چند دن پہلے 14 فروری کو لاہور ہائیکورٹ کے ملتان بینچ نے قندیل بلوچ کے قاتل بھائی کو بری کر کے رہا کرنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ کئی اور لوگوں سمیت میرے لئے بھی حیران کن تھا کہ ایک مجرم جس نے اپنے جرم کا اعتراف خود عدالت کے سامنے کیا ہو اور جس کے مقدمے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 311 بھی لگی ہو جو غیرت کے نام پر کیے گئے قتل کو ناقابل معافی بناتی ہے اور جس متعلق سپریم کورٹ خود کہہ چکی ہو کہ غیرت کے نام پر کیا گیا قتل قابل معافی نہیں ہو گا تو پھر کیسے ایک قاتل کو بری کرنے کا حکم سنا دیا گیا۔
بطور قانون کا طالبعلم اس فیصلے پر اپنی رائے دینے سے پہلے اس کیس کی تفصیلات اور بریت کے فیصلے کی وجوہات (جج صاحب کے مطابق) آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں۔
فوزیہ عظیم المعروف قندیل بلوچ کو 16 جولائی 2016 کی رات گلا دبا کر قتل کیا گیا۔ قندیل بلوچ ایک غریب پس منظر سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی۔ شوبز سرگرمیوں وغیرہ سے مشہور ہوئی۔ مفتی عبدالقوی (حریم شاہ والے) کی وجہ سے بھی خبروں کی زینت بنی۔ تعلق مظفر گڑھ سے تھا لیکن اب کراچی میں رہائش پذیر تھی۔
قندیل بلوچ عید الفطر منانے کراچی سے مظفر گڑھ اپنے والدین کے پاس آئی ہوئی تھی۔ وہ اپنے والد محمد عظیم اور والدہ انور بی بی کے ساتھ گلستان اسٹریٹ، مظفر گڑھ ملتان میں موجود تھی۔ اطلاع پا کر اس کا بھائی محمد وسیم بھی ملنے کیلئے ا گیا۔ واضح رہے کہ مفتی عبدالقوی جس طرح گزشتہ مہینوں میں حریم شاہ کی وجہ سے خبروں کی زینت رہے تب ان کی قندیل بلوچ کے ساتھ اس طرح کی خبریں آیا کرتی تھیں۔ کچھ خبروں کی وجہ سے مفتی عبدالقوی کی “بدنامی” بھی ہوئی۔
قندیل بلوچ کے والدین اس رات سونے کیلئے اوپر والی منزل پر چلے گئے اور قندیل نیچے والی منزل پر کمرے میں سو گئی۔ ایف آئی آر کی کہانی کے مطابق قندیل کے والد محمد عظیم کا کہنا ہے کہ صبح دیر تک قندیل کمرے سے باہر نہیں ائی۔ ہم نے سوچا ابھی تک سو رہی ہو گی۔ مزید کافی دیر انتظار کرنے پر اسے جگانے گئے تو دیکھا وہ مری پڑی تھی۔ بھائی وسیم جو اسے ملنے آیا تھا گھر سے غائب تھا۔ انہوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ انسپکٹر الیاس حیدر اطلاع پا کر ساتھی پولیس اہلکاروں سمیت جائے وقوعہ پر پہنچا۔ والد محمد عظیم نے پولیس کو بتایا کہ بھائیوں کو قندیل کی سرگرمیوں پر اعتراض تھا۔ وقوعہ کی رات بھی ان کی اس بات پر تلخ کلامی ہوئی تھی۔ صبح سو کر اٹھے تو قندیل مری ہوئی ملی۔ اسے اس کے بھائی اور میرے بیٹے وسیم نے غیرت کے نام پر قتل کیا ہے۔ اس قتل میں وسیم کی اس کے دوسرے بھائی اسلم شاہین نے بھی مدد کی۔
قندیل کے قتل کی ایف آئی آر وقوعہ کے ہی روز یعنی 16 جولائی کو ہی تھانہ مظفرگڑھ، ملتان میں درج ہوئی جس کا نمبر 439 تھا۔
قندیل کے والد محمد عظیم نے جو کہ اس ایف آئی آر کا مدعی تھا، نے کچھ دن بعد اس مقدمے میں تتمہ بیان کے ذریعے حق نواز، عبدالباسط، مفتی عبدالقوی، ظفر حسین اور محمد عارف کو بھی نامزد کر دیا کہ وہ بھی اس قتل میں شامل تھے۔ یہ قتل مفتی عبدالقوی کے اکسانے پر کیا گیا۔
اس قتل کے بعد قاتل بھائی محمد وسیم نے پولیس کو گرفتاری دے دی اور صرف دو دن بعد یعنی 18 جولائی کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہو کر اپنے جرم کا اعتراف بھی کر لیا۔ ملزم کا کہنا تھا کہ اس نے قندیل کو اس کی تصویروں اور ویڈیو وغیرہ کی وجہ سے قتل کیا۔
اس مقدمے میں 35 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوئے۔ مقدمہ آگے چلا تو اچانک 22 اگست 2019 کو قندیل کے والدین کی طرف سے اپنے بیٹوں (قندیل کے قاتلوں) سے صلح نامہ کی درخواست ا گئی۔ عدالت کو کہا گیا کہ ہم نے بطور مقتولہ کے وارث کے اس کے قاتلوں (اپنے بیٹوں) کو اللہ کی رضا کی خاطر معاف کر دیا ہے لہذا انہیں بری کر دیا جائے۔
پاکستانی قانون کے مطابق روٹین میں قتل عمد کا جرم قابل صلح جرم ہے۔ لیکن قانون یہ بھی کہتا ہے کہ اگر قتل غیرت کے نام پر کیا گیا ہو تو اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی اور 27 ستمبر 2019 کو وسیم کو اپنی بہن کے قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنا دی جبکہ باقی تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ مجرم نے خود مجسٹریٹ سرفراز انجم کی عدالت میں اعتراف جرم کیا۔ ملزم کا ملوث ہونا ڈی این اے رپورٹ سے بھی ثابت ہوا۔ پولی گرافک ٹیسٹ بھی پازیٹو رہے۔ اور برآمدگی بھی ملزم سے ہوئی لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ وسیم ہی قاتل ہے۔
اس جرم کی سزا اگرچہ موت ہے لیکن چونکہ قندیل کے والدین اپنے بیٹے کو معاف کر چکے تھے لہذا کچھ نرمی کرتے ہوئے ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
مقدمے میں سزا یافتہ وسیم نے ہائیکورٹ میں اس سزا کیخلاف اپیل دائر کر دی۔ وسیم کا کہنا تھا کہ جج کے سامنے اس کا اعتراف جرم قانون کے مطابق نہیں تھا۔ اس سے پہلے اس پر شدید تشدد کیا گیا تھا۔ اس تشدد کے خوف سے ہی اس نے جرم قبول کیا تھا۔ وہ بے گناہ ہے۔ اسے بری کیا جائے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سہیل ناصر نے یہ اپیل منظور کی اور 14 فروری کو وسیم کو بری کرنے کا حکم سنایا۔
جسٹس ناصر سہیل صاحب کی لاہور ہائیکورٹ میں کچھ ہی مہینے پہلے تعیناتی ہوئی ہے۔ سیشن جج سے پروموٹ ہو کر لاہور ہائیکورٹ میں ائے۔ انتہائی قابل جج ہیں۔ ان کی کورٹ میں بیٹھ کر سیکھنے کو ملتا ہے۔ میں اکثر دوستوں میں ان کی تعریف کرتا ہوں لیکن ان کے اس زیر بحث فیصلے نے مجھے شدید حیران کیا ہے۔
جسٹس صاحب مجرم کو بری کرنے کے فیصلے کے پیچھے وجوہات میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ ملزم کے اعترافی بیان میں یہ کہا گیا ہے کہ میں نے قندیل کو اس کی تصویروں اور ویڈیو کی وجہ سے قتل کیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ واضح نہیں ہوتا کہ یہ قتل غیرت کے نام پر قتل ہے۔
میں جج صاحب کی ملزم کو چھوڑنے کی اس پہلی ہی دلیل پر بہت حیران ہوں۔ جب ملزم خود اپنے 164 کے بیان میں کہہ رہا ہے کہ اس نے بہن کو اس کی تصویروں اور ویڈیو کی وجہ سے قتل کیا تو پھر غیرت کے نام پر قتل کو ثابت کرنے کیلئے مزید کیا ثبوت درکار ہے؟
جج صاحب نے اپنے فیصلے میں ملزم کو بری کرنے کی کچھ مزید وجوہات بھی لکھیں لیکن یہ تمام کی تمام ٹیکنیکل ہیں۔ مثلا مجسٹریٹ نے ملزم کا بیان خود کیوں نہیں لکھا،اسٹینو گرافر نے کیوں لکھا، بیان ریکارڈ کرتے وقت کمرہ عدالت سے پولیس وغیرہ کو باہر کیوں نہیں نکالا گیا، یہ واضح نہیں کہ اعتراف جرم کرتے وقت ملزم کی ہتھکڑیاں کھولیں گئی تھی یا نہیں، ملزم کا بیان ریکارڈ کرنے والے اسٹینو گرافر سے حلف کیوں نہیں لیا گیا کہ اس نے جو لکھا سچ لکھا، اعتراف جرم کرنے کے بعد ملزم کو اسی تفتیشی پولیس افسر کے حوالے کیوں کر دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔۔۔
جج صاحب کے یہ اعتراضات اگرچہ جائز اور مناسب ہیں کہ اعتراف جرم کے بیان کی ریکارڈنگ کے وقت قانون میں دیے گئے تمام تقاضے پورے کرنا ضروری ہے لیکن کیا صرف چند ٹیکنیکل چیزوں کے آگے پیچھے ہونے کی وجہ سے ایک قاتل کو چھوڑ دینا ٹھیک ہے؟ جبکہ اعلی عدلیہ خود اپنے کئی فیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ ہر مقدمے کا فیصلہ تکنیکی بنیادوں کی بجائے میرٹ پر کیا جانا چاہیے۔
اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ جج صاحب کا ابتدا میں ہی یہ کہنا کہ اگرچہ ملزم نے تسلیم کیا ہے کہ اس نے قندیل کو اس کی تصویروں اور ویڈیو کی وجہ سے قتل کیا ہے لیکن پھر بھی اس سے سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ ملزم نے بہن کو غیرت کے نام پر قتل کیا، عجیب ہے۔
مجھے لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے نے شدید مایوس کیا ہے۔
دو دن پہلے ملزم وسیم کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔ مجھے لگتا ہے ایسے فیصلے غیرت کے نام پر بہنوں، بیٹیوں کو قتل کرنے والوں کا حوصلہ بڑھائیں گے۔
نوٹ:بطور قانون کا طالبعلم اور وکیل مجھے عدالت کے کسی بھی فیصلے پر اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔ دوستوں سے گزارش ہے کہ نامناسب کمنٹس سے گریز کیجیے گا۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...