(Last Updated On: )
معاشرے میں رہن سہن کے لیے انسان تنہا زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسی لیے انسانوں کے ساتھ رہنے کا نظام بنایا گیا ہے جو صدیوں سے رائج ہے۔ اس نظام کو خاندان یا گھرانہ کہا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خاندان کا آغاز و ارتقاء ایک ایسا مسلسل عمل ہے جس میں ہر فرد دوسرے کا سہارا بن جاتا ہے۔ خاندان ایک ایساادارہ ہے جو انسانی رویے اور طرز عمل کی تشکیل کرتا ہے۔خاندان ہی وہ ادارہ ہے۔جس کے ذریعے معاشرتی تربیت ہوتی ہے اور خاندان ہی وہ ادارہ ہے جو فرد کو اپنے فرائض کا احساس دلاتا اور اسے فرق مراتب کا شعور بخشتا ہے اگر خاندان کااستحکام ختم ہوجائے تو انسانی طرز عمل معاشرتی فرائض کاشعور اور افراد معاشرہ کے مراتب کا تعین سب کچھ ختم ہوجائے۔
صابر جاذب ایسے ہی مستحکم علمی و ادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے پردادا احمد بخش بستی عظیم تحصیل کروڑ سے تعلق رکھتے تھے۔جو اپنے وقت کے بڑے فن کار تھے۔جن کی سریلی آواز اور جگت بازی کی وجہ سے انھیں دعوتوں پر خصوصی طور پر بلایا جاتا تھا۔صابر جاذب کے دادا امیر محمد بھٹی باقائدہ شاعر تو نہیں تھے مگرشاعری کا ذوق رکھتے تھے۔موقع کی مناسبت سے فی البدیہہ اشعار سنا دیتے تھے۔لیکن صابر جاذب کے والد گرامی شعیب جاذب ایک کہنہ مشق اور پختہ شاعر تھے۔وہ اتنا پختہ کار شاعر تھے کہ غیر منقوط، فوق النقاط اور تحت النقاط جیسی مشکل ترین اصناف میں شعری مجموعے منصہ شہود پر لے آئے۔ حالیہ کویت اور دیگرممالک پر مشتمل ایک انٹر نیشنل بزم نے انھیں فوق النقاط اور تحت النقاط جیسی اصناف کا بانی قرار دیا ہے۔ان کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کہ آئندہ جہاں پر بھی ان صنفوں پر کام کیا جائے گا تو بانی شعیب جاذب کا حوالہ لازمی دیا جائے گا۔
صابر جاذب کا اصل نام صابر حسین اور قلمی نام صابر جاذب ہے جو ۱۵ فروری ۱۹۷۵ء کو لیہ شہر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ایم سی پرائمری سکول نمبر۲ سے حاصل کی۔انھوں نے میڑک کا امتحان گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول لیہ۔ایف ایس سی،بی۔اے گورنمنٹ کالج لیہ سے پاس کیا۔ بی۔ایڈ ور ایم۔ اے کا امتحان بہاء الدین زکریا یونیورسٹی سے پاس کرنے کے بعد ۲۰۰۲ء میں ہی محکمہ تعلیم میں بہ طور مدرس بھرتی ہوگئے۔تال حال وہ بہ طور ہیڈ ٹیچر ملازمت سے وابستہ ہیں۔بہ طور مدرس ان کو دیکھا جائے تو پچھلے سال ۲۲۰۲ء میں انھیں محکمہ تعلیم کی جانب سے بیسٹ ٹیچر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
صابر جاذب کی شاعری میں نعتیہ رنگ ملاحظہ کیا جائے تو ذکر رسول نعت اور سیرت کی صورت میں دنیا کی تقریباََ ہر زبان میں ہوتا رہا، ہو رہا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا۔ یہ روح پرور سلسبیل ہے جو لمحہئ اول فرشتوں اور خود ذاتِ باری تعالیٰ کے وردِ زبان ہے۔ ان گنت زمانے بیت گئے اُدھر لبیک الٰھُمّ لبیک کی اعترافی صدائیں بندِگان خدا کا حرزِ جاں ہیں۔صابر جاذب کی نعوت عقیدتوں کے موتی پروتی ہیں اور قلم ہے کہ بے قرار ہو کر صفحہ قرطاس پر پھول کھلاتا نظر آتا ہے۔ ان کی نعت رسول کریمؐ سے محبت کے اظہار کا خوبصورت پیرایہ ہے۔ اس لیے وہ لکھتے ہیں:۔
نبیؐ کے چشمۂ رحمت نے دھو دیا صابرؔ
بہت پڑی تھی گناہوں کی دھول آنکھوں میں
صابر جاذب کی شاعری ایک معتبر حوالہ رکھتی ہے۔ان کا شاعرانہ انداز اور لب ولہجہ اپنے ہم عصر شعرا ء سے منفرد نظر آتا ہے۔ان کی شاعری میں مزاحمتی و احتجاجی انداز کااپنا رنگ ہے۔وہ مزاحمت کو طنز کے زہر میں ڈبو کر جب وہ پیش کرتے ہیں تو انسان تڑپ اٹھتا ہے۔ان کی شاعری دو بنیادی جذبوں، رویوں اور تیوروں سے مل کرتیار ہوتی ہے وہ احتجاج مزاحمت اور رومان ہیں۔ ان کی شاعری سے ایک رومانی، ایک نوکلاسیکی، ایک جدید اور ایک باغی شاعر کی تصویر بنتی ہے۔
صابر جاذب ایسے معاشرے میں رہنے والا فرد ہے جس میں ظلم و زیادتی، معاشرتی ناہمواریوں غربت و افلاس اور تنگی کا بازار گرم رہتا ہے۔ اس معاشرے کا فرد ہوتے ہوئے زندگی کے ناگوار حقیقتوں در مند دلوں، جبر و ظلم، معاشرتی ناہمواریوں نے ان کو انقلابی شاعر بنایا دیا ہے۔ان کا ایک انداز ملاحظہ کریں:۔
ڈھونڈ کر ہر ایک خود سر دار پر لایا گیا
ٹانک ڈالے دار پر شوریدہ سر جتنے بھی تھے
صابر جاذب کے کلام میں درد مندی کا عنصر بہت عیاں ہے۔ وہ جس دور میں سانس لے رہا وہ نہایت ابتری کا دور ہے انسانی زندگی کی اقدار پامال ہو چکی ہیں۔ انسانی خون ارزاں ہو چکا ہے۔اقتصادی ناہمواری نے لوگوں کو بد حال کر رکھا ہے۔ ہر طرف ظلمت کا راج ہے۔ تباہ حال معاشرہ میں ہمہ گیر انسانی تباہی نے ہر سوچنے والے کو متاثر کیا ہے تو ایسے میں ایک حساس اور باشعور شاعر کیسے متاثر ہوئے بغیر رہ سکتا ہے۔سماج میں موجود بے ترتیبی صابر جاذب کے شعری وژن کو متاثر کیے بغیر نہیں رہ پاتی۔ زندگی سماج کے اندر ایک سیال حالت میں رہتی ہے۔ سماج اور زندگی کا خالص تصور دو الگ الگ حالتیں بن جاتے ہیں۔ سماج زندگی کو اپنی ہیئت میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ سماج کے پاس طاقت ہے، زندگی خالص جذبوں کا بیرونی لبادہ کب تک اوڑھے رکھے، اُسے سماج کی طاقت کے ہاتھوں شکست مل جاتی ہے۔ صابر جاذب اس شکست ناروا کے حامی نہیں۔ وہ اس شکست میں سماج کے غیر مرئی اور غیر متعین ہاتھوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔اس لیے وہ برملا کہتا ہے:۔
دولت کی ہوس میں ہوئے ناموس گریزاں
کب سے سرِ سردار پہ دستار نہیں ہے
صابر جاذب کی شاعری میں فلسفہ زندگی کا پہلو بھی نمایاں ہے فلسفہ زندگی تقریباً ہر بڑے شاعر کے ہاں یہ مضمون پایا جاتا ہے جس میں ہر ایک شاعر نے زندگی کے متعلق بیان فرمایا ہے۔ کوئی شاعر زندگی کو مخص ایک لمحہ قرار دیتا ہے کوئی کہتا ہے کہ زندگی مسلسل غم کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایک شاعر جس انداز سے زندگی دیکھتا ہے ممکن ہے ایک عام آدمی کا انداز نظر وہ نہ ہو، چند قدریں تمام انسانوں کی زندگی میں یکساں ہوتی ہیں جو فطری ہوتی ہیں جن میں غم، دکھ، خوشی وغیرہ۔ ایک شاعر کے ہاں قدرتی بصارت ہوتی ہے جو کائنات میں چیزوں کو الگ زویے سے دیکھتی ہے شاعر کائنات کی باریکیوں کو علامتی انداز میں پیش کرتا ہے۔صابر جاذب کا فلسفیانہ رنگ دیکھیں:۔
وقت کی سازش سہی خون کی بارش سہی
کون ہوگا سرخرو ایک میں ہوں ایک تو
صابر جاذب نے غربت،بے روزگاری عدم استحکام، انسانی بے توقیری، انسانی استحصال اور ان جیسے دیگر مسائل کو بہترین انداز میں پیش کرتے ہیں۔ انھوں نے چابک دستی سے معاشرے کو در پیش تمام تر مسائل کو خوبصورت الفاظ کے پیکر میں اپنے قاری تک پہنچا کر اپنا فرض بھی ادا کیا اس بات کا اظہار وہ کچھ اس طرح سے کرتے ہیں:۔
حالات کا سورج تو سرِ بام ہے تاباں
سستائیں کہاں سایہئ دیوار نہیں ہے
صابر جاذب کو شعرو ادب سے لگاو تو بچپن سے تھا مگر کالج علمی و ادبی ماحول نے اس کو مزید حسن آفریں بنایا۔اُن کے ادبی ذوق کی تشکیل و تعمیر میں جہاں پر کلاسیکی شعریات کا اہم حصّہ ہے۔وہیں پر رومانوی رحجان کے اثرات بھی شدت سے پائے جاتے ہیں۔بلکہ اُن کے رومانی مزاج پر کلاسیکیت کی سخت گیری بے اثر ثابت ہوئی۔
کیسے تیروں کے احاطے سے نکل کر جاؤں
کھا گئے ہیں ترے ابرو کے تناؤ مجھ کو
صابر جاذب کے ہاں غم جاناں کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی جتنا غم دوراں کو دی گئی ہے۔ وہ حسن وعشق کی بجائے بھوک افلاس کو بیان کرتے ہیں۔ فکری اور جذباتی اضطراب بھی ہے نمایاں ہے۔ ان کے ہاں غربت و افلاس کا نوحہ اس قدر شدت اختیار کر جاتا ہے کہ بسا اوقات ان کے لہجے سے کڑواہٹ جھلکتی ہے۔ ان کے قریب غربت انسان کا بڑادکھ ہے جو اکثر زندگی کو بھی کھا جاتا ہے۔صابر جاذب کی شاعری میں احساس محرومی کے اعلیٰ درجے پردکھائی دیتی ہے:۔
کشت غربت میں بہت ٹوٹ کے بادل برسا
سیمگوں کھیت میں پھر درد ہیں پھلنے والے
انسانیت کا سب سے بڑا المیہ طبقاتی امتیاز ہے۔صرف شجرنسب،،خاندان اور دولت کی بنیاد پر انسانوں کو چھوٹے اور بڑے کی اکائی میں تقسیم کرنا، انسانیت کے منافی ہے۔ ادب زندگی کا عکاس ہوا کرتا ہے۔ سو سماج اور سماجی اقدار کا پورا عکس کسی نہ کسی طور سے ادب کا موضوع بن جایا کرتے ہیں۔معاشرے میں بسنے والے افراد فکری اور نظری طور پر مختلف خیالات کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ ادب نہ صرف ان خیالات کا احاطہ کرتا ہے بل کہ ان نظریات کے اظہار و ترویج میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔صابر جاذب طبقاتی امیتاز کو یوں پیش کرتے ہیں۔
اس بات پر نظروں سے گرایا گیا صابرؔ
نوکر نہیں، کوٹھی نہیں، کار نہیں ہے
صابر جاذب کی شاعری ایسی شاعری ہے جس میں زندگی صرف لذت کا نام نہیں بلکہ زندگی تلخیوں اور رکاوٹوں کا دوسرا نام ہے۔ جس سے انسان مختلف تکالیف اور مشکلات کا ایک ایسا بھنور ہوتا ہے جس سے نکلنا کس قدر مشکل اور گراں کام سمجھا جاتا ہے۔ان کے احساس نے اپنے کرب کے ساتھ دوسروں کے کرب اور اپنی الجھنوں کے ساتھ دوسروں کی الجھنوں کو بھی دیکھا۔ جاذب کے ہاں اس کی انفرادی اور اچھوتا بیان ملتا ہے۔
آ ہی نکلے کوئی شاید مجھے پرسہ دینے
صفِ ماتم ہوں درِ دل پہ بچھاؤ مجھ کو
صابر جاذب کے خیال میں پاکستانی معاشرے میں فرد سیاسی سماجی سطح پر حکمرانوں، سماجی ٹھیکداروں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ بے بسیوں، بے کسیوں اور مجبوریوں کی تاریک رات ہے کہ کٹنے کا نام نہیں لیتی۔ نتیجتاً فرد کا اپنی ذات سے اعتبار و اعتماد ختم ہو چکا ہے اور وہ اپنی انفردیت اور اعتماد ذات سے محروم ہو چکا ہے۔ ایسے میں فرد سماجی معاملات سے بے گانہ ہو جاتا ہے اور ابن الوقتی کا رویہ جنم لیتاہے۔ یہی رویہ آج ہمارے معاشرے کا خاصہ ہے۔معاشرے کے کرب زدہ ماحول کو صابر جاذب کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں:۔
اپنوں میں بھی اب جذبہئ ایثار نہیں ہے
یہ غم ہے میرا کوئی غم خوار نہیں ہے
شاعری میں محبوب کے حسن و جمال کا موضوع بڑا اہم ہے۔غزل چونکہ معاملات مہر و محبت اور واردات عشق و عاشقی کی داستا ن ہے شعراء حضرات ہمیشہ سے حسن فطرت کے ساتھ ساتھ اپنے مجاذی محبوب کی تعریف میں رطب اللسان رہے ہیں۔شعراء نے واقعیت اور تخیل کی مدد سے اپنے محبوب کے حسن کی مدح سرائی اور قصیدہ خوانی کی ہے ان کے اشعار سے محبوب کی ایک خوبصورت تصویریں بنتی ہیں۔ شعراء کے لئے محبوب کے مکھ میں سب سے زیادہ دلکشی ہے یہ مکھ حسن کا دریا ہے۔ اس کی جھلک سے آفتاب شرمندہ و بے تاب ہے۔اس کے بعد درجہ بدرجہ آنکھ، اور اب، خال اور قد غرض سراپائے جسم کی تعریف و توصیف بہت عمدہ پیرائے میں بیان کی جاتی ہے۔صابر جاذب کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے محبوب کی تعریف انفرادی انداز میں کی ہے۔ ان کا انداز ملاحظہ کریں:۔
حُسن اپنی سادگی سے آپ شرماتا رہا
آئینے کو کیوں پسینہ مفت میں آتا رہا
صابر جاذب کا پیغام امن،ترقی،خوشحالی،محبت اور سر بلندی کا پیغام ہے۔ان کی اُمیدیں نوجوان طبقے کے ساتھ ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ نوجوان نسل قوم کا مستقبل ہے،اگر یہ نسل تعلیم یافتہ،باصلاحیت،مہذب اور روشن دماغ ہوگی توقوم کا مستقبل تابناک ہوگابصورتِ دیگر قوم اندھیروں میں بھٹکتی رہے گی۔گویا قوم کا مستقبل نسلِ نو کے ساتھ وابستہ ہے۔ ان کی آرزو ہے کہ نوجوانوں کے اندر احساس اور قوم کا درد پیدا ہو۔اس لیے وہ کہتے ہیں:۔
کبھی کا ہوگیا جل بجھ کے راکھ پروانہ
اب اس کا دیپ کے نیزے پہ سر تلاش نہ کر
صابر جاذب ایک ایسے شاعر کا نام ہے جو اپنی خوب صورت شاعری اور تنقیدی نگاری کی وجہ سے سوشل میڈیا کے بین الاقومی تنقیدی گروپس میں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ان کی شاعری احساسات و جذبات اورتہذیب کے بکھراؤ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کشمکش اور دکھ کی امین ہے،ان کا لہجہ،ان کا اسلوب، ان کا طرز،ان کی فکر، ان کا شعور، اور ان کا تخیل، صرف ہم عصروں میں سب سے انوکھا اور دل پزیر ہے۔ان کا جدت بھرا انداز ملاحظہ کریں:۔
صحن میں جس نے اُگائے ہیں شجر شیشوں کے
اس کی نسلیں بھی تو کھائیں گی ثمر شیشوں کے
المختصر صابر جاذب بنیادی طور پر ایک دردمند رومانی شاعر ہیں۔ جذبوں کی شدت اور صداقت، لہجے کی قوت اور تاثیر، حسن و رومان کی فراوانی، انقلاب اور شباب کا پر زور احوال ان کی شاعری کے امتیازی اوصاف سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے اسلوب میں ندرت، شگفتگی، منظر نگاری اور محبت کے جذبات کی فراوانی قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ زبان و بیان پر ان کی دسترس کا ایک عالم معترف ہے۔ ان کی شاعری میں صنائع بدائع کا حسن دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے۔ حالات و واقعات کا لفظوں میں نقشہ کھینچ کر رکھ دینا ان کا خاصہ ہے۔ اپنی شاعری سے انھوں نے اردو ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب کا ایک اہم باب ہے۔