نام تو اس کا صُغراں تھا لیکن پورے بھٹے پہ اسے سُگی کے نام سے پکارا جاتا سانولے رنگ کی میلی کچیلی مگر دل میں اُتر جانے والے معصوم نقش و نگار کی مالک بارہ چودہ سال کی سُگی جس کے تمام نسوانی خال وخد وقت کے ساتھ پھل پھول رہے تھے مگر اس کا دماغ عمر اور وقت کی چلتی گاڑی سے کہیں بہت پیچھے کسی اسٹیشن پہ ہی کھڑا رہ گیا تھا ۔ بھٹے پہ مٹی کو گوندھ کر اینٹیں بناتے سُگی کے غریب والدین شاید بھول گئے تھے کی سُگی بے شک نیم پاگل ہے لیکن ہے تو لڑکی ۔ انھیں لگتا تھا شاید ہماری طرح ہماری بیٹی کے لیے ہر دوسرے انسان کے دل میں محض ہمدردی ہے ہر کوئی اسے اپنی بیٹی ہی سمجھتا ہے ۔ مگر اس معاشرے میں تو بے زبان جانور بھی انسان کی مکاری اور حوس پرست سوچ سے محفوظ نہ رہ سکے تھے ۔ سُگی کےغریب ماں باپ کی جھونپڑی اینٹوں کے بھٹے پہ ایسی کچی بستی کے پاس تھی جہاں ایک کلی گر کے جواں سالہ بیٹے نے ڈربے سے مرغی نکال کر اپنی درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد دیوار کے اوپر سے باہر گلی میں پھینک دی تھی اس نے تڑپتی مرغی کو باہر پھینکا تو دیوار پہ گرے خون کے چھینٹوں نے اس وحشی کو گرفتار کروا دیا تھا ۔ سُگی بھی اپنا سارا سارا دن بھٹے کے قریب وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی پانچ مرلہ سکیم کے تحت ریت کے ٹیلے پہ آباد اسی بستی میں گزارتی ۔ اس کے دہکتے انگاروں جیسے انگ فطرت کے قوانین اور اصول و ضوابط کے پابند تھے غضب ڈھاتے سُگی کے نشیب و فرز اپنے مقررہ وقت پہ قدرتی رکاوٹوں کا سینہ چیر کے نمودار ہو نے کے ساتھ ساتھ بستی کے حوس پرست آوارہ اور اوباش لونڈوں کی گدھ نماء نظروں کے لیے باعث تسکین بنتے جا رہے تھے ۔ سُگی کو دیکھ کر بہن بیٹیوں والے غیرت مند درد دل رکھنے والے لوگ عبرت پکڑتے ۔ اللہ کے خوف سے صرف یہ سوچ کر ہی لرز اُٹھتے کہ اگر یہ ہماری بیٹی ہوتی یا اس جیسی اگر ہماری کوئی بہن بیٹی مستقبل میں پیداء ہو گئی تو ہم کدھر جائیں گے ۔ کیا کریں گے ۔ یہ ہی سوچ کر بستی کے غریب مرد وزن ثواب کی نیئت سے اپنی استطاعت کے مطابق سُگی کی مدد کرتے اسے کھانا دیتے ۔ عورتیں اپنے دوپٹے سے اس کا سر اور جوان ہوتا نسوانی وجود ڈھانپتی مگر اس کرماں سڑی کو کیا پتہ دوپٹہ کیا ہوتا ہے ۔ جوانی کسے کہتے ہیں ۔ معاشرے کے ناسور بے حس اور مردہ ضمیر لوگ اب سُگی کے ننگے پاؤں کی طرف نہیں بلکہ اس کی پھٹی پرانی پسینے گرد اور مٹی سے لتھڑی قمیض کے اس پار جھانکنے کی کوشش کرتے ۔ وہ سُگی کے جسم کے وہ حصے دیکھنا چاہتے جن کی حفاظت کی خاطر کوئی بھی شریف باشعور لڑکی جان تک دینا بھی گھاٹے کا سودا نہیں سمجھتی ۔
انسان فطری عیاش ہے اپنی اس عیاشی کی موروثی بیماری پہ قابو پا لینےوالے لوگ علماءمشائخ اور صوفی کہلواۓ ۔ انسان کی پیدائش سے آج تک کا اگر تقابلی جائزہ لیا جاۓ تو اس دن بدن مہذب ہوتے انسان نے ہر دور میں اپنی عیاشی کے سامان کا نہ صرف انتظام کر لیا بلکہ ہر دور کی عیاشی کے لوازمات انسان کے گذشتہ کل سے کہیں زیادہ رنگین اور دلفریب رہے ۔
آج بستی میں بھی ماسی مختاراں کے بیٹے کا بیاہ تھا بستی کی تمام عورتیں اور لڑکیاں مہندی کی رسم پہ مدعو تھیں ۔ سُگی تو آج دوپہر سے ہی ماسی مختاراں کے گھر تھی ۔ رات ہونے کو تھی دو بار سُگی کی اماں سُگی کو لینے ماسی مختاراں کے گھر آئی مگر دونوں بار سُگی نے اپنی اماں کے ساتھ گھر جانے سے انکار کردیا ۔ زمین پہ لیٹ کر گھر نہ جانے کی ضد کرتی سُگی کی اماں کو مجبوراً سُگی کی بات ماننا پڑی اس بار سُگی کی اماں نے ماسی مختاراں سے کہا بہن اس کا خیال کرنا یہ میرے ساتھ گھر نہیں جا رہی ۔ ماسی مختاراں نے اسے خوب تسلی دی اور اسے کہا کوئی بات نہیں بہن سُگی کو باقی بچیوں کے ساتھ کھیلنے دو سُگی کے چاچا اسے گھر پہنچا آئیں گے آپ بے فکر ہو کر جائیں ۔ بچیوں کے ساتھ ناچتی کودتی سُگی کب رات گئے ماسی مختاراں کے گھر سے نکلی بیاہ کی مصروفیات میں الجھی ماسی مختاراں کو پتہ ہی نہ چلا ۔ ماسی مختاراں کے گھر کے عین ساتھ اور ملحقہ خالی حویلی میں ماسی کے بیٹے کی مہندی کی رسم کا جشن مناتے بستی کے لڑکوں نے جنریٹر اور وی سی آر کا انتظام کر رکھا تھا ۔ جشن کے نام پہ فحش واہیات فلمیں دیکھتے لڑکوں نے جب سُگی کو رات کے اندھیرے میں اکیلے جاتا دیکھا تو تین لڑکے سُگی کے پیچھے ہو لیے بستی سے باہرنکلتے ہی ان تینوں نے سُگی کو روک لیا ۔ان میں سے ایک نے پوچھا سُگی کہاں سے آرہی ہو بیچاری سُگی نے کہا میں تو بیاہ پہ گئی تھی ۔ دوسرے نے کہا سُگی تیرا بیاہ کب ہے ؟ ہم سے کرو گی بیاہ تو سُگی نے ہاں میں سر ہلادیا وہ تینوں سگی کو لےکرقریبی جھاڑیوں میں چلے گئے جب سُگی بولنے کی یا چلانے کی کوشش کرتی تو وہ کہتے سُگی بیاہ تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے ۔ سُگی نے کہا ڈھول کہاں ہے میٹھے اور بوٹیوں والے چاول کب پکیں گے ۔ چینوں اور ننھی کب ناچیں گی ۔ جشن کے نام پہ ننگی فلمیں دیکھ کر انسانیت سے کوسوں دور نکل جانے والے ان تینوں لڑکوں نے سُگی کے بدن کو نوچنا شروع کردیا اور اس وقت تک نوچتے رہے جب تک سُگی نے ہلکی ہلکی مزاحمت نہ شروع کردی ۔
اب سُگی جب بستی کے گھروں میں جاتی تو ہر مرد سے ایک ہی سوال کرتی ۔چاچا مجھ سے بیاہ کرو گے ۔ چھمو مجھ سے بیاہ کرو گے ۔ جیرے مجھ سے بیاہ کرو گے ۔ شاید اس رات کی واردات کا اثر تھا ۔ بہت سارے مرد اور عورتیں تو اس کی اس بیاہ والی بات پہ مسکرا کے رہ جاتے مگر بہت سارے انسانی روپ میں بھیڑیوں نے اس بھولی بھالی سُگی کو کاٹ کاٹ کھانا شروع کر دیا ۔ اکثر ایسا ہوتا سُگی نماز کے اوقات میں مسجد کے دروازے پہ جا کھڑی ہوتی اور نمازیوں سے پوچھتی میرا بیاہ پھر کب ہوگا ۔ کبھی کبھی مردوں کے ہاتھ پکڑ لیتی اور کہتی مجھ سے بیاہ کرو ناں ۔ ڈھول کب بجے گا بوٹیوں والے چاول کب پکائیں گے ۔ سُگی کا معصومانہ سوال حقیقت میں اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی داستاں بیان کرتا مگر بستی کا ہر مرد عورت اسے سُگی کے پاگل پن کا اثر اور ایک پاگل کی ادا سمجھتے ۔
آج سُگی کی ماں کو لکڑیوں کے ڈھیر سے لکڑیاں اٹھاتے وقت زہریلے سانپ نے کاٹ لیا تھا اور وہ اللہ کو پیاری ہوگئی ۔ سُگی کے باپ کا بھٹے پہ اینٹیں بنانے میں جب کوئی مدد گار نہ رہا تو اس نے بھی یہ اینٹیں بنانے کا کام ترک کر دیا ۔ اب سُگی کا باپ بھی گھر کم ہی آتا محنت مزدوری کی غرض سے باہر ہی رہتا ۔ کوئی بھی اب سُگی کا خیال کرنے والا نہیں تھا ۔سُگی بستی کے آوارہ اوباش لڑکوں کے لیے کسی راہ پہ لگے نلکے کی طرح ہو گئی تھی ۔ وقت گزرتا رہا سُگی کے پیٹ میں پلتے گناہ نے پھلنا پھولنا شروع کر دیا ۔ سُگی کے بدن کی ہیئت تبدیل ہونے لگی بستی کی عورتوں کی سُگی سے ہمدردی نفرت بننے لگی ۔اب کوئی سُگی کو اپنے گھر میں داخل نہ ہونے دیتا ۔ جن حالات میں سُگی کو کسی سہارے کی اشد ضرورت تھی ایسے حالات میں سُگی بے یارومددگار ہوگئی ۔ سُگی کو اس حال تک پہنچانے والے بھی سُگی کو آوارہ بد چلن اور ناجانے کیا کیا کہنے لگے ۔
اور پھر ایک رات جب سُگی کا باپ گھر پہ نہیں تھا ۔ سُگی کی حالت غیر ہوگئ ۔وہ درد سے چیخی مدد کو پکارتی رہی جھونپڑی سے نکل کر بستی میں آگئی رات کا پچھلا پہر سگی کی درد بھری فلک شگاف صدائیں شاید آسمانوں میں خدائی کرسی پہ بیٹھا سب کا پروردگار سن رہا تھا ۔ مگرصاحب کردار انسانوں کی بستی میں کوئی اتنا بدکردار نہیں تھا ۔ جو سُگی کی مدد کر سکتا ۔ شاید اللہ تعا لیٰ نے آسمان سے فرشتے بھیجے ہوں گے جو سُگی کو اس بستی سے بہت دور لے گئے مگر بستی کی غلاظت کو لڑکی کی شکل صورت دے کر اسی بستی میں چھوڑ گئے ۔ سُگی خود تو مر گئی مگر اس نے اس بستی کی مشترکہ بیٹی کو جنم دیا ۔ بستی کے جس جس مرد نے سُگی کی معصومیت نوچی ان سب کی بیٹی زمین پہ ایڑھیاں رگڑ رہی تھی ۔
“