(Last Updated On: )
فیاض احمد ( گڑھی اختیار خان )
رضائے الہٰی سے دار بقا کو چلا وہ لطاف کا پیکر ، مجسم فخر ہے خطابت کو جس کے کہے پر وہ جس کا قلم تھا صداقت کا پیکر ۔
یقینا یہ دنیا فانی ہے جس کی تمام تر ہمہ ہمی زندگی سے عبارت ہے اور زندگی میں وفا نہیں تو پھر آخر اس ہنگامہ ٔ ماوشما کا پسِ منظر کیا رہا ہوگا ؟ اس سوال کا جواب بھی اسی ہستی کے خطابات سے ہمارے دلوں پر نقش ہوگیا ہے جس کے ذکر خیر کی سعادت مجھے حاصل ہورہی ہے ۔
میلادِ مصطفیٰ ؐکا انعقاد و تراویح آپ ؒ کا من پسند عمل رہا ہے اور موضوعِ خاص بھی اور یہ سلسلہ ساری زندگی جاری رہا حتٰی کہ کوئی بھی مصروفیت یا علالت اس کار ِ سعادت میں مخل نہ ہو سکی ۔
جی تو آپؒ نے جو جواب عطا کیا اس کا مفہومی خلاصہ تھا کہ عارفوں کے فرمان کے مطابق ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰؐ کی ذات پاک ہی اصل میں وجہ وجود ِکائنات ہے ۔
اس دنیا اور اس کی تمام تر رنگینی حضرتِ انسان کے لیے امتحان کا سامان ہے ۔
جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ بشر جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں فطری طور پر محوہو جانے والا ہے ۔ وہ اپنے محسنِ اعظم یعنی اللہ تعالیٰ کو کتنا یاد رکھتا ہے اور کتنا بھول جاتا ہے ۔ کیوں کہ اس کا کھلا دشمن شیطان اس کے ہر وقت ساتھ ہے اور وَسوسوں میں ڈال کر پھٹکانے میں مصروف رکھتا ہے مگر اللہ نے اپنے بندوں کو اوّل تو اچھے بُرے میں تمیز کرنے کی قوت عطا کی پھر نبیوں اور کتابوں کے ذریعے ہدایت کا سامان بھی کر دیا ساتھ ہی اپنے نیک بندوں کو مامور کیا جنہوں نے اپنے فقر و عمل سے انسان کے بھٹکنے کے بجائے اللہ اور اللہ کے رسول ؐ کے فرمودات یاد دلا دلا کر وہی حقیقت ان کے سامنے رکھنے کی کوشش کی جس کی خوش خبری اقبالؒ نے سنائی ہے ۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
اللہ کے وہ پیارے بندے سادات ، صحابہ صحابہ ، اوّلیا ، صوفیا ، فقرا اور علما ہیں۔ جنہوں نے من جملہ ظاہر یا محفی بھٹکی انسانیت کے لیے مرشد کا کردار ادا کیا ہے ۔ ان ہی میں سے ایک نام حضرت سیّد محمد فاروق القادری ؒ کا ہے ۔
پہنچے اسی دربار میں صد مرحبا مر حبا
دل ہے حضور حسن کل سجدہ کریں اے عشق آ
صائم کہیں گے بر ملا
٭٭٭
*(مضمون نگار گورنمنٹ بوائز سیکنڈری سکول گڑھی اختیار خان میں مدرس ہیں )