رِیت کا پالن یا کچھ اور ؟
(عامر خان پروڈکشنز اور ’ دنگل‘ پر ایک نوٹ )
ہونہار بروا کے چِکنے چِکنے پات ، یہ محاورہ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں لیکن یہ ہر بچے پر لاگو نہیں ہوتا ۔ ہم نے کئی ہونہار برووں کو بلوغت کے بعد ناکام بھی دیکھا ہے ۔ فلمی دنیا کی مثال لیں تو رتن کمار ( اصل نام ؛ نذیر علی رضوی ) اور دیگر کئی نظر آئیں گے جو جوان ہو کر ناکام رہے البتہ ششی کپور ، رندھیر کپور اور عامر خان جیسے ایسے کئی ’ چائلڈ سٹار ‘ تھے جن کے پات سچ مچ چکنے ثابت ہوئے اور انہوں نے نوجوانی اور ادھیڑ عمری میں بھی اپنے کامیاب فلی کیرئیر کو نبھایا ۔
عامر خان 19733ء کی فلم ’ یادوں کی بارات ‘ جسے اس کے چچا ناصر حسین نے بنایا تھا ، میں بطور ’ چائلڈ سٹار ‘ سامنے آیا تھا ۔ مَسیں بھیگنے پر والدین کی خواہش کے مطابق ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی بجائے وہ نینا گپتا کے ساتھ تھیئٹر میں کام کرنے کے علاوہ باپ اور چچا کے ساتھ ہدایت کاری میں معاونت کرتے ہوئے پونہ کے فلم و ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ کی کم بجٹ والی مختصر فلموں میں بھی کام کرتا رہا ۔ اسی انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ جڑے ’ کیتن مہتا ‘ نے اسے اپنی فلم ’ ہولی ‘ میں متعارف کرایا ۔ یہ فلم اگست 1984 ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔ اس وقت مارچ 1965ء میں پیدا ہوا عامر خان 18 برس کا تھا ۔ یہاں سے اس کے فلمی کیرئیر کا بطور اداکار ایک لمبا اور عمومی طور پر کامیاب سفر شروع ہوتا ہے ۔
عامر خان نے 1999ء میں اپنی فلم پروڈکشن کمپنی اپنے ہی نام (AKPP) سے بنائی جس میں اس کی بیوی کرن راﺅ بھی اس کے ہمراہ ہے ۔ اس کمپنی کے بینر تلے اس نے فلم میکنگ کا آغاز ’ لگان ‘ نامی فلم سے کیا جو جون 2001ء میں ریلیز ہوئی ۔ یہ ’ ہند سندھ ‘ میں کرکٹ کے کھیل کی شروعات کے موضوع پر ہے اور دیہاتی ماحول میں فلمائی گئی تھی ۔ اس میں عامر خان نے مرکزی کردار خود ہی ادا کیا تھا ۔ عامر خان نے اس فلم پر خاصی محنت کی تھی ۔ اس کے ماحول پر خصوصی توجہ دی گئی تھی ۔ اسی طرح زبان بھی وہی استعمال کی گئی تھی جو اس وقت کے نوآبادیاتی ہندوستان کے ’ اتُر پردیش‘ میں بولی جاتی تھی ۔ اوودھی ، بھوج پوری اور برج بھاشا میں مکالمے لکھنے کے لئے ’ کے پی سکسینہ‘ کو خصوصی طور پر چُنا گیا تھا ۔ انیسویں صدی کی اختتامی دہائیوں کا زمانہ دکھانے کے لئے ملبوسات ، رہن سہن کے اطوار ان سب پر بھی کڑی محنت کی گئی تھی ۔’ اشوتوش گواریکر‘ اس کے ہدایت کار تھے اور اس کی کہانی، سکرین پلے اورمکالمے لکھنے والی ٹیم چھ لوگوں پر مشتمل تھی ۔ اس کے گیت جاوید اختر نے لکھے تھے جبکہ موسیقی اے آر رحمٰن نے ترتیب دی تھی ۔ اینل مہتہ اس کے عکاس تھے جبکہ بالو سلوجا اس کے تدوین کار۔ یہ فلم لگ بھگ ڈھائی کروڑ انڈین روپے سے تیار ہوئی تھی ۔ یہ فلم ایک کامیاب فلم ثابت ہوئی ۔ یہ نہ صرف باکس آفس پر کامیاب ہوئی اور اس نے سات کروڑ روپے کا کاروبار کیا بلکہ اسے انڈیا کی طرف سے ’ فارن لینگویج فلم‘ کی کیٹگری میں آسکرز مقابلے میں بھی بھیجا گیا ۔ یہ نامزد تو ہوئی لیکن آسکر جیت نہ پائی ۔ اس سال بوسنیا کی فلم ’ نو مین'ز لینڈ ‘ تمام فارن لینگویج فلموں پر حاوی رہی اور آسکر جیت گئی ۔ اس پر نہ صرف عامر خان کو ، بلکہ پورے انڈیا کے فلم بینوں ، فلمسازوں اور نقادوں کومایوسی ہوئی ۔ مہیش بھاٹ اور اشوتوش گواریکر تو آسکرز کمیٹی کے خلاف کچھ زیادہ ہی بول گئے تھے ۔
اسی بینر تلے بننے والی دوسری فلم ’ تارے زمین پر ‘ تھی جس میں چائلڈ سٹار ’ درشیل‘ کے ہمراہ مرکزی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عامر خان نے اس کی ہدایت کاری کے فرائض بھی خود ہی انجام دئیے تھے ۔ اس فلم کے کریڈٹس میں کہانی و سکرپٹ کی مد میں ’ انمول گپتے ‘ کا نام درج تھا ۔ اس فلم کا تانا بانا ایک ایسے بچے کے ارد گرد بُنا گیا تھا جو ’ Dyslexia‘ کا شکار ہے ۔دسمبر 2007ء میں ریلیز ہوئی یہ فلم بھی ہٹ رہی ۔ عامر خان نے اس فلم کو بھی آسکرز کے مقابلے میں بھیجا لیکن اس فلم کو شارٹ لسٹ بھی نہ کیا گیا ۔ اس کی وجہ سیدھی سادھی تھی ۔ گو اس فلم کی کہانی اور سکرین پلے انمول گپتے نے لکھا تھا اور دیسی معاشرے کے حساب سے کردار تخلیق کئے تھے لیکن بنیادی طور پر یہ کہانی اور سکرین پلے یوکرائن نژاد امریکی مُصنفہ ’پیٹرشیا پولاکو ‘ (Patricia Polacco) جو بچوں کے لئے مصور کتابیں لکھتی ہیں ، کی کتاب ”Thank you Mr. Falker“ سے ماخوذ ہے ۔ پیٹر شیا خود بھی بچپن میں Dyslexia کا شکار رہی تھی اور اسے اس کے ایک استاد مسٹر فاکر نے اس سے چھٹکارا دلایا تھا ۔ پیٹرشیا نے بعد ازاں مصوری میں ماسٹرز کیا اور آرٹ ہسٹری میں پی ایچ ڈی کی ۔ 41 برس کی عمر سے اب تک وہ بچوں کے لئے درجنوں کتابیں لکھ چکی ہے ۔ جن میں’ Thank you Mr. Falker ‘ بھی شامل ہے جو ظاہر ہے اس کی ہڈ بیتی ہے ۔ پیٹرشیا اپنی کتابوں میں مصوری بھی خود کرتی ہے۔ عامر خان کو شاید اس کی اصل وجہ کا ادراک تھا لہذٰا شارٹ لسٹ نہ ہونے پر اس نے کہا تھا ؛ ” میں ایوارڈز کے لئے نہیں ، ناظرین کے لئے فلمیں بناتا ہوں ۔“
اگلے برس عا مر خان پروڈکشنز کی اگلی فلم ’ جانے تو۔۔ یا جانے نہ ‘ تھی جسے عباس تریوالا نے لکھا اور ڈائریکٹ کیا تھا ۔ اس میں مرکزی کردارعمران خان اور گینیلیا ڈی سوزا نے ادا کیا تھا ۔ باکس آفس پر یہ رومانٹک ڈرامہ بھی کامیاب رہا ۔
اس بینر کے تحت اگلی فلم اگست 20100 ء میں سامنے آئی ۔ یہ ’ پیپلی (لائیو) ‘ تھی ۔ مالی لحاظ سے یہ فلم بھی ایک کامیاب فلم تھی لیکن اس کا مرکزی خیال بھی ماخوذ تھا ۔ اس کا سکرین پلے ’ انوشا رضوی‘ نے لکھا تھا اور دیسی کرداروں کے ساتھ مدھیا پردیش کے دیہاتی ماحول میں سیٹ کیا تھا لیکن کریڈٹس میں کہیں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ فلم ’ ٹام میتھیوز اور ایرک ولیمز ‘ کے اس فلمی سکرپٹ سے اخذ شدہ ہے جس پر یونانی نژاد فرانسیسی ہداہت کار کوسٹا ۔ گیورس نے ’ Mad City ‘ کے نام سے 1997ء میں فلم بنائی تھی ۔ کوسٹا ۔ گیورس کی اس فلم میں ڈسٹن فومین اور جان ٹریولٹا نے مرکزی کردار ادا کئے تھے ۔ جس کا موضوع ’ میڈیا کے کردار ‘ پر طنز ہے۔
عامر خان پروڈکشنز نے دھوبی گھاٹ (2011) ، دہلی بیلی (2011) کے بعد نومبر 20122ء میں ’ تلاش‘ ریلیزکی ۔ اس کی کہانی ، مکالمے اور سکرپٹ فرہان اختر ، زویا اختر ، ریما کگتی اور اورنگ کشیپ نے لکھے تھے ۔ یہ فلم ریما کگتی کی ہدایت کاری میں بنی تھی ۔ پولیس افسر کا مرکزی کردار خود عامر خان نے ادا کیا تھا جبکہ رانی مکھر جی نے اس کی بیوی کا کردار نبھایا تھا ۔ یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے جس کا آٹھ سالہ بچہ ڈوب کر مر جاتا ہے اور دونوں کی زندگی میں ایک ایسا خلاء آ جاتا ہے جسے پُر کرنا فلم کے اختتام تک ایک جدوجہد بنا رہتا ہے ۔ عالمی سنیما کے ناظرین کو یہ فلم دیکھ کرفوری طور پر 2010ء کی ہالی ووڈ فلم ’ Black Hole ‘ یاد آ جائے گی جو امریکی ادیب ’ ڈیوڈ لنڈسے ایبیئر‘ کے پُلزر انعام یافتہ اسی نام کے ڈرامے سے ماخوذ تھی ۔ اس ڈرامے اور فلم کا محور بھی ایک جوڑا ہے جو اپنے چار سالہ بچے کے ایک کار حادثے میں مر جانے پر نفسیاتی ’توڑ پھوڑ ‘ ( trauma ) سے نکلنے کے عمل میں ہیں ۔ اس فلم میں کمال اداکاری پر ’ بہترین اداکارہ ‘ کا ایوار ڈبیکا کوربیٹ کا کردار ادا کرنے پر’ نکل کڈمین ‘ نے حاصل کیا تھا ۔ عامر خان پروڈکشنز کی ’ تلاش ‘ میں لکھاری ٹیم نے اس مرکزی پلاٹ میں جسم فروشی ، قتل در قتل ، ان کی تفتیش ، روحوں کے ساتھ بات چیت اور بھٹکتی آتماﺅں کا تڑکا لگا کر اسے انڈیا کی شہری زندگی میں سمونے کی کوشش کی تھی ۔ کچھ مغربی نقادوں نے تو اسے 1999ء کی ’ The Sixth Sense ' کا چربہ بھی کہہ ڈالا اور ’ تلاش ‘ میں عامر خان کی اداکاری کو ’ بروس ویلس‘ کی نقالی قرار دیا تھا ۔ عامر خان کی اداکاری کسی کی نقالی ہے یا نہیں البتہ فلم کا مرکزی خیال ’ بلیک ہول‘ سے اخذ شدہ ضرور ہے ۔
عامر خان کی فلم کمپنی کی طرف سے تاحال سامنے آنے والی فلم ’ دنگل ‘ ہے جو دسمبر 20166ء میں سامنے آئی ہے جس میں مرکزی کردار عامر خان نے خود ادا کیا ہے جبکہ اس کا ہدایت کار نتیش تیواری ہے ۔ تیواری سمیت اس فلم کا سکرپٹ چار لوگوں نے لکھا ہے ۔ یہ فلم ہریانوی ماحول اور بولی میں بنائی گئی ہے ۔ اس فلم کے گیت امیتابھ بھٹاچاریہ نے لکھے ہیں جبکہ اس کی موسیقی ’ پریتم‘ نے ترتیب دی ہے ۔ گلوکاری میں دلیر مہدی ، اریجت سنگھ ، رفتار اور نوراں سسٹرز نمایاں ہیں ۔ اس کی عکاسی’ ستیہ جت پانڈے‘ نے کی ہے جبکہ تدوین’ بالو سلوجا‘ کی محنت کا نتیجہ ہے ۔ ستر کروڑ انڈین روپے سے بنی یہ فلم سات سو کروڑ روپے سے زیادہ کا بزنس کر چکی ہے ۔
اس فلم کا محور ہندوستانی پہلوان مہاویر سنگھ پھوگٹ اور اس کی بیٹیاں گیتا اور ببیتا ہیں ، جنہیں وہ کشتی کی تربیت دیتا ہے ۔ گیتا بھارت کے لئے ’ عورتوں کی کشتی‘ کے حوالے سے دولتِ مشترکہ گیمز میں 2010ء کا پہلا سونے کاتمغہ لاتی ہے جبکہ ببیتا انہی مقابلوں میں چاندی کا تمغہ جیتتی ہے ۔
ہدایت کاری ، اداکاری ، موسیقی ، گیت نگاری ، تدوین ، ماحول اور عکس بندی غرضیکہ ہر لحاظ سے یہ ایک عمدہ فلم ہے لیکن کریڈٹس میں عامر خان نے ایک بار پھر وہی غلطی کی ہے جو وہ پہلے ’ تارے زمین پر‘ ، ’ پیپلی (لائیو) ‘ اور ’ تلاش‘ میں کر چکا ہے کہ سہراب دُگل کی لکھی ’ مہاویر سنگھ پھوگٹ ‘ کی سوانح ’ اکھاڑہ ‘ کا حوالہ دینے سے اجتناب برتا ہے ۔
عامر خان متنوع کردار کرنے والا ایک اچھا اداکار ، ہدایت کار اور فلم میکر ہے ، پڑھا لکھا بھی ہے ، کریڈٹس دینے کے حوالے سے اصولوں سے بھی واقف ہو گا ، اسے آسکرز یا دیگر عالمی ایوارڈز کے حوالے سے قواعد و ضوابط سے بھی جانکاری ہو گی ۔ ماخذ کے حوالے سے وہ ایسا کیوں کرتا ہے اس کا ایک جواب تو شاید یہ ہے کہ ’بالی ووڈ ‘ کی عمومی رِیت ہے کہ فلم میکر کم ہی ماخذ کا حوالہ دیتے ہیں اور عامر خان بھی اسی روش کا شکار ہے ۔ اُس کے پاس اگر اِس کے علاوہ کوئی اور منطق ہے تو وہ عامر خان کا کوئی قریبی ہی بتا سکتا ہے ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10154019088681895