مغرب کے اثر سے اردو میں کئی خوشگوار اضافے ہوئے، ان میں سب سے اہم فن تنقید ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ مغرب کے اثر سے پہلے اردو ادب میں کوئی تنقیدی شعور نہیں رکھتا تھا، یا شعروادب کے متعلق گفتگو، شاعروں پر تبصرہ اور زبان و بیان کے محاسن پر بحث نہیں ہوتی تھی۔ بڑے تخلیقی کارنامے بغیر ایک اچھے تنقیدی شعور کے وجود میں نہیں آ سکتے۔ تخلیقی جوہر بغیر تنقیدی شعور کے گمراہ ہو جاتا ہے اور تنقیدی شعور بغیر تخلیقی استعداد کے بے جان رہتا ہے۔
اردو میں وجہی سے لے کر حسرت موہانیؔ تک ہر اچھے شاعر کا ایک واضح اور کارآزمودہ تنقیدی شعور بھی ہے، پھر بیاضوں، تذکروں، تقریظوں، دیباچوں اور مکاتیب کا سرمایہ شروع سے موجود ہے۔ مشاعروں اور ادبی صحبتوں میں شاعروں اور شعروادب پر تبصرے برابر ہوتے رہتے تھے۔ میرؔ، جرأتؔ کی چوما چاٹی سے بیزار تھے۔ خان آرزوؔ، سوداؔ کے شعر کو ’’حدیث قدسی‘‘ کہتے تھے۔ آتشؔ، دبیر کے مرثیوں کو لندھور بن سعد ان کی داستان بتاتے تھے، شیفتہؔ، نظیرؔ کے کلام کو سوقیانہ بتاتے تھے اور اسلوب میں متانت کے اس قدر قائل تھے کہ کیسے ہی معنی ہوں، متانت کے بغیر نامعقول سمجھتے تھے، غالب کے نزدیک شاعری معنی آفرینی تھی، قافیہ پیمائی نہیں۔ وہ شعر میں ’’چیزے دگر‘‘ کے بھی قائل تھے اور آتشؔ کے یہاں ناسخ سے تیزتر نشتر پاتے تھے۔
یہ تنقیدی شعور بھی اچھی روایات کا حامل تھا، اس میں فن کی نزاکتوں کا احساس تھا اور اس کی خاطر ریاض کرنے کا احترام، یہ قدرے محدود اور روایتی تھا اور ضبط و نظم کا ضرورت سے زیادہ قائل، یہ ہر نشیب و فراز کو ہموار کرنا چاہتا تھا اور ہر ذہن کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنا چاہتا تھا، یہ بات اشاروں میں کرتا تھا، وضاحت صراحت، تفصیل کا قائل نہ تھا، اس میں مدح ہوتی تھی یا قدح، اس کا معیار ادبی کم تھا فنی زیادہ۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ تنقید صحیح معنی میں حالیؔ سے شروع ہوئی۔ حالیؔ سے پہلے شاعر استادوں کو مانتے تھے نقادوں کو نہیں، ان سے پہلے کسی میں اعلیٰ درجے کی تنقیدی صلاحیت اگر ملتی ہے تو وہ شیفتہؔ ہیں جن کی پسند کے بغیر غالبؔ بھی غزل کو غزل نہیں سمجھتے تھے مگر وہ بھی مانوس اور مہرشدہ حسن کے قائل ہیں، حسن کی دریافت نہیں کر سکتے۔
حالیؔ نے شاعری، ادب، زندگی، اخلاق، سماج غزل اور نظم کے متعلق اصولی سوال کئے۔ انہوں نے شاعری کا ایک معیار متعین کرنا چاہا اور اس معیار سے ہمارے ادبی سرمائے کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔ اس معیار میں وہ مغرب سے بھی متاثر ہوئے۔ اگرچہ ان کا معیار خالص مغربی نہ تھا۔ اس میں انہوں نے فن کا بھی لحاظ رکھا مگر فطرت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ انہوں نے بعض روایات کی نکتہ چینی کی مگر ادب کی روایات کو نظرانداز نہیں کیا۔ حالیؔ کا یہ طریقہ مفید ثابت ہوا اور تنقید اور اس کے اصول پر گفتگو شروع ہو گئی۔ چنانچہ اردو میں اس قسم کے مضامین، رسالے اور کتابیں بکثرت ہیں جن میں تنقید کے اصولوں سے بحث کی گئی ہے۔ یا بعض ادیبوں یا ادبی تحریکوں پر تنقید ہے یا کسی ادبی اصول کی تشریح و تفسیر ہے۔
اُردو افسانہ سپیڈ بریکر
ڈی کے ناز کو ترقی کرنے کا جنون تھا۔والدین نے نام تو دُرا خاں رکھا تھا۔ بچپن میں سبھی دُورو...