تمہیں کیا خبر، تمہارے جانے کے غم میں ابھی تک حلقہِ دل میں ماتم برپا ہے۔تمہیں کیا معلوم، تمہارے بعد خاک نشین قنوطیت کی چادر اوڑھے ہجرزدہ گھر میں کیسے جی رہے ہیں۔ بقول ندا فاضلی،
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا۔
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا۔
تم کو رخصت کی اتنی جلدی تھی کہ اک پل کو بھی نہیں سوچا کہ بے وقت تو پرندے بھی اپنے گھونسلے چھوڑ کر نہیں جاتے۔ بھلا شام کے وقت کون اس طرح دور دیس جاتا ہے۔ یا تو بچھڑتے وقت اُس شامِ پر ملال کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے جو بِن بلائی بلا کی طرح ابھی تک ہمارے گھر ٹھہری ہوئی ہے۔
تمہیں کیا خبر، جس شام تم نے رخت سفر باندھا تھا “کالے ہاڑ” کی وہ دلگیر شام اب ایک سیاہ رات کا روپ دھار چکی ہے۔ اور ہم مسلسل اس شب تاریک کی قید میں رہتے رہتے اپنی آنکھوں کی بینائی کھو بیٹھے ہیں۔ اب یہاں کوئی روشن صبح ظاہر ہو بھی جائے تو ہمارے کسی کام کی نہیں۔
جیسا کہ افتخار عارف نے کہا تھا۔
کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے۔
مسافر لوٹ کر اب اپنے گھر شاید نہ آئے۔
ہم نے مانا کہ تمہارے پاس زاد سفر بہت تھا لیکن یہاں ہمارے وہمے اور اندیشے بھی ہماری پریشانیوں کو کافی تھے۔ تمہیں رخصت کر کے دل پریشان کہاں بھلا سنبھلتا تھا۔ اپنوں کا چھوڑ جانا ہمیشہ ہی تکلیف دیتا ہے لیکن بے وقت جانا اور ہمیشہ کے لیے جانا تو اور بھی اذیت ناک ہوتا ہے۔
ہم جو روز ازل سے تمہارے نام کی تسبیح پڑھتے نہیں تھکتے، اداس بیٹھے سوچ رہے ہیں شاید تم نے بھی کسی لحظہ ہمیں سوچا ہوگا کہ تمارے بعد تمہارے غمگساروں پہ کیا گزری۔ کہنے کو ان کا حوصلہ نہیں ٹوٹا، ضبط کے بندھن ابھی سلامت ہیں۔ لیکن کسے معلوم یہ ہمت کب تک باقی ہیں۔ کون جانے یہ حوصلہ برگِ صحرا کی صورت کب ٹوٹ کر بکھر جائے۔
تمہیں کیا خبر، تمہارے عزادار جن کے لیے ہمیشہ تم ہی محورِ دعا اور مرکزِ نگاہ ہوا کرتے تھے تمہارے بعد حرف دعا بھول چکے ہیں۔
ہجر زدہ گھر میں قنوطیت کی چادر اوڑھے سوچ رہا ہوں جیسا کہ “ولیم بٹلر ییٹس” نے کہا تھا،
“چیزیں ساری بکھر چکی ہیں کیونکہ مرکز اپنا وجود کھو چکا ہے”۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...