آج اتفاق سے برنس روڈ کے مشہورِ عالم "وحید کباب ہاؤس" میں دوپہر کا کھانا کھانے چلے گئے۔ ان دنوں کووڈ-19 کی SOPs کے مطابق Dine in یعنی ریسٹورنٹ کے اندونی حصے میں تو کھانا کھانے پر پابندی عائد ہے، اس لیے ریسٹورنٹ کی میز، کرسیاں ریسٹورنٹ کے سامنے والے فُٹ پاتھ پر اور ملحق سڑک کے کنارے لگی ہوئی تھیں، جس پر ماشاء اللّلہ معقول تعداد میں مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں اور سڑک کے دوسرے کنارے پر گٹر سے آہستہ آہستہ ابلتا ہوا سیوریج کا پانی بھی رواں دواں تھا اور اُس کے پانی بہنے کی مترنم آواز کیفی اعظمی کے مندرجہ ذیل مشہور نغمے کا شعر گنگناتے ہوئے محسوس ہو رہی تھی؛
دھیرے دھیرے مچل اے دلِ بیقرار
کوئی آتا ہے۔۔۔
یوں تڑپ کے نہ تڑپا مجھے بار بار
کوئی آتا ہے۔۔۔
داد دیجیئے ہمارے حوصلے اور چٹورپن کی عادت کو کہ اس شاندار ماحول اور شدید گرمی کے باوجود بھی ہم ہمت نہ ہارے اور اپنے سب سنگی ساتھیوں کے ساتھ مکھیاں اڑاتے ہوئے، دھول سے اٹی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بقول ہمارے عزیز دوست مرزا کہ؛
"اماں یار کرسیاں تو تمہاری پتلون کے پچھواڑے سے صاف ہو ہی جاتی ہیں، میز پر ہوٹل کے بیرے سے کپڑا پِھروا لو۔۔۔ اس شہر میں کھانے پینے کی اشیاء اس طرح کے حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق کسی بھی وقت بلا خوف و خطر تناول کی جا سکتی ہیں"
اور جہاں تک بات ہے حوصلے اور چٹور پن کی تو "وحید کباب ہاؤس" خاص طور پر ایک تاریخی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ غالباََ یہ 1970 کی دہائی کی بات ہے کہ کراچی کے سب سے مقبول روزنامے میں چار کالمی باتصویر خبر شائع ہوئی تھی کہ کراچی کے ایک مشہور کباب فروش کو اپنے کبابوں کے لیے گدھے کا گوشت استعمال کرتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا۔ مزید براں اُس خبر کے ساتھ جو تصویر شائع ہوئی تھی وہ مالک کی گرفتاری کے منظر کی نہ تھی بلکہ ایک ذبح کیے ہوئے گدھے کی تھی۔ اس خبر کے چَھپنے کے بعد مرزا کا خیال تھا کہ اب "وحید میاں" کو اپنی دکان بڑھا دینی پڑے گی۔ لیکن میرے دیس میں ایسے واقعات میں جو معجزاتی کرشمے ہوتے ہیں اُس کے تحت بہت جلد ہی اس ریسٹورنٹ کے مالک رہائی پا گئے اور ان کا ریسٹورنٹ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی بھی کرتا رہا اور ہم بھی اسی طرح دھاگہ کباب کھاتے رہے اور دھاگے سے قیمہ الگ کرنے کی مشق بھی بدستور جاری رہی۔ بقول حسرت موہانی کہ؛
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی
"وحید" کے گرما گرم لذیذ دھاگہ کباب نوش کرتے ہوئے اچانک ہماری نظر ان دو بینروں پر پڑی جس کی عبارت آپ بھی غور سے پڑھیے۔
پانچ سو فٹ، پندرہ انچ قطر کی سیوریج لائن ڈالنے کے عظیم کارنامے کو سرانجام دینے کے لیے وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے لے کر مقامی و صوبائی اسمبلی کے رکن تک کو اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر کتنی سخت محنت کرنی پڑی۔
آج کے سِوِل سُپرمیسی کے نعرے کی اوٹ میں سیاستدان ہماری افواج سے یہ درخواست کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ فوج کو اپنا کام کرنا چاہیے، دوسروں کے کام میں ٹانگ نہیں اَڑانی چاہیے۔ اب یہ دیکھیے قومی اور صوبائی اسمبلی قانون ساز ادارے ہیں۔ ان کا کسی ایک چھوٹے سے محلّے یا بستی کی سیوریج لائن سے کیا تعلق۔ یہ تو بنیادی طور پر شہر کے بلدیاتی ادارے کا کام ہے جس کی نگرانی زیادہ سے زیادہ اس علاقے کا منتخب کونسلر کر سکتا ہے۔
"پانچ سو فٹ، پندرہ انچ قطر" کیا ہے؟
پانچ سو فٹ تو سیوریج لائن کے پائپ کی لمبائی ہے اور پندرہ انچ قطر کا مطلب یہ ہے کہ پائپ پندرہ انچ موٹا ہے۔ اس مملکتِ خداداد میں وزیراعظم سے لے کر عام آدمی تک کو لمبائی اور موٹائی کی بہت فکر رہتی ہے، خواہ وہ سیوریج لائن ہو یا انسانی بدن کا کوئی عضو۔ انسانی بدن کے عضو کی لمبائی اور موٹائی کی تو وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو خاص طور پر بہت فکر لاحق رہتی ہے۔ اس بات کا ذکر خصوصی طور پر ان کی سابقہ بیگم ریحام خان نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے۔ البتہ یہ بات دیگر ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی حرکتوں سے پورے مُلک کو ہی سیوریج لائن میں تبدیل کر دیا ہے اور اب لگتا ہے کہ یہ اپنی حکمرانی کے خاتمے کے بعد تاریخ کے اُبلتے ہوئے گٹر میں گر کر اس سیوریج لائن کا ہی حصہ بن جائیں گے۔
ارے چھوڑئیے تاریخ کی آگاہی کو ہم اُس وقت حیرتوں کے سمندر میں ڈوب گئے جب کھانے سے فارغ ہوئے تو ہوٹل کے بیرے نے باقاعدہ ہاتھ پونچھنے کے لیے گلابی رنگ کے ٹِشو پیپرز لاکر رکھ دیے کیونکہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ کچھ زمانے پہلے تک یہاں ہاتھ پونچھنے کے لیے پرانے اخبار کا ٹکڑا پیش کیا جاتا تھا جس سے ہاتھ صاف کرتے وقت اخباری تحریر کی سیاہی بھی ہاتھوں پر منتقل ہو جاتی تھی۔ کچھ بھی ہو ہم پھر بھی کبابوں پر تو ہاتھ صاف کرچکے ہوتے تھے۔
“