29 جون 1999
ـــ
1995 کی بات ہے، پاکستان ملٹری اکیڈیمی جوائن کیےہوئےلگ بھگ ایک ماہ ہوچلا تھا۔ ہوش ٹھکانے آگئے تھے۔ UET سرسیدہال کے کیوبیکل میں ایک نیم غنودہ کچھوےکی رفتارسےگھسٹتی زندگی کو ‘دوڑے چل’ کی بددعا لگ گئی تھی۔
دومیل بھاگتے، فیل ہوتےاورپھرسےبھاگتے، چِن اپ بار(chin up bar) پرتوری کی طرح لٹکتے، ڈنڈ بیٹھکیں نکالتے، ڈڈوچال (frog jumps) چلتے، سامنےاور پیچھےہردواطراف کی قلابازیاں (front and back rolls) لگاتےجب ہمیں یہ سمجھ آگئی کہ بقیہ زندگی بٹالین روڈ پرآویزاں کہاوت کاہی اوڑھنا بچھونا ہوگی،
وہی جس میں پسینہ خون کی طرح بہاکرعزت بچانےکا ذکرہے
Sweat saves blood and blood saves honour.
تو ہم نے بھی ایک جوش کے عالم میں پی ایم کے لیٹرہیڈ پر گھروالوں کے نام اگلے خط میں شوقِ شہادت کاذکر کردیا۔
واپسی ڈاک میں ابو کا خط مِلا ’میریا ڈھول سپاہیا، تینوں رب دیاں رکھاں‘
ہمیں ابو نےجب بھی خط لکھا، اور اس کااہتمام وہ ایک عرصےتک باقاعدگی سےکرتے رہے، اس کےماتھے کاسرناواں ہمیشہ اپنے سپاہی بیٹے کے لیے رب دیاں رکھاں مانگتی یہی سطر رہی
’میریا ڈھول سپاہیا، تینوں رب دیاں رکھاں‘
تو شوقِ شہادت والے خط کے جواب میں ابا نے ایک تواضع اور اہتمام سے لکھا کہ
بیٹےکی شہادت کی تمنا اپنی جگہ مگرآپ ہماری آنکھوں کےتارے راج دلارے ہو، تو آپکےماں باپ رب سے یہی دعا کریں گےکہ وہ آپکو راستے کی آزمائشوں سےغازی کےروپ میں سرخروکرے۔
ان کی بات میں بھی وزن تھااور آپس کی بات ہے، آپ سےجھوٹ نہیں بولیں گے، جذبۂ شوقِ شہادت جب جب بھی اِس دل میں موجزن ہوا،
ہم ہمیشہ یہ سوچ کر کہ شہادت کا رتبہ پانےکے لیے پہلے مرنا پڑے گا، ٹھٹھک سے گئے۔ آج بھی جب سوچتے ہیں تو ٹھٹھک جاتے ہیں۔
صاحبو وہ دِل اور ہوتے ہیں جن میں شہادت کی آرزو لہو کی ہربوند میں موجزن ہوتی ہے۔ وہ دھڑکتے بھی اور طرح ہیں۔
فوج میں ہمارےکمیشن سےایک سال کی دوری پر ہمالیہ کےپربتوں میں کارگل کی جنگ لڑی گئی تھی۔ جیت اورہارکےفسانوں سےقطعِ نظردنیا کےبلند ترین محاذِجنگ کی دشوارگزار چوٹیوں اور کاٹ کھانے والے موسم کی سختیوں میں دونوں اطراف کے دلیر افسروں اور سپاہیوں نے شجاعت کی لازوال داستانیں رقم کی تھیں۔
اسی سال یعنی 1999 کے اواخر میں پاکستان ٹیلی وژن نے کارگل کے جوانوں کے نام ایک شو ٹیلی کاسٹ کیا تھا جس کی میزبانی ہمارے ہردلعزیز معین اختر مرحوم نے کی تھی۔ اس پروگرام میں اپنے رخسار پر میدانِ جنگ میں کھایا ہوا زخم ایک اعزاز کی مانند سجائے کیپٹن رومیل بھی آئے تھے۔
جنگ ہوئےکچھ عرصہ ہوچلاتھا، چہرےکازخم بھرچکاتھامگردل کےگھاؤ ہرےاورجذبہ جوان تھا۔ اپنےزخم کی تفصیل بتاتےہوئےکیپٹن رومیل کاکہناتھاکہ ہندوستانی سنائپرکی گولی رخسارکاگوشت اورہڈی چیرتی ہوئی کان کےراستےباہرنکل گئی تھی۔ گولی کےدھکےسےوہ سنبھلےتوبےتحاشابہتےخون سےانہیں لگاکہ بس اب اختتام ہے
کچھ دیروہ لیٹےرہےکہ دیکھیں اب جان نکلتی ہےکہ تب اورزندگی شہادت کےرتبےپرفائزہوتی ہے۔
صاحبوایک زخم کھائےمجاہدکاجسکولگی ضرب کےمہلک ہونےکی جانکاری ملِ جائےاور وہ ایک آلکس کے عالم میں منتظر ہو کہ دیکھیں کب روح پرواز کرتی ہے …
یہی تو وہ شوقِ شہادت ہے جس کا ہم اوپر ذکر کرکے آئے ہیں۔
کیپٹن رومیل کےسادہ مگر دل کوچھوتے اندازِبیان میں ایک بے لوث خواہش کے اظہارپر لفظ اورلہجے کےجادوگر معین اختر نے مسکرانے کی کوشش کی مگر خاموش ہوگئے۔ لفظ جیسے حلق میں پھنس گئے ہوں، انہیں آنسوؤں کا پھندہ لگا اور دلِ سےبے اختیارکیپٹن رومیل کے لیے دعا نکلی۔
ویڈیو لِنک
ہمارے کپتان کے رخسار کا زخم مہلک تھا مگر کاری نہیں، وہ محاذ سےغازی بن کر لوٹے
کیپٹن رومیل کےمورچوں سےتھوڑاادھر ایک اورافسرتھاجسے چھاتی میں آئے زخم کےکاری ہونےکی آگاہی ہوچلی تھی اور وہ ہتھیار پر سنگین لگا انتظارکرتا تھا کہ کون پہلے آتا ہے، ہندوستانی فوجی یا شہادت کی نوید۔
کارگل اوردراس کودیکھتی جن بلندیوں پرجنگ لڑی گئی تھی، ان سے تھوڑاپیچھے بُرزِل ٹاپ اور چلم چوکی کےاِس پاراستور کامستقر ہے۔ بُرزِل کےپار جانےوالے فوجی یہاں ایک دن کا پڑاؤ ڈالتے ہیں۔ یہیں سے ایک دلربا وادی پرشنگ کے نام کی نکلتی ہے جہاں چند میل کے فاصلے پر رامکھا کا خوبصورت گاؤں ہے۔
ویڈیو لنک
پرشنگ رامکھا سےتعلق رکھنےوالےمیجرعبدالوہاب واہ کینٹ میں تعینات تھےجب کارگل کےمعرکےکی خبریں آناشروع ہوئیں۔ انہوں نےجنرل ہیڈکوارٹرزکوخط لکھ کررضاکارانہ اپنی خدمات پیش کیں اور انہیں 6 ناردرن لائٹ انفنٹری میں پوسٹ کردیا گیا جس کے جوان بنیال سے آگےکی بلندیوں میں نفوذ کےبعد
اب اپنے بقا کی جنگ لڑرہے تھے۔
کرنل اشفاق حسین جنٹلمین استغفراللہ لکھتے ہیں تو ہمیں میجر عبدالوہاب کی کہانی سناتے ہیں۔ میجر صاحب کو جب محاذ پر پوسٹنگ کی درخواست کی منظوری کی خبر ملی تو انہوں نے واہ کینٹ کی جامع مسجد میں نماز کے بعد اپنی شہادت کی دعا کروائی۔
بالاکوٹ والے سید احمد شہید کا معمول تھا کہ نمازِ فجر کے بعد سورہ یاسین، سورہ قریش اور اس کے بعد گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھ کر شہادت کی موت کی دُعا کیا کرتے تھے۔ میجر عبدالوہاب کا بھی یقیناً یہی معمول رہا ہوگا، لیکن اس عمل کی باقاعدہ تلقین انہوں نے واہ کینٹ سے استور جاتے ہوئے
جب وہ گلگت میں ٹھہرے تو اپنے رشتہ دار ڈاکٹر منظور صاحب کو کی۔ واہ کی جامع مسجد کے نمازیوں کےساتھ اب ڈاکٹرمنظور بھی شاملِ دعا ہوگئے تھے۔
اپنے گاؤں میں والدین اور بہن بہنوئی سے ہونے والی ملاقات میں ملنے والی دعاؤں کے جواب میں بھی انہوں نے شہادت کی دعا کا کہا ہوگا۔
بوڑھے والدین کے اٹھے ہاتھ ایک دفعہ کانپے تو ہوں گے کہ شہادت کی تمنا کرنے والے کے اپنے بیوی بچے ہیں۔ اصل امتحان میں میجر عبدالوہاب نے اپنے سسر کو ڈالا۔ وہ استور کی جامع مسجد میں خطیب تھے، باجماعت نماز کے بعد ان سے اپنے حق میں شہادت کی موت کی دعا کروائی۔
صاحبو کہنے والے کہتے ہیں کہ کوئی کوئی لمحہ قبولیت کا ہوتا ہے۔ محاذ پر پہنچنے سے پہلے میجر عبدالوہاب یہ تسلی کرکے جارہے تھے کہ رب کی بارگاہ میں اتنے ہاتھ بلند اور اتنی جھولیاں پھیلاکر جائیں کہ قبولیت کے لمحے کا بچ کرنکل جانے کا امکان ختم ہوجائے۔
6 ناردرن لائٹ انفنٹری رجمنٹ میں رپورٹ کرنےکےبعداگلاحکم محاذ پرطارق پوسٹ پرپہنچنےکاتھا۔ یہ پوسٹ ان بلندیوں پرقائم کی گئی چوکیوں میں سےایک تھی جنہوں نےمیڈیا میں ٹائیگرہِل کےنام سے شہرت پائی۔
میجرعبدالوہاب جب 26جون کوطارق پوسٹ پہنچےتوپڑوس میں تولولنگ کی بلندیوں پرگھمسان کی لڑائی
جاری تھی اورہماری پس قدمی کرتی سپاہ کی گرفت کمزورپڑچکی تھی۔ کمک کی مسدودہوتی راہوں، بتدریج ختم ہوتےایمونیشن اور شہیداورزخمیوں کےخانوں کوپُرکرتی سپاہ کی قلیل نفری کےتناظرمیں خودٹائیگرہل کی لڑائی اب بقاکی جنگ تھی۔
اگلےدودن ہندوستانی سپاہ کے حملوں نے پوسٹ کی نفری پر کاری ضرب لگائی۔
زخمی ہوجانےوالےایک افسر اوروہ سپاہی جو ابھی اپنےپیروں پرچل سکتےتھےانہیں پیچھےہیڈکوارٹر کی طرف روانہ کرنےکےبعد 28 جون کی شام طارق پوسٹ پرمیجر عبدالوہاب اور سپاہی طیب بچے۔ اس رات کو آنے والی حملے کی اگلی لہر کو پسپا کرتے میجر عبدالوہاب کی چھاتی میں گولی لگی جو کمر سے پار ہو گئی۔
حملہ تھما تو ہمارے جری افسر نے زخم کو جانچ کر یہ تخمینہ لگایا کہ اب شہادت کی گھڑی آیاہی چاہتی ہے۔ پیچھے سے کوئی اور کمک نہیں آنی تھی، تب میجر صاحب نے کچھ فیصلہ کیا اور اپنی کچھ اشیاء، گھڑی، قرآن کا نسخہ اور دعاؤں کی ایک کتاب سپاہی طیب کو دی اور اسے واپس چلے جانے کاحکم دیا ۔
میجرعبدالوہاب نےاب گولیوں سےخالی ہتھیار کی سنگین سیدھی کی اوربنکرکی دیوار کی ٹیک لگاکرانتظار میں بیٹھ گئےکہ دیکھیں پہلے کون آتا ہے۔ ہندوستانی حملہ کہ بارگاہِ ایزدی سےشہادت کاپروانہ۔ سپاہی طیب کی غیرت نےگوارانہ کیا کہ زندگی کی آخری سانسیں لیتے اپنےکمانڈرکوچھوڑکر واپسی کی راہ لے۔
وہ بھی سنگین تان چوکس بیٹھ گیا۔ اسی عالم میں اس نے میجر عبدالوہاب کو 29 جون کی فجر کی نماز اشاروں سے پڑھتے دیکھا۔ سورج نکلنے سے کچھ پہلے میجر صاحب شہید ہوگئے۔ سپاہی طیب نے بھاری دل کے ساتھ ان کے جسدِ خاکی کو اوورکوٹ سے ڈھانپا اور واپسی کے سفر پر ہولیا۔
یونٹ ہیڈکوارٹر پہنچنے میں طیب کو سات گھنٹے لگے، میجر صاحب اب دنیاوی فاصلوں اور وقت کی کمند سے آزاد ہوچکے تھے۔ حکومت پاکستان نے بہادری کے اعتراف میں انہیں ستارۂ جرات سے نوازا۔
واہ کینٹ سے جو مجاہد باجماعت شہادت کی دعاؤں کے سائبان میں چلا اور راستےکی ہر مسافت پر ایک نئی دعا اس کی شہادت کی ضامن ٹھہری، وہ اب کنٹرول لائن سے میلوں اندر ٹائیگر ہل کی کچھ مانوس اور کچھ اجنبی بلندیوں میں برف اوڑھے سورہا ہے۔
میجر صاحب کے خون میں شہادت کا جذبہ صادق تھا کہ ان کے بچے وہی وردی پہنے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں جسے پہن کر میجر عبدالوہاب ایک شان سے جیے اور وہی ان کا کفن ٹھہری۔
صاحبو عقیدت کے رنگ میں رنگی یہ تحریر کچھ مختلف پیرائے میں میجر عبدالوہاب شہید کو یاد کرتی ہے۔ جس طرز کا وہ مجاہد افسر تھا اور جس شدت سے اس نے شہادت کی تمنا کی تھی، اس کی عکاسی ہمارے لفظ کہاں کرپائیں گے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کیپٹن کرنل شیر اور حوالدار لالک جان کی طرح
میجر عبدالوہاب نے بھی دلیری کی ایک بے مثال داستاں رقم کی۔ یہ اور بات ہے کہ کرگل کی جنگ کے دو نشانِ حیدر مجاہدوں کی طرح میجر عبدالوہاب کا اتنا ذکر نہیں ہوتا مگر ہمیں یقین ہے کہ اپنے رب کے ہاں وہ مرتبے میں یقیناً برابری پر ہوں گے۔
اللہ ہمارے شہیدوں سے جنتوں میں راضی ہو۔ آمین