جب کوئی اچھا لکھنے والا اپنے کسی دوست لکھاری پہ اپنے الفاظ میں محبت کا اظہار کرتا ہے تو بہت اچھا محسوس ہوتا ہے
صفیہ حیات سے ایک تو میرا تعلق لائل پور سے ہے کہ ہم دونوں کا جنم بومی لائل پور ہے دوسرا صفیہ نے بہت جلد اردو نظم میں اپنی آواز کو ایک اہم آواز بنا لیا ہے – میں صفیہ کا بہت ہی مشکور ہوں۔ کہ اس نے اپنے محبت بھرے الفاظ میں میرا ذکر کیا ہے
مسعود قمر
———–
نظمیں اُگاتاآدمی
(مسعودقمر کے لیے)
—————————
اس سفید بالوں والے آدمی کو
جب بھی دیکھو
نظموں کی قلمیں تیار کرتا
رگوں میں بہتے تلاطم
خوابوں کی فسوں خیز ی
جنم جنم محبت کا پیاسا
ایک ہی گھونٹ میں
سمندر پینے کی چاہ سینے میں پالتے
پچھواڑے میں نظمیں اُگاتا
کانچ کے گلاس میں سیال پیتا
محبت کے ننے منے پودوں کی آبیاری کرتے
خاموش پتلیوں کی آواز بن جاتا ہے
زندہ لاشوں کے شہر میں
جینے کے ڈھنگ سکھاتا
تیر کمانوں سے نکلے سارے تیر
اپنے سینے پہ کھاتا سسکتا
دبی آوازوں کی چیخ۔ بن کر
ہر نفس کو جھنجوڑتا رہتا ہے
وہ وقت کے دریا میں
کہی کلینڈر پھاڑ چکا ہے
مگر ایک سانس بھی جی نہیں پایا
کائناتی تھڑ کا مالک
بغیر معاوضہ اس سے کام لیتا ہے
وہ ڈرامہ کے اختتام پہ بھی
مُردوں میں کھڑا
زندگی بیچنے کا کردار ادا کر تا
پردہ گرنے کا منتظر ہے
کندھے پہ لٹکے تھیلے میں
ایک سرخ گلاب کی مہک
اس کے سفید بالوں اور اسکارف
کو معطر رکھتی ہے
وہ صدیوں سے قرنوں کے گھونٹ بھرتا
آبِ حیات پی گیا ہے
—————-
صفیہ حیات
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔