جین پال سارتر 21 جون 1905 میں پیرس، فرانس میں پیدا ہو ئے اور 15 اپریل 1980 میں انتقال کرگئے۔ وہ فرانسیسی فلسفی، ڈرامہ نگار، ناول نگار، فلمی کہانی نویس، سرگرم سیاسی کارکن، سوانح نگار اور ادبی نقاد تھے۔ وہ ایک اہم وجودیت پسند فلسفی تھے۔ بیسویں صدی کے یہ فرانسیسی فلسفی شروعات میں مارکسسٹ تھے۔
ان کا مثالی کام سماجیات، نظریہ نقادی، بعد ازاں نو آبادیاتی نظریہ اور ادبی مطالعے میں تھا۔ انھیں 1964 میں ادب میں نوبل انعام ملا لیکن انھوں نے اسے قبول کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ ’مصنف کو کسی مخصوص ادارے سے منسلک نہیں ہونا چاہیے‘۔ سارتر فلسفہ کی جانب ہنری برگ سن کے مضامین ٹائم اینڈ فری ول (آزاد خیالی) اور ’شعور کی فوری معلومات‘ کے پڑھنے کے بعد رجوع ہوئے۔ وہ بہت سے مغربی فلسفیوں سے متاثر تھے، جن میں ایما نوبل کانٹ، جارج ولیم، فریڈریک ہیگل، سورن کیارکی گارڈ، ایڈمنڈ ہسرل اور مارٹن ہدیگر وغیرہ۔ سارتر نے فرنچ آرمی میں 1929-31 تک ملا زمت کی۔
نوآبادیاتی قبضہ کے خلاف سارتر نے فرانس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’الجزائر کی آزادی کی جنگ کے دوران فرانس کا ہر فرد الجزائر پر کیے گئے اجتماعی مجرمانہ عمل کا ذمے دار ہے‘۔ جین پال سارتر نے پہلی بار 1946 میں وجودیت اور انسانی حقوق کے فلسفے کو اپنے ایک خطاب میں برملا اظہار کیا۔ فرنچ آرمی میں دھات سازی کے شعبے میں کام کرنے کے دوران جرمن فوج نے 1940 میں انھیں گرفتار کرلیا۔ نو ماہ بعد جیل میں قید کے دوران انھوں نے ’کرسمس‘ سے متعلق ایک ڈرامہ تحریر کیا۔ پھر وہ اپریل 1941 میں جیل سے رہا کردیے گئے۔ مئی 1941 میں زیر زمین دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر ’سوشلزم کی آزادی‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ 1945-62 تک وہ لکھنے پڑھنے کے کام میں لگ گئے۔ اسی دوران انھوں نے ’آزادی کی راہ کی جانب‘ ڈرامہ لکھا۔ 1948 میں جب دنیا اشتراکی اور سرمایہ داری کے دو حصوں میں بٹ گئی تو سارتر سیاست میں براہ راست ملوث ہوگئے۔ پھر انھوں نے مارکسزم کو اپنایا مگر کمیونسٹ پارٹی میں شامل نہیں ہوئے۔ سارتر نے سوویت یونین میں آزادی اور انسانی حقوق کی پامالی پر آواز اٹھائی۔
جین پال سارتر پہلا فرانسیسی صحافی تھا جس نے لیبر کیمپ (مزدور خرکار کیمپ) کی مخالفت اور مذمت کی۔ انھوں نے روس کی ہنگری میں مداخلت کی بھی مخالفت کی۔ الجزائر میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں پر فرانس کی جانب سے اذیتی کیمپوں میں تشدد کیے جانے کی مخالفت کی۔ انھوں نے الجزائر پر کی جانے والی جارحیت کے خلاف فرانسیسی عوام میں دستخطی مہم چلائی۔ انھوں نے جنگ ویتنام میں امریکی مداخلت کی برٹینڈرسل اور دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر امریکی جنگی جرائم کے خلاف مہم چلائی۔ بعد ازاں 1967 میں اس مہم کا نام ہی ’ رسل ٹریبونل‘ پڑگیا۔ 1960 میں سارتر فیڈل کاسترو سے ملنے کیوبا گئے اور آرنیسٹو چی گویرا سے متعلق تبادلہ خیال کیا۔ سارتر صرف دانشور نہیں تھے بلکہ ایک مکمل انسان تھے۔
جین سارتر نے چی گویرا کی موت پر یوں اپنے خیال کا اظہار کیا کہ ’وہ زندہ رہا اپنے قول کے مطابق، اپنے قول کے مطابق عمل کیا، اس کی کہانی اور دنیا کی کہانی ساتھ ساتھ چلتی رہی‘۔ سارتر یہودیوں پر نازیوں کے مظالم کے خلاف بولتا رہا۔ 1974 میں جر منی کے قیدخانوں میں اجتماعی بھوک ہڑتال ہورہی تھی، اسی دوران جرمنی کی ریڈ آرمی کے عسکری گوریلا رہنما اینڈریس بادیر سے اسٹیم ہیم جیل خانے میں ملاقات کی اور ان کی حالت زار پر بری طرح تنقید کی۔ پھر اپنی زندگی کے آخری ایام میں انارکسٹ کمیونسٹ نظریات سے ہم آہنگ ہوگئے اور تادم مرگ ایک سچے انارکسٹ رہے۔
پیرس میں 1968 مئی کی عام ہڑتال میں سول نافرمانی کے جرم میں گرفتار کرلیے گئے۔ صدر چارلس ڈیگال نے مداخلت کرتے ہوئے انھیں یہ کہہ کر رہائی کا حکم دیا کہ ’ وہ والٹیئر کو گرفتار نہیں کرسکتے‘۔ جب سارتر سے پوچھا گیا کہ آپ اس پر کیا کہیں گے تو انھوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم انسان کو یاد کرنا چاہتے ہیں، اس کی تاریخی حیثیت میں، جس طرح وہ رہتا ہے، ہم ان کے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں، ان ہی سے حوصلہ حاصل کرتے ہوئے، اپنے آپ میں قوت جدوجہد کو مجتمع کرتے ہیں‘۔
سارتر کی لکھی ہوئی ناول، اسکرین پلے اور افسانوں میں مشہور ادبی کتابیں the wall دیوار‘، the flies’ مکھیاں‘ dirty hand ’گندے ہا تھ‘d the devil and the lor ’شیطان اور اچھا آقا ‘۔ فلسفے پر ان کے لکھے گئے مشہور مضامین imagination,being and nothing ness, existism is a humanism, critic of dialectical reason, search of methord, the existense ۔
سارتر میڈیا اور دانشوری پر اجارہ داری کے خلاف ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے۔ وہ عوامی اجتماعات میں بھی ان اجارہ داریوں کے خلاف بولتے تھے اور ان کے خلاف مہم چلاتے تھے۔ میڈیا کے مختلف ذرایعوں سے اپنا اظہار خیال بھی کرتے تھے۔ وہ اخباروں میں کالموں کے ذریعے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ جب الجزائری عوام الجزائر کو فرانسیسی سامراج سے آزادی کی خاطر جنگ لڑ رہے تھے تو سارتر کے بلاروک ٹوک ان کی حمایت کرنے پر ان کے اپارٹمنٹ کے داخلے کے راستے میں ایک بار پلاسٹک بم بھی مارے گئے لیکن انھوں نے الجزائری عوام کی جدوجہد کی حمایت جاری رکھی۔ انھوں نے دوسری عالمی جنگ کے خاتمے تک ’مصنفین کی مزاحمت‘ نامی تنظیم میں شرکت اختیار کرکے جنگ مخالف جدوجہد کو جاری رکھا۔
سارتر کے جنازے میں 50 ہزار پیرس کے شہریوں نے شرکت کی۔ سارتر کا کہنا تھا کہ ’انسان کے وجود سے قبل اس کا کوئی جوہر نہیں تھا، اس لیے اس کا کوئی خالق بھی نہیں تھا‘۔ ان کی مشہور کتاب ’وجودیت کا منشور‘ جس کا لب لباب یہ تھا کہ ’نظریہ حقیقی زندگی کی صورتحال کے تجربات کی پیداوار ہے‘۔ وہ ملکوں کی سرحدوں، پہریداروں اور جبری ریاست کے انکاری تھے۔ آج ان کے نظریے پر جدوجہد کرنے والے اس دنیا میں لاکھوں کروڑوں میں برسر پیکار ہیں۔
عالمی پیمانے پر ادیب اطفال کی ڈائریکٹری
دنیا میں جس جگہ اردو ہے، وہاں بچوں کے ادیب اور شعرا؛ اطفال کے لیے کہانیاں ، نظمیں ، ڈرامے،...