(Last Updated On: )
یوں تو پنہاں ہے زمانوں کا فسانہ مجھ میں
پر نئے رنگ سے کُھلتا ہے پرانا مجھ میں
یہ ترا ظرف ہے یوں مجھ میں سمٹ کر رہنا
اپنے ہونے کے سبھی راز چھپانا مجھ میں
اک تذبذب ہے مری ذات کے معمار یہ فن
عقل اور عشق میں دیوار اٹھانا مجھ میں
کچھ تو محظوظ رہیں شہرِ تخیل کے مکیں
دوستو! کوچہ و بازار سجانا مجھ میں
میں کہ صحرا ہوں، بہت دور اتھاہ تک پیاسا
تم تو دریا ہو کہیں ڈوب نہ جانا مجھ میں
وہ جو اُس شام ترے رخ نے فروزاں کی تھی
پھر وہی آگ کسی روز جلانا مجھ میں
چند لمحوں کی ملاقات ہے پر لگتا ہے
آپ نے جیسے گزارا ہو زمانہ مجھ میں