(Last Updated On: )
پہلے فرغل اُترا۔ پھر صدریپھر کرتا اُتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ کچھ عرصہ بعد پاجامہ گیا۔اب صرف زیر ِ جامہ رہ گیا۔ یعنی نیکر وہ جو اُردو کو انگریزی حروفِ تہجی میں لکھنے پر مُصر ہیں یعنی رومن اُردو وہ اس نیکر کو بھی اُتارنے پر تُلے ہوئے ہیں۔
خدا کے بندو رحم کرو اُردو پر رحم نہیں کرتے تو قوم پر رحم کرو۔ کم از کم اپنے آپ پر تو کرو۔ اُن سے عبرت پکڑو جو تمہارے شمال میں ہیں اور تمارے شمال مغرب میں ہیں۔ اپنے آپ کو بے برگ و یار کیوں کرتے ہو؟ اپنی ٹہنیاں اپنے ہاتھوں سے کیوں کاٹتے ہو۔انہی ٹہنیوں پر تو تمہارے آشیانے ہیں۔ اپنے آشیانے اپنے ہاتھوں سے نہ اُجاڑو۔ اپنے بچوں کو‘ اپنی آنے والی نسلوں کو یوں بے گھر نہ کرو۔ حروفِ تہجی تمہارا گھر ہیں۔ سکرپٹ ہی تو ایک قوم کی پہچان ہوتی ہے۔ آج تاشقند اور دو شنبہ‘ خجند اوربخا را‘ سمر قند اور استانبول‘ باکو اور قوینہ کے رہنے والے اپنے اجداد کی قبروں پر لکھے ہوئے کتبے تک نہیں پڑھ سکتے۔ وہ تو مجبور تھے،مقہور اور معتوب تھے۔ لینن اور سٹالن نے ان کی گردنوں پر پاؤں رکھے۔ کمال اتاترک کی خدمات بہت۔ گیلی پولی کا معرکہ اس کے سر کا تاج ہے تاہم جدیدیت کی دُھن میں اس نے حکماً اور جبراً‘ رسم الخط بدل دیا۔ مگر تمہیں کیا مجبوری ہے؟ تم پر تو کوئی جبر نہیں۔ استعمار ہے نہ حکومت کا حکم۔ پھر یہ اِی میلوں میں‘ وٹس ایپ پر‘ ایس ایم ایس میں‘ ٹوئٹر اور فیس بک پر‘ اُردو کو انگریزی حروف میں کیوں لکھ رہے ہو؟ تن پر جو یہ زیر ِجامہ‘ یہ نیکر رہ گئی ہے‘ اُسے اُتارنے پر کیوں ضد کر رہے ہو؟ کیا برہنہ ہونا چاہتے ہو؟ کیا الف ننگا ہونے کا ارادہ ہے؟ کیا اپنے مستقبل کو بے چہرہ کرنا چاہتے ہو؟ غلط کر رہے ہو۔ کا ش کوئی تمہیں روکے جسے تم سرسری سمجھتے ہو‘ یہ پختہ ہوتا جا رہا ہے۔ جسے تم Casualکہہ رہے ہو یہ تمہاری عادت بنتی جا رہی ہے۔
کیا کہا؟ انگریزی استعمار کی مہربانی تھی کہ اُنہوں نے رسم الخط نہ بدلا؟ کیا کہہ رہے ہو کہ وہ رُوسی استعمار سے بہتر تھے؟ کہاں بہتر تھے؟ روسیوں نے ترکستان کی زبان نہیں بدلی صرف رسم الخط بدلا۔ انگریزوں نے تو تمہاری زبان ہی چھین لی۔ فارسی اور اُردو کی جگہ انگریزی مسلّط کی۔ راتوں رات تمہارے سکالر‘ ناخواندہ ہو گئے۔ تمہارے علما پر فرسودگی کی چادر تن گئی۔ تم اعلیٰ تعلیم یافتہ سے ایک جاہل قوم بن گئے۔ یہی وہ چاہتے تھے۔ یہی میکالے کا خواب تھا۔ یہی ولزلے اور کرزن کی تدبیر تھی۔ بیک جنبشِ قلم انہوں نے تمہیں تمہارے آٹھ سو سالہ ورثے سے محروم کر دیا۔ آج تم اپنے ماضی کے بغیر ہو۔ آج تم اپنی زبان کو ولی دکنی سے شروع کرتے ہو حالانکہ اس دیار میں تم اس سے سینکڑوں برس پہلے آ چکے تھے۔ حکومت تمہاری تھی۔ 1200ء سے بہت پہلے تمہاری راجدھانیاں یہاں قائم ہو چکی تھیں۔ یہ اور بات کہ پہلا سلطان‘ قطب الدین ایبک 1208ء میں دہلی کے تخت پر بیٹھا۔
انگریزی استعمار نے تمہارا رسم الخط بدلا‘ بازو کاٹنے کی کیا ضرورت تھی۔ چھرا تو گردن پر چلانا تھا۔ تمہاری زبان چھین لی۔ آج تمہارے بچوں کو اُس ادب کا‘ اُس ثقافت کا‘ اس تہذیب کا‘ اس علمی سرمائے کا کچھ پتہ نہیں جو گیارہویں صدی عیسوی سے لے کر اَٹھارہویں صدی عیسوی تک پیدا کیا گیا۔ بیدل کے وہ نام سے ناآشنا ہیں۔ فیضی اور ابوالفضل کون تھے‘ ان کی شہرئہ آفاق تصانیف کون کون سی ہیں‘ کچھ پتہ نہیں اَمیر خسرو کا تعارف موسیقی کے حوالے سے ہے۔ اللہ اللہ ان کا خمسہ‘ جس نے وسط ایشیا اور ایران میں تہلکہ برپا کر دیا اور جو مدرسوں‘ مکتبوں‘ یونیورسٹیوں‘ خانقاہوں اور درباروں میں صدیوں پڑھا پڑھایا گیا‘ آج اپنے ہی دیس میں نامعلوم کا درجہ رکھتا ہے۔ نظیری‘ صائب‘ طالب آملی‘ ابو طالب کلیم کو تو چھوڑیئے‘ وہ جو یہاں پیدا ہوئے۔ یہیں مرے‘ یہیں دفن ہوئے‘ انہیں بھی کوئی نہیں جانتا۔ غالب کا فارسی کلام کسی کو نہیں معلوم۔ وہ جو اُردو پڑھا رہے ہیں‘ وہ بھی اس سے بے خبر ہیں۔ اقبالؔ کے کلام کا80 فی صد حصّہ اُس ملک میں اجنبی ہے جس ملک کا خواب اقبال ہی نے دیکھا تھا۔ کوئی پوچھے کہ کیا قلی قطب شاہ اور ولی دکنی سے پہلے تم لوگ اَن پڑھ تھے، جاہل تھے، گوشت کچّا کھاتے تھے،جسم پر پتے لپیٹتے تھے،غاروں میں رہتے تھے،تو کیا جواب دو گے؟
کیا چال تھی استعمار کی۔ آ کر‘ محکوموں کی نفسیات سمجھنے کیلئے پہلے اُن کی زبانیں پڑھیں۔ فارسی سیکھی‘ اُردو پڑھی۔ سنسکرت کے عالم بنے۔ کئی تو ہفت زبان تھے۔ مگر تمہارے جسم سے لباس اُتار گئے۔ تمہارا ماضی تار تار کر کے کچرے میں پھینک گئے۔ تمہارا حال بے حال کر گئے۔
چلو،مانا۔ زمانہ آگے بڑھ رہا ہے۔ پہلے پوسٹ کارڈ ختم ہوا۔ پھر وہ خط جو لفافے میں بند ہوتا تھا۔ عید کارڈ ماضی کا قصّہ بن گئے۔ شادی کے دعوتی کارڈ چند دنوں کے مہمان ہیں۔ مانا یہ سوشل میڈیا کا عہد ہے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ لمبے چوڑے القابات‘ ضروری نہیں’بحضور فیض گنجور قبلہ و کعبہ استاد گرامی مدظلم العالی‘ لکھنے کی اب فرصت ہے نہ حاجت۔اِی میل اور وٹس ایپ نے ابتدائیہ بھی اُڑا دیا اور خط کا اختتامیہ بھی منسوخ کر دیا۔ اب کوئی نہیں لکھتا کہ ’جناب کا نیاز مند‘ طالبِ دُعا‘مگر سوشل میڈیا پر اپنی زبان کو تو نہ چھوڑو۔ اپنے رسم الخط کو اپنے ہا تھوں گڑھا کھود کر دفن تو نہ کرو۔ پوری عرب دنیا سوشل میڈیا اپنی زبان میں برت رہی ہے۔ پورا ایران اِی میل اپنے رسم الخط میں لکھ رہا ہے۔ اطالوی‘ المانوی‘ پرتگالی‘ روسی‘ کسی نے زبان چھوڑی نہ سوشل میڈیا پر اپنا رسم الخط ترک کیا۔ تم ہو کہ اُردو‘ انگریزی حروف میں لکھتے ہو۔ پڑھنے والا اذیت میں مبتلا ہوتا ہے۔ لکھتے وقت تم خود ایک بلائے بے درماں سے گزرتے ہو۔ اُسی ’کی بورڈ‘ پر اُردو کے حروف تہجی موجود ہیں مگر تم رومن اُردو لکھ کر تیتر رہتے ہو نہ بٹیر۔ نشانِ عبرت بن جاتے ہو اور افسوس۔ احساس تک نہیں ہوتا کہ اپنی تضحیک خود کر رہے ہو۔
دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے سے لے کر آج تک جاپان کا امریکیوں سے گہرا تعلق ہے۔ پہلے زیرِدست رہے۔ پھر ٹیکنالوجی کی بساط بچھا کر غلبہ حاصل کر لیا۔ مگر ستر اسی سالہ رسم و رَاہ کے باوجود اپنا رسم الخط نہ چھوڑا۔ یہی عزمِ صمیم چین کوریا اور تھائی لینڈ کا رہا۔ بنگالیوں نے اپنی زبان‘ اپنے سکرپٹ کی خاطر زندگیاں قربان کر دیں۔ وطن الگ کر لیا‘ تمہیں ہوش ہے نہ فکر۔
یہی لیل و نہار رہے اور یہی طور اَطوار رہے تو کل‘ کیا عجب‘ غالبؔ اور اقبالؔ کا اُردو کلام پڑھنے سے بھی جائو فیضؔ‘ مجیدؔ امجد‘ پطرسؔ بخاری‘ مشتاق احمد یوسفی‘ شفیق الرحمن‘ منیرؔ نیازی‘ جون ایلیا‘ احمد ندیم قاسمی سب تمہارے لیے ایسے ہی ہو جائیں گے‘ جیسے ترکستانیوں کے لیے آج علی شیرنوائی‘ جامی‘ نظامی اور بو علی سینا ہیں۔ پھر یہ زیر جامہ بھی اُتر چکا ہوگا۔ تو پھر کیا جنگلوں میں بسیرا کرو گے؟
تمہارے پاس تو کوئی اَردوان بھی نہ ہوگا۔ اَردوان نے کوشش کی ہے کہ ترکی کو اپنا کھویا ہوا رَسم الخط واپس مل جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ اپنے بزرگوں کے مزاروں پر لگے ہوئے وہ کتبے تو پڑھنے کے قابل ہو جائو‘ جنہیں دیکھنے کیلئے کرئہ ارض سے سیاح اُمڈے چلے آتے ہیں۔ مگر پورا مغرب خم ٹھونک کر کھڑا ہو گیا کہ یہ تو عثمانی عہد واپس لانا چاہتے ہیں یہ تو آٹو من رَسم الخط دوبارہ’مسلّط‘ کرنا چاہتے ہیں۔کیا عجب اَردوان کامیاب ہوجائے۔ مگر تم نے ایک بار اپنا رسم ا لخط کھو دیا تو یاد رکھو تمہارے حکمرانوں میں تو اتنا ادراک ہی نہیں کہ ایسے تہذیبی اور ثقافتی مسائل کی تفہیم کر سکیں۔ جو صرف دولت کے انبار اکٹھے کرنا جانتے ہوں یا صرف انتقام لینا‘ وہ رسم الخط یا زبان کی اہمیت کیا سمجھیں گے۔
بیرون ملک جاتے ہیں تو تارکین ِوطن کے بچوں کی حالتِ زار دیکھ کر رونا آتا ہے۔ اپنے حروف سے ناآشنا۔ اپنی زبان سے دُور۔ کئی حساس ماں باپ وہاں کُڑھتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ بچے اپنی زبان اپنے رسم الخط سے مربوط رہیں مگر بس نہیں چلتا۔ دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ تم تو اپنے وطن میں ہو۔ تمہیں کیا مجبوری ہے کہ رومن اُردو کو فروغ دے رہے ہو ،عبرت پکڑو اُن نسلوں سے جو آج مجہول النسب ہیں۔ ورنہ تم بھی بے نام و نشان ہو جائو گے۔
٭٭٭
اظہار الحق
اظہار الحق