پہلی سہہ کر تکلیف بڑی اُسے جنم دیتی ہے
خوشیاں دیتی ہے اسے، غم اپنے حصّے لیتی ہے
دوسری اسے زندگی کے کسی موڑ پر مِلتی ہے
ساتھ سے اس کے،خوشی کی ہر کلی کِھلتی ہے
تیسری رب کی مہر سے گھر اسکے ہوتی ہے پیدا
ہزار جان سے جس پر پھر یہ ہوتا ہے شیدا
پہلی اس کیلےء کچھ بھی کر گذرنے کو تیار
اُسکی خوشی کے خاطر خود کو کردے نثار
دوسری اس کو ہر گھڑی بہت لگاتی ہے جان
دلجوئی میں اسکی تیار رہتی ہے ہر پل ہر آن
تیسری اسے سکھاتی ہے کس طرح جی لگانا
کیسےخوب پیار کرنا اور پیار سے پیش آنا
پہلی کی تو وہ جیسے جا ن ہے زندگانی ہے
بنا اس کے ادھوری پہلی کی ہر کہانی ہے
دوسری کیلئے وہ جہاں میں سب سے پیارا ہے
اسی کیلئے تو رب نے جیسے اسے اُتارا ہے
تیسری اسے خود کی جان سے زیادہ پیاری ہے
وہ اُسکی پری، اُسکی شہزادی، اُسکی دُلاری ہے
پہلی اسے اچھّی باتیں،اچھّے اخلاق سکھاتی ہے
زندگی کے ہر قدم پر اُسی کی دعا کام آتی ہے
دوسری دیتی ہے اسے بے پناہ محبت و پیار
مرتے دم تک بھی نہ اُترے جس کا نشہ و خُمار
تیسری نے اسکے بےقرار من کو دے دیا قرار
جس کے آنے سے اُس کی زندگی میں آگئی بہار
چوٹ لگنے پر اُس کی زباں پہ پہلی کا نام آئے
نام لینے پر جیسے درد میں بھی راحت مل جائے
اسی چوٹ پر دوسری کی بھی آنکھیں بھر آئے
چوٹ لگے اس کو درد دوسری کو ہو جائے
تیسری جب دیکھے چوٹ لگی ہے تو تڑپ جائے
پاس اس کے آکر چوٹ پر اس کی پُھنکار لگائے
پہلی کا وہ بیٹا ہے،جگر کا ٹکڑا ہے،لعل ہے
بنا اس کے جینا ایک ماں کیلئے تو محال ہے
دوسری کا وہ مجازی خدا،سرتاج ہے شوہر ہے
شوہر کی اطاعت، فرمانبرداری بیوی کا گوہر ہے
تیسری کا ہے وہ باپ،اس کا سائبان ہے
بیٹی کے لئے باپ کی ہر خوشی قربان ہے
شیخ صابرالدین نورالدین