سپنوں کی لاشیں ۔ ۶
”میں گھر واپس جانا چاہتا ہوں پر اس اداسی کا کیا کروں وہ تو ہمیشہ برقرار رہے گی“۔
”میں اس حقیقت کو تو تبدیل نہیں کر سکتا کہ میری پینٹگز نہیں بِکتیں۔ لیکن وقت آئے گا جب لوگ یہ مانیں گے کہ ان کی قدر ان رنگوں کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے جو ان تصویروں میں استعمال ہوئے ہیں“۔
اور وین گاف کی یہ بات سو فیصد درست ثابت ہوئی۔
ونسنٹ وین گاف (30 مارچ 1853ء ۔ 29 جولائی1890 ء) وہ ڈچ مصورہے جسے لوگوں نے، اس کی زندگی میں مصور تسلیم نہیں کیا اور اس کی فقط ایک پینٹنگ ہی اس کی زندگی میں بِک پائی ۔جس نے اپنی زندگی کے آخری دس سالوں میں لگ بھگ دو ہزار سکیچ، ڈرائنگیں اور پینٹنگز بنائیں۔ ان میں پینٹنگز کی تعداد نو سو کے قریب ہے۔ وین گاف نے جب مصوری کا آغاز کیا تو یورپ میںImpressionism اور Post Impressionism کا چرچا تھا۔ Realism کے حامی ان دونوں کے خلاف نبرد آزما تھے مگر پسپا ہو رہے تھے۔ وین گاف نے اپنے کام کا آغاز عام کھردرے کاغذوں پر چارکول (Charcoal) سے خاکہ کشی کے ساتھ کیا اور گہرے رنگوں خصوصاً گہرے براﺅن رنگوں میں پینٹ شروع کیا۔ اسے مصوری کے مختلف مکاتب کے بارے میں کچھ علم نہ تھا اور مصوری شروع کرتے وقت اس نے مصوری بارے کوئی باقاعدہ تربیت حاصل نہ کی تھی۔ یہ اس کی شخصیت کا حصہ تھا کہ جو شے اسے متاثر کرتی وہ اس کا خاکہ کاغذ پر بنا لیتا تھا۔ بعدازاں اسے اپنے بھائی تھیو (Theo) کی وساطت سے Impressionist اور Post Impressionist مصوروں سے ملنے اور ان کا کام دیکھنے کا موقع ملا تو اس کے کام میں دوسرے رنگ بھی جھلکنے لگے مگر یہ رنگ دوسرے مصوروں کی طرح دھیمے اور ہموارنہیں تھے یہ تندوتیز تھے اور کھردرے بھی۔ پھر تندوتیزکھردرے رنگ، برش کی بولڈ (Bold) اور آوارہ (Wild) سٹروکس (Strokes) اس کے قوی ہتھیار بن گئے۔ وہ رنگ پیلٹ (Pallet) پر نہیں بناتا تھا بلکہ رنگوں کو براہ راست لگا کر ان سے کینوس پر ہی نئے رنگ تخلیق کرتا تھا۔
وین گاف کی زندگی کا سفر عجیب ہے وہ ایک ایسا انسان تھا جو ہر طرح سے باغی تھا۔ وہ روایتی چرچ ، روایتی مصوری، روایتی بول چال، رہن سہن، روایتی رشتوں اور ان کے نام نہاد تقدس غرضیکہ سب سے باغی تھا۔ وہ محبت کا متلاشی تھا۔ وہ اپنی مصوری کے موضوعات عوام کی غربت زدہ زندگی اور قدرت کے نظاروں میں ڈھونڈتا تھا۔ اپنے طبقے میں اس نے جس عورت سے بھی رشتہ جوڑنا چاہا اسے دھتکار ملی اسے اگر عورت کی قربت ملی تو وہ پیشہ ور طوائفیں تھیں۔اس کی زندگی کاپہلا مقصد ایک سچا اور اچھا پادری بننا تھا تاکہ وہ لوگوں کو خدا کی طرف راغب کر سکے جب وہ روایتی چرچ کے رکھوالوں کی مخالفت کے باعث اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکا تو اس نے مصوری کو اپنا نصب العین بنایا لیکن مرتے دم تک وہ خود کو مصور منوا نہیں پایا۔ یہاں بھی مصوری کے پنڈت اس کی راہ میں رکاوٹ تھے۔
مصوری میں وہ جب انسان کو موضوع بناتا ہے تو اس کے موضوع (Subjects) معاشرے کے پسے ہوئے غریب پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مرد ،عورتیں ،بچے، دیہاتی کسان، عام شہری، ڈاکیے اورجولاہے اس کی تصاویر میں بھرے پڑے ہیں۔ اشرافیہ کے کردار خال خال ہی اس کی پینٹنگز میں نظر آتے ہیں۔ جب وہ ساکت تصویریں ( Still Life ) بناتا ہے تو بھی اس کے موضوعات الگ سے ہیں۔ پھٹے ہوئے گھِسے ہوئے برسوں استعمال شدہ جوتے، سورج مکھی کے پھول گل دان میں تروتازہ بھی اور مرجھائے ہوئے، مرتے ہوئے، بکھرتی پنکھڑیوں کے ساتھ ٹوٹے ہوئے گل دان کے ساتھ۔ پرندوں کے گھونسلے انڈوں کے ساتھ اور بغیر انڈوں کے، بھدی بوتلیںو مرتبان جو عام لوگ استعمال کرتے ہیں یہاں تک کہ ڈبل روٹی کترتے ہوئے چوہے بھی اس کی آنکھ سے بچ نہیں پاتے۔ ویسے ان کو Still Lifes کہنا بھی اپنی جگہ غلط ہے کیونکہ یہ اپنے اندر ایک متحرک انگ رکھتی ہیں ۔ بھلا مصور ایسے موضوعات پر تصویریں بناتے ہیں۔ جب وہ لینڈ سکیپ (Land Scape) بناتا ہے تو ایک عام منظر بھی اس کے کینوس پر اتر کر جاوداں ہو جاتا ہے ۔ وہ اس میں سورج جیسی آگ بھر دیتا ہے۔ چاندنی جیسی ٹھنڈک ڈال دیتا ہے۔ اس کے لینڈ سکیپ میں آپ کو نظارہ تو دیکھنے کو ملے گا ہی پر آپ اسے دیکھ کر اس موسم کو بھی محسوس کر سکتے ہیں جس میں وہ نظارہ کینوس پر مقید کیا گیا تھا۔ اس کے لینڈ سکیپ آپ کو ساکت نظر نہیں آئیں گے بلکہ ان میں آپ ایک حرکت یہاں تک کہ ہوا کی سرسراہٹ اور بارش کی پھوار پڑتی بھی محسوس ہو گی۔
جب وہ پورٹریٹ بناتا ہے تو اس کی بولڈ سٹروکس اس کے پورٹریٹس کو منفرد بنا دیتی ہیں ۔اس کے اپنے(Self) پورٹریٹ نہ صرف متنوع ہیں بلکہ ان میں ایک قسم کی جنونیت، مایوسی، خوشی غرضیکہ ہر طرح کے تاثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس کے اپنے ایک پورٹریٹ جو اس نے دماغی امراض کے ہسپتال میں رہنے کے دوران 1889ء میں بنایا تھا اور جسے The Portrait in Madness بھی کہا جاتا ہے، کے بارے میں مشہور ہے کہ اس پورٹریٹ پر لگاتار آنکھیں جمائے رکھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔
ویسے تو وین گاف کی تمام زندگی Vibrant اور Turbulant تھی مگر زندگی کے آخری سالوں میں وہ سخت ذہنی خلفشار اور مایوسی (Depression) کا شکار رہا۔ وہ لگ بھگ ایک سال دماغی امراض کے ہسپتال میں زیر علاج رہا۔ وہاں سے باہر آنے کے کچھ ہی عرصے بعد37 برس کی عمر میں اس نے خود کو سینے میں گولی مار کرموت کے حوالے کر دیا۔ مرتے سمے اس نے اپنے بھائی تھیو سے جو آخری جملہ کہا وہ یہ تھا: ”میں گھر واپس جانا چاہتا ہوں پر اس اداسی کا کیا کروں وہ تو ہمیشہ برقرار رہے گی“۔
وین گاف کی قدر و منزلت کا اندازہ اس کی موت کے بعد ہوا اور نقادوں نے اسے نہ صرف Post Impressionist مصور مانا بلکہ اسے Expressionism کا بانی بھی قرار دیا۔ دن بدن اس کی مقبولیت بڑھتی گئی اور آج اس کی پینٹنگز دنیا کی مہنگی ترین پینٹنگز میں شمار ہوتی ہیں۔ ہیں۔ جہاں بھی آرٹ کی تعلیم دی جاتی ہے وہاں وین گاف کو اسی طرح اہمیت سے پڑھایا جاتا ہے جس طرح ایل گریکو پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔