علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
تعلیم ۔۔ ضرورت اور نوعیت
علم بڑی دولت ہے۔۔ علم حاصل کرنے کیلؑے چین بھی جاو۔۔ تعلیم عورت کا زیور ہے۔۔ جب سے ہوش سنبھالا یہ سنتے پڑھتے رہے ہ لیکن ایک سوال ہمیشہ جواب طلب تھا اور آج بھی ہے۔۔ جو میں نے پڑھا اور پھر پڑھایا۔۔کیا وہی تعلیم ہے ؟ وہ تو نصاب تھا۔۔والدین نے مجھے ڈاکٹر بنانا چاہا تھا تو یہی ان کا مقصد تھا۔۔وہ مقصد حاصل نہ کر سکا تو میں نے معاشیات کا نصاب پڑھ لیا اور”ماسٹر آف آرٹس” کی سند کے ساتھ ماسٹر ہی بنا۔۔یہ نہ کرتا توکیا کرتا ؟۔۔ ۔۔نہ میں ماہر معاشیات ہوا۔۔نہ معاشی حالات کو سمجھنے کے قابل ہوا۔۔۔
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمال نے نوازی۔۔۔ تو ان کا کیا بھلا ہوگا جو مجھ سے پڑھا ہواسبق پڑھنے کے سوا کچھ نہیں کر رہے ہیں۔۔ایک مشترکہ مقصد کے حصول کی خاطر۔۔۔ کہ بس ایک سند مل جاۓ جو فکر معاش سے ازاد کردے۔۔ ایک نوکری مل جاے جس سے روزی روٹی چلے ۔تنخواہ ملتی رہے۔اس کے بعد علم کی ضرورت خلاص ۔ ۔ڈگری صندوق میں۔ فرصت میں بیوی۔۔ٹی وی۔انٹرنیٹ
اپنے مشاہدے کی حد تک میں نے سواے ایک دو گھرون کے سینکڑوں گھروں میں ٹیکسٹ بک کے سوا کتاب نہیں دیکھی۔۔ میں ادب اور شاعری کی بات نہیں کرتا۔۔ کسی بھی موضوع پر نہیں۔۔چند تعلیم یافتہ کہلانے والے گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں اخبار آتا ہے لیکن پڑھا نہیں جاتا۔۔میں نے پرانے اخبار پڑے دیکھے ہیں جن پرسے ربر بینڈ تک نہیں اتارا گیا حالانکہ گھر میں سب ایم اے۔۔ایم ایس سی اور ایم بی اے وغیرہ کہلاتے ہیں ۔۔ٓ پچاس سال میں درجنوں میڈیکل کالج اور یونیورسٹیاں وجود میں اےؑ۔ کہنے کو ملک میں ڈاکٹرز بہت کم ہیں لیکن ڈاکٹر بنانے کی فیکٹریاں تو دن رات چل رہی ہیں۔۔ ہر سال ہزاروں نہیں تو سینکڑوں ڈاکٹر مارکیٹ میں ارھے ہیں۔۔وہ کہاں ہیں؟ لڑکے تو جیسے تیسے قلیل ٓامدنی میں بیگار کر رہے ہیں کیونکہ ان کو گھر چلانا ہے۔۔تعلیم میں صرف ہونے والی رقم اور پیسے سے وابستہ توقعات کو پورا کرنا ہے لیکن گزشتہ دس سالوں میں مانگ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکوں نے اپنا رخ بدل لیا ہے اور کم ہوتے ہوتے ان کی شرح بیس فیصد پر ٓاگیؑ ہے۔جو اسی فیصد لڑکیان ڈاکٹر بن رہی ہیں وہ کہاں ہیں؟ سرکاری یا پراییؑویٹ ہسپتالوں کے باہر کتنی اپنا کلینک چلاتی نظر ٓاتی ہیں ؟
ایک مشہور شادی دفتر چلانے والی خاتوں نے کہاــّ ّلڑکیاں ڈاکٹر بن رہی ہیں کہ اچھا رشتہ مل جاےؑ گا۔۔دوسری طرف بر سر روزگار سپوت اور ان کی ماں صرف ّ ڈاکٹر ّ مانگتے ہیں شان بگھارنے کیلے۔۔ چنانچہ میں اپنے حلقہؑ شناسایؑ میں ایک درجن ڈاکٹروں کو وہی کرتے دیکھ رہا ہون جو ایک میٹرک انٹر پاس لڑکی شاید بہتر طور پر کرتی کیونکہ اسے گھر میں اس کی تربیت دی جاتی ہے جب کہ ڈاکٹری کی توپ چلانے والیوں کو رعایت ملتی ہے کہ اتنی سخت تعلیم ہے تو ہانڈی چولھا کیسے کرے۔۔فیشن میں البتہ وہ ان سے چار ہاتھ ٓاگے نظر اییں گی کہ یہ تو ضرورت ہے بچی کی
لیکن مجرم صرف ڈاکٹر نہیں جو اپنی تعلیم کو بھاڑ میں جھونکنے پر مجبور ہیں۔۔دیگر خالص پروفیشنل تعلیم مثلا ایم ایس سی۔۔ایم بی اے کرنے والیوں کا حال مختلف نہیں۔۔ دوچار سال میں ان کا پڑھا لکھا آوٹ اف ڈیٹ اور فراموش ہو جاتا ہے ۔ شوہر۔بچے۔۔سسرال میں سب گم۔۔ لڑکیوں کی تعلیم کے ضیاع کی ایک اہم وجہ ّعورت کی کمایّؑ کو باعث شرم جاننے والے شوہر بھی ہینں۔میرے علم میں ایسے تنگ دستی کا شکار خاندان ہیں جہاں شریک حیات ٓامدنی میں برابر کا حصہ ڈال سکتی ہے یا زیادہ مگرمسؑلہ تو ناک کا ہے۔۔ایسا ہی رویہ ّ ۔۔۔کیا ضرورت ہے؟ّ ۔۔کا ہے ۔۔کھاو پیو موج کرو۔۔بھول جاو تعلیم کو۔۔
اب یہ بے مقصد ضایع جانے والی تعلیم لڑکیوں تک محدود نہیں۔۔پاکستان میں کتنی زرعی کالج یونیورسٹیاں ہیں؟ وہاں سے ایم ایس سی۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سند حاصل والوں کا شہر میں کیا کام؟ ہم ایک زرعی معیشت والے ملک ہیں لیکن کیا کسی نے ان سند یافتگان کو گاوں میں دیکھا؟ جہان ستر فی صد ابادی زراعت پیشہ ہے اور ان کو زراعت کے جدید سایسی طریقے بتانا ضروری ہے
میرا خیال ہے کہ ان ساینس اور ڈاکٹری پڑھنے والیوں کیلے وہ علوم کم نہ تھے جو گھر کے اندر بھی بہتری لاتے مثلا نرسنگ۔۔ انٹیریر ڈیکوریشن۔۔فیشن ڈیزایننگ۔۔بیوٹیشن۔۔ ڈایؑ ٹیشن۔۔ اپلاییؑڈ سایکولوجی۔۔ کوکنگ۔۔ ایونٹ مینیج منٹ۔۔جرنلزم۔۔۔۔۔ اور گھر میں رہ کرٓا امدنی کی سبیل بھی بناے جا سکتے تھے۔ایک پروفیشن کے طور پر اختیار بھی کیے جاسکتے تھے کیونکہ ان میں اپ ڈیٹ رہنا بھی نیٹ کے ذریعے ممکن ہے۔۔لیکن جو ہورہا ہے وہ نمبروں کا مقابلہ،،اے گریڈ کی تعداد کا مقابلہ۔۔اسکول کے نام کا مقابلہ۔۔ جس میں والدین کا سر فخر سے بلند رہے۔۔ فیصلہ تو وہی کریں گے نا کہ بچہ کیا پڑھے گا اور کیا بنے گا
ایک سوال ایا کہ ٓاخر اسراییل نے دو سو نوبل انعام کیسے لےؑ جب کہ ستاون اسلامی ممالک کو اس کے دس فیصد بھی نہ ملے؟ اب یہ مذہب کا مقابلہ نہیں۔۔ یہودیوں کا موقف ہے کہ ہم تو دنیا میں صرف دو کروڑ ہیں۔۔اپنی افرادی قوت کو ضایع نہیں کر سکتے،،وہ تین سال کے بچے کا ذہنی رجحان دیکھتے ہیں اور اس کے مطابق تعلیم دیتے ہیں کہ یہ کیا بن سکتا ہے اور اس کی خداداد صلحیت ضایع نہیں جاتی خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...