ابو سعید سردار محمد اکرم بٹر ( لاہور)
چمنستانِ ہستی میں کیسے کیسے پھول کھلے
مشامِ زندگی کو تازہ کیا اور چل دئیے
تذکرہ ٔ اسلاف ، اکابر کی یادیں ، بزرگوں کی باتیں ، اپنوں کی سوغاتیں ، ماضی کے قصے اور پیاروں کی زندگی کے نشانات کو ہی دراصل قومی ورثہ اور نسلِ نو کے لیے نشانِ منزل قرار دیا جا سکتا ہے ۔
جو قومیں اپنے ماضی سے ناطہ توڑ لیتی ہیں وہ آگے بڑھنے کے بجائے ، گردشِ لیل و نہار کا شکار ہو کر رہ جاتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ماضی سے جڑی یادوں کو تازہ رکھنے کے لیے احباب علم و دانش ، صاحبانِ فہم و فراست اور دانشورانِ قوم نے اپنے اپنے انداز میں قلم و قرطاس سے رشتہ قائم رکھا ۔ آگاہی کا سفر جاری رہا ۔ آنے والی نسلوں کی رہنمائی کے لیے اسلاف کی یادوں کے چراغ جلائے جاتے رہے کیوں کہ انہی چراغوں کی روشنی میں تاریخ کے اوراق کا مطالعہ ممکن ہوسکتا ہے ۔ ماضی میں جھانکنے کیلئے علم و آگہی کے یہی آفتاب و ماہتاب نشانِ منزل کا پتا دیتے ہیں ۔ لفظوںسے کھیلنا ایک ہنر ہے مگر یہ ہنر اس وقت تک نصیب نہیں ہوتا جب تک الفاظ خونِ دل سے کشید نہ کیے گئے ہوں ۔ کاغذی پھول عارضی طور پر تو ناظر کی بصارت کو تروتازہ کر سکتے ہیں مگر یہ لمحاتی حسن تھوڑی دیر بعد ہی اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے جب کہ حقیقی پھولوں کی نظر نوازی ، فقط بصارت ہی نہیں بلکہ بصیرت کو بھی جمال آشنا کر دیتی ہے ۔
ماضی قریب کے قلمکاروں اور ادیبوں کی کہکشاں میں ایک چمکتا ہوا ماہتاب ، سیّد محمد فاروق القادریؒ کے نام سے جاناجا تاہے ۔ جو علم وا دب کی آبیاری کیلئے زمانے کی آسائشوں کو ترک کرکے گوشہ گمنامی میں رہ کر قلم و قرطاس کی دنیا کا معتبر حوالہ بنے ۔ دنیائے اسلام کے عظیم مبلغ ، صاحبِ طرز ادیب ، مورّخ و محقق بے نظیر ، پیکر ِ روحانیت ، شیخِ طریقت حضرت علامہ پیر سیّد محمد فاروق القادریؒ نے بیسوسیں صدی کے وسط میں گلشنِ سادات کے فرد فرید پیر سیّد سیف الدین مغفور القادریؒ کے آنگن میں آنکھ کھولی اور ساری زندگی دُور افتادہ گائوں گڑھی اختیار خان میں ہی گزاری ۔ آپ نے اپنے آبائی قصبے سے مڈل تک تعلیم حاصل کر نے کے بعد بڑے بڑے اساطین علم و ادب کے سامنے زانوئے تلمذ کرکے تفکر و آگاہی کی دنیا میں قدم رکھا ۔ آپ کے اساتذہ کی فہرست پر نظر ڈالی تو غزالی زماں ، رازی دوراں ، امام اہلسنت علامہ پیر سید احمد سعید کاظمی ، جامع المعقول و المنقول علامہ پیر محمد چشتی ، سراج الفقہا مولانا سراج احمد مکھن بیلوی ، استاذ العلما ء مفتی عبد الواحد ، حضرت مولانا فیض احمد اویسی ، جیسے آفتاب و ماہتاب چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں ۔ جب حضرت غزالی زماں علامہ سیّد احمد سعید کاظمی کی تقرری جامعہ اسلامیہ بہاول پور کے شیخ الحدیث کی حیثیت سے ہوئی تو آپ بھی ان کے ساتھ ہی جامعہ اسلامیہ چلے گئے ۔ جہاں آپ کوعربی اد ب کے مایہ ناز عالم اور قدیم شاعری ، انگریزی ، اُردو اور فارسی زبان پر دسترس رکھنے والی شخصیت ڈاکٹر پیر محمد حسن ، مولانا شمس الحق افغانی ، مولانا عبید اللہ اور علامہ عبد الرشید نعمانی جیسی علمی شخصیات کی علمی سر پرستی حاصل ہوئی ۔ اسی دوران آپ نے گورنمنٹ صادق ایجرٹن کالج بہاول پور سے جدید تعلیم میں ڈگری حاصل کی ۔ بعد ازاں 1966ء میں آپ مرکز علم و آگہی داتا کی نگر ی لاہور چلے گئے اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی ، ایم اے اسلامیات اور ایم اے اُردو کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے اور گولڈ میڈل بھی حاصل کیا ۔ قیامِ لاہور کے دوران آپ نے اس وقت کی عظیم علمی ، ادبی اور روحانی شخصیات سے روابط پیدا کئے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے ۔ 1970ء میں آپ کے والد گرامی قدر کا وصال ہوگیا اور آپ مستقلاً اپنے گائوں واپس آگئے ۔ دراصل تو آپ جیسے علمی ، فکری شخصیت کو لاہور جیسے بڑے شہر میں رہنا چاہیے تھا مگر آپ نے جاہ و زر اور شہرت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گوشہ گمنامی میں رہ کر تصنیف و تحقیق کی دنیا کو آباد کیا اور بحرِ علم و حکمت میں غوطہ زن ہو کر وہ گوہر ہائے تابدار تلاش کئے جن کی چمک دمک کبھی ماند نہیں پڑ سکتی ۔
راقم الحروف کا آپ کے ساتھ قلمی رابطہ اور غائبانہ تعارف تو طویل عرصے سے تھا لیکن بالمشافہ ملاقات صرف ایک ہی ہوسکی برادرم ملک محبوب الرسول قادری کے توسط سے لاہور میں ہونے والی ملاقات کے وقت صاحبزادہ صبغت اللہ سہروردی بھی آپ ؒ کے ہمراہ تھے ۔ آپ کی محبت ، شفقت اور خورد نوازی میرے لئے ایک بہترین سر مایہ ہے ۔ مختلف علمی و ادبی اور تحقیقی موضوعات پر آپ نے بھر پور رہنمائی فرمائی اور بندہ ناچیز کے غریب خانے پر تشریف لانے کا وعدہ بھی کیا مگر ایسے حالات و اسباب ہی نہ پیدا ہو سکے اور میں میزبانی کے شرف سے محروم رَہ گیا ۔ میں نے اپنی کتاب ’’ حُرمتِ قلم کے پاسبان‘‘ میں شامل کرنے کیلئے آپ کے حالات ِ زندگی بارے عرض کیا تو کمال شفقت فرماتے ہو ئے آپ نے ایک عدد محبت نامے کے ہمراہ اپنے صاحبزادے سیّد صبغت اللہ سہروردی کی دو تالیفات ’’ یادوں کے خواب ‘‘ اور ’’ بزمِ اہلِ دل ‘‘ سے نوازا ۔ بدقسمتی سے ناگزیر حالات و اسباب کے باعث میری کتاب آپ کی حیاتِ مستعار میں شائع نہ ہو سکی ۔ جس کا مجھے ہمیشہ قلق رہے گا ۔ آپ کا نوازش نامہ چونکہ تاریخی نوعیت کا ہے ۔ اس لیے شاملِ تحریر کر رہا ہوں ۔ محقق اہلسنت ، مورّخ بے نظیر ، حضرت مولانا سیّد محمد فاروق القادریؒ کی شخصیت ہماری تاریخ کا ایک انمول باب ہے ۔ ایک چمکتا ہوا آفتابِ علم و حکمت ہے ۔ آپ کا وجودِ مسعود عوام و خواص کیلئے یکساں منارہ نور ہے ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنجِ ہائے گراں مایہ کیا کیے
٭٭٭
*مضمون نگار چیف ایڈیٹر سہ ماہی مجلہ نوید ِ سحرلاہور ہیں ۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...