یہ ان دنوں کی بات ہے جب رات ، رات ہی ہوتی تھی۔ کبھی گھپ اندھیری تو کبھی دودھیا چاندنی میں ڈوبی ہوئی۔ لیکن ہم رات کو ڈرتے ضرور تھے۔ سردیوں کی راتوں میں رضائیوں اور لحافوں میں دبکے ہوئے جب گلی سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی یا کتے بھونکنے لگتے، ہم لحاف سے گردن نکال کر خوفزدہ نظروں سے آس پاس دیکھتے کہ کوئی اور جاگ رہا ہے یا نہیں۔ آدھی رات کو کسی ضروری حاجت کے لیے صحن کے کونے میں بنے بیت الخلا جانا ہو تو ماں کو ڈری ڈری آواز میں اٹھاتے اور ماں آنکھیں ملتی ، لالٹین ہاتھ میں لئے ہمیں صحن میں لے جاتی۔
لیکن راتوں کا یہ ڈرنا مجھے بہت اچھا لگتا۔ رات کو رات ہی ہونا چاہئیے۔ خاموش، سنسان اور پراسرار۔ وہ راتیں ایسی ہی تھیں۔ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی ہم گھر واپس آجاتے۔ گلیوں میں کیا پورے علاقے میں بجلی نہیں تھی۔ تھوڑی دیر میں ہی اندھیرا چھانے لگتا۔ آج کی طرح نہیں کہ چوبیس گھنٹے شہر جاگتا رہتا ہے۔ سردیوں کی راتوں میں تو عشاء کے بعد ہی بستروں میں دبک جاتے۔ ایسے میں گلی سے گذرتے ریڑھی والے کی آواز سنائی دیتی “ پھلی گرم” یا “ کراری ہورہی ہے گجک” تو دل کو اطمینان سا ہوتا۔
گرمیوں کی راتوں میں صحن میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے چارپائیاں بچھائے آس پاس کی دیواروں پر سائے دیکھ کر عجیب عجیب خیال جی میں آتے۔ لیکن چاندنی راتوں میں دیر تک جاگنے کا جی چاہتا۔ اب کسی ضرورت کے لئے اٹھتے تو ماں کو نہیں آواز دیتے۔
لیکن ان راتوں میں جب باہر کسی کے قدموں کی آہٹ سن کر یا کتوں کے بھونکنے سے جی اوپر نیچے ہونے لگتا ، سناٹے میں ایک آواز گونجتی “ اللہ ہو، اللہ ہو” یہ آواز ایک بار زور سے تو دوسری بار آہستگی سے لیکن صاف سنائی دیتی۔ لگتا دو آدمی بیٹھے یہ آواز نکال رہے ہیں۔ پھر پنجابی میں کچھ بڑبڑانے کی آواز سنائی دیتی۔ کبھی پنجابی شعر سنائی دیتے ۔ شمر یزید پلیدتا، مسلم لیگ دا پانی بند کتا ( شمر یزید پلید۔ مسلم لیگ کا پانی بند کردیا) ۔ “ جیوے مرشد کامل باہو ،جیں ایہہ بوٹی لائی ھو ۔” یا صبح کے وقت آواز آتی “اٹھ فریدا،، وجوساج صبح نماج گجار “ (وضو ساج صبح نماز گزار )۔ یا پھر زور سے نعرہ سنائی دیتا “ یا علی” اور ہم چادر یا رضائی منہ پر کرکے اطمینان کی نیند سو جاتے۔
یہ “ سائیں “ تھا۔ کالا کلوٹا، ایک آنکھ سے کانا، چھوٹے سے بکھرے الجھے بال، پیلے دانت، میلا ملگجا سا کرتا اور آگے سے اوپر اٹھی ہوئی دھوتی۔ وہ کھیتوں میں کام کرتا ہوا کوئی پنجابی کسان نظر آتا۔ یہ اور بات تھی کہ اسے کچھ بھی نہیں آتا تھا سوائے “ اللہ ہو” اور شمر یزید پلیدتا” وغیرہ کے۔ بس گلی سے آتے جاتے “ یا علی” کا نعرہ لگاتا۔ ہم اسے سائیں کہہ کر پکارتے تو بچے اسے “ یاعلی” ہی کہتے۔ “ وہ یا علی جارہا ہے۔ وہ اللہ بابا ہے” ۔ بچے اس ڈرتے بھی تھے اور اسے چھیڑتے اور تنگ بھی کرتے تھے۔
“ سائیں “ ہماری گلی کے کونے پر رہنے والے سادات کے گھرانے کا نوکر تھا۔ نوکر بھی کیا تھا ، چوکیدار سمجھ لیں۔اسے آتا واتا تو کچھ نہیں تھا۔ وہ اسے پنجاب سے ساتھ لائے تھے۔ یہ امروہہ یا مراد آباد کے مہاجر تھے۔ بڑی ستھری اردو بولتے۔ ان کی دادی جمپر اور شرارا پہنتیں۔ ان کا بڑا لڑکا فیروز والی بال کا کھلاڑی تھااور ان کے گھر میں بڑی بڑی ٹرافیاں رکھی ہوئی تھیں۔ لیکن ان کا محلے والوں سے بہت زیادہ ملنا جلنا نہیں تھا۔ یہ شیعہ گھرانا تھا لیکن ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ وہ دوسروں سے یا دوسرے ان سے اس وجہ سے گھل مل نہیں پاتے۔ انہی کے سامنے ایک اور شیعہ گھرانا تھا اور ہم اور وہ بہت گھلے ملے رہتے۔ فیروز کے گھر والے بہت شریف لوگ تھے لیکن شاید خاموش طبیعت تھے یا شاید پنجاب میں رہنے کی وجہ سے یہاں کے لوگوں سے بہت زیادہ میل جول نہ ہوا ہو۔
لیکن سائیں پورے محلے میں مقبول تھا۔ ہماری گلی کیا پورا علاقہ ہی سائیں کو جانتا تھا۔ بچے اسے دیکھ کر آواز لگاتے “ یاعلی” ۔ گلی سے گذرتے فقیر ضرور سائیں سے بات کرتے۔ سائیں بھی ان کے ساتھ خود کو بہت “ ایٹ ہوم” فیل کرتا ۔ یوں لگتا جیسے کسی کمپنی کے سابق ملازمین آپس میں مل رہے ہیں۔ “ بابا لوگ دا ڈیرہ کتھے ہے” سائیں پوچھتا۔ فقیر سائیں کو ایک “ سینئیر” کا درجہ دیتے۔ حالانکہ سائیں نہ تو کوئی مجذوب تھا، نہ فقیر تھا، وہ بس “ اللہ لوک” کہلاتا تھا۔ ولی اولیاؤں کے نام پکارتا لیکن نماز روزہ وغیرہ کا اسے کچھ علم نہیں تھا۔ موڈ ہوتا تو کبھی جمعہ کو دھلے ہوئے کرتے اور دھوتی میں مسجد میں بیٹھا “ اللہ ہو” “ یا نبی جی” “ یا علی” کرتا نظر آتا۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا۔یہ فقیر بھکاری پتہ نہیں کہاں سے آتے تھے۔ شاید کورنگی ایک نمبر کے قبرستان کے ساتھ والی پہاڑی والی درگاہ پر رہتے ہوں۔ فقیر اکثر اسے خاموشی سے کچھ دیتے نظر آتے۔ یہ شاید چرس وغیرہ تھی۔ سائیں عادی چرسی نہیں تھا۔ اس کے پاس کون سے پیسے ہوتے تھے۔ لیکن جب دوسرے “ اللہ لوکی” اسے دیتے تو وہ کہیں سے بیڑی یا سگریٹ مانگ کر سٹے لگا لیتا۔
پوری گلی میں سائیں صرف ہمارے گھر کے اندر داخل ہوتا تھا۔ ہمارا گھر ویسے ہی ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ راجہ اور رانی کا گھر اس محلے کا ہیڈ کوارٹر تھا۔ سارے محلے والے آپس میں گھلے ملے رہتے لیکن ہمارے ساتھ ہر گھر کے خصوصی تعلقات تھے اور سب بہت محبت سے پیش آتے۔ ہماری امی ہر ایک کے دکھ سکھ میں سب سے آگے ہوتیں۔ محلے والے اپنے جھگڑے نمٹانے کے لیے “ راجہ صاحب” کو منصف بناتے۔
“ راجہ جی ، سونے دا درواجہ( دروازہ) جی۔ “ سائیں ہمارے گھر کے سامنے کھڑا ہوکر آواز لگاتا۔” او رانڑی چاء پلا” ( او رانی چائے پلا)۔اور امی اسے پیڑھی پر بٹھا کر گرما گرم چائے کے ساتھ ترترا تا پراٹھا پیش کر دیتیں۔ چائے کی باآوازسڑکیوں کے دوران کچھ نہ کچھ بولتا رہتا جسے شاید ہی کوئی سمجھتا۔ چائے پی کر دونوں ہاتھ اٹھا کر خاموشی سے دعا کرتا۔ سائیں محلے میں کسی کا نام جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، ہمارے سارے گھر والوں کو جانتا تھا۔ راجہ جی اور رانڑی ( رانی) کو تو جانتا ہی تھا۔ میری سب سے چھوٹی بہن منی کو دیکھتے ہی کہتا “ منی کاڑی کنی” ۔ کاڑی ( کالی) تو ہمیں پتہ تھا۔ کنی کا جنے کیا مطلب تھا۔
باجی اسے بہت تنگ کرتیں۔ وہ بھی کوئی رعایت نہیں کرتا۔ ایک بار ایک میلی کچیلی سی فقیر نی گلی سے گذری۔ باجی نے کہا سائیں اس سے شادی کرلے ۔ “ چل باؤڑی ( باؤلی) “ سائیں نے کھسیانا سا ہوکر کہا۔
برسات کے دن تھے اور آموں کا موسم تھا ساتھ ہی مکھیوں نے یلغار کی ہوئی تھی ۔ میں نے پورے گھر میں مکھی مار اسپرے مارا ہوا تھا اور اب اس کے شکار پورے گھر میں بکھرے ہوئے تھے۔ باجی جھاڑو سے ساری مری ہوئی مکھیاں سمیٹ رہی تھیں۔ پاس سے گذرتے ہوئے سائیں نے باجی کو مکھیاں سمیٹتے دیکھا۔ باجی نے ڈسٹ پین میں مکھیاں جمع کررکھی تھیں۔
“ اے کی اے” سائیں نے پوچھا۔ سائیں کی نظر بہت کمزور تھی ۔
“ پپیتے کے بیج” باجی نے شرارت سے کہا۔
سائیں نے ڈسٹ پین سے مکھیاں اٹھا کر دائیں ہتھیلی پر پھیلائیں اور آنکھ کے قریب لے جاکر انہیں دیکھنے لگا جیسے جوہری ہیرے کو پرکھتے ہیں۔
“ کیوں غریب کو تنگ کرتی ہو” امی نے باجی کو ڈانٹا۔
اور اس غریب کو سب ہی تنگ کرتے تھے۔ بچے اس سے ڈرتے بھی تھی لیکن چھیڑتے بھی ضرور تھے۔ وہ ایک رات گلی کے نکڑ پر پائپ کے ساتھ چارپائی بچھائے گہری نیند سور رہا تھا۔ الیاس میرا دوست حرفوں کا بنا ہوا تھا۔ اسے ہر وقت کچھ نہ کچھ سوجھتی رہتی تھی۔ ہم نے خاموشی سے سائیں کی چارپائی اٹھائی۔ ہمارا ارادہ تھا کہ اسے سامنے والے میدان میں بیچ جنگل میں چھوڑ آئیں۔ لیکن اس کا وزن ہم دو کے بس سے زیادہ تھا۔ اندھیری رات میں کسی گڑھے میں ٹھوکر پڑی اور سائیں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ حرکت کرتی ہوئی چارپائی دیکھ کر “ اوئے ربا ، اے کیہہ اے” کہہ کر دہائیاں دینے لگا۔ ہم اس کی چارپائی چھوڑ کر بھاگ آئے۔ کچھ دیر بعد دیکھا کہ سائیں اندھیرے میں چارپائی اٹھائے گالیاں بکتا چلا آرہا ہے۔
کراچی میں سبزہ بہت کم ہے اور پرندے بھی کم نظر آتے ہیں ۔ جو نظر آتے ہیں ان کے بھی نام کراچی والے کم ہی جانتے ہیں۔ کوے ، چیل، کبوتر، چڑیا کو تو خیر سب ہی جانتے ہیں لیکن کوئل اور بلبل اور مینا میں کیا فرق ہے اور چکور، تیتر اور بٹیر کسے کہتے ہیں یہ ہمارے لئے ذرا مشکل سوال ہیں۔ سائیں ایک دن کہیں سے ایک عجیب سا پرندہ لے آیا جو کچھ بیمار سا لگ رہا تھا۔
“ یہ کیا ہے سائیں “ باجی نے پوچھا
“کاڑا تیتر” ( کالا تیتر) سائیں نے بتایا۔
“ کیوں لائے ہو اسے؟”
“ اے اللہ ہو کہندا ہے “ سائیں نے بتایا۔
سائیں اس لے کر کبھی گلی کے اِس نکڑ پر کبھی اُس نکّڑ پر بیٹھا “ اللہ ہو، اللہ ہو” کرتا رہتا۔ تیتر گردن نیہوڑائے چپ چاپ پڑا رہتا۔
سائیں میں ایسا کوئی گُن نہیں تھا کہ اس کی بات کی جائے۔ لیکن میرے پرانے محلے میں شاید ہی کوئی ہوگا جسے سائیں آج بھی یاد نہ ہو۔ وہ نرا نکما تھا لیکن محلے کی جان تھا۔ گلی کی پہچان تھا۔ گلی میں اس کے دم سے زندگی نظر آتی تھی۔ بچے لوگوں کو “یاعلی” والے “ اللہ بابا” کے حوالے سے گلی کا پتہ سمجھاتے۔
اور اس دن تو سائیں نے کمال ہی کردیا۔ سائیں کو لکھنا پڑھنا تو کیا اردو بھی بولنا نہیں آتی تھی۔ اس کی پنجابی بھی ہماری سمجھ میں کم آتی تھی۔ میرے ابا “ ہولی فیملی” ہسپتال میں داخل تھے۔ میں شام کے وقت ابا کے پاس گیا ہوا تھا کہ ہسپتال کے کوریڈور میں شور سا ہونے لگا۔ دیکھا کہ ہسپتال کا اسٹاف ایک میلے کچیلے سے دیہاتی کو باہر دھکیل رہا ہے اور وہ چلا رہا ہے “ اوئے مینوں راجے جی نوں ویکھن دیو” ( اوئے مجھے راجہ جی کو دیکھنے دو)۔ میں جھجکتا ہوا آگے بڑھا اور کچھ شرمندہ سے الفاظ میں اسٹاف کو سمجھایا کہ یہ میرے ابا کو دیکھنے آیا ہے۔ عملے کے لوگوں نے حیرت سے مجھے، میرے لباس کو دیکھا ، پھر سائیں کو دیکھا”۔ خیر انہوں نے سائیں کو میرے ساتھ اندر جانے کی اجازت دے دی۔
“ اوئے راجہ جی ، سونے دا درواجہ جی، کی ہوگیا تانوں” سائیں دہائی مچاتا ہوا وارڈ میں داخل ہوا۔ میں نے بمشکل اسے خاموش کرایا۔ سائیں ابا کے بستر پر پائنتی پر بیٹھ گیا۔ یہ محلے سے واحد کوئی بڑا تھا جو ابا کو ملنے آیا تھا۔ ہم برسوں حیرت زدہ رہے کے کورنگی سے سائیں صدر تک کیسے آیا۔ اس نے صدر سے ہولی فیملی کا پتہ کیسے پوچھا اور اسے ہولی فیملی ہسپتال کا نام بھی کس طرح سمجھ آیا ہوگا۔
پینسٹھ کی جنگ کے بعد افواہیں اڑیں کہ ہندوستان نے کئی جگہوں پر پیراشوٹ سے اپنے جاسوس اتار دئیے ہیں۔ لوگ باگ بھکاریوں، فقیروں کو پکڑ لیتے اور ان کی “ اسلامی شناخت “ کی جانچ کرتے۔ غریب سائیں کو بھی کسی نے پکڑ لیا۔ لیکن شاید وہ اپنی مسلمانی ثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ جو شخص کورنگی سے سولجر بازار پہنچ سکتا ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔
میں ملک سے باہر چلاگیا۔ گھر کے حالات بہتر ہوئے تو کورنگی کا کوارٹر چھوڑ کر شہر میں چلے آئے۔ ہمارے ساتھ ہی ایک ایک کرکے محلہ خالی ہوتا گیا۔ اب ایک آدھ گھر میں ہی پرانے مکین آباد ہیں اور اب تو سالہا سال ہوگئے میں کورنگی نہیں گیا۔ سائیں تو اس وقت بھی بوڑھا تھا۔ وہ کب کا مر، مرا گیا ہوگا۔ پتہ نہیں کون اس کے جنازے میں شریک ہوا ہوگا اور اسے کہاں دفن کیا ہوگا۔ دنیا اچھے اچھوں کو بھلا دیتی ہے۔ اس معمولی سے ، نیم باؤلے اور نیم مجذوب کو بھلا کون یاد رکھے گا۔
ہاں میں آپ کو یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ سائیں کا نام کیا تھا؟۔
“ سائیں تیرا نام کیا ہے؟” ایک دن میں نے پوچھا تھا۔
“ کا دا ناں؟” ( کس کا نام؟) سائیں نے بے نیازی سے پوچھا۔
“ تیرا نام”
“ ناں کوئی نا” ( نام کوئی نہیں )
“ کیوں تیرا کوئی نام ہی نہیں ہے ؟” میں نے جرح کی۔
“ ناں بس او دا” ( نام صرف اس کا) سائیں نے انگلی سے اوپر کی جانب اشارہ کیا۔
“ چل باؤلے” میں نے زچ ہوکر بحث ختم کی۔ عجیب بے وقوف ہے۔ ہر انسان کو کم ازکم اپنا نام تو معلوم ہوتا ہے۔
لیکن اب سوچتا ہوں تو سائیں کی بات ہی سچ لگتی ہے۔
“ ناں بس او دا”