( The Elephant Vanishes 1985 )
آغاز ۔ ۔ ۔ ایک اقتباس
جب ہمارے شہر کے ہاتھی گھر سے ہاتھی غائب ہوا تو میں نے اس کے بارے میں اخبار میں پڑھا ۔ اس صبح میری گھڑی کے الارم نے ، ہمیشہ کی طرح ، مجھے 6 بج کر 13 منٹ پر جگا دیا تھا ۔ میں باورچی خانے میں گیا ، کافی بنائی اور ڈبل روٹی سینکی ، ریڈیو لگایا ، کھانے کی میز پر اخبار پھیلایا اور ناشتہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخبار بھی پڑھنے لگا ۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو اخبار کو ایک ترتیب سے اول تا آخر تک پڑھتے ہیں ، چنانچہ مجھے ہاتھی کے غائب ہونے والی اس خبر تک پہنچنے میں کچھ وقت لگا ۔ اخبار کا پہلا صفحہ ’ ایس ڈی آئی‘ کی خبروں اور امریکہ کے ساتھ تجارتی رگڑ کی خبروں سے بھرا تھا ۔جس کے بعد میں نے قومی خبروں ،عالمی سیاست ، معیشت ۔ مدیر کے نام خطوط ، کتابوں پر تبصروں ، رئیل اسٹیٹ کے اشتہارات ، کھیلوں کی خبروں کو پھرولا اور آخر میں مقامی خبروں پر آیا ۔
ہاتھی کے بارے میں خبر مقامی خبروں کے حصے کی سب سے بڑی خبر تھی ۔ اس کی غیر معمولی بڑی سرخی ؛ ٹوکیو کے مضافات سے ہاتھی کی گمشدگی ، پر میری نظر پڑی جس کے نیچے چھوٹے حروف میں لکھا تھا ؛ شہریوں میں خوف و ہراس ، تفتیش کا مطالبہ ۔ خالی ہاتھی گھر میں ایک پولیس کے سپاہی کی تصویر بھی ساتھ لگی ہوئی تھی۔ہاتھی کے بغیر یہ جگہ کچھ عجیب لگ رہی تھی ۔ یہ ضرورت سے زیادہ بڑی اور خالی خالی سی دکھائی دے رہی تھی جیسے کسی بڑے حیوان ، جس کے جسم کا پانی نچڑچکا ہو ، میں سے آنتیں بھی کھینچ لی گئی ہوں ۔
ڈبل روٹی کے بھوروں کو ایک طرف کرتے ہوئے میں نے اس خبر کی ایک ایک سطر پڑھ ڈالی ۔ ہاتھی کی عدم مودگی پر پہلا دھیان 18 مئی ۔ ۔ ۔ ایک دن قبل ۔ ۔ ۔ کو دوپہر دو بجے اس وقت پڑا جب ’ سکول لنچ کمپنی‘ کے آدمی معمول کے مطابق خوراک سے بھرا ٹرک لے کر وہاں پہنچے ( ہاتھی کی عمومی خوراک مقامی ابتدائی سکول کے بچوں کا بچا کھچا کھانے پر ہی مشتمل ہوتی تھی ) ۔ موقع پر تالا بند لوہے کی زنجیر موجود تھی ، جس نے ہاتھی کی پچھلی ٹانگ کو باندھ رکھا ہوتا تھا ، جیسے ہاتھی نے اس میں سے اپنی ٹانگ نکال لی ہو ۔ نہ صرف ہاتھی غائب تھا بلکہ اس کا مہاوت بھی غائب تھا جو شروع سے ہی اس کی دیکھ بھال کرتا آ رہا تھا اور اس کی خوراک کا دھیان رکھتا تھا ۔خبر کے مطابق ہاتھی اور مہاوت کو آخری بار ایک روز قبل ( 17 مئی ) ’ ابتدائی‘ سکول کے کچھ بچوں نے شام کو پانچ بجے کے قریب دیکھا تھا جو ہاتھی گھر گئے تھے اور کرئیون کے رنگوں سے اس کی تصویرکشی کی تھی۔اخبار کے مطابق یہ شاگردہی تھے جنہوں نے ہاتھی کا دیدارآخری بار کیاتھاکیونکہ چھ بجے کا سائرن بجتے ہی مہاوت ہاتھی گھر کا دروازہ بند کر دیتا تھا ۔
ان طلباء کے متفقہ بیان کے مطابق انہوں نے ہاتھی اور اس کے مہاوت کے بارے میں کسی غیر معمولی بات کا مشاہدہ نہ کیا تھا ۔ ہاتھی ہمیشہ کی طرح احاطے کے وسط میں کھڑا تھا ، کبھی کبھار اپنی سونڈ دائیں بائیں پھیرتا یا اپنی جھریوں زدہ آنکھوں کو سکیڑلیتا تھا ۔ یہ بیچارہ ہاتھی بہت ہی بوڑھا تھا ایسا لگتا تھا کہ اسے کسی بھی حرکت کے لئے بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ بلکہ جو اسے پہلی بار دیکھتے تھے وہ اس بات سے خوفزدہ ہو جاتے تھے کہ یہ کسی بھی لمحے گر جائے گا اور آخری سانس لینے لگے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔