اشارے پر ٹریفک رکی ہوئی تھی۔میرے ساتھ گاڑی میں دیرینہ دوست شوکت صاحب تشریف فرما تھے اور سیٹ سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کیے قوالی سن رہے تھے۔ اچانک دھڑام کی آواز آئی اور گاڑی کو ایک جھٹکا سا لگا۔ ہم دونوں گھبرا گئے۔ نیچے اتر کر دیکھا تو پتا چلا کہ پچھلی گاڑی والے نے ٹکر دے ماری ہے جس کے نتیجے میں بمپر اور لائٹس ٹوٹ گئی ہیں۔ اتنی دیر میں گاڑی والے صاحب بھی نیچے اتر آئے۔ میں نے کچھ کہنے کی بجائے ان کے بولنے کا انتظار کیا۔ وہ قریب آئے، اپنی گاڑی کے فرنٹ کا جائزہ لیا، پھر میری طرف مڑے’جب اشارہ کھل گیا تھا تو آپ کیوں رکے ہوئے تھے؟‘۔میں بھونچکا رہ گیا۔’حضور اشارہ بند تھا‘۔ انہوں نے غصے سے مجھے گھورا، پھر شوکت صاحب کی طرف مڑے’آپ مجھے ایماندار بندے لگتے ہیں آپ بتائیں کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟‘۔ شوکت صاحب اپنی تعریف سنتے ہی خوشی سے جھوم گئے۔ جھٹ سے میری طرف مڑے’یار جب اشارہ کھلا ہو تو گاڑی نہیں روکتے‘۔ میں نے دانت پیسے’جناب عالی! یہ زرین اصول مجھے پتا ہے لیکن اشارہ بند تھا‘۔ گاڑی والے نے شوکت صاحب میں مزید ہوا بھری’محترم آپ انصاف پسند انسان لگتے ہیں وہ دیکھئے اشارہ تو کھلا ہوا ہے‘۔ شوکت صاحب نے پہلے پیچھے گردن گھمائی، پھر میری طرف مڑے’کیوں بے عزت کرواتے ہو، بھائی صاحب ٹھیک ہی تو کہہ رہے ہیں اشارہ تو کھلا ہوا ہے‘۔میں نے کھاجانے والی نظروں سے شوکت صاحب کو گھورا’جناب انصاف پسند صاحب اشارہ پانچ گھنٹے کے لیے بند نہیں ہوتا، جتنی دیر ہم یہاں کھڑے ہیں اشارے نے تو کھلنا ہی تھا لیکن یہ اُس وقت بند تھا جب انہوں نے ٹکر ماری‘۔ گاڑی والے نے میری بات سنتے ہی شوکت صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھا’محترم آپ ہی فیصلہ کردیجئے یہ تو بلاوجہ لڑنے پر آمادہ ہیں، آپ جو کہیں گے میں وہ مان لوں گا کیونکہ آپ کا چہرہ بتا رہا ہے کہ آپ نے زندگی میں کبھی غلط بات نہیں کی۔‘ شوکت صاحب کی باچھیں کھل گئیں۔جھٹ سے بولے’آپ کا کوئی قصور نہیں سارا قصور ہمارا ہے، ویری سوری، اب آپ کی گاڑی کی مرمت بھی ہم کروائیں گے‘۔
شوکت صاحب جیسے دوست وکیل ِ مخالف ہوتے ہیں۔ بھرے مجمع میں ان کی کوئی تھوڑی سی بھی تعریف کردے تو یہ مخالف کیمپ میں جابیٹھتے ہیں۔یہ انصاف اسی کو سمجھتے ہیں کہ دوست کے حق میں فیصلہ نہ دیا جائے۔یہ دوستوں کے ساتھ لڑائی بھی لڑنے چلے جائیں تو ایک موقع ایسا بھی آتا ہے جب یہ انصاف کے نام پر اپنا مکا دوست کو ہی دے مارتے ہیں۔عموماًایسے لوگ خوبصورت خواتین کو کسی صورت قصور وار نہیں سمجھتے۔ان کی آنکھوں کے سامنے کوئی خاتون کسی کو قتل بھی کردے تو ان کی پہلی دلیل یہی ہوتی ہے’کوئی وجہ تو ہوگی کہ بیچاری قتل کرنے پر مجبور ہوگئی۔‘یہ دوستوں کے ہر کام میں پیش ِپیش ہوتے ہیں لیکن سیدھے سادے کام کا بھی ایسا بیڑا غرق کرتے ہیں کہ سب کچھ برباد ہوجاتاہے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک پٹرول ڈلواتے ہوئے مجھے شک ہوا کہ پٹرول پورا نہیں ڈالا گیا۔ چیک کیا تو بات درست نکلی، پٹرول پمپ والے گڑبڑ کررہے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے کچھ کہتا، شوکت صاحب کو جوش چڑھا اور سینہ پھلا کر پٹرول ڈالنے والے سے بولے’بلاؤ اپنے مینجر کو، میں ڈی آئی جی ہوں‘۔ میں بوکھلا گیااور شوکت صاحب کے کان میں سرگوشی کی’حضرت آپ ایک آٹا چکی کے مالک ہیں‘۔ وہ بھڑک اٹھے اور غرائے’چپ رہو……ان لوگوں سے ایسے ہی بات کی جاتی ہے‘۔ تھوڑی دیر میں مینیجر صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے شوکت صاحب کے بولنے سے پہلے ہی کچھ کہنا چاہا لیکن شوکت صاحب کی گرجدار آواز گونجی’کہاں ہے اس پٹرول پمپ کا مالک، میں ڈی آئی جی ہوں، تم سب کو اندر کروا دوں گا‘۔ مینیجرنے پریشانی کے عالم میں آفر کی کہ آپ دوگنا پٹرول فری میں ڈلوا لیں لیکن بات یہیں ختم کردیں۔ میں نے بھی شوکت صاحب کو اشارہ کیا کہ یہ پیشکش مناسب ہے۔لیکن شوکت صاحب پورے ڈی آئی جی بنے ہوئے تھے۔ پورے رعب سے بولے’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، فوراً اپنے مالک کو بلاؤ ورنہ میں ابھی تمہارا پمپ بند کرواتا ہوں‘۔ مینیجر پریشانی کے عالم میں اپنے کیبن کی طرف بھاگا۔ شوکت صاحب نے مجھے آنکھ ماری’آج ٹینکی فل کروا کے دکھاؤں تو مانوگے کہ بابا بڑی چیز ہے؟‘۔میں نے بے چینی سے اِدھر اُدھر دیکھا۔ رش بڑھتا جارہاتھا۔ لوگ تماشا دیکھنے کے لیے بے چین تھے۔میں نے شوکت صاحب کا ہاتھ دبایا’قبلہ گولی ماریں ٹینکی فل کروانے کو،دوگنا پٹرول ڈلواتے ہیں اور چلتے ہیں۔‘ لیکن شوکت صاحب ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں مینجر ہانپتا ہوا واپس آیا’سر! ہمارے مالک آرہے ہیں، بس پانچ منٹ لگیں گے‘۔ شوکت صاحب نے مونچھوں کو تاؤ دیا اور مجمع کی طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھا۔میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں؟ شوکت صاحب ایک ضدی انسان تھے اور لگ رہا تھا کہ وہ تماشا لمبا کرنے کے چکر میں ہیں۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی، ریکارڈنگ لیٹ ہورہی تھی اور لگ رہا تھا کہ ابھی مزید وقت لگے گا۔تھوڑی دیر میں پولیس کی چار پانچ گاڑیاں ہوٹر بجاتی ہوئی پاس آکر رک گئیں۔ ایک گاڑی آٹھ دس پولیس والے ہماری طرف بڑھے اور مینجر کی طرف دیکھا، مینیجر نے شوکت صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ تھانیدار قریب آیا اور شوکت صاحب سے مخاطب ہوا’سر آپ ہیں ڈی آئی جی صاحب؟‘۔ شوکت صاحب کو دندل پڑ گئی۔بولنے کی کوشش کی لیکن الفاظ حلق میں پھنس گئے، بمشکل اثبات میں سر ہلایا۔ تھانیدار نے ہاتھ آگے کیا’بہت خوشی ہوئی، اس پٹرول پمپ کے مالک بھی ڈی آئی صاحب ہیں، آئیے تشریف لائیے آپ کو ان سے ملواتے ہیں۔‘ شوکت صاحب کچھ دیر بت کی طرح ساکت کھڑے رہے، ایک طائرانہ نظر ہجوم پر ڈالی، مونچھوں کو تاؤ دیا،گہری سانس لی اور ایس ایچ او کے کے قدموں میں گرگئے……“
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...