(Last Updated On: )
سیّد محمد فاروق القادریؒ
امام الائمہ، عظیم المرتبت تابعی ، بانی فقہ اسلامی حنفی
لہ ھمم لا منتھی لکبارھا و ھمتہ الصغری اجل من الدھر
اس شخص کی ہمتو ں کو سلام ان ہمتوں کی عظمت کی کوئی انتہا نہیں اور اس کی سب سے چھوٹی ہمت بھی زمانے ( بھر کی ہمتوں ) سے بہت بڑی ہے ۔ یوں تو اسلامی تاریخ مجاہدینِ حریت اور سرفروشانِ اسلام کے کارناموں سے بھری پڑی ہے لیکن چند نفوس قدسیہ ایسے ہو گزرے ہیں جنہوں نے عمر بھر ظالم اور جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اعلا ء اکلمہ الحق کا فریضہ اس طرح انجام دیا کہ اس راہ میں ہر قسم کے مصائب و آلام خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کئے اورجان کی بازی تک لگادی ۔ بلاشبہ انہیں لوگوں کا ذکر زیبِ داستان اور سرمایہ تاریخ حریت ہے ۔ سیّد نا امام ابو حنیفہ ؓ انہیں مبارک لوگوں میں سے ایک ہیں ۔ آپ کے عہدۂ قضاء سے انکار کا واقعہ کم و بیش تاریخ و سیرت کی تمام مستند کتابوں میں موجود ہے لیکن آپ کی المناک شہادت تک کے واقعات کی کڑیوں کو ملا کر منطقی طور پر نتیجہ کسی نے نہیں نکالا کہ امام اعظم ایسا جلیل القدر پیشوا جیل خانوں میںعمر عزیز کاایک حصہ گنواتا ہے ، کوڑے کھاتا ہے ، قسم قسم کی تکلیفیں برداشت کرتا ہے ، بالآخر جامِ شہادت پی کر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے لیکن حکومتِ وقت کا کل پرزہ بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ دوسری طرف مشہو دلہا بالخیر زمانہ ہے ، چپے چپے پر نامور علما اور محدثین موجودہیں ، پھر امام صاحب ہی کے لیے اس قدر اصرار کیوں ضرور سمجھا جاتا ہے ؟ گو معاصرین میں کوئی ابو حنیفہ نہ تھا تاہم منصب قضا کے لیے ہر طرح باصلاحیت لوگوں کی ایک پوری کھیپ موجود تھی ، پھر ہر چند خلافت راشدہ باقی نہیں رہی تھی ۔ تاہم حکومت کا سرکاری مذہب اسلام تھا ۔ عدالتوں میں کتاب و سنت کے مطابق فیصلے ہو رہے تھے ۔ قرب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے پرہیز گاری ، خشیتِ الہٰی اور اتباعِ شریعت بھی آج کی بہ نسبت کہیں زیادہ تھی اس کے باوجود امامِ عالی مقام کا عہدہ قضا یا کسی دوسرے منصب سے مسلسل انکار ، آخر کیا معنی رکھتا ہے ؟
خلاصہ کائنات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے عشق و محبت اور آپ کے صحابہ کرام اور اہلِ بیتِ اطہار ؓ سے محبت و عقیدت بطور عقیدت ابتدا ء ہی سے مسلمانوں کا طرۂ امتیاز رہی ہے ۔ خاندانِ نبویؐ کی نسبت تو ہر دور کے مشائخ اور عشق کے لیے کعبہ و قبلہ کی حامل رہی ہے ۔ سیّد نا امام ابو حنیفہ ؓ کی تربیت سید نا امام محمد باقر اور سیدنا امام جعفر صادق ؒ کی آغوش میں ہوئی ۔ بلکہ آپ کا یہ مقام و مرتبہ بجائے خود خاندان نبوت کا رہینِ منت ہے ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سیدنا امام ابو حنیفہ کے مبارک دور بلکہ بہت عرصہ تک خاندان نبوت میں سے جو مسندِ ارشاد و تبلیغ پر جلوہ افروز ہوتے رہے ۔ وہ علم و عمل ، زہد و ارتقاء اور گوناگوں دوسری خوبیوں کے اعتبار سے ہر طرح اپنے اپنے دور کے بہترین نفوسِ قدسیہ تھے ۔ چنانچہ اس دور کی ہر باکمال ہستی ان کی خوشہ چین اور فیض یافتہ نظر آتی ہے ۔
مروی ہے کہ ایک دفعہ سید نا امام ابو حنیفہ ؓ مسجدِ حرام میں درس دے رہے تھے کہ اتنے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تشریف لائے ۔ آپ اس قدر محو تھے کہ کچھ وقت دوسری طرف توجہ نہ ہوئی ۔ تھوڑی دیر بعد جب سیدنا امام جعفر صادق علیہ السلام پر نظر پڑی تو فوراً کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے۔ اے ابنِ رسول اگر آپ کی آمد کا مجھے بروقت پتہ چل جاتا تو ایسا کبھی نہ ہوتا کہ آپ کھڑے ہوں اور میں بیٹھا رہو ں ۔
( الجو ہر المضیہ )
یہی وہ نکتہ ہے جس پر حضرت امام کی پوری زندگی کا دارو مدار ہے ۔ حیثیت یہ ہے کہ ایک بلند پایہ عالمِ دین استاذ الائمہ اور شیخ الشیوخ کی حقیقت سے اما م صاحب نے نبی امیہ اور نبی عباس کی دونوں حکومتوں کی صحیح خلافت نہیں سمجھا ، ا س کے برعکس اہلِ بیت علیہم السلام کی تمام تحریکوں کو نہ صرف یہ کہ صحیح کہا بلکہ عملی طور پر ان کی مدد کی ، بلکہ ان حکومتوں کے خلاف آپ نے خروج کا فتویٰ دیا ۔ ( تاریخ الخلفاء )
اس جرم کی پاداش میں آپ عمر بھر زیرِ عتاب رہے ۔ آپ کو قضا کی پیشکش محض ایک بہانے اور فریب سے زیادہ وقت نہیں رکھتی تھی ۔ منصبِ قضا پیش کرنے والے بخوبی رکھتی تھی ۔ منصبِ قضا پیش کرنے والے بخوبی جانتے تھے کہ آپ کبھی ان کی حکومتوں کا کل پرزہ نہیں بنیں گے جسے وہ سر ے سے غلط سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ ابو جعفر منصور نے متعدد بار آپ کو جیل سے نکلوا کر لالچ اور تہدید کے ذریعے سمجھانا چاہا مگر ہر دفعہ ناکام ہو کر دوبارہ جیل بھیج دیا ۔ ( طبقات الکبریٰ ) کئی عرصہ کوڑوں سے پیٹا جاتا رہا اور بالآخر زہر کا پیالہ دے دیا گیا ۔ ( وفیات الاعیان ، تاریخ الخلفاء) ایک روایت ہے کہ جب آپ کو زہر کا پیالہ دیا گیا تو آپ نے فرمایا میں اپنے قتل میں کیسے مدد کر سکتا ہوں ؟ چنانچہ آپ کو لٹا کر زبردستی منہ میں زہر انڈیل دیا گیا ۔
(مقدمہ ہدایہ ، مولانا عبد الحئی لکھنوی )
جس وقت زہر جسم میں سرایت کر گیا تو آپ سجدے میں چلے گئے اور اسی حالت میں انتقال فرمایا ۔ سوچنے کی بات ہے ‘ کیا منصبِ قضاء سے انکار ایسا جرم تھا جس کی سزا قتل ہوتی ؟ اور قتل بھی ایسے دردناک طریقے پر ؟ یہ تو سلطنت کے باغیوں کی سزا ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہلِ بیت نبوت ؑ سے تعلق خاطر اور وہ بھی محض رسمی نہیں بلکہ ان کے علم و فضل ، دیانت و امانت کی بناء پر انہیں مستحق خلافت سمجھنا ہی وہ واحد ناقابلِ معافی جرم تھا جس کی سزا کے لیے حکومت کو یہ سارے بہانے اور حیلے تراشنے پڑے ۔ اس مقام پر امام صاحب ایسے عظیم مذہبی پیشوا کے قدموں میں آکر معمولی سی لغزش پیدا ہوتی تو آج ہم بھی حق و صداقت کا منہ چڑانے والے بعض نام نہاد محققین کی طرح آئمہ اہلِ بیت ؑ کی تحریکوں کو بغاوت سمجھ بیٹھتے ، مگر امامِ عالی مقام ؑ کا کردار و عمل رہتی دنیا تک حق و صداقت کی مثال بنا رہے گا ۔سب سے پہلے یزید بن ہیرو نے جو نبی امیہ کی طرف سے عراق کا گورنر تھا ، آپ کو اس وقت اپنے دام تزویر میں پھنسانا چاہا جس وقت خراسان کے علاقے میں بغاوتیں اور شورشیں شروع ہوگئیں ۔ بنو امیہ کی حکومت جس کی بنیاد ہلِ بیت نبوت ؑ پر سب و شتم اور ظلم و جور پر قائم ہوئی تھی ، ریت کے محل کی طرح گر رہی تھی ۔ حکومت نے وابستگان اہلِ بیت ؓ کا سہارا لینا چاہا جو مرجع انام تھے ، چنانچہ ابنِ ابی لیلیٰ ، ابن شبرمہ اور امام اعظم کو بلایا گیا ، آپ سے گورنر نے کہا کہ حکومت کی یہ مہر آپ کے ہاتھ میں رہے گی ، آپ کی اجازت اور مشورے کے بغیر عراق میں کوئی کام نہ ہوسکے گا ، آپ یہ منصب قبول کر لیں ۔ آپ نے فرمایا :یہ تو بڑی بات ہے ، اگر مجھے یہ کہا جائے کہ میں اس حکومت کے لیے مسجد کے دروازے گن دوں تو میں اس کے لئے بھی تیار نہیں ۔
( ذیل الجواہر المضیہ )
ابنِ ہبیرہ نے آپ کو قید خانے میں ڈال دیا اور مسلسل کئی روز تک آپ کو کوڑے لگواتا رہا ۔ اس دوران ہر چند آپ کو سمجھانے بجھانے والا بھی نہیں کہ مجھ سے مہلت مانگ لیں ، اس پر آپ نے مہلت مانگی کہ میں اپنے دوستوں سے مشور ہ کر لوں ۔ قید سے چھوٹتے ہی دار الامن مکہ مکرمہ چلے گئے اور بنی امیہ کی حکومت ختم ہونے تک وہاں سے واپس نہ آئے ۔ ( وفیات الا عیان)
اس کے بعد دوسرے عباسی خلیفہ المنصور نے منصبِ قضاء قبول کرنے کے لیے آپ سے اصرار شروع کیا ، جس طرح نبی امیہ نے عیاری سے حکومت پر قبضہ کیا تھا اسی طرح نبی عباس نے بھی ابتداء میں اہلِ بیت اطہار ؑ کی مظلومیت اور حقوق سے ان کی محرومی کے افسانے سنا سنا کر نبی امیہ کے خلاف راہ ہموار کی ۔
ان واقعات کی روشنی میں آپ منصبِ قضاء کے فریب سے پوری طرح باخبر تھے ۔ ادھر منصور بھی آپ کے قتل پر تلا بیٹھا تھا لیکن اصل قصہ یہ تھا کہ ایک ایسا ذی وجاہت شیخ جس کی عقیدت و محبت کی حدیں منصور کی حکومت سے بھی بڑھی ہوئی تھیں ، ایسا معمولی آدمی نہ تھا جس پر حکومت آسانی کے ساتھ یونہی ہاتھ ڈال دیتی ۔ منصور نے آپ کو اپنے اقتدار کے لیے قضاء قبول کرنے کی درخواست کی ۔ آپ نے فرمایا کہ میں اس کی صلاحیت نہیں رکھتا ، اسے کسی اہلِ آدمی کے سپرد کرو ۔ اس نے کہا کہ آپ غلط بیانی کر رہے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ جھوٹا آدمی تو بطریقِ اولیٰ قاضی بننے کا اہل نہیں ۔ تیز کلامی ہوئی تو آپ کو جیل خانے بھجوا دیا گیا ۔ جیل خانے میں کئی روز تک اپنے طور پر آپ کو سمجھایا جاتا رہا کہ آپ عہدہ ٔ قضا قبول کر لیں مگر آپ نہ مانے ۔ اس پر منصور تشدد پر اتر آیا اور گیارہ روز تک متواتر اس شخصیت پر کوڑے برسائے جاتے رہے جو کتاب وسنت کے بل بوتے پر لوگوں کے سروں کو جھکانے والی تھی ۔ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرنے والے خاندان ِنبوی ؑ کے نقیب سیدنا امام اعظم ؓ کی سطوت و ہیبت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جس وقت منصور کے حکم سے سیدنا امام اعظم کو تیس کوڑے لگائے گئے اورآپ کا مبارک بدن لہولہان ہوگیا تو خلیفہ کے چچا نے اس سے کہا کہ یہ تم نے کیا کیا؟ تم نے اپنے اوپر ایک لاکھ تلواریں کھنچوا لیں ‘ یہ تو فقیہہ مشرق ہے ۔
( ذیل الجواہر المضیہ )
جنازہ میں پچاس ہزار آدمیوں نے شرکت کی اور دفن کے بعد بیس روز تک لوگ قبرمبارک پر نمازِ جنازہ پڑھتے رہے ، حسب و صیت مقبرۂ خیزران میں دفن ہوئے ۔ آپ کے نزدیک یہ زمین کسی کی غضب شدہ نہ تھی ، آپ کے بعد منصور اکثر کہا کر تا تھا کہ ابو حنیفہ کی پکڑ سے زندگی اور موت میں مجھے کون بچائے گا ؟ (ذیل الجواہر المضیہ)
یہ سارے واقعات سیدنا امام اعظم ؓ کی زندگی اور ان کے طرزِ عمل کی کھلی ہوئی تصویر ہیں ۔ ہمارے نزدیک امام صاحب کو اس امر کا بخوبی احسا س تھا کہ ان کا ہر عمل اور فعل ایک دینی پیشوا ہونے کی حیثیت سے سند سمجھا جائے گا ، اس لئے آپ نے عملاً اپنے اس مقام کی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اچھی طرح غور و فکر کرکے یہ راستہ اختیار کیا ۔ نبی امیہ اور نبی عباس کی حکومتوں میں چند ایک متشرع بادشاہوں کے سوا ہر دور میں اہلِ بیت نبویؑ کی حمایت و نصرت تو اپنی جگہ رہی ، ان سے عقیدت و محبت بھی فوجدار ی جرم رہا اور تاریخ سینکڑوں ایسے لوگو ں کی فہرست پیش کرتی ہے جو صرف اسی جرم کی بناء پر عمر بھر ماخوذ عتاب رہے یا قتل ہوئے ۔ بعض لوگ بڑے بھونڈے انداز میں اہلِ بیت ِ اطہار ؑ کے ادعائے خلافت پر نکتہ چینی کرنے لگ جاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام نے جس ناانصافی ، ظلم اور بر بریت کے خلاف انتہائی بے سر و سامانی کے باوجود تلوار اُٹھا کر اس قدر عظیم قربانی دی ، آ پ کے اسلاف بھی نسبی ہوں یا معنوی، ہر دور میں اپنے اس مقتدا ء اور مورث کی سنت کے امین رہے ہیں اور انہوں نے ہر قسم کے مصائب وآلام کا مردانہ وار مقابلہ کرکے حق و صداقت کا علم بلند کئے رکھا اور انہی مردانِ احرار کے ایک سرخیل سیدنا اما م ابو حنیفہ ؓ کی ذاتِ گرامی ہے ۔ بادی النظرمیں آپ کے منصب قضاء سے انکار کا واقعہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو ، لیکن آپ کی پوری زندگی پر اگر غور کیا جائے تو وقت کی دو عظیم حکومتوں سے ٹکر ، قید و بند کی صعوبتیں ، جسمانی ایذائیں اور شہادت تک کے واقعات کوئی اتفاقی معمولی باتیں نہیں بلکہ یہ آپ کی پاکیزہ زندگی کے مشن اور سوچے سمجھے راستے کا حصہ ہیں ۔ اے کاش اگر اہلِ بیت کی حمایت و نصرت اور ان کے جان نثاروں کی تاریخ نویسی پر کو فیو نہ ہوتا تو آج تاریخ کا یہ حصہ یقینا اب سے مختلف ہوتا چونکہ خیر القرون کی تاریخ کا تعلق ہمارے عقائد سے بھی ایک طرح کا ہوتا ہے ۔ لہٰذا ضرورت ہے کہ ہمارے محققین نت نئے فرقوں کا بالخصوص خارجیت جو ایک نئے اندازے سے سر اُٹھا رہی ہے ، کے اہلِ بیت و صحابہ کرام ؓ کے ساتھ عقیدت و محبت کے تناظر میں دیکھیں اور واقعات و حالات پر خارجی اثرات کے عوامل کو ملحوظِ خاطر رکھ کر تبصرہ کریں ۔ آخر میں سیدنا امام اعظم ؓ کی کوہِ گراں شخصیت اور دامانِ نبوت سے ان کے اس قدر تعلق خاطر کو سلام کرتا ہوں ، بلاشبہ یہی وہ فضیلت ہے ہے جس کی بناء پر حضرت امام کی محبت و عقیدت مسلمانانِ عالم کی دلوں کی دھڑکنوں کے ساتھ وابستہ و پیوستہ ہے۔
ہرگز نمیرو آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما
٭٭٭