پہلے پہل انسان صبح سویرے فیس بک یا واٹس ایپ کھول کر نئی نئی پوسٹس سے محظوظ ہوتا تھا لیکن اب عالمی وبا(Pandemic)کی زیاں کاری کی پوسٹس پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔ہر روز کسی نہ کسی انسانی جان کی ختم ہونے کی خبر دل دُکھا دیتی ہے۔آج جب فیس بک اوپن کیا تو معروف ادیب ڈاکٹر ایم۔اے۔حق(رانچی)کی وفات کی اطلاع سے دل مسوس ہوکر رہ گیا۔کسی بھی انسان کی موت سے ویسے بھی دل رنجیدہ ہوتا ہے تاہم جن لوگوں کے ساتھ تعلقات یا جان پہچان ہوتی ہے‘ان کی موت کچھ زیادہ ہی غم گین کردیتی ہے۔ایم۔اے۔حق وکالت کے پیشہ سے وابسطہ تھے۔ کئی بار فون پر بتایا کہ دہلی میں کئی کشمیری لوگوں کے کیس کی وکالت کرتے ہوئے انہیں انصاف دلایا‘اس لئے دل مطمئن ہے کہ کشمیر کے لئے کچھ کررہا ہوں۔اونچی اڑان کے مصنف نے آج زندگی سے ایسی لمبی اڑان بھری کہ بس اب یادیں اور ادبی سرمایہ۔ اللہ مغفرت فرمائے۔
ڈاکٹرایم۔اے۔حق(1950-2021ء) ادبی دنیا میں افسانچہ نگاری کی بدولت اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوئے۔ان کی شخصیت اور افسانچہ نگاری پر ایک کتاب”ڈاکٹر ایم اے حق اور افسانچہ نگاری کا فن(مرتب:پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی)‘ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی نے2012ء میں شائع کی تھی۔ میں سمجھتا ہوں فن افسانچہ نگاری کو سمجھنے کے لئے یہ کتاب بڑی اہم ہے کیونکہ اس میں کئی اہم ادباء اور ناقدین نے ایم اے حق کی افسانچہ نگاری کے ساتھ ساتھ فن افسانچہ نگاری پر بھی اچھی گفتگو کی ہے۔پروفیسر اسلم جمشید پوری کی یہ بات بڑی اہم ہے کہ”بہترین افسانچے وہی لکھ سکتا ہے جو افسانے کے اسرار ورموز سے واقف ہو۔“افسانچہ لکھنے کے دوران کسی بھی خیال‘واقعہ یا موضوع کوآزاد فکری تلازمہ(Free association of thoughts)کی تکنیک کے تخلیقی اظہار اور فنی ہنرمندی کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے نہیں تو وہ ایک قسم کی اخباری سرخی یا سطحی قسم کا واقعاتی بیان ہی بن جائے گا۔ افسانچہ لکھنا مہارت کافن ہے کیونکہ لکھنے کے دوران صرف خیال ہی پیش کرنانہیں ہوتا ہے بلکہ اس کی بنت کاری میں فنی ہنرمندی کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے۔(خیر یہ ایک طویل بحث ہے)۔ اس تناظر میں دیکھیں توڈاکٹر ایم اے حق کے بیشترافسانچے خیال آفرینی(Fancy)کے ساتھ ساتھ ماہرانہ ہنرمندی(Artistic skillfulness) کی اچھی عکاسی کرتے ہیں۔ان کے جوافسانچے ادب اطفال کے زمرے میں آتے ہیں ' ان کی قرات سے ظاہر ہے کہ وہ زیادہ تر اخلاقیات(Morality)کے حامل ہوتے ہیں۔'یعنی مجموعی طور پر قارئین اور خصوصا بچوں کی اخلاقی ذہن سازی۔ ایسا ہونا بھی چاہئے کیونکہ نفسیاتی تعلیم(Psyco – education)کے پیش نظر بچوں کی کردار سازی میں سماجی ماحول اور اور علمی وادبی تعلیم و تربیت اہم رول ادا کرتی ہے تو ایم۔اے حق کے افسانچوں میں اخلاقیات(Morality) کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے کیونکہ ان میں اس قسم کے خیالات واقعات کو مختصر ترین کہانیوں میں پیش کیا گیا ہے کہ افسانچہ اپنا اخلاقی تاثر چھوڑنے میں کامیاب نظر آتا ہے۔اس میں ان کی نئی کتاب”اونچی اڑان…افسانچہ اطفال“ میں شامل کئی افسانچوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔جیسے''اخلاق''''سزا''''احتیاط''وغیرہ۔افسانچہ ''اخلاق'' ایک معیاری افسانچہ ہے کیونکہ اس کا متن خیال اور کہانی کے تخلیقی بیانیہ پر خلق ہوا ہے ا ورپیامی سطح پر اچھا اخلاقی تاثر چھوڑ رہا ہے۔ افسانچے میں بس میں سفر کے دوران ایک طالب علم اقبال کا اخلاقی مظاہرہ اور ایک ادھیڑ عمر کلرک کا متاثر ہو کر اخلاقی رویہ (Moral attitude) کی دلچسپ واقعہ نما کہانی پیش ہوئی ہے۔ اقبال ادھیڑ عمر آدمی کو انسانی ہمدردی کے طور پر اپنی سیٹ پر بٹھاتا ہے۔ اس طرح ایک تو وہ اخلاق کا مظاہرہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس کے ایڈمیشن کا مسئلہ بھی حال ہوجاتا ہے۔ کیونکہ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ ادھیڑ عمر شخص اسی کالج میں کلرک ہے جہاں پر اقبال اپنا ایڈمیشن کروانا چاہتا ہے اور کلرک اسے یقین دلاتا ہے کہ آپ کا ایڈمیشن ہوجائے گا۔ اس کتاب ''افسانچہ اطفال'' کے بیشتر افسانچے اخلاق سازی کی عمدہ عکاسی کرتے ہیں۔ایک طرح سے جس مقصد کے لئے کتاب لکھی گئی ہے وہ اس کو پورا کرنے میں کامیاب ہے۔ایم۔اے۔حق کے بیشتر افسانچے خیال آفرینی کے ساتھ ساتھ ماہرانہ ہنرمندی(Artistic skillfulness)کی اچھی تخلیقی عکاسی کرتے ہیں۔دراصل جب تخلیق میں آرٹ نہ ہو تو وہ تحریر کی ہی ایک صورت ہوکر رہ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ شامل کتاب دوسرے افسانچوں کے متنوع مضوعات پر بھی بات کرنی ضروری سمجھتا ہوں تاکہ پوری کتاب کا احاطہ ہوجا ئے تاہم وہ بعد میں ایک مضمون کی صورت میں ہوگی۔ (ان شاء اللہ)