" کشمیر ہائ وے" کا نام بدل کر" سری نگر ہائ وے "رکھ کر ہندوستان کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ تم جتنی کوشش کر لو ان شاء اللہ کشمیر پہلے بھی ہمارا تھا اور آج بھی ان شاء اللہ ہمارا ہے ،کشمیری اور پاکستانی عوام روحانی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور یکجاء ہیں ۔۔. ۵ اگست ٢٠٢٠ کے دن صبح ١٠ بجے پاکستان بھر میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئ اور یوں پاکستان کی حکومت و عوام نے کشمیریوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا، بیشک کشمیر ہماری شہ رگ ہے۔
ہم مسئلہ کشمیر کو ایک آتش فشاں سے تشبہہ دے سکتے ہیں کیونکہ آتش فشاں میں لاوا مسلسل پکتا رہتا ہے اور ایک دن آتش فشاں لاوے سے بھر کر پھٹ جاتا ہے بالکل یہی حال کشمیر کا بھی ہے . ایک دن اس آتش فشاں کے پھٹنے کے بعد جنوبی ایشیاء میں تباہی ہی تباہی ہو گی اس تباہی سے بچنے کا واحد حل یہی کہ حقدار کو اس کا حق دیا جائے ۔اس خطرے کا اقرار خود اقوامِ متحدہ نے بھی اپنی ٨جون ١٩٩٨ کی قرار داد میں کیا ۔ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے اراکین نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں دیرپا امن ،تحفظ اور استحکام کے لیے اور انڈوپاک کی کشیدگی ختم کرانے کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل اشد ضروری ہے ۔
حالیہ حالات اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ اگر اس مسئلے کو اب بھی حل نہیں کیا گیا تو خدانخواستہ یہ مسئلہ تیسری عالمی جنگ کا باعث بھی بن سکتا ہے ،کیونکہ اس مسئلے میں دو ایٹمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں اور تیسرا فریق چین کی صورت میں بھی نظر آ رہا ہے جس کی ١٩٦٢ میں اسی کشمیر کے مسئلے کی بنیاد پہ انڈیا سے جنگ ہو چکی ہے۔ اب دنیا جان گئ ہے کہ کشمیر کا تنازعہ درحقیقت وادیءکشمیر کا ہی نہیں بلکہ مکمل جنوبی ایشیاء کے امن کے لیے انتہائ خطرناک مسئلہ بن گیا ہے ۔جسکا فوری حل اب ناگزیر ہے ۔اب پاک و بھارت کی کشیدگی سے ہونے والی صورت حال نے پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے ۔ کشمیر ایک ایساایک خطہ ہے جسے خدا نے قدرتی وسائل سے مالامال کیا ہے ،سرسبز پہاڑ ،قدرتی آبشار اور ہری بھری وادیاں اس وادی کی پہچان ہیں ، بیشک وادیءکشمیر جنت نظیر ہے ۔مگر افسوس کہ یہ وادی ان تمام نعمتوں کے باوجود انتہائ بدقسمت رہی ہے جس کی وجہ اس کا محل و قوع ہے ۔
کشمیریوں کی بدقسمتی کا اصل آغاز تب ہوا جب ایک کشمیری راجہ گلاب سنگھ نے ٧۵ لاکھ نک شاہی سکوں کے عوض کشمیر کو انگریزوں سے خرید لیا ۔ اور جب برِ صغیر کو تقسیم کرنے کا وقت آیا تو انگریز حکومت نے اعلان کیا کہ برصغیر میں موجود ریاستیں خود فیصلہ کریں کہ وہ کس ملک میں شامل ہونا چاہتی ہیں ، لہزا اس وقت کے کشمیری راجہ ہری سنگ نے الحاق کے بجائے آزاد الگ ریاست قائم کرنے کا اعلان کر دیا ۔جس کو کشمیری عوام نے یکسر مسترد کر دیا ،کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے تھے، کیونکہ کشمیر کی ٧۵ فیصد آبادی مسلمان تھی ۔ مہاراجہ نے ہر ممکن طریقے سے اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کو بروئے کار لا کر مسلمان کشمیریوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں کشمیریوں نے بغاوت کر دی اور کشمیر کے آس پاس کے قبائلی سردار بھی کشمیریوں کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔ مہاراجہ نے صورت حال کو بگڑتے دیکھ کر بھارتی حکومت سے معاہدہ کر لیا اور کشمیر کا الحاق انڈیا سے کرنے کا اعلان کر دیا ۔اس کے بعد فوری طور پہ انڈیا نے اپنی فوج وادی ء کشمیر میں اتار دی ۔ جب کشمیریوں پہ بھارتی افواج کے ظلم کی انتہاء ہو گئ تو کشمیریوں نے پاکستان حکومت سے مدد طلب کی اور پاکستان نے اپنے کشمیری بھائیوں کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے کشمیری مجاہدین کی مدد کا اعلان کر دیا اور باقاعدہ جنگ کر کے ایک تہائ علاقے کو آزاد کرا لیا ۔بھارت اپنی ناکامی و پسپائ دیکھ کر گھبرا گیا اوراس نے اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور مدد طلب کی ۔ ١٩۴٨ میں اقوام متحدہ نے کشمیر کے مسئلے کے حل کےلیے ایک قرار داد منظور کی۔ جس کے چیدہ چیدہ نکات مندرجہ ذیل تھے ۔
١_ فوری طور پر جنگ بندی کی جائے ۔
٢_ریاست جموں کشمیر سے دونوں ممالک کی افواج اور دیگر متحارب عناصر نکل جائیں ۔ البتہ انتظامی اور امن و امان کے حصول کے لیے بھارت کی انتہائ کم فوج کو رہنے دیا جائے ، اس وقت تک کےلیے جب تک کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کی عوام نہیں کرتی ۔
٣_جب تک وادیءکشمیر کا حتمی فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک انتظامی امور کو سنبھالا دینے کےلیے ایک مخلوط حکومت قائم کی جائے جس کے ارکان غیرجانبدارانہ رویہ رکھتے ہوں ۔
۴_ امن و امان کی صورتِ حال معمول پہ آنے کے بعد ریاست میں آزادانہ اور غیرجانبدارانہ استصواب رائے کرایا جائے ۔
۵_ کشمیری اپنے حق کا فیصلہ خود کریں ۔
اس کے بعد اقوامِ متحدہ نے بھارت کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ جلد از جلد ریفرنڈم کرائے تاکہ کشمیری عوام اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر کے اپنے مستقبل کا حتمی فیصلہ کر سکیں ۔
بھارت نے انتہائ مکاری کا ثبوت دیتے ہوئے ١٩٨٧ میں الیکشن کا ڈھونگ رچایااور انتخابات منعقد کروانے کا بہانہ بنا کر بھارتی افواج نے نہتے کشمیریوں پہ ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے اور کیا کیا ستم مقہور اور مجبور کشمریوں پر نہ ڈھایا ،کون کون سا غیرانسانی ،غیر اخلاقی حربہ نہیں آزمایا ۔ ہندوستانی حکومت نے الیکشن کے انعقاد سے پہلے ایک لاکھ سے زائد فوج مقبوضہ کشمیر بھیج دی اور ہزاروں کی تعداد میں بھارتیوں اور سیکورٹی فورسسز کے اراکین کو سویلین روپ دے کر مقبوضہ کشمیر میں وٹرز کی حیثیت سے بھیجا تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ ووٹ دینے کےلیے وٹرز کی بڑی تعداد پولینگ اسٹیشنز میں موجود ہے ۔۔۔ اس کے بعد ۴٠فیصد ٹرن آوٹ کا جھوٹا اعلان بھی کر ڈالا ، جبکہ سچ اس کے بالکل برعکس تھا ۔ کشمیری عوام نے اس نام نہاد الیکشن کو بھارتی دھوکہ بازی دیکھتے ہو یکسر مسترد کر دیا ۔ جس کا باقاعدہ کشمیری رہنماوں نے اعلان بھی کیا ۔ یوں بھارت کشمیر میں الیکشن کروانے میں مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ اس کے بعد کشمیر میں کشمیری اپنا حق حاصل کرنے اور شفاف استصوابِ رائے کےلیے گزشتہ ٧٠ سال سےسیاسی اور عسکری دونوں محاذوں پہ انڈیا سے مردانہ وار لڑ رہے ہیں ۔ یہ مظلوم کشمیری عوام قیامِ پاکستان سے اب تک بھارتی فوجیوں کے ظلم وستم اسی طرح سہہ رہے ہیں ۔ کشمیر کے مقامی اخبارات بھارتی فوجی مظالم ،سیاسی ہلاکتوں ،ماورائے عدالت قتلِ عام ،بے گناہ کشمیریوں پر تشدد ،سیکورٹی فورسسز کی طرف سے طاقت کا غلط استعمال اور اغوا جیسے واقعات سے بھرے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ حالیہ حالات سے یہ بات واضح ہو چلی ہے کہ بھارت جنوبی ایشیا میں اپنی برتری قائم کرنے کےلیے پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور جنوبی ایشیاء میں مسئلہ ء کشمیر ایک انتہائ اہم اور تباہ کن مسئلہ ہے اگر اب بھی اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عالمی سطح پہ انتہائ کوشش نہ کی گئ تو خوف ہے کہ جنوبی ایشیاء میں تباہی ہی تباہی ہو گی اور اس تباہی سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ حقدار کو اس کا حق دیا جائے ۔ تاکہ اس خطے میں امن قائم رہے . اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں اور وہ نہتے اور مجبور کشمیریوں پر غیر انسانی اور غیر اخلاقی دونوں طرح کے حربے آزما رہا ہے ۔انڈین آرمی کی تقریباً ساڑھے نو لاکھ کی تعداد بھی (جو ہر طرح سے مسلح ہیں ) تحریکِ حریت کی آگ کو بجھا نہیں سکی اور نہ بجھا پائے گی ۔
جس خاک کے خمیر میں ہے آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند
بھارت تحریکِ حریت کو ختم کرنے کی اور کشمیر پہ مکمل قبضہ کرنے کی سر توڑ کوششیں کر رہا ہے ۔ پچھلے سال ۵ اگست ٢٠١٩ کو بھارت نے کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کے لیے وہی حکمتِ عملی اپنائ جو کبھی اسرائیل نے فلسطین پہ قبضہ کرنے کے لیے بنائ تھی کہ سب سے پہلے کچھ اسرائیلی فلسطین جا کر آباد ہوئے پھر انہوں نے اپنی آبادی میں اضافہ شروع کیا اور مقامی فلسطینیوں سے منہ مانگی قیمتوں پہ زمینیں اور جائدادیں حاصل کرنا شروع کی اس کے بعد انہیں لالچ دیا اور پھر تیزی سے منہ مانگی قیمت پہ زیادہ سے زیادہ زمینیں خریدنے لگے اور زیادہ تر فلسطینی علاقوں پہ اپنا تسلط قائم کر لیا ۔ بالکل اسی طریقے پہ عملدرآمد کرتے ہوئے پچھلے سال بھارت نے آرٹیکل ٣٧٠ کا خاتمہ کر دیا اور مقبوضہ جموں کشمیر پہ بھارتی آئین لاگو کر دیا ۔ آرٹیکل ٣٧٠ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خودمختار ریاستی حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے ۔۔۔اس آرٹیکل کی منسوخی کی وجہ سے ریاست جموں و کشمیر کی جگہ بھارتی حکومت کے زیرِ انتظام دو علاقے بنا دئیے گئے ہیں ۔ایک جموں کشمیر اور دوسرا علاقہ لداخ ہے ۔ اب انڈین آئین مقبوضہ کشمیر پہ لاگو کر دیا گیا ہے اور انڈین قوانین کی پاسداری کرنا کشمیریوں پہ لازمی قرار دے دیا گیا ہے ۔ آرٹیکل ٣٧٠ کے خاتمے کے ساتھ ہی اے٣۵ شق بھی خود بخود ختم ہو گئ ہے جس کے تحت اب کوئ بھی بھارتی شہری جموں کشمیر میں جائداد بنا سکتا ہے اور نوکری کر سکتا ہے مزید یہ کہ وہ سرمایہ کاری بھی کر سکتا ہے جبکہ اے٣۵ کے تحت کوئ بھارتی نہ تو مقبوضہ کشمیر میں جائداد بنا سکتا تھا ، نہ نوکری کر سکتا تھا اور نہ ہی سرمایہ کاری کر سکتا تھا ۔ آرٹیکل ٣٧٠ کی منسوخی کے بعد سے پورے مقبوضہ کشمیر میں حالات انتہائ خراب ہو گئے ہیں ۔ اب مودی حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تحریک حریت کو بندوق کے زور پہ کچل دیا جائے چونکہ مودی حکومت جانتی ہے کہ کشمیری اس آرٹیکل کے خاتمے کی بھرپور مزمت کریں گے اس لیے بھارتی حکومت نے کشمیر میں انڈین آرمی کی تعداد میں مزید اضافہ کر دیا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر کے کشمیریوں پہ مزید زندگی تنگ کر دی ہے ۔۔ گزشتہ سال سے اب تک مجبور نہتے کشمیری کرفیو کہ صورت ایک بد ترین عذاب سہہ رہے ہیں ۔دوسری طرف بھارت نے لائن آف کنٹرول پہ بلا اشتعال دلائے بھرپور فائرنگ اور گولہ باری شروع کر رکھی ہے اور کھلم کھلا جینیواء کنوینشن کی خلاف ورزی کر رہا ہے ۔ بھارتی فوج آزاد کشمیر میں موجود نیلم ڈیم کو بھی مسلسل نقصان پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن الحمدللہ اب تک بری طرح ناکام رہی ہے ۔ بھارت کی طرف سے یہ بلا اشتعال گولہ باری صرف اس لیے کی جا رہی ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کی اس بدلتی صورتِ حال سے دور رہے اور کشمیری بھائیوں کی مدد کرنے کی قطعاً کوشش نہ کرے ۔ پاکستانی افواج لائین آف کنٹرول پہ مکمل چوکس ہیں اور انڈین آرمی کی فائرنگ اور گولہ باری کا منہ توڑ جواب دے رہی ہیں اس ضمن میں ڈی جی آئ ایس پی آر جرنل بابر افتخار نے دنیا کے سامنے انڈیا کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انڈیا کو جنیواء کنوینشن کی کھلے عام خلاف ورزی کرنے اور کشمیری عوام پہ ظلم و ستم کرنے سے روکے ۔ انہوں نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ انڈیا کسی بڑی دہشت گردی کا ڈھونگ رچا کر پاکستان پہ کوئ الزام لگا سکتا ہے اور جنگ کا آغاز کر سکتا ہے ۔ انڈیا اس وقت ہر طرح سے اپنی من مانی کر رہا ہے اور اس کی گندی ذہنیت کا اندازہ لوک سبھا کے آر ایس ایس کے رکن سنجے روت کے اس بیان سے باخوبی لگایا جا سکتا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ " آج تو ہم نے کشمیر لیا ہے کل پاکستان کے اندر جو کشمیر ہے وہ لیں گے ،پھر بلوچستان بھی لیں گے اور اس کے بعد مودی کا اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہونے جا رہا ہے " ۔ بھارتی حکومت نے مزید انڈین فورسسز مقبوضہ کشمیر میں بھیج دیں ہیں جو نت نئے طریقوں سے غریب نہتے کشمیریوں پہ ظلم ڈھا رہی ہیں ۔ کشمیری عوام ان تمام تکالیف اور پر تشدد حالات کا مقابلہ جس ہمت و حوصلہ سے کر رہی ہیں وہ قابلِ ستائش ہیں ۔ بھارت نے کشمیری سیاسی قیدیوں کو اب کشمیر سے باہر منتقل کر دیا ہے اور انہیں ان کے خاندانوں سے ملنے نہیں دیا جا رہا ۔ کشمریوں کو خوف ہے کہ کسی وقت بھی ان کشمیری راہنماوں کو شہید کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستانی حکومت بھارت کے حالات کو انتہائ باریک بینی سے دیکھ رہی ہے اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے لیکن اگر بھارت نے یہ ظلم و ستم اور کنٹرول لائین کی خلاف ورزی ختم نہ کی تو پھر پاکستانی حکومت اور افواج اس جارحیت کا بھرپور جواب دیں گے ۔ کیونکہ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے کہ "مسلمان مسلمان کا بھائ ہے ۔وہ نہ اس پہ ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے " ۔
اسی طرح ایک اور جگہ رسول پاکؐ کا فرمان ہے کہ "ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے ۔جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط رکھتی ہے" ۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ افواجِ پاکستان دنیا کی بہترین فوج ہے اور وہ قرآنِ مبین کے اس حکم کے مطابق کہ " اور ان دشمنوں کے مقابلے کے لیے اپنی استعداد کے مطابق تیاری رکھو " ہر دم چاک و چوبند اور چوکس و ہوشیار ہیں ۔
ارادے جن کے پختہ ہوں ،نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
بیشک پاکستان امن کا خواہاں ہے مگر کسی بھی قسم کی جارحیت پر وہ اپنے دفاع سے غافل نہیں ہو گا ۔ پاکستان نے عالمی دنیا پہ یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ کشمیری عوام کے حقوق کی حمایت کرتا ہے اور استصوابِ رائے کے حق کو کشمیری عوام کا حق سمجھتا ہے اگر بھارت نے بزور بازو کشمیر پہ قبضہ کرنے کی کوشش کی تو افواجِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ مل کر اس کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گی ۔ بلاشبہ انڈین آرمی تعداد میں پاکستان آرمی سے کئ گنا زیادہ ہے لیکن اس میں جزبہء ایمان موجود نہیں ہے ۔ کسی بھی ملک کا دفاع دیدہ و نادیدہ قوتوں پہ منحصر ہوتا ہے بیشک بھارتی حکومت کے پاس دیدہ قوت موجود ہے لیکن وہ نادیدہ قوت اس کے پاس ہرگز نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ نادیدہ قوت جزبہ ء ایمانی ہے ۔ یہی وہ جزبہ ء ایمانی ہے جس کی بدولت کشمیری مجایدین اپنے حق کے لیے لڑ رہے ہیں ۔
کشمیریوں کی ان قربانیوں کی بدولت آزادی کی چنگاری نے اب آگ کی صورت اختیار کر لی ہے ۔کشمیری مجاہدین قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود صرف اسی جزبہءایمانی کی وجہ سے اپنے سے کئ گناہ طاقتور فوج سے ٹکرائے ہوئے ہیں۔
اب مسئلہ ء کشمیر دونوں ممالک کے درمیان عناد، انا و بقا کا مسئلہ بن گیا ہے ۔ دنیا جان گئ ہے کہ اس مسئلے کو حل کئے بنا جنوبی ایشیاء میں امن قائم ہونا ناممکن ہے .
اس مسئلہ کا حل شفاف اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے یعنی ریفرینڈم ہے ۔ اقوامِ متحدہ کو اس سلسلے میں اپنے زیرِ نگرانی وقت ضائع کئے بغیر منصفانہ ریفرنڈم کروانا چاہیے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں صحیح معنوں میں امن و امان قائم ہو سکے اور کشمیری عوام برسوں بعد سکھ کا سانس لے سکیں . اس سلسلے میں اپنی بات منوانے کے لیے شد ومد سے کوششیں کی جائیں جس میں سب سے بہترین و موثر کوشش انڈیا پہ مختلف ممالک کے ذریعے معاشی پابندیاں لگانا ہے کیونکہ کسی بھی ملک سے کوئ جائز مطالبہ منوانے کا معاشی پابندی سے زیادہ کوئ موثر ہتھیار کارگر ثابت نہیں ہو سکتا ۔
منصفانہ اور غیرجانبدارانہ استصوابِ رائےکروانا یقیناً مسئلہءکشمیر کا حل ضرور ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ موجودہ صورتِ حال سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ بھارت ایسا نہیں چاہتا !!! اگر بھارت نے کشمیریوں پہ ظلم و جبر بند نہ کیا تو پاکستانی حکومت ،عوام اور افواجِ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی پکار پہ لبیک ضرور کہیں گے اور یہ ٹکراو ایک عظیم جہاد کی صورت اختیار کر سکتا ہے جس کا نتیجہ ان شاء اللہ کشمیر کی جیت یعنی پاکستان سے کشمیر کا الحاق ہی ہو گا۔
پاکستانی عوام کی دعا ہے کہ اللہ مظلوم و مجبور کشمیریوں کو ہندوستان کے غاصبانہ قبضے سے آزادی نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین ۔
“