ٹرین پر باجے اور بائیولوجی کا نامعلوم ۔ جین (۱)
کرسچن ڈوپلر آسٹرین سائنسدان تھے۔ 1842 میں انتالیس سالہ ڈوپلر نے ریاضیاتی منطق کو استعمال کرتے ہوئے استدلال کیا کہ آواز کی پِچ یا روشنی کے رنگ کا انحصار مشاہدہ کرنے والے کی جگہ اور رفتار پر ہے۔ اگر آواز کا سورس سننے والے کی طرف آ رہا ہے تو کمپریس ہونے کی وجہ سے آواز کی پچ زیادہ جبکہ دور جانے کی صورت میں کم ہو گی۔ نقادوں نے مذاق اڑایا۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی لیمپ سے نکلنے والی روشنی کے رنگ مختلف نظر آئیں؟
ڈوپلر نے 1845 میں باجا بجانے والوں کے ایک بینڈ کو ٹرین پر سوار کیا اور انہیں کہا کہ جب ٹرین چلے تو ایک ہی نوٹ بجاتے رہیں۔ پلیٹ فارم پر کھڑے سامعین حیرت میں سنتے رہے کہ جب ٹرین ان کی طرف آ رہی تھی تو یہ نوٹ زیادہ جبکہ جب دور جا رہی تھی تو کم پِچ کے ساتھ تھا۔
ڈوپلر کا کہنا تھا کہ آواز اور روشنی یونیورسل اور قدرتی اصولوں کے تحت کام کرتے ہیں، خواہ وہ سننے اور دیکھنے والوں کو کتنا ہی خلافِ عقل کیوں نہ لگے۔ اگر آپ احتیاط سے دیکھیں تو دنیا کے بے ہنگم اور پیچیدہ لگنے والے فنامینا بہت ہی نظم والے فطری قوانین کا نتیجہ ہیں۔ کئی بار ہم اپنے ادراک اور وجدان سے ان کو سمجھ لیتے ہیں لیکن زیادہ تر ہمیں ذہانت سے مرتب کردہ تجربات اور حالات کی ضرورت پڑتی ہے ۔۔۔ جیسا کہ باجا بجانے والے بینڈ کو ٹرین پر سوار کرنا ۔۔۔ کہ ہم ان کو سمجھ سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویانا میں سائنس پھل پھول رہی تھی۔ ڈوپلر فزکس کے استاد تھے اور ان کے ایک شاگرد ڈوپلر کے طریقوں سے بہت متاثر بھی ہوئے تھے اور پریشان بھی۔ یہ شاگرد مینڈیل تھے۔ ان کو دلچسپی بائیولوجی سے تھی لیکن بائیولوجی کی سائنس بے ہنگم ڈسپلن لگ رہی تھی۔ بائیولوجی میں ٹیکسانومی پڑھی جاتی تھی۔ زندہ اشیاء کو کنگڈم، فائلم، کلاس، آرڈر، فیملی، جینرا اور نوع میں تقسیم کرنے کا کام ہوتا تھا۔ لیکن یہ سب بس کیٹگری بنانے والا کام تھا۔ اس کے پیچھے منطق کیا تھی؟ ایسا کیوں تھا؟ کینگرو کا بچہ کینگرو ہی کیوں ہوتا ہے، چمگاڈر کا چمگادڑ؟ سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے سنہرے بال اور نیلی آنکھ والی اولاد کو اور سیاہ فام گھنگھریالے بالوں کے گھر سیاہ فام اور گھنگریالے بال والے بچے ہی کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ یہ سب کچھ نامعلوم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوال صدیوں پرانے تھے۔ فیثاغورث نے اس پر اپنی تھیوری چھٹی صدی قبلِ مسیح میں پیش کی تھی۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ وراثت باپ سے آتی ہے۔ نر کا سیمن پورے جسم میں سے ہدایتیں اکٹھی کرتا ہے۔ ہر عضو سے پرسرار بخارات جمع کرتا ہے اور ایک شخص کی لائیبریری بن جاتا ہے اور ایک شخص کا نچوڑ ہوتا ہے۔ آنکھ کا رنگ، بالوں کی ساخت جیسی ہدایات اس میں ہوتی ہیں۔
یہ ماں کے جسم میں جا کر جب ٹھہر جائے تو وہاں سے غذا حاصل کرتا ہے اور یوں بچہ وجود میں آتا ہے۔ اس تھیوری کو بعد میں سپرم ازم کا نام دیا گیا۔ اس میں مرکزی کردار سپرم کا تھا۔ باپ بچے کو “نیچر” دیتا ہے۔ ماں اس کی پرورش کرتی ہے۔ اس خیال کے پیچھے فیثاغورث کا مثلث کے ساتھ جنون تھا۔ اپنی مثلث کی ریاضی کی طرح ان کا فارمولا یہ تھا کہ اس کی ایک سائیڈ باپ کی نیچر ہے، دوسرا ماں کی نرچر اور ان کی مدد سے تیسری سائیڈ معلوم کی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارسطو کے تیز اور تجزیاتی دماغ نے فیثاغورث کی وراثت کی تھیوری کو بائیولوجیکل دنیا سے تجرباتی ڈیٹا کے ذریعے غلط قرار دیا تھا۔ وراثتی فیچر ایک یا کئی بار دو نسلیں چھوڑ کر بھی آ سکتے ہیں۔ کئی عادات جیسا کہ چال ڈھال، خلا میں گھورنا یا ذہنی حالت ایسے فیچر نہیں جو سپرم میں جا سکیں۔ اور اگر لڑکی پیدا ہوئی ہے تو پھر وہ بھلا اپنے تمام فیچر والد سے کیسے لے سکتی ہے؟
ارسطو نے متبادل خیال پیش کیا جو اپنے وقت سے بہت آگے کا تھا۔ جس طرح والد کی طرف سے فیچر وراثت میں آتے ہیں، ویسے ہی والدہ کی طرف سے بھی اور نیا وجود ان کے ملاپ سے ہے۔ والد سے جو چیز والدہ میں منتقل ہوتی ہے، وہ پیغام ہے۔ جیسا کہ عمارت کا نقشہ۔ اسی طرح کچھ ہدایات ہیں جو منتقل ہوتی ہیں، جبکہ کچھ ہدایات والدہ کی طرف سے۔ جبکہ والدہ کی طرف سے بچے کے بننے کا میٹیریل آتا ہے۔ وراثت دراصل پیغام کی منتقلی ہے۔ یہ مثلث نہیں، ایک دائرہ ہے۔ فارم سے انفارمیشن اور انفارمیشن سے فارم۔
ارسطو نے اس کو کوڈ کہا تھا اور اگرچہ ارسطو کا کوڈ کا بنیادی خیال درست تھا لیکن اگر وراثت انفارمیشن کی منتقلی ہے تو یہ انفارمیشن کیا ہے؟ کہاں پر ہے؟
ہزاروں سال تک اس سوال پر ارسطو اور فیثاغورث سے آگے نہیں بڑھا جا سکا۔
بائیولوجی ۔ بنیادی سوالات ۔ جین (۲)
کوئی بھی خاصیت کیسے والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے؟ آخر والدین اور بچے ایک جیسے ہی کیوں ہوتے ہیں؟ اس پر جو خیال بڑا عرصہ مقبول رہا، وہ یہ کہ سپرم کے اندر ہی ننھا منا سا انسان ہوتا ہے۔ مکمل طور پر بنا ہوا جو ایک چھوٹے سے پیکج میں ہوتا ہے اور یہ انسان بنتا ہے۔ یہ چھوٹا انسان ہومنکلس ہے۔ اور اسی چھوٹے انسان کے اپنے اندر اس سے اگلی نسل کے انسان ہیں اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ پہلے انسان کے ساتھ ہی رکھ دیا گیا تھا۔ نسلِ انسانی کے آغاز پر تمام انسان اسی طریقے سے زمین پر آ گئے تھے۔ ایک کے اندر بند اگلا ہومنکولس۔ یہ تھیوری اس قدر مقبول رہی کہ مائیکروسکوپ کی ایجاد ہو جانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی۔ 1699 میں ڈچ مائیکروسکوپسٹ نے دعوی کیا کہ انہیں انسانی سپرم میں بہت سے چھوٹے انسان نظر آ گئے ہیں۔ (یہ ویسا ہی تخیل تھا جو بادلوں پر چہرے دکھا دیتا ہیں)۔ سترہویں صدی میں سپرم کی تصویر کھوپڑی اور اس کے پیچھے لگے ایک لمبے بال کے طور پر بنائی جاتی تھی۔ یہ پری فارمیشن ازم کا خیال تھا۔ منتقل کوڈ نہیں پورا انسان ہوتا ہے۔
6.2.6b.e
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پری فارمیشن سے ہر کوئی متفق نہیں تھا۔ یہ اس چیز کی وضاحت بالکل نہیں کرتا تھا کہ جب سپرم بیضے سے ملتا ہے تو آخر ہوتا کیا ہے۔ اس کا جواب 1768 میں برلن کے ایمبریولوجسٹ کاسپر وولف نے دینے کی کوشش کی۔ ان کا خیال ارسطو سے ملتا جلتا تھا کہ ایمبیرو میں کوئی انفارمیشن موجود ہے۔ کوئی ہدایات موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بائیولوجسٹ، فلاسفر، مذہبی سکالر اور ایمبریولوجسٹ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں گرما گرم بحثیں کر رہے تھے تو حقیقت یہ تھی اس سوال کے جواب کے لئے ارسطو اور فیثاغورث سے زیادہ آگے نہیں بڑھا جا سکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انیسویں صدی کا وسط وہ وقت تھا جب بائیولوجی ایک جامد سا نظریہ لئے ہوئے تھی۔ جس طرح ایک فزسٹ گیند کی ہوا میں حرکت کی وضاحت کرتا ہے، ویسا بائیولوجی میں کیوں نہیں؟ بائیولوجی ایک تسلسل، ایک پراسس، ایک پراگریشن، ایک تاریخ کی طرح کیوں نہیں؟ یہ سوال کرنے والے دو لوگ تھے۔ دونوں باغبان تھے، دونوں فطرت کے مشاہدے کا جنون رکھتے تھے، دونوں تھیولوجی سے بائیولوجی کی طرف آئے تھے اور دونوں بائیولوجی کی بنیاد کو سمجھنا چاہتے تھے۔ مینڈیل کا سوال مائیکروسکوپک تھا۔ ایک نسل سے انفارمیشن اگلی نسل کو کیسے منتقل ہوتی ہے۔ ڈارون کا سوال میکروسکوپک تھا۔ جانداروں کی ہزار نسلوں میں انفارمیشن پہنچتے پہنچے بدل کتنی جاتی ہے؟ ان دونوں کے پیش کردہ خیالات الگ الگ چیزوں کا جواب دیتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ ان دونوں کے وژن ایک دوسرے کے قریب ہوتے گئے اور انہوں نے جدید بائیولوجی کے سب سے اہم ملاپ کو جنم دیا۔ یہ ملاپ جدید بائیولوجی کی بنیاد بنی۔ وراثت کی سمجھ کا یہ نظریہ ماڈرن سنتھیسز کہلایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیگل پر ڈارون 27 دسمبر 1831 کو روانہ ہوئے۔ 20 اکتوبر 1835 کو گالاپاگوس جزائر پہنچے۔ جزیروں کے اس جھرمٹ میں پرندوں اور جانوروں کے مشاہدے سے نکلنے والے خیالات سے انہوں نے تھیوری تشکیل دی۔ ایک اور سفر ویلیس نے کیا تھا جو برازیل کا تھا۔ دونوں ہی بائیولوجی کی اہم ترین تھیوری تک پہنچ رہے تھے۔ فطری چناوٗ کے ذریعے ایولیوشن پر ڈارون اور ویلیس کے پیپر یکم جولائی 1858 کو لندن میں لینین سوسائٹی میں پڑھے گئے۔ یہ کتنا اہم تھا؟ اس کا اندازہ فوری طور پر کسی کو نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ لینین سوسائٹی کے صدر نے سال کے آخر میں تبصرہ کیا کہ، “بائیولوجی میں نئی دریافتوں کے حوالے سے 1858 ایک بنجر سال رہا ہے۔ کوئی بھی خاص دریافت دیکھنے کو نہیں ملی”۔ اس سے اگلے برس 24 نومبر 1859 کو جمعرات کی سرد صبح ڈارون کی کتاب “اوریجن آف سپیشیز” شائع ہوئی۔ اس کی قیمت پندرہ شلنگ کی قیمت رکھی گئی۔ پہلے ایڈیشن کی چھپوائی جانے والی ڈھائی سو کاپیاں پہلے روز ہی فروخت ہوگئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارون کا بریک تھرو اہم تھا لیکن نامکمل تھا۔ اس میں جو خلا سب سے بڑا تھا، وہ یہ کہ اس میں وراثت کی تھیوری نہیں تھی۔ آخر ایک نسل سے اگلی نسل تک کوئی بھی خاصیت کیسے منتقل ہوتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارون نے اپنے باریک بین مشاہدے اور برسوں کی فکر کے بعد ایولیوشن کی تھیوری تو پیش کر دی تھی لیکن وراثت کا اس میں موجود نہ ہونا ڈارون کو سب سے زیادہ پریشان کرتا تھا۔ وراثت کی ایسی تھیوری جو استحکام بھی دے اور تبدیلی کی گنجائش بھی۔ ڈارون نے اس پر جو خیال پیش کیا وہ یہ کہ جسم میں گیمولز پھرتے رہتے ہیں جو جسم کی حالت کے بارے میں انفارمیشن کو اکٹھا کرتے رہتے ہیں اور پھر والد اور والدہ کے ابتدائی جرم سیلز میں یہ ویسے مل جاتے ہیں جیسے رنگ کے ڈبے میں رنگ ملتے ہیں۔ ڈارون کا پیش کردہ خیال ارسطو اور فیثاغورث کے خیالات کا ملاپ تھا اور اپنی کتاب اوریجن آف سپیشز سے دس سال بعد 1867 میں ان کی کتاب “جانوروں اور پودوں میں تنوع” میں لکھا گیا۔
ڈارون کی اس کتاب اور پین جینیسز کی تھیوری پر تنقید غیرمتوقع طور پر فلیمنگ جینکنز سے آئی جو ریاضی دان اور انجینیر تھے۔ انہوں نے یہ کتاب تفصیل سے پڑھی تھی اور اس میں فاش غلطی تلاش کر لی تھی۔ جینکنز نے استدلال کے لئے کہانی پیش کی، “فرض کریں کہ ایک سفید فام کسی ایسے جزیرے پر پہنچتا ہے جہاں سیاہ فام بستے ہیں۔ ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ اس کو بادشاہ بنا دیا جاتا ہے اور وہ بہت سی شادیاں کر لیتا ہے اور بچے پیدا ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اس کے بچوں میں اس میں سے نصف خاصیتیں آئیں کی۔ پوتوں میں ایک چوتھائی۔ اس سے آگے آٹھواں حصہ اور یوں چند نسلوں میں اس کی “سفید فامی کی خاصیت” ختم ہو جائے گی، خواہ یہ خاصیت اتنی ہی کارآمد اور فِٹ کیوں نہ ہو کہ اس کو بادشاہ بنا دے اور اپنی خاصیتیں آگے منتقل کرنے کے لئے مدد کرے”۔ جینکنز کی کہانی کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر تنوع آ بھی جائے تو وہ جلد ہی اوسط بن جائے گا۔ تنوع کے بعد یہ برقرار کیسے رہے گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارون کو جینکنز کی منطق نے جھنجھوڑ دیا۔ انہوں نے لکھا، “فلیمنگ کی تنقید میرے لئے کسی بھی مضمون سے زیادہ مفید رہی ہے”۔ اس کا مطلب کیا تھا؟ ارتقا کو کام کرنے کے لئے وراثت کا طریقے رنگوں کے ملاپ جیسا نہیں ہو سکتا تھا۔ انفارمیشن کے “ایٹم” درکار تھے۔ ناقابلِ تقسیم پیکٹ جو والدین سے بچے میں جا سکیں۔
کیا ایسے کسی طریقے کا ثبوت تھا؟ اگر ڈارون اپنی لائیبریری کو اچھی طرح سے کنگھال لیتے تو ایک غیرمعروف ماہرِ نباتات کے غیرمعروف جریدے میں شائع ہونے والے غیرمعریف پیپر کا حوالہ مل جاتا جس کا عنوان “پودوں کو ملانے پر تجربات” تھا جو مشکل جرمن زبان میں لکھا گیا تھا اور ریاضی کے ٹیبل سے بھرا ہوا تھا۔ 1866 میں لکھے گئے اس پیپر کو اگر ڈارون کی ذہانت شاید انہیں اس جواب تک پہنچا دیتی جس کو وہ ڈھونڈ رہے تھے اور یقیناً وہ اس پر کی جانے والی محنت، نفاست اور اس سے نکلنے والے نتائج کو داد دئے بغیر نہ رہ سکتے۔
بائیولوجی کا یہ وہ معمہ تھا جس کو بڑی ہی محنت اور احتیاط سے مٹر کے پودوں کی مدد سے ڈاپلر کے شاگرد مینڈیل ایک خانقاہ کے قطعہ اراضی میں برسوں کی محنت سے حل کیا تھا۔
مٹر کے دانے ۔ جین (۳)
آگیسٹین کی خانقاہ کے ایک مذہبی راہنما گریگور جوہان مینڈل کو پھولوں کا شوق تھا۔ ان کا دوسرا شوق بائیولوجی کی سائنس تھا۔
مینڈیل نے 1853 میں مٹر کاشت کئے۔ یہ انہوں نے پہلی بار نہیں کیا تھا۔ وہ پچھلے تین سال سے یہاں پر یہ تجربات کر رہے تھے۔ مٹروں کی 34 اقسام جمع کر چکے تھے۔ پہلے ان کی بریڈنگ کر کے کنفرم کرنا تھا کہ ایک طرح کے مٹر اپنی اگلی نسل ویسی ہی پیدا کرتے ہیں۔ اگلی نسل پچھلی جیسی ہی ہوتی ہے۔ یہ ان کے تجربات کے لئے بنیادی میٹیریل بنا۔
اگر لمبے پودے کا ملاپ لمبے سے ہو، نتیجہ لمبا ہو گا، چھوٹے کا چھوٹے سے تو چھوٹا ہو گا۔ اسی طرح کچھ سٹرین سموتھ بیج پیدا کرتے تھے، کچھ شکنوں والے۔ کچھ سبز اور کچھ زرد۔ کچھ میں پھلی پک کر ڈھیلی رہ جاتی تھی، کچھ میں ٹائٹ ہوتی تھی۔ انہوں نے سات خاصیتوں کی فہرست بنائی۔
بیچ کی ساخت ۔ سموتھ یا شکن والی
بیج کا رنگ ۔ سبز یا زرد
پھول کا رنگ ۔ سفید یا بنفشی
پھول کی جگہ ۔ پودے کے کنارے پر یا شاخ پر
پھلی کا رنگ ۔ سبز یا زرد
پھلی کی شکل ۔ سموتھ یا شکن والی
پودے کا قد ۔ لمبا یا چھوٹا
سات خاصیتیں اور دو ممکنہ صورتیں۔ (مینڈیل نے دو سے تجربات کئے، ورنہ یہ صورتیں زیادہ ہوتی ہیں)۔ ان کو بائیولوجی میں allele کہا جاتا ہے۔ زرد اور سبز بیج رنگ کے الیل ہیں۔
ایک جیسے الیل اپنے جیسی نسل پیدا کرتے ہیں لیکن اگر ان کو ملا دیا جائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تجربات بہت مہارت اور محنت والا کام تھا۔ مٹر خود اپنے پولن سے فرٹیلائیز ہو سکتا ہے۔ تجربے کے لئے اسے روکنے کے لئے مینڈیل کو پہلے ہر پھول پر سے اینتھر کاٹنے پڑتے تھے۔ پولن کو ایک برش کے ذریعے ایک پھول سے دوسرے پر منتقل کرنا ہوتا تھا۔ وہ اکیلے ہی کام کر رہے تھے۔ انہوں نے یہ ایسے تجربات چوہوں پر کرنے کی کوشش کی تھی لیکن چرچ میں چوہے پالنے سے منع کر دیا گیا تھا۔ مٹر اگانے پر کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ مینڈیل نے ان کے لئے ایک چرچ کے باہر کی جگہ کو استعمال کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کنٹرولڈ طریقے سے پہلی ملی جلی نسل 1857 میں آنا شروع ہوئی۔ آٹھ سال تک تجربات جاری رہے۔ بونا، پولینیٹ کرنا، توڑنا، چھلکا اتارنا، گنتی کرنا، اور اس کو دہرانا۔ یہ مینڈیل کی زندگی تھی۔ چھوٹی سی سوچ سے بڑے اصول نکلتے ہیں۔ سائنسی انقلاب کی آمد کی بنیاد ایک چیز پر تھی۔ اور وہ یہ کہ قوانینِ فطرت ایک ہی جیسے ہیں اور ہر جگہ پر ہیں۔ جو قوت سیب گراتی ہے، بالکل وہی سیاروں کی گردش بھی کرواتی ہے۔ اسی طرح اگر یہ مٹر کے دانے کسی یونیورسل وراثتی قانون کا پتا دے دیتے ہیں تو یہی قانون انسانوں پر ویسا ہی لاگو ہو گا۔ مینڈیل کا باغ چھوٹا سا تھا لیکن وہ جانتے تھے کہ جس پر کام کر رہے ہیں، وہ بہت کچھ بتا دے گا۔
مینڈل نے لکھا، “تجربات میں پیشرفت سست رفتاری سے ہو رہی تھی۔ یہ صبرآزما کام تھا۔ میں نے پھر تلاش کر لیا کہ اگر بیک وقت کئی چیزوں پر اکٹھا کام کیا جائے تو پیشرفت تیز ہو سکتی ہے۔ اس سے ڈیٹا کی آمد تیز ہو گئی۔ جب ڈیٹا ملنے لگا تو آہستہ آہستہ اس میں سے پیٹرن نظر آنے لگا”۔ اس پیٹرن کا مستقل ہونا، تناسب کا برقرار رہنا، اعداد کا ردھم ۔۔۔۔ مینڈیل نے وراثت کے عقدے کی اندرونی منطق کو پا لیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلا پیٹرن پہچاننا آسان تھا۔ ہائیبرڈ کی پہلی نسل میں خاصیتوں کا کوئی ملاپ نہیں ہوتا تھا۔ لمبے اور چھوٹے پودے سے لمبا پودا ہی بنتا تھا۔ گول بیج اور شکنوں والے بیج میں گول بیج ہی بنتے تھے۔ ساتوں خاصیتوں کے ساتھ ایسا تھا۔ مینڈیل نے غالب رہنے والی خاصیت کو dominant جبکہ غائب ہو جانے والی خاصیت کو recessive کہا۔
اگر مینڈیل اپنے تجربات یہیں پر روک دیتے تو وراثت کی تھیوری میں یہ بھی ایک بہت بڑا کنٹریبیوشن ہوتا۔ اس سے انیسویں صدی کی blend ہو جانے والی تھیوری غلط ثابت ہو گئی تھی۔ خاصیتیں ایک دوسرے سے ڈبے میں مکس ہونے والے رنگوں کی طرح نہیں ملتیں۔ ایک الیل دوسرے پر غالب رہتا ہے۔
لیکن یہ غائب ہو جانے والی خاصیت کہاں گئی؟ کیا اس کو غالب خاصیت نے نگل لیا؟ مینڈیل نے اس پر تجزیہ کرنے کے لئے دوسرا تجربہ کیا۔ ایک ہائیبرڈ کو دوسرے ہائیبرڈ سے ملایا۔ لمبے اور چھوٹے ہائیبرڈ کو ایک اور لمبے اور چھوٹے ہائیبرڈ سے۔ یہ دونوں پودے خود لمبے تھے لیکن تیسری نسل میں جو ہوا، وہ بالکل ہی غیرمتوقع تھا۔ چھوٹا قد تیسری نسل میں واپس آ گیا تھا۔ سفید پھول دوسری نسل میں بالکل غائب تھے، تیسری میں واپس آ گئے تھے۔
مینڈیل نے کہا کہ ہائیبرڈ دراصل مرکب ہے۔ غالب الیل ہے جو نظر آتا ہے لیکن مغلوب الیل بھی اس میں پایا جاتا ہے۔
مینڈل نے تیسری نسل میں تناسب کو گننا شروع کیا۔ ہر خاصیت مین پیٹرن نظر آ رہا تھا۔ نر اور مادہ سے آنے والی انفارمیشن کی منتقلی کا علم ہونے لگا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینڈیل نے 1857 سے 1865 کے درمیان مٹروں کے دانے چھیل چھیل کر ڈرموں کے ڈرم بھر لئے۔ اس کو نوٹ بک میں لکھتے گئے۔ نتائج مستقل طور پر ایک ہی جیسے تھے۔ اٹھائیس ہزار پودے، چالیس ہزار پھول، چار لاکھ مٹر ۔۔۔ “اتنی محنت کرنا بہادری کا کام تھا”۔ یہ مینڈل نے بعد میں لکھا۔ یہ ایک باغبان کی نفاست اور تیز مشاہدہ تھا، جس نے بائیولوجی کے اہم ترین حصے کی وضاحت کر دی تھی۔ “وراثت والدین سے بچوں کو انفارمیشن کے پیکٹس کی صورت میں منتقل ہوتی ہے۔ ایک الیل باپ سے آتی ہے، ایک ماں سے۔ اگلی نسل کے لئے یہ بننے والے مادے میں یہ دونوں پھر الگ ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک کا انتخاب ہوتا ہے۔ اگر کسی فرد میں دو مختلف الیل ہیں تو غالب الیل کی خاصیت ہو گی لیکن وہ دوسری کو آگے منتقل کر سکتا ہے۔ یہ انفارمیشن کے پارٹیکل برقرار رہتے ہیں”۔
مینڈیل نے ڈوپلر سے سبق لیا تھا۔ شور کے پیچھے موسیقی ہے۔ افراتفری کے پیچھے قانون ہے۔ اور ایک گہرا مصنوعی تجربہ ۔۔۔ پودوں کی طریقے سے افزائش ۔۔۔۔ ان رازوں کو افشا کر سکتا ہے۔ یہ تنوع بے ہنگم نہیں۔ وراثت کی انفارمیشن کے پیکٹ ہیں جو ایک نسل سے آگے جاتے ہیں۔ ہر خاصیت الگ ہے اور ناقابلِ تقسیم ہے۔ مینڈیل نے وراثت کے اس یونٹ کو نام تو نہیں دیا لیکن انہوں نے جین دریافت کر لی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارون اور ویلیس کے پیپرز سے سات سال بعد 8 فروری 1865 کو مینڈیل نے اپنا پیپر پیش کیا۔ دو حصوں میں لکھے گئے اس پیپر کو کسانوں، ماہرینِ نباتات اور ماہرینِ حیاتیات کے لئے لکھا گیا تھا۔ چالیس لوگ سننے کے لئے آئے ہوئے تھے۔ اس پیپر میں درجنوں ٹیبل تھے، جو ماہرینِ شماریات کے لئے بھی چیلنج ہو گا اور بائیولوجسٹس کے لئے تو شاید فارسی ہو گی۔ بائیولوجسٹ مورفولوجی پڑھتے ہیں، ریاضی نہیں۔ فطرت میں ریاضی کی موسیقی کا تصور فیثاغورث کے بعد فیشن سے باہر ہو چکا تھا۔ کس نے اس سے کیا اخذ کیا؟ معلوم نہیں۔
مینڈیل کا پیپر ایک غیرمعروف سالانہ جریدے میں شائع ہوا۔ خاموش طبع مینڈیل لکھنے میں بھی مختصر نویس تھے۔ اپنے ایک دہائی کے کام کو 44 صفحات میں قلمبند کر دیا۔ اس کی چالیس کاپیاں مینڈیل نے اپنے لئے کروائیں اور کئی سائنسدانوں کو بھیجیں۔
ایک سائنسدان کے الفاظ میں، "اس کے بعد جو ہوا، وہ بائیولوجی کی تاریخ میں سب سے عجیب خاموشی تھی"۔ 1866 سے 1900 کے درمیان اس پیپر کو صرف چار مرتبہ سائٹ کیا گیا اور یہ سائنسی لٹریچر سے گویا غائب ہو گیا۔ وہ سٹڈی جس نے جدید بائیولوجی کی بنیاد ڈالی، وہ ایک وسطی یورپ کے ایک زوال پذیر شہر سے شائع ہونے والے ایک جریدے کے صفحات میں گم ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینڈیل نے یکم جنوری 1866 کو سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے پلانٹ فزیولوجسٹ کارل ناگیلی کو خط لکھا جس میں اپنے نتائج سے آگاہ کیا۔ دو مہینے بعد ناگیلی کا جواب آیا۔ انہوں نے اس کام کو اتنی اہمیت نہیں دی تھی۔ "یہ صرف تجرباتی نتائج ہیں۔ ان کی کوئی منطقی بنیاد نہیں"۔ (منطق کو تجربات پر بالاتر قرار دینی کی غلطی کئی بار کی جا چکی ہے)۔۔
مینڈیل نے اصرار جاری رکھا اور مزید خط لکھے۔ وہ ناگیلی کی حمایت کے طالب تھے۔ "مجھے معلوم ہے کہ میرے نتائج آپ کی عصری سائنس کے مطابق نہیں اور یہ بھی کہ یہ میرے اکیلے کے کئے گئے تجربات ہیں"۔ لیکن ناگیلی کے لئے یہ تسلیم کرنا ہی مشکل ہو رہا تھا کہ اس طریقے سے فطرت کا ایک گہراترین قانون (اور ایک خطرناک قانون) دریافت کیا جا سکتا ہے۔
ناگیلی ایک اور پودے پر سٹڈی کر رہے تھے۔ یہ پیلے پھولوں والی بوٹی ہاک ویڈ تھی۔ انہوں نے مینڈیل کو کہا کہ وہ اپنے نتائج اس پر دہرا کر دکھائیں۔ یہ غلط انتخاب تھا۔ مینڈیل نے مٹر کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ یہ جنسی طور پر پیدا ہوتا ہے۔ اس کی خاصیتیں آسانی سے شناخت کی جا سکتی ہیں۔ اس کو احتیاط کے ساتھ اپنی مرضی سے پولینیٹ کیا جا سکتا ہے۔
نہ ہی مینڈیل اور نہ ہی ناگیلی یہ جانتے تھے کہ ہاک ویڈ غیرجنسی طریقے سے بھی نسل بڑھا سکتا ہے۔ اسکو کراس پولینیٹ کرنا تقریباً ناممکن ہے اور ہائبرڈ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ اس سے نکلنے والے نتائج بالکل بھی اچھے نہیں تھے۔ مینڈیل نے ان ہائیبرڈز کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں مٹر جیسے پیٹرن نظر نہیں آیا۔ اپنی کوشش تیز سے تیز کی ہزاروں بوٹیاں اگائیں۔ اسے چمٹے اور برش کی مدد سے 1867 سے 1871 تک اس پر تجربات کرتے رہے۔ خط و کتابت جاری رکھی۔ ناگیلی کے لئے ایک چھوٹے شہر کے مذہبی راہنما کو سنجیدہ سائنسدان کے طور پر لینا مشکل تھا۔
نومبر 1873 کو مینڈیل نے ناگیلی کو اپنا آخری خط لکھا۔ انہیں بتایا کہ وہ ناکام ہو گئے ہیں اور وہ نتائج نہیں حاصل کر سکے۔ چرچ میں انہیں اضافی ذمہ داریاں مل گئیں ہیں اور وہ اب انتظامی امور کو بھی دیکھیں گے۔
سائنس مینڈیل کی توجہ سے ہٹتی گئی۔ ایک انتظامی مسئلہ اور پھر اگلا۔ ان کی خانقاہ پر لگنے والے ٹیکس بڑھتے گئے۔ انتظامی معاملات نے اس شاندار سائنسدان کی سائنس کا گلا گھونٹ دیا۔
مینڈیل نے مٹروں پر ایک ہی پیپر لکھا۔ ان کی صحت 1880 کے بعد گرنا شروع ہو گئی۔ کام کم کر لیا۔ باغبانی کا شوق جاری رہا۔ 6 جنوری 1884 کو مینڈیل گردے فیل ہو جانے کے سبب چل بسے۔ مقامی اخبار نے ان کے انتقال کے بارے میں خبر لگائی جس میں ان کے سائنسی تجربات کا کوئی بھی تذکرہ نہیں تھا۔ ایک نوجوان پادری نے ان کی موت پر تبصرہ کیا، “شریف، مہربان اور اپنی مرضی کرنے والے۔ ان کو پھولوں سے پیار تھا”۔
جین کی صدی ۔ جین (4)
مینڈیل نے وراثت کا قانون دریافت کر لیا تھا لیکن کئی دہائیوں تک یہ گمنام پڑا رہا۔ مینڈیل کی حوصلہ شکنی کرنے والے سائنسدان ناگیلی کے طالب علم کارل کورنز، ڈچ ماہرِ نباتات ڈی ورائز اور ویانا سے تعلق رکھنے والے شیمارک نے ان کو دوبارہ الگ الگ دریافت کیا۔ وہ بھی اسی طرح کے نتائج تک پہنچ رہے تھے۔ مینڈیل کے تجربات واپس منظرِ عام پر آ گئے۔ مئی 1900 میں ولیم بیٹسن نے ٹرین پر سفر کرتے وقت مینڈیل کا کام پڑھا۔ جب وہ ٹرین سے اتر کر لیکچر ہال پہنچے تو کہتے ہیں “میرا سر چکرا رہا تھا۔ یہ غیرمعمولی کام تھا اور اس سے غیرمعمولی یہ تھا کہ اس کو فراموش کر دیا گیا تھا۔ یہ اب میرا ذاتی مشن تھا کہ اب اس کو کبھی نظرانداز نہ کیا جائے”۔ بیٹسن نے پہلے ان کے نتائج کو تجربات کے ذریعے کنفرم کیا اور پھر جرمنی، فرانس، اٹلی اور امریکہ کا سفر کیا جس میں اس کو شئیر کیا گیا۔ بیٹسن اپنے اس مشن کی وجہ سے “مینڈیل کے بلڈاگ” کہلائے۔ انہوں نے لکھا، “وراثت کی گتھی سلجھانا انسان کا اس دنیا کے بارے میں نقطہ نظر بدل دے گا۔ اسے فطرت پر ایسی طاقت دے سکتا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ملی”۔
اس نئے شعبے کا نام بیٹسین نے 1905 میں Genetics (جینیات) رکھا۔ اسی سال اپنے ایک مضمون میں لکھا، “ایک چیز یقینی ہے۔ اگر برطانیہ میں نہیں تو کسی اور ملک میں۔ لوگ اپنے ماضی سے رشتہ توڑنا چاہیں گے۔ فطرت سے کھیلنا چاہیں گے۔ معلوم نہیں اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔ جب کوئی طاقت انسان کے پاس آتی ہے تو انسان اس کو استعمال کرتا ہے۔ وراثت کی سائنس بڑے پیمانے پر طاقت دے سکتی ہے۔ جلد یا بدیر، اس سے قوموں کی تشکیلِ نو بھی کی جا سکتی ہے۔ جس ادارے کے پاس یہ طاقت آ گئی، وہ اچھے طریقے سے استعمال کرے گا یا برے طریقے سے، یہ الگ سوال ہے”۔
بیٹسن نے جین کی صدی کی پیشگوئی کر دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر وراثتی قوانین کا علم ہو گیا اور ان کو استعمال کر لیا جائے تو کیا بہتر انسانی نسل تیار کی جا سکتی ہے؟ یہ “خطرناک خیال” سب سے پہلے فرانسس گالٹن نے پیش کیا۔ اگر ہم بہتر مویشی یا پودے اس مدد سے پیدا کر سکتے ہیں تو بہتر انسان اور بہتر قوم کیوں نہیں؟ کوئٹلٹ نے فوجیوں کی چھاتیاں اور قد ناپ کر 5738 فوجیوں کی پیمائش کا ٹیبل شائع کیا تھا۔ یہ سب ایک بیل کرو بنتا تھا۔ زیادہ لوگ اوسط کے قریب اور پھر اس کے گرد ایک طریقے سے پھیلے ہوئے۔ گالٹن نے اس کو دیکھ کر سوال کیا کہ کیا ذہانت اور خوبصورتی جیسی خاصیتوں کی بھی اس طرح پیمائش کی جا سکتی ہے؟ کیا اس گراف کو آبادی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹسن جین کے تصور کے پرچار میں تو مصروف تھے لیکن ابھی اس کی تعریف صرف اس سے ہوتی تھی کہ جین کرتی کیا ہے۔ جین کیا ہے؟ اس کی کیمیکل یا فزیکل نیچر کیا ہے؟ جینیاتی انسٹرکشن (جینوٹائپ) کیسے فزیکل خاصیت (فینوٹائپ) میں تبدیل ہوتی ہے؟ یہ آگے کس طریقے سے منتقل ہوتی ہے؟ رہتی کہاں پر ہے؟ ریگولیٹ کیسے ہوتی ہے؟ اگر یہ ڈسکریٹ ہے تو پھر قد، جلد کا رنگ ایک مسلسل کرو میں کیوں ہے؟ اس کی حدود کیا ہیں؟ اس کا تالا کھولنے کی چابی کیا ہے؟
یہ سب نامعلوم تھا۔
جین کی سائنس نے ہمیں اپنی تاریخ سے بھی آگاہ کیا۔ زندگی کے راز کھولے۔ اہم ترین علاج اور ادویات بنانے میں مدد کی۔ لیکن اس سے پہلے
جین کے نام پر اور جین کے خلاف ۔۔۔ وراثت یا تربیت ۔۔۔ بیسویں صدی کے سیاہ ترین باب جین نے لکھنے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح زراعت علمِ نباتات کا اپلائیڈ شکل ہے، ویسے ہی جینیات کی اپلائیڈ شکل یوجینکس کا تصور گالٹن نے دیا۔ “فطرت سست، ظالم اور اندھی ہے۔ انسانی اس عمل کو مرضی سے سمت دے سکتا ہے”۔ یہ گالٹن کا لندن میں 1904 میں دیا گیا لیکچر تھا۔ “ایک صحت مند ایک بیمار سے بہتر ہے”۔ گالٹن نے تجویز پیش کی کہ صحت مند اور مضبوط لوگوں سے نسل آگے بڑھائی جائے۔ اگر ٹھیک سوشل پریشر ڈالا جا سکے اور معذور یا کمزور لوگوں کو نسل بڑھانے سے روکا جا سکے تو ہم ایک بہتر معاشرہ بنانے کی طرف قدم اٹھا لیں گے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گالٹن کا لیکچر ختم ہونے سے پہلے ہی ہال چہ میگوئیاں شروع ہو گئی تھیں۔ پہلا حملہ ایک سائیکیٹرسٹ ہندر ماڈسلے نے کیا۔ “نارمل والد کے گھر شٹزوفرینیا کا شکار بچے پیدا ہوتے ہیں۔ عام گھروں میں غیرمعمولی لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ ایک گمنام دستانے بنانے والے کے گھر انگریزی زبان کا سب سے مشہور ادیب پیدا ہوا۔ اس کے پانچ بھائی تھے لیکن صرف ولیم ہی غیرمعمولی نکلا۔ نیوٹن ایک بیمار اور کمزور لڑکا تھا۔ جان کیلون دمے کا مریض تھا۔ ڈارون کو کئی عارضے لاحق تھے۔ ہربرٹ سپنسر نے اپنی زندگی کا بڑا وقت علالت میں گزارا”۔
بیٹسن کی تقریر سب سے آخر میں تھی۔ “گالٹن کے خیالات کی بنیاد ہی غلطی پر ہے۔ وہ فینوٹائپ دیکھ رہے ہیں۔ انفارمیشن اس میں نہیں جینوٹائپ میں ہوتی ہے۔ وزن، قد، خوبصورتی، ذہانت جینیاتی خاصیتوں کی پرچھائیں ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گالٹن کا خیال اس وقت پسند نہیں کیا گیا لیکن خطرناک خیال کا بیج بو دیا گیا تھا۔
گالٹن کے انتقال کے ایک برس بعد 24 جولائی 1912 کو یوجینکس پر پہلی بین الاقوامی کانفرنس لندن کے سیسل ہوٹل میں ہوئی۔ اس میں دی جانے والی دو تقاریر خوفناک حد تک جوشیلی تھیں اور آنے والے وقتوں کا بتا رہی تھیں۔ پہلی جرمن سائنسدان الفریڈ پلوٹز کی “نسلی ہائی جین” پر۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ جرمنی میں کیسے نسلی صفائی کے لئے طریقہ کار وضع کرنے پر کام ہو رہا ہے۔ دوسری امریکی وفد کی طرف سے کہ امریکہ سے کیسے جینیات میں سے ناقص مال نکالنے پر کوشش کمیٹی کام کر رہی ہے۔ جذام والے، مجرم، گونگے اور بہرے، ذہنی کمزوری کا شکار، خراب آنکھوں والے، بونے، خراب ہڈیوں والے، ناقص العقل، پاگل، ڈیپریشن والوں کو نسل آگے بڑھانے سے روکنے کے لئے کالونیاں قائم کی پلاننگ مکمل ہے۔ دس فیصد آبادی کمتر لوگوں کی ہے۔ یہ مفید لوگوں کے والدین نہیں بن سکتے۔ آٹھ ریاستوں میں اس بارے میں قوانین منظور ہو چکے ہیں۔ وگوں کی سٹیریلائزیشن کی جا چکی ہے اور ان آپریشنز میں سے بھی کوئی مضر اثر نہیں نکلا۔ ہم ذمہ داری اور بہت احتیاط کے ساتھ بائیولوجی کو استعمال کر کے ایک بہتر نسل تیار کرنے کے قابل ہو گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکہ میں 1920 کی دہائی میں یوجینکس کا خیال مقبول ہونے لگا۔ اس کے حق میں اور خلاف ہونے والے مظاہروں کے بیچ یوجینکس کی تحریک، قید سے سٹیرئلائزیشن اور سٹیرئلازیشن سے قتل کا رخ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ریاستی حکم پر کسی کو اس کی مرضی کے بغیر اس کو سٹیریلائز کیا جا سکتا تھا۔
جینیاتی فٹنس کا خوفناک خیال ایک خطرناک بیماری کی طرح بحرِاوقیانوس کے پار پورے برِاعظم کو اپنے خون آشام پنجے کی گرفت میں لے رہا تھا۔
جین کا ظلم ۔ جین (5)
بائیولوجسٹ فرٹز لینز نے ایک بار کہا تھا، “نازی ازم اپلائیڈ بائیولوجی تھی”۔ 1933 کی بہار میں ہرمن میولر نے برلن میں قیصر ولہلم انسٹی ٹیوٹ میں کام شروع کیا۔ اس سال جنوری میں ایڈولف ہٹلر نے اقتدار سنبھالا تھا۔ نازی نظریے کے مطابق نسلی ہائی جین ٹھیک کرنا ضروری تھا۔ اس کو پیش کرنے والے پلوٹز کا کہنا تھا کہ جس طرح انسانی اپنی ہائی جین کا خیال رکھتا ہے اور پاکیزگی حاصل کرتا ہے۔ ویسے ہی قوموں کو کاٹھ کباڑ اور فاضل لوگ حذف کر کے اپنی ہائی جین کا خیال رکھنا ضروری ہے تا کہ ایک صحتمند اور خالص نسل بن سکے۔ جس طرح جاندار اشیاء اپنے خراب خلیے قربان کر دیتی ہیں، ایک سرجن خراب اعضاء کاٹ پھینکتا ہے تا کہ جسم صحت مند رہ سکے، ویسے ہی یہ ریاست کاکام ہے کہ وہ بے رحمی سے عظیم مقصد کی خاطر ضرر رساں جین آبادی میں پھیلنے سے روکے۔
امریکہ میں یوجینکس کیمپ کھل چکے تھے۔ جرمن یوجینکس اسی سے متاثر ہو کر ریاستی پروگرام کے تحت ناقص جین آبادی سے ختم کر رہے تھے۔ قیصر ولہلم انسٹی ٹیوٹ نسلی سائنس کا اکیڈمک مرکز تھا۔ نسلی بائیولوجی جرمن یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ بن گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پلوٹز کے خیالات ہٹلر نے جیل میں پڑھے تھے اور ان سے فوراً متاثر ہوئے تھے۔ ہٹلر کا خیال تھا کہ یہ ناقص جین قوم کے لئے سست زہر ہیں اور ایک مضبوط ملک کے بننے میں رکاوٹ ہیں۔ حکومت میں آ کر ہٹلر کو ان خیالات کو عملی جامہ پہنانے کا موقع مل گیا۔ حکمران بننے کے پانچ ماہ بعد سٹیریلازیشن کا قانون بن گیا۔ “جو جینیاتی مرض کا شکار ہو گا، اس پر آپریشن کیا جا سکتا ہے”۔ وراثتی بیماریوں کی فہرست بنائی گئی۔ ذہنی کمزوری، شٹزوفرینیا، جذام، ڈیپریشن، اندھا پن، بہرا پن، جسمانی معذوری اس میں آئے۔ ایسے شخص کو عدالت میں پیش کیا جاتا۔ کورٹ سے اجازت ملنے پر اس کو سٹیریلائز کر دیا جاتا۔ خواہ اس کی مرضی ہو یا نہیں۔
اس کی عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے قانونی عملدرآمد کے ساتھ پراپیگنڈا مہم شروع کی گئی۔ سرکاری ادارے کی طرف میں فلمیں بنائی گئیں۔ داس اربے (ترکہ) اور اربکرانک (وراثتی بیماریاں) جیسے مشہور ہونے والی فلمیں سینیما میں چلیں۔ ایک معذور عورت کے ہونے والے معذور بچے کی وجہ سے دونوں کی زندگیاں اجڑ جانے کی غمزودہ اور جذباتی داستان بہت مقبول ہوئی۔ ایک اور فلم اولپیا جس میں ایک جرمن کھلاڑیوں کے پرفیکٹ جسم جو جینیاتی پرفیکشن کا شاہکار ہیں۔ ان کی جسمانی صلاحیتیوں پر ہر کوئی رشک کرتا دکھایا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف نسلی طہارت کی حد بڑھتی گئی۔ نومبر 1933 میں اس کی زد میں خطرناک مجرم بھی آ گئے۔ ان خطرناک مجمروں میں سیاسی مخالفین، صحافی اور لکھنے والے بھی تھے۔ اکتوبر 1935 کے نورمبرگ قوانین میں جرمن لوگوں کے جین یہودیوں سے ملنے پر پابندی عائد ہو گئی۔ یہودی آریا نسل سے ملاپ نہیں کر سکتے تھے۔شادی ممنوع قرار دے دی گئی۔ یہودیوں کے گھروں میں جرمن خواتین کا کام کرنا منع قرار پایا۔ 1934 میں ہر ماہ پانچ ہزار لوگ سٹیرئلائز ہو رہے تھے۔ دو سو وراثتی صحت کی عدالتیں فُل ٹائم یہی کیس سن رہی تھیں۔ منظوری دینے میں کسی تاخیر کا سامنا نہیں تھا۔ کیس اور اپیلیں فٹا فٹ نمٹائی جا رہی تھیں۔
امریکہ میں یوجینکس کے حامی جرمن پروگرام پر رشک کر رہے تھے۔ لاتھراپ سٹوڈورڈ نے لکھا کہ “ہماری ریاست کیوں اتنی کمزور ہے؟ ہمیں جرمن مثال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ باہمت قومیں ایسی ہوتی ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سٹیرئلائزنش سے قتل تک کا سفر چپکے سے ہوئے تھا اور پتا بھی نہیں چلا۔ 1935 میں ہٹلر نے اس پروگرام کی رفتار پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ سب سے موثر طریقہ کمزور جین والوں کو ہی ختم کر دینا تھا لیکن اس پر ری ایکشن کیا ہو گا؟ یہ موقع 1939 میں آیا۔ رچرڈ اور لینا کرشمار نے استدعا کی کہ ان کا بچہ گیارہ ماہ کا ہے۔ نابینا ہے اور بازو اور ٹانگیں بھی ٹھیک نہیں۔ اس کو مضبوط جرمن قوم کے جینیاتی پول میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی اجازت فوری مل گئی اور پروگرام کو بچوں کو ختم کرنے تک جلد ہی بڑھا دیا گیا۔ ایسے لوگوں کو لبن سن ورٹس لبن کہا گیا یعنی “زندہ رہنے کے لئے ناکارہ”۔ اب خیال یہ تھا کہ نسلی طہارت صرف مستقبل میں ہی کیوں؟ آج ہی کیوں نہیں۔
اس کی ابتدا تین سال سے کم عمر معذور بچوں کو ختم کرنے سے ہوئی۔ ستمبر 1939 تک یہ خاموشی سے بڑے عمر والوں تک پھیل چکا تھا۔ اس سے اگلی باری کم سن مجرموں کی آئی۔ ڈاکٹر انہیں جینیاتی لحاظ سے ناقص قرار دے دیتے۔ کئی بار چھوٹے جرائم کی سزا بھی موت بن گئی۔ اور پھر یہ بڑوں تک پھیل گیا۔
ملک بھر میں لوگوں کو ختم کرنے کے مراکز بننے لگے۔ ہاڈامار میں پہلا گیس چیمبر بنا۔ کاربن مونوآکسائیڈ کے ذریعے موت دے دی جاتی۔ سائنس اور میڈیکل ریسرچ کے نام پر یہ کیا جاتا رہا۔ “ان کے جسم کے اعضاء، ٹشو اور دماغ محفوظ کئے جا رہے ہیں تا کہ ان سے ہم سائنس کو آگے بڑھا سکیں”۔ ڈاکٹر ان کی لاشوں پر آپریشن کرنے کی پریکٹس کرتے۔
سٹیرئلائزشن قانون کا نشانہ 1933 سے 1943 کے درمیان چار لاکھ افراد بنے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہودی پن” اور خانہ بدوش ہونا بھی کروموزوم کے ذریعے آگے منتقل ہوتا ہے۔ جرمن سیاسی کلچر میں اختلاف کرنا اور سوال اٹھانا روکا جا چکا تھا۔ جو کہہ دیا گیا، اب اس کو ریسرچ سے ثابت کیا جانا تھا۔ قیصر ولہلم انسٹی ٹیوٹ نے اب یہ سائنسی طریقے سے ثابت کرنا تھا۔ اوٹمار وون ورشیور نے تحقیق سے بتایا کہ ہسٹیریا اور پاگل پن یہودیوں کی صفات ہیں اور یہودی خود کشیاں بھی زیادہ کرتے ہیں۔ “موت کا فرشتہ” کے لقب سے مشہور ہونے والے ڈاکٹر جوزف مینگیل کو پی ایچ ڈی دی گئی۔ بڑی ٹریجڈی ابھی آنی تھی۔
ان معذوروں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ کم افسوسناک نہیں تھا لیکن یہ آنے والے وقت کے آگے ماند پڑ گیا۔ چھ ملین یہودی، دو لاکھ خانہ بدوش، کئی ملین روسی اور پولش، بہت سے سیاسی مخالف، آرٹسٹ، لکھاری، اختلاف کی جرات کرنے والے اس نسلی صفائی کے عمل میں مارے گئے۔
جینوسائیڈ کا لفظ جین سے نکلا ہے۔ جین اور جینیات کی مدد سے نازیوں نے اپنا ایجنڈا شروع کیا تھا، اس کو برقرار رکھا تھا اور جسٹیفائی کیا تھا۔ جینیاتی تعصب نسلی قتل و غارت مین بدل گیا تھا۔ ذہنی معذوروں کو انسانیت کے رتبے سے گرا دینا دوسروں کی طرف پہلا قدم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح نازی وراثت کی زبان کو اپنے ایجنڈے کے لئے توڑ مروڑ رہے تھے، ویسا ہی کام ایک اور طاقتور یورپی ریاست کر رہی تھی۔ وراثت اور جینز کو اپنے وراثتی ایجنڈے کے لئے بالکل مخالف سمت میں مروڑنے والی یہ ریاست سوویت یونین تھی۔ بائیں بازو کے سائنسدان اور انٹلکچوئل 1930 کی دہائیں میں تجویز پیش کر رہے تھے کہ وراثت بے معنی چیز ہے۔ ہر چیز کو ڈھالا جا سکتا ہے۔ ہر شخص بدلا جا سکتا ہے۔ جینز بورژوا طبقے کا دیا گیا سراب ہے تا کہ انفرادی فرق نمایاں کئے جا سکیں۔ ریاست کا کام ہر ایک کو برابر کر دینا ہے اور شناخت مٹا دینا ہے۔ جس چیز کی صفائی کی ضرورت ہے، وہ جین نہیں، دماغ ہیں۔
جس طرح نازی کر رہے تھے، وہی طریقہ سوویت کا تھا۔ یعنی غیرمعیار سائنس۔ 1928 میں لایسینکو نے خود کو اور اپنے سوویت افسران کو قائل کر لیا تھا کہ فصلوں کو بھی خاصیتیں سکھائی جا سکتی ہیں۔ “جیننات پرستوں نے جین کا تصور گھڑا ہے تا کہ لڑکھڑاتی ہوئی اور قریب المرگ بورژوا سائنس کو سہارا دیا جا سکے۔ یہ سب فراڈ ہے”۔
لائسنکو کی تھیوری سوویت سیاسی ایجنڈا سے مطابقت رکھتی تھی۔ چاول اور گندم کی شاک تھراپی کے ذریعے تربیت کی جا سکتی ہے تو سوویت عوام کی بھی کی جا سکتی ہے اور سیاسی مخالفین کو بھی شاک تھراپی سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
نازی اور سوویت ایک دوسرے کے بالکل مخالف سمت میں تھے۔ نازی نظریے کے مطابق جین قسمت تھی۔ ایک خانہ بدوش ایک خانہ بدوش ہی ہے۔ سوویت کے مطابق سب کچھ پروگرام ہو سکتا ہے۔ ہر شناخت مٹائی جا سکتی ہے اور شخصیت بدلی جا سکتی ہے۔ “ہر کوئی کچھ بھی بن سکتا ہے”۔
ڈارون اور مینڈیل سوویت یونین میں ممنوع قرار پائے۔ لائسنکو کی مخالفت کرنے والے سوویت سائنسدانوں کو قید خانوں میں بھیج دیا گیا۔ عظیم سوویت ماہرِ جینیات نکولائی واویلوف کو بدنامِ زمانہ ساراٹوف جیل میں پھینک دیا گیا۔ ان پر بائیولوجی میں بورژوا نظریات پھیلانے کا الزام لگا۔ ان کا انتقال وہیں پر ہوا۔
نازی ازم اور لائسنکوازم کی بنیاد حیاتیاتی وراثت کے قوانین پر تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے 180 درجے کی مخلافت پر تھی۔ دونوں میں انسانی شناخت کو اپنی مرضی کے سیاسی ایجنڈا میں شامل کیا گیا تھا۔ جین اور وراثت کا تعلق ریاست اور ترقی سے بتایا گیا تھا۔ سب کچھ وراثت ہے، نازی ازم کا مرکزی خیال تھا۔ سب کچھ متایا جا سکتا ہے، سوویت ریاست کا مرکزی خیال تھا۔ ریاستی جبر کے نظاموں کو اپنی مرضی کی سائنس سے سہارا دیا گیا۔ بیسویں صدی کے وسط میں جین ۔۔۔ یا اس کا انکار ۔۔۔۔ اہم سیاسی اور کلچرل آلہ تھا۔ یہ تاریخ کا خطرناک ترین خیال تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نازی ازم کا سب سے بدنامِ زمانہ کیمپ آشوٹز میں دس لاکھ یہودیوں، پولش، جپسی اور سیاسی قیدیوں کو مارا گیا۔ 27 جنوری 1945 کو سوویت ریڈ آرمی یہاں تک پہنچ چکی تھی۔ سات ہزار قیدی رہا کروائے جا سکے۔ یہاں پر مارے جانے والے اور دفن ہونے والوں کے مقابلے میں بہت قلیل تعداد زندہ بچی۔ اس وقت تک یوجینکس ایک قابلِ نفرت لفظ بن چکا تھا۔ نازی جینیات انسانیت پر ایک گہرے زخم کا نشان تھی۔ نازیوں کی سائنس میں آخری شرکت یوجینکس کو شرم کی علامت بنا دینا تھا۔ ان کا پروگرام دنیا بھر کے لئے اور آنے والے وقتوں کیلئے سبق آموز تھا۔ امریکہ میں یوج