(Last Updated On: )
بتاں کے عشق نے بے اختیار کر ڈالا وہ دل کہ جس کا خدائی میں اختیار رہا وہ دل کہ شام و سحر جیسے پکا پھوڑا تھا وہ دل کہ جس سے ہمیشہ جگر فگار رہا تمام عمر گئی اُس پہ ہاتھ رکھتے ہمیں وہ دردناک علی الرغم بے قرار رہا ستم میں غم میں سرانجام اس کا کیا کہیے ہزاروں حسرتیں تھیں تس پہ جی کو مار رہا بہا تو خون ہو آنکھوں کی راہ بہ نکلا رہا جو سینۂ سوزاں میں داغ دار رہا سو اُس کو ہم سے فراموش کار یوں لے گئے کہ اُس سے قطرۂ خوں بھی نہ یادگار رہا گلی میں اُس کی گیا سو گیا نہ بولا گیا میں میرؔ میرؔ کر اُس کو بہت پکار گیا