دنیائے اردو ادب کے ممتاز اور بین الاقوامی شہرت و مقبولیت کے حامل معروف محقق ، ادیب ، نقاد ، مفکر ، مدون ، مولف ، مصنف ، ماہر اقبالیات ، ماہر امجدیات ، ادیب اور استاذالاساتذہ جناب پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کی تاریخ ولادت پاکستان سے ہم رشتہ ہے اور قیام پاکستان سے جڑی ہوئی ہے۔ ۲۳۔ مارچ ۱۹۴۰ (تیئس مارچ انیس سو چالیس) یوم قرارداد پاکستان بھی ہے اور پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کا یوم ولادت بھی۔
سید فخرالدین بلے کی قائم کردہ ادبی تنظیم قافلہ کے ماہانہ اور خصوصی پڑاؤ کے مستقل شرکاء میں سے ایک جناب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب بھی ہیں۔ مجید امجد کی یاد میں بھی جتنے پڑاؤ ڈالے گئے یا سید فخرالدین بلے کے قائم کردہ اشاعتی ادارے معین اکادمی کے زیراہتمام جب ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب مجید امجد کی داستان محبت کی اشاعت کا اہتمام بھی معین اکادمی نے کیا اور قافلہ کا ایک خصوصی پڑاؤ بھی مجید امجد کی داستان رفاقت کی رونمائی کے لیے ڈالا گیا تو اس میں بھی ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے بھرپور انداز میں شرکت فرمائی۔ ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کی منفرد زاویوں اور مختلف موضوعات پر فکر انگیز گفتگو دیگر شرکائے قافلہ کو اپنے سحر میں لیے رکھتی ۔ محترمہ صدیقہ۔ بیگم کہا کرتی تھیں کہ جے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب نے مجید امجد ول نہ تکیا ہوندا تے مجید امجد تے رل جاندا ۔ ہفت روزہ آواز جرس کے مدیراعلی جناب سید فخرالدین بلے شاہ صاحب تھے اور راقم السطور ظفر معین بلے بحیثیت مدیر آواز جرس خدمات انجام دینے والوں میں سے۔ آواز جرس نے دو مرتبہ مجید امجد کو خراج پیش کرنے کے لیے اشاعت خاص کا اہتمام بھی کیا۔ جب آواز جرس کی ادارت کے ساتھ ساتھ ادب لطیف کے بھی مدیر کی ذمہ داریاں محترمہ صدیقہ بیگم نے ہمارے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیں تو فراغت کے لمحات بمشکل تمام ہی میسر آتے تھے۔ بعض اوقات ادارت کے امور کے حوالے سے یا آواز جرس اور ادب لطیف میں اشاعت کے لیے موصول ہونے والے مواد کے حوالے سے یا کسی اشاعت کے معاملے میں مشاورت اور راہنمائی کی ضرورت ہوتی تو میں بلا جھجک جناب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب سے رجوع کرتا۔ وہ ہر ممکن راہنمائی فرماتے تو اس کے ساتھ یہ ہدایت بھی فرماتے کہ آپ جناب سید فخرالدین بلے صاحب سے بھی مشورہ کرلیجے بلکہ میری تجویز کے تناظر میں پوچھ لیجے ممکن ہے آپ کے لیے مزید کوئی بہتر صورت سامنے آجائے ۔ بے شک انہوں نے ہمیشہ بہت قیمتی مشوروں سے نوازا اور ہر فام اور ہر مرحلے پر دل کھول کر حوصلہ افزائی فرمائی ۔ میں نے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کو ہمیشہ ہر قسم کی ادبی گروہ بندی سے لاتعلق اور منکسرالمزاج ، ہمدرد اور مخلص ہی پایا۔ کبھی کبھار ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کی جناب سید عارف معین بلے صاحب سے بھی (کہ جب وہ قافلہ پڑاؤ میں موجود ہوتے اور ملتان سے تشریف لائے ہوئے ہوتے) مختلف ادبی موضوعات پر مفصل اور دلچسپ گفتگو سننے کو ملی۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کی بے مثل خدمات کے اعتراف میں انہیں قومی اعزاز تمغۂ حسن کارکردگی بھی دیا جاچکا ہے۔ ان کی تصانیف اور تالیفات کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اس طویل فہرست میں شامل چند کتب کا تذکرہ یہاں کرنا از حد ضروری ہے۔
اردو کی قدیم اصنافِ شعر (1964ء)
نئے پرانے خیالات (تنقیدی مضامین، 1967ء)
اردو کتابیں (فہرست مصادر، 1972ء)
اردو میں قطعہ نگاری (تحقیق و تنقید، 1975ء)
پریم چند کے بہترین افسانے (تنقید / انتخاب، 1975ء)
اقبال کا ادبی مقام (تنقید، 1975ء)
ان گنت سورج (انتخاب کلام مجید امجد، 1975ء)
اکبر الہ آبادی: تحقیقی و تنقیدی مطالعہ (مجلس ترقی ادبلاہور، 1980ء)، اس کتاب پر 1980ء کا داؤد ادبی انعام براے تحقیق وتنقید دیا گیا۔
کلیات مجید امجد مع غیر مطبوعہ کلام (سن وار ترتیب)
کلیات حفیظ جالندھری (مرتبہ)
کلیات عدم (مرتبہ)
انتخاب زریں: اردو نظم
اقبالیات – چند نئی جہات
شرح بانگ درا
شرح بال جبریل
Urdu for Beginners
(برائے غیر ملکی طلبہ)
آشوب (شعری مجموعہ)
سرکاری پروفائل یا بائیو ڈیٹا کے مطابق “ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا 23 مارچ 1940ء کو امرتسر میں چوک مان سنگھ کی ایک حویلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام خواجہ غلام نبی تھا۔ ابتدائی تعلیم سے قبل تقسیم ہند کے فسادات شروع ہوئے تو ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا اور اسی شہر کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کا امتحان 1954ء میں پاس کیا۔ بی اے آنرز گورنمنٹ کالج لاہور سے کرنے کے بعد ایم اے (اردو) کی ڈگری 1962ء میں جامعہ پنجاب سے اول درجہ میں حاصل کی۔ 1962ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور اردو لیکچرار تعیناتی ہوئی، بعد ازاں جولائی 1963ء میں بطور لیکچرار اردو برائے غیر ملکی طلبہ شعبہ اردو (یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور) میں تقرر ہوا۔ 1967ء تک غیر ملکی طلبہ کو اردو سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کی کلاسیں پڑھاتے رہے۔ بعد ازاں اسی کالج میں شعبہ اردو کے لیکچرار مقرر ہو گئے۔ 1970ء میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے۔ 1973ء میں ہندی میں ڈپلوما کیا۔ 1974ء میں اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران ہندی سرٹیفکیٹ اور ڈپلوما کی کلاسوں کو بھی جز وقتی طور پر پڑھاتے رہے۔ 1977ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوئے۔ 1979ء میں بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں اردو زبان کے پروفیسر کے طور پر تدریسی خدمات انجام دیں۔ یہاں ایک سالہ تقرری کے دوران وہ صدر شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف لینگویجز کے عہدے پر فائز رہے۔ 1980ء میں دوبارہ اورینٹل کالج لاہور آ گئے، یہاں 1984ء میں صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے۔ 1993ء سے 1995ء تک ڈین کلیہ علوم اسلامیہ و السنہ شرقیہ کے فرائض انجام دیے ۔ پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی ملک کی ریٹائرمنٹ کے بعد 1994ء میں کالج کے سب سے سینئر استاد کی حیثیت سے اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ یکم اپریل 1995ء کو اردو زبان کی تدریس کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز (JOCV) کوما گانے جاپان چلے گئے۔ یکم اپریل 1999ء کو واپس پاکستان آئے اور دوبارہ اورینٹل کالج لاہور کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ تقریباً 37 سال تدریسی خادمات انجام دینے کے بعد 22 مارچ 2000ء کو ریٹائر ہو گئے۔ دورانِ ملازمت اورینٹل کالج ، جامعہ پنجاب اور دیگر علمی و ادبی کمیٹیوں کے ارکان بھی رہے۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج میں تدریسی اور انتظامی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ تحقیق و تصنیف میں بھی مشغول رہے۔ انھوں نے ایم اے کی سطح پر ایک سو سے زائد طلبہ کی تحقیقی مقالات لکھنے میں رہنمائی کی۔ اس کے علاوہ 20 سے زائد ریسرچ اسکالروں نے ان کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کر چکے ہیں۔جن ڈاکٹر طاہر تونسوی، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر اے بی اشرف قابل ذکر ہیں۔” ہماری نظر میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کی فرائض منصبی کے حوالے سے بہت سی اہم معلومات اس بائیوڈیٹا میں ہونے سے رہ گئی ہیں۔ جہاں تیئس مارچ انیس سو چالیس کو مسلمانان متحدہ ہندوستان نے ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے حصول کا عزم کیا وہیں اسی مبارک دن اور تاریخ کو رب العالمین نے اردو ادب کو جلا بخشنے کے لیے اردو ادب کے مان اور گوہر نایاب جناب خواجہ محمد زکریا صاحب کی ولادت کی خوشی عطا فرمائی۔ اللہ کریم ان کا سایۂ رحمت ہم سب پر اور اردو ادب پر ہمیشہ قائم رکھے۔ آمین
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب سے ہمارا حد درجہ تعظیم و تکریم کا تعلق رہا اور انہوں نے بھی ہمیشہ ہمیں گویا کہ فرزندان سید فخرالدین بلے کو اپنی شفقت ، خلوص ، محبت اور قدردانی کا گرویدہ بنائے رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کو ہمیشہ جناب سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کا حد درجہ احترام کرتے دیکھا۔ اس حوالے سے اب یہاں پیش خدمت ہے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صاحب کے ایک مضمون “سید فخرالدین بلے ۔ بڑے حکم و آبرو والے” سے چند ، ایک اقتباسات
============================================================
سَیّد فخرالدین بَلّے ۔ بڑے حلم و آبرو والے
تحریر: ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا
قدرت بعض لوگوں کو قلب و ذہن کی غیر معمولی صلاحیتیں ودیعت کر کے اس عرصہ گاہِ دہر میں بھیجتی ہے‘ ساتھ ہی انہیں ایک اور صلاحیت بھی عطا کرتی ہے اور وہ ہے اپنی تحلیلِ ذات سے بے نیاز ہو کر انسانیت اور انسانیت کی خدمت میں ہمہ تن منہمک رہنا۔ اس سے انہیں اپنی ذات کو پسِ پشت رکھ کر معاشرے کی خدمت کو اولیت دینی پڑتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ شہرت کی ان بلندیوں پر فائز نہیں ہو پاتے ،جو ان کی صلاحیتوں کا تقاضا ہوتا ہے مگر وہ ان لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں، جن سے ان کا واسطہ پڑتا ہے۔ سیّد فخرالدین بَلّے ایسی ہی شخصیات میں شامل تھے۔ وہ اگر اپنی علمی اور ادبی صلاحیتوں کی آبیاری میں کچھ زیادہ وقت صرف کرتے تو نامور ادیب اور منفرد شاعر ہوتے مگر انہوں نے سماج ‘ قوم اور احباب کی خدمت کو ترجیح دی اور احباب ہی کے دلوں میں زندہ رہے۔
معروف انگریزی شاعر ٹامسن گرے نے اپنی مشہور نظم
Elegy Written in a Country Churchyard
میں ایسے ہی افراد کے بارے میں لکھا ہے۔ کے ایک بند
Full many a gem of purest ray serene,
The dark unfathomed caves of ocean bear:
Full many a flower is born to blush unseen,
And waste its sweetness on the desert air:
اسی خیال کو امیر مینائی مرحوم نے بڑی سادگی سے ذیل کے شعر میں یوں ادا کیا ہے
کون ویرانے میں دیکھے گا بہار؟
پھول جنگل میں کھلے کن کے لئے
سیّد فخر الدین بَلّے جنگل کی بجائے شہر میں کھِلنے والے پھول کی طرح تھے اور شہر کے لوگ اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وہ روزانہ جن خوبصورت راستوں سے گزرتے ہیں، ان کے سبزہ و گل کی طرف نگاہِ غلط انداز کی فرصت بھی انہیں میسر نہیں ہوتی۔
ہو سکتا ہے میں بھی بَلّے مرحوم کی شخصیت ِ دل آرا و دلکش سے نا آشناہی رہتا مگر حسنِ اتفاق سے بیسویں صدی کی آخری دہائی کے چند برس میں نے ان کی ہمسائیگی میں گزارے ۔اس وجہ سے ان سے قرب کے مواقع میسر آئے اور ان کی وضع داری، شرافت، خوش مزاجی اور انسان دوستی کی خصوصیات کو قدرے قریب سے دیکھا۔
شادمان لاہور کے ایک سرکاری کوارٹر میں منتقل ہوا اور صدی کے اختتام تک وہیں رہا۔ سیّد فخر الدین بَلّے جی او آر تھری میںمیرے کوارٹر کے عین سامنے سکونت پذیر رہے۔ میرے کوارٹر اور ان کے سرکاری مکان کے بیچ میں صرف تیس فٹ کی ایک سڑک حائل تھی۔ میں نے اگرچہ ان کا نام پہلے سے سن رکھا تھا لیکن ملاقات سے محروم تھا۔ ایک روز ان کے فرزند ظفر معین بَلّے تشریف لائے اور اپنے ہاں منعقد ہونے والی کسی ادبی تقریب میں شمولیت کی دعوت دی۔ بعد ازاں اس قبیل کی متعدد تقریبات میں حاضر ہونے کے مواقع ملے۔ اگرچہ 1990 ءسے 1999ءکے درمیان میں نے پانچ سال بیرونِ پاکستان گزارے تاہم ان دو وقفوں کے باوجود بَلّے صاحب کے ہاں درجنوں ادبی محفلوں میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔
یہ محفلیں بالعموم غیر رسمی ہوتی تھیں ۔ حاضرین کی تعداد چالیس پچاس کے قریب ہوا کرتی تھی۔ شہر کے ممتاز شعراءاور ادباء باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے۔ شرکاءمیں حکومت پنجاب کے بڑے بڑے اہم بیورو کریٹ بھی شامل ہوتے لیکن وہ اپنی ادبی اور شعری حیثیت کی بناء پر شرکت کرتے اور آدابِ محفل کا پوری طرح خیال رکھتے۔ ہر ادب دوست اس بات سے شناسا ہے کہ بد قسمی سے ادب میں بھی دیگر سماجی اداروں کی طرح گروہ بندیاں موجود ہیں۔ بعض اوقات نوبت مخالفانہ تحریروں تک پہنچ جاتی ہے اور ایسی تلخیاں جنم لیتی ہیں کہ باہمی روابط منقطع ہو جاتے ہیں اور یہ حضرات کسی محفل میں یکجا بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ فخر الدین بَلّے کی محفلوں میں ہر مزاج اور ہر خیال کے ادیبوں کو بلایا جاتا تھا اور مختلف الخیال شریک ہوتے تھے اور وقتی طور پر تلخیاں بھلا دیتے تھے۔ بَلّے صاحب تمام ادیبوں کا یکساں احترام کرتے تھے۔ ان کے دروازے سب کےلئے کھلے تھے اور سب کو برابر اہمیت دیتے اور جس کسی نے بھی ادب کی خدمت کی ہے، اس کے وقار اور عزت کا پورا خیال رکھتے۔
ان کے ہاں منعقد ہونے والی ادبی محفلوں میں مشاعرے بھی ہوتے ‘ ادبی اور تنقیدی مضامین بھی پڑھے جاتے۔ سوال و جواب بھی ہوتے۔ بذلہ سنجی اور ذکاوت کے مظاہرے بھی ہوا کرتے لیکن یہ محافل تلخیوں اور کدورتوں سے پاک ہوتیں۔ ہر محفل کے اختتام پر خوردو نوش کا انتظام ہوتا۔ یہ اہتمام بَلّے صاحب اپنی جیب سے کرتے اور اشیائے خوردنی ان کی خواتینِ خانہ تیار کرتیں۔ اس طرح یہ دلچسپ محفلیں اختتام پذیر ہوتیں اور کسی آئندہ محفل کے انعقاد کا اشتیاق بڑھا دیتیں۔
سیّد فخر الدین بَلّے محکمہ اطلاعات حکومتِ پنجاب میں اعلیٰ افسر تھے۔ ایک مستعد اور فرض شناس افسر ہونے کی وجہ سے اہلِ اقتدار سے ان کا قریبی رابطہ رہتا۔ مثلاً مجھے خوب یاد ہے کہ پنجاب کے درویش صفت وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں ان کا بہت احترام کرتے اور ان کے مشوروں پر عمل کرتے۔ وائیں صاحب جب بھی کسی تقریب میں مدعو کئے جاتے تو وہ تیار شدہ تقریر پڑھنے کی بجائے زبانی گفتگو کو ترجیح دیتے۔ اس سلسلے میں فخر الدین بَلّے انہیں تیار ی کراتے۔ وزیرا علیٰ کے اس قدر قریب ہونے کے باوجود اپنی طبعی شرافت اور وضع داری کے باعث انہوں نے ذاتی فوائد حاصل کرنے سے احتراز کیا۔اپنے محکمے کے کاموں میں انہیں مہارت حاصل تھی اور جب وہ ریٹائر ہو گئے، اس وقت بھی حسبِ ضرورت محکمے کے لوگ ان سے رہنمائی حاصل کرنے ان کے ہاں آتے رہتے تھے۔ ایک روز میں ان کے ہاں حاضر تھا۔ اس رو ز پنجاب کا سالانہ بجٹ اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا۔ محکمہ اطلاعات سے ایک سیکشن آفیسر آئے اور گزارش کی بجٹ کے بارے میں ایک خبر انگریزی زبان میں تیار کر دیں تاکہ پریس ریلیز کے طور پر بھجوائی جائے۔ بَلّے صاحب اس وقت اس موڈ میں تھے کہ یہ درخواست ان پر بار گزری۔ پہلے تو انہوں نے نرمی سے انکار کردیا لیکن سیکشن آفیسر کے اصرار پرکہامیں بجٹ کی تفصیلات سے بالکل ناواقف ہوں، تاہم چونکہ ہر سال ایک جیسا بجٹ پیش کیا جاتا ہے، اس لئے میں خبر تیار کر دیتا ہوں“۔
پھر سیکشن آفیسر کو روانی سے انگریزی میں نادیدہ بجٹ کے بارے میں خبر لکھوائی اور وہ مطمئن ہو کر چلا گیا۔
فخرالدین بَلّے ادیب‘ شاعر‘ صحافی اور دانشور تھے۔ بطور ِ صحافی انہوں نے بہت سے رسائل و جرائد کی ادارت کے فرائض انجام دیئے۔ جن دنوں میں ان کی ہمسائیگی میں رہتا تھا، اس زمانے میں دو پرچے ان کی ادارت میں باقاعدگی سے شائع ہوتے تھے ۔ ایک ”نوائے بلدیات“ تھا اور دوسرا ”آوازِ جرس“ ۔ نوائے بلدیات سرکاری پرچہ تھااور اس کا مزاج عام سرکاری پرچوں جیسا تھا ،جو ایک طرح سے مدیرانہ مجبوری تھی لیکن ”آوازِ جرس“ کا مزاج علمی اور ادبی تھا۔ اس میں ملک کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی نگارشات باقاعدگی سے شائع ہوتی تھیں۔ شعراءاور ادباءکے بارے میں خاص نمبر نکالے جاتے تھے اور نادر و نایاب تخلیقات سے اس کے صفحات مزین کئے جاتے تھے۔ اس پرچے کی ترتیب و اشاعت میں بَلّے صاحب اور ان کا سٹاف بہت محنت کرتا تھا۔ چنانچہ یہ شمارے معنوی اور صوری حسن سے آراستہ ہوتے۔ ادیبوں کی تحریروں کے عکس شائع ہوتے اور تصویروں سے قارئین کی دلچسپی میں مزید اضافہ کیا جاتا۔ “آوازِ جرس” میں ادبی گروہ بندیوں سے بالاتر رہ کر مواد شائع کیا جاتا۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ شمارے محفوظ ہیں یا نہیں؟ اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ ان کی فائل تیار کر کے اہم کتب خانوں میں محفوظ کر دی جائے ورنہ بہت سی نادر چیزیں ضائع ہو جائیں گی۔
بَلّے صاحب تحمل کا پیکر تھے۔ ان کے بچوں نے بھی باپ ہی کے مزاج پر خود کو ڈھال رکھا تھا۔ ظفر معین بَلّے اکثر میرے ہاں تشریف لاتے رہتے تھے۔ بڑے شائستہ اور منکسر المزاج نوجوان تھے۔ معلوم نہیں آج کل کہاں ہیں؟ بَلّے صاحب کے احباب کے علم میں ہوگا کہ ان کے ایک نوجوان بیٹے آنس معین نے ملتان میں خود کشی کرلی تھی۔ نوجوان بیٹے کی موت باپ کےلئے کتنا بڑا صدمہ ہے، سب لوگ اس سے آگاہ ہیں۔ بَلّے اور ان کے ”فرزندان“ ہمت کے پہاڑ تھے، جنہوں نے یہ عظیم صدمہ حوصلے سے برداشت کر رکھا تھا۔ آنس معین بہت اچھے ابھرتے ہوئے شاعر تھے۔ بَلّے صاحب اپنے اس فرزند کے صدمے کو کم کرنے کےلئے ان کا کلام ” آوازِ جرس” میں شائع کرتے رہتے تھے اور ان کے کلام کے بارے میں تنقیدی مضامین بھی شاملِ اشاعت کیا کرتے تھے اور اس بہانے اپنے فرزند کو یاد کرتے اور دنیائے ادب سے انہیں متعارف کرانے کا سلسلہ جاری رکھتے۔
سیّد فخرالدین بَلّے کو اللہ نے حسنِ صورت سے نواز رکھا تھا۔ سرخ و سفید رنگ‘ تیکھے نین نقوش‘ خوبصورت گھنے بال اور متوازن و متناسب قد و جسم‘ وہ خوش رو ہی نہ تھے‘ بڑے خوش لباس بھی تھے اور ہر طرح کا لباس ان پر سجتا تھا لیکن وہ عوامی سوٹ اور واسکٹ پہننے میں سہولت محسوس کرتے تھے اور اس میں بھی بہت باوقار معلوم ہوتے تھے۔ علی گڑھ کے لہجے میں بات کرتے تھے اور علی گڑھ کے فارغ التحصیل حضرات کی طرح بڑی دلچسپ گفتگو کرتے تھے۔ بڑے شائستہ اور شُستہ انداز میں گفتگو کرتے ہوئے اس میں مزاح کی آمیزش کرتے تھے اور طنز سے اجتناب کرتے تھے، جو شرفاءکا طریقِ گفتار ہے۔ ان کی گفتگو مطالعے اور تجربے کا امتزاج ہوتی تھی مگر اتنی سہل اور رواں کہ کسی پر بار نہیں گزرتی تھی۔ ان سے ملنے والے ایک خوشگوار اور ہمدرد شخصیت کا نقش دل پر لئے ہوئے ان سے رخصت ہوتے تھے۔
بَلّے صاحب نے یقینا بہت کچھ لکھا۔ ”وفیاتِ نامورانِ پاکستان“ کے مرتب ڈاکٹر منیر احمد سلیچ نے لکھا ہے کہ فخر الدین بَلّے نے درجنوں کتابیں تصنیف کیں ۔ میں نے اس سلسلے میں بَلّے کے دوست اور نامور ادیب ڈاکٹر وزیر آغا سے استفسار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ بَلّے صاحب یقینا کثیر التصانیف تھے لیکن ان کی بیشتر کتابیں محکمانہ ضروریات کی وجہ سے ”دوسروں“ کے نام سے شائع ہوئیں۔ بَلّے صاحب بہت اچھے شاعر تھے۔ ان کا جو کلام ان کی زبانی سننے کا موقع ملا، وہ متاثر کن تھا او ر پختگی ِ فن کا نمونہ ہونے کے ساتھ انفرادیت کا حامل بھی تھا۔ اسی طرح وہ ایسی نثر لکھنے پر قادر تھے جس میں اظہار و ابلاغ کا عنصر عمدگی سے جلوہ گر ہوتا تھا ۔۔ ان کی ذات میں جتنا تنوع تھا، اسی قدر رنگا رنگی ان کی نظم و نثرمیں بھی موجود تھی لیکن ان کی بہت کم تحریریں کتابی صورت میں طبع ہو سکیں۔ “آوازِ جرس” کے شماروں کے آخری صفحے پر ایک اشتہار شائع ہوا کرتا تھا ۔ “آوازِ جرس” پبلی کیشنز لاہور کی مطبوعات …. اس میں بَلّے صاحب کی جن کتابوں کا ذکر ہوتا تھا ،ان میں ولایت پناہ (سیرت حضرت علی ؑ) سوچ سفر (نظموں کا مجموعہ)‘ سوچ رنگ (غزلوں کا مجموعہ)‘ درِ ولایت پر دستک اوراسلام اور فنونِ لطیفہ شامل ہیں ،لیکن ہر کتاب کے ساتھ ”زیر طبع“ تحریر ہے۔ یقینا یہ میری کم علمی ہے کہ ان کی اشاعت یا عدمِ اشاعت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بتانے سے قاصر ہوں۔ ریٹائر ہونے کے بعد بَلّے صاحب نے پھر سے ملتان میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ جہاں 28جنوری 2004ءکو وہ اس جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کو سدھار گئے ۔ غالباً انہیں اپنی بیشتر تحریروں کو یکجا کرنے کی فرصت نہ مل سکی۔
مرحوم فخرالدین بَلّے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی اہم تحریروں کو منظرِ عام پر لایا جائے۔ تصانیف کی اشاعت کا کام تو سہل نہیں ہوگا لیکن ان کی منتخب نظم و نثر چند مجموعوں کی صورت میں شائع ہو جائے تو اہلِ ادب اور عام قارئین کو اندازہ ہو سکے گا کہ کتنا با صلاحیت شخص خاموشی سے چلا گیا۔ مجید امجد کے درج ذیل اشعار سیّد فخرالدین بَلّے جیسی شخصیات کو مدِ نظر رکھ کر کہے گئے تھے۔
ہمی نے دیکھا ہے اس کو ہمیں خبر ہے وہ شخص
دلوں کی روشنیاں تھا ‘ دلوں کی زندگیاں
ہمیں خبر ہے بڑے حلم و آبر و والے
ترا مقام کسی اور کو نصیب کہاں
جگہ جگہ تری موجودگی کو پاتے ہیں
ہمارے دردِ فراواں ہمارے اشکِ رواں
ترے لئے جھکے مینائے کوثر و تسنیم
ترے لئے کھلیں درہائے روضہ ءرضواں
===========================================================
پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا ۔ اردو ادب کا مان
تحریر: ظفر معین بلے جعفری