” اس سے ریکوئسٹ کرنے کہ تمھیں ڈائیورس دے دے۔۔”
سعدیہ نے دھیمے سروں میں مجرموں سا اعتراف کیا۔
زید کو لگا وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گا۔
اسنے بے اختیار غیر محسوس انداز میں ساتھ موجود ٹیبل تھامی، آنکھوں میں بے یقینی کا سرخ جال ابھرا۔
مام ایسا کیسے کر سکتی تھیں اسکے ساتھ؟
ڈیڑھ ہفتے پہلے منیزے کا سامنا ہونے پر اسنے سوچا تھا کہ نجانے یہ ملاقات انکی کہانی کا اختتامیہ تھی یا کسی نئے قصے کا آغاز۔
تو وہ اختتام تھا۔ کہانی کا آخری باب۔
سعدیہ نے جھکی پلکوں سے اعتراف جرم کر کے نظریں اٹھائیں تو بیٹے کی شکل دیکھ کر انکا دل کانپا، انھیں لگا وہ چہرہ ان کے عین سامنے زندگی کی ہر رمق کھو کر بے جان ہو جائے گا۔
” زید، اسنے منع کر دیا۔۔ اسنے کہا میں اس سے وہ نہ مانگوں جو وہ نہیں دے سکتی۔ میری بات سن کر اسکا چہرہ بھی ایسے ہی پھیکا پڑا تھا۔۔”
وہ متحوش سی اسکی طرف کہتی بڑھیں، اسکا بازو تھاما۔
وہ آدھی بات سن کر زندہ سے مردہ لگنے لگا تھا۔
وہ انکی طرف دیکھ ہی نہیں رہا تھا۔
گرنے کے سے انداز میں وہ اپنے پیچھے پڑی کرسی پر ہارا ہوا سا بیٹھا۔
” وہ تمھیں نہیں چھوڑ رہی۔۔ یہاں دیکھو۔۔ آئی ایم سوری۔ مجھے نہیں کرنا چاہیے تھا، میں تمھیں ایسے نہیں دیکھ سکتی، میں تمھیں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتی ہوں۔۔ میں چاہتی ہوں تم خوش رہو۔۔”
وہ بھی اسکے قدموں میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں۔
” آپ نے جو کیا ہے مجھے لگ رہا ہے آپ چاہتی ہیں میں رہوں ہی نہ۔۔”
اسنے ہاتھوں میں دیا سر اٹھایا۔ آواز میں ماں کے لئے کس قدر مایوسی تھی۔
” ایسا مت کہو۔۔ میں غلط تھی۔۔ وہ بہت محبت کرتی ہے تم سے۔۔ شاید اتنی جتنی تم کرتے ہو”
اسکی آواز نے اندر بہت کچھ چیرا تھا۔ وہ اپنی غلطی کا مسلسل اعتراف کرتیں اسکے دونوں ہاتھ تھام گئیں۔
” آپ کو ان سے کانٹیکٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔ میں نے وعدہ کیا تھا انھیں۔۔”
بہت وقت تک سر جھکائے خاموش بیٹھے ماں کی خود پر منتظر نظروں کو نظر انداز کرنے کے بعد اسنے سرگوشی نما انداز میں ذرا سر اٹھا کر سعدیہ کو دیکھتے کہا۔
انکے پہلے جملے کے اثر سے نکلنے اور یہ یقین کرنے میں کہ منیزے اسے نہیں چھوڑ رہی اسے وقت لگا تھا۔
” اسے منا لو زید۔۔ اپنی زندگی میں واپس لے آو۔۔ وہ آجائے گی، وہ یہیں ہے، جاو مل لو اس سے”
سعدیہ نے اسکے ہاتھوں کو مزید دباتے کہا۔
انھیں گزرے ماہ و سال جو بات نہیں سمجھا پائے تھے زید کے چہرے پر آیا ایک زلزلہ سمجھا گیا۔
منیزے کے بغیر وہ زندگی کی گاڑی کھینچ تو سکتا تھا پر زندہ نہیں رہ سکتا تھا۔
وہ ماں تھیں انھیں اسکی خوشی سے بڑھ کر کیا ہو سکتا تھا۔
انھیں وہ لڑکی ناپسند اس لیے رہی تھی کیونکہ زید نے پہلے دن سے اسکے باعث تکلیف ہی اٹھائی تھی۔ وہ اسکے ساتھ خوش تو رہتا تھا پر ٹھیک نہیں رہتا تھا۔
وہ اسکے سامنے گھٹنے اس لیے ٹیک گئیں تھیں کیونکہ انھوں نے اس کی آنکھوں میں زید کے لیے وہ دیکھا تھا جو زید کی آنکھوں میں اس کے لیے ہمہ وقت رہتا تھا۔
” نہیں کر سکتا۔۔ وعدہ کیا تھا ان سے، انکے راستے میں دوبارہ نہیں آوں گا، کوئی رابطہ نہیں کروں گا، کبھی نہیں ملوں گا۔۔”
وہ نفی میں سر ہلاتا انکی بات کاجواب دے رہا تھا۔
” وعدہ ہی تھا صرف۔۔ ”
انھیں جھنجھلاہٹ ہوئی۔
یہ کیسا وعدہ تھا؟ انکے بیٹے کی خوشیوں سے بڑھ کر کیسے ہو سکتا تھا؟
جنھیں نبھاتے سانسوں کی ڈور ٹوٹنے لگے ایسے وعدوں کو توڑ دینا بہتر۔
” وعدہ صرف نہیں ہوتا ناں مام۔۔”
وہ اداسی سے مسکرایا۔
” وہ تب غصے میں تھی، غلط فہمیاں تھیں اسے، اسکا صدمہ بڑا تھا۔ اب حالات مختلف ہیں، تم ہاتھ بڑھاو گے تو وہ جھٹک نہیں پائے گی۔”
انھوں نے سمجھانے والے انداز میں نرمی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔
” انھوں نے سب کو بہت اچھا کنوینس کیا ہے پر میں آپ کو بتاوں وہ غصے میں نہیں تھیں، انھیں کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی تھی، انھوں نے وہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ حالات نے تو بس انھیں بہانہ تراشنے میں سہولت دی۔ وہ جذباتی ہو کر کچھ نہیں کرتی ہیں۔”
غلط فہمیاں، صدمہ، غصہ منیزے ان سب پر مبنی فیصلے لے ہی نہیں سکتی تھی۔ اسکا غیر جذباتی ہوکر سوچنا ہی تو زید کو کے ڈوبا تھا۔
وہ وجہ نہیں جانتا تھا پر اسکے ٹھاٹ پروسیس thought process سے واقف تھا۔
” تو تم نے تب کچھ کہا کیوں نہیں۔۔”
سعدیہ نے حیرت سے گنگ اسے دیکھا۔
کسی دوسرے انسان کو اس قدر گہرائی سے جاننا بھی شاید محبت میں کوئی معراج ہوتی ہوگی۔
” مجھے کچھ وقت لگا یہ سمجھنے میں۔۔”
اسے چند ماہ لگے تھے منیزے کا اسے اپنی زندگی سے نکال دینا پروسیس کرنے میں۔
” آپ کو تو وہ کبھی بھی پسند نہیں رہی ہیں۔۔”
زید نے ماں میں آیا بدلاو اب نوٹ کیا۔
وہ اسے نہیں چھوڑ رہی تھی، یہ تعلق اسکے لیے بھی اتنا ہی ناگزیر تھا۔ یہ یقین دہانی جیسے اس میں نئی روح پھونک رہی تھی۔
“ہاں، اب بھی نہیں ہے، پتا ہے کتنا سٹرن stern انداز تھا اسکا کہ بھئی جو کرنا ہے کرلو میں تو آپ کے بیٹے کو ڈائیورس نہیں کر رہی۔۔ اسکی سٹل روڈنس subtle rudeness اب بھی ویسی کی ویسی ہے”
وہ شکایتی انداز میں کچھ منہ بنا کر کہہ رہیں تھیں۔
” وہ روڈ نہیں ہیں مضبوط ہیں۔۔”
وہ ہنس دیا۔ تصور کی آنکھ سے منیزے کو بلکل اسی انداز میں یہ کہتے دیکھا۔
” وہ جیسی بھی ہے، آئی تھنک وی کین بانڈ اوور لوونگ یو i think we can bond over loving you”
انھوں نے لاپرواہی سے کہا۔
انھیں فرق نہیں پڑتا تھا اب وہ جیسی بھی تھی۔
انھوں نے منیزے کے خلاف لگائی عدالت بالآخر سمیٹ دی تھی۔ وہ قاضی کی کرسی سے اتر آئیں تھیں۔ انھوں نے اسے صحیح غلط، اچھے، برے کے ترازو میں تولنا ترک کر دیا تھا۔ وہ انکے بیٹے سے محبت کرتی تھی، یہی بہت تھا۔ بہت سے بھی زیادہ تھا۔
” آپ کب سے ایسے بیٹھی ہیں مجھے خیال ہی نہیں رہا، اٹھیں یہاں بیٹھیں۔۔”
زید کو انکے یوں اسکے قدموں میں بیٹھنے کا احساس ہوا تو اسنے اٹھ کر انھیں اپنی جگہ پر بٹھایا خود انھیں کے انداز میں انکے قدموں میں بیٹھ گیا۔
یوں بیٹھے بیٹھے اس دن دونوں نے بہت باتیں کیں اتنی جتنی شاید گزشتہ پانچ سال میں نہیں کی تھی۔ گفتگو کا موضوع زیادہ تر منیزے رہی پر اس دفعہ یہ ذکر پہلے کی طرح تکلیف دہ نہیں تھا۔
♤♤♤♤♤♤
ماضی
“میں ڈسٹرب تو نہیں کر رہا آپ کو؟”
جلے پیر کی بلی کی طرح کمرے میں بے چینی سے انگنت چکر کاٹنے کے بعد اسنے بالآخر منیزے کو فون کیا تھا۔
“تم پڑھ رہے ہوتے ہو اس وقت، تم خود کو ڈسٹرب کر رہے ہو”
منیزے نے پلنگ پر بیٹھے نظر اٹھا کر گھڑیال دیکھتے کہا۔
وہ دس بجا رہا تھا۔
” کیسا رہا آپ کا رشتہ سیشن؟”
اس ایک سوال نے اسے ایک لفظ پڑھنے نہیں دیا تھا۔
” یو ور رونگ، رجکٹ کر گئے وہ مجھے”
وہ ہنس کر زید کا مذاق اڑاتی کہہ رہی تھی۔
” ہاو ڈیر دے۔۔ آپ انھیں خود منع کرتیں۔۔ پر کیوں؟”
اسے غصہ آیا پر یہی تو وہ چاہتا تھا کہ بات نہ بنے۔ جملے کے آخر تک اسکے چہرے پر دبی دبی سی خوشی تھی۔
” میری سیکنڈ کنڈیشن سے مسئلہ تھا انھیں کہ دے پریفر ورککنگ ویمن بس پیسے لاکر وہ انکے بیٹے کے ہاتھ میں رکھے۔۔ دین میری جاب بھی انھیں مردانہ قسم کی لگی اپیرنٹلی وہ کافی لیبرل ہیں اور انھیں میرے ٹی وی پر آنے سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن میں سٹوڈیو میں بیٹھ کر صبح کے مارننگ شوز بھی تو کر سکتی ہوں۔”
وہ مزے لیتے ہوئے لاپرواہی سے خود میں نکالے گئے نقص زید کو بتا رہی تھی۔
” انھیں آنے کیوں دیا آپ نے اپنے گھر۔۔ خود کو کیوں ٹارچر کرتی ہیں آپ۔۔”
زید کی خوشی پھر غصے میں ڈھلی۔ کیسے لوگ رہتے تھے دنیا میں؟
“یہ ٹارچر ہمارا کلچر ہے۔۔”
“ہیل ود سچ کلچر۔۔”
کاش وہ اس کلچر کو عملاً بھاڑ میں جھونک سکتا۔
“بس اب بند کرو قصہ ختم ہوا۔۔”
منیزے نے اسکا غصہ دیکھ بات سمیٹی۔
” سچ؟ یو گیو آپ آن دس ارینج میرج آئیڈیا؟ you gave up on this arrange marriage idea ”
اسکے لہجے میں خوشی اور بےیقینی کی کھنک ابھری۔
“آئ وش، وہ نہیں کر سکتی میں پر ان لوگوں کا ذکر دوبارہ نہیں اور تم کیوں اتنا خوش ہو رہے ہو”
منیزے نے اسکی خوش فہمی دور کرتے ہوئے اسکی خوشی نوٹ کی۔
” آ۔۔نہیں، نہیں تو میں کب ہو رہا ہوں؟”
وہ ایک دم ہی گڑبڑایا۔
وہ کیوں ہورہا تھا اتنا خوش؟ کیا تو پیچیدہ سوال تھا۔
♤♤♤♤♤
” آئی ایم رئیلی پراوڈ آف یو۔۔ پچھلے تین سال میں دا وے یو ہیو پروگریسڈ، گھر میں سب کتنے خوش ہونگے”
وہ منیزے کی پروموشن سیلیبریٹ کرنے سمندر کنارے اپنے اس مخصوص مقام پر آئے تھے۔
اسکے شو کو سات بجے کا سلاٹ ملا تھا۔ ٹاک شو کے طرز پر ترتیب شدہ یہ نیا شو ملکی سیاست کے بجائے معاشرے میں بڑھتے جرائم اور دیگر معاشرتی مسائل پر بات کرتا تھا۔
ایک کرائم رپورٹر سے بطور جرنلسٹ اینکر پرسن بننے کا سفر اسنے ساڑھے تین سال میں طے کیا تھا۔
” ہاں، ابا بہت خوش ہیں۔”
اسنے تائید کے ساتھ تصحیح کی۔ ابا کے علاوہ کس نے خوش ہونا تھا۔
” کبھی کبھی آپ مجھے سنڈریلا لگتی ہیں آپ کی فیملی انکل کے علاوہ بہت انفئیر کرتی ہے آپ کے ساتھ”
زید کو ان سب پر غصہ آیا۔
“اتنی بیچاری تو میں کبھی نہیں رہی کہ سنڈریلا لگوں”
اسکے موازنے پر اسنے ہنستے ہوئے تردید کی۔
“آپ اتنا کچھ کرتی ہیں انکے لیے دے نیور اکنالج اور اپریشیئٹ یو۔۔”
اسکے لہجے میں منیزے کے لیے قدر اور اسکی بےقدری پر افسوس دونوں تھا۔
” میں انکے لیے تو کبھی کچھ نہیں کرتی خیر۔”
وہ اب بھی سابقہ انداز میں کہہ رہی تھی۔
اسے واقعی فرق نہیں پڑتا تھا۔
” سارا فائنانشل برڈن اٹھایا ہوا ہے آپ نے۔۔ آپ کے بہن بھائیوں کو پتا بھی نہیں ہے کہ ہاو ہارڈ اٹ از ٹو ارن۔۔ how hard it is to earn”
” میں نے انکا فائنانشل برڈن نہیں اٹھایا ابا کی ذمہ داری اٹھائی ہے جو اگر وہ ٹھیک ہوتے تو وہ کرتے وہی سب انھیں گھر بیٹھے آرام کرتے ہوئے کرنے میں مدد کر دیتی ہوں۔۔”
وہ کماتی ضرور تھی پر گھر کے مالی معاملات میں اسکا کوئی عمل دخل قصداً نہیں ہوتا تھا۔ ابا کے علاج کے علاوہ دیگر ہر خرچے کے لیے رقم وہ ابا کے ہاتھ میں رکھتی تھی۔ وہی سب دیکھتے تھے۔ گھر خرچ کے لیے ہاجرہ کو رقم دینی ہو یا علیزے احد کی جیب خرچ سب وہ اپنے ہاتھوں سے دیتے تھے۔انکے بیوی بچے معاشی اعتبار سے انھیں پر انحصار کرتے تھے۔ انکی بیٹی نے انھیں بستر پر پڑ جانے کے باوجود ناکارہ ہوجانے کے جان لیوا احساس سے دوچار نہ ہونے دینے کی اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کی تھی۔
” سنڈریلا کا باپ نہیں تھا، زید میرا ہے۔ میرے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہو رہا اور اگر ابا کی فیملی مجھ سے اتنی ڈسٹنٹ distant ہے تو میں خود بھی ہوں۔۔ میں تو انکی وائف کو ماں تک نہیں بلا پائی۔۔ علیزے اور احد کی میں بےبی سٹر رہی ہوں، ٹیوٹر رہی ہوں پر بہن شاید نہیں بن پائی۔۔ وہ اپنے مسئلے لے کر میرے پاس نہیں آتے۔۔ انکا اتنا قصور نہیں ہے”
وہ کبھی بھی دونوں طرف کا تجزیہ کیے بنا یک طرفہ بات نہیں کرتی تھی۔
“ویسے بھی خالہ کو میرے شادی نہ کرنے پر اتنا غصہ ہے انھیں پروموشن سے کہاں خوشی ہونی۔۔”
اب کہ اسے ہاجرہ کا بیزار چہرہ یاد آیا۔
علیزے اکیس کی ہوگئی تھی اور اسکے سبب اب تک وہ اسکے رشتے کی بات کہیں بھی چلا نہیں پائی تھیں۔
” آپ انکے کہنے پر ہی پچھلے ایک سال سے رشتوں کے نام پر ٹارچر برداشت کر رہی ہیں، اب بھی وہ غصہ ہیں؟”
یہ ٹارچر اس اکیلی کے لیے تھوڑا ہی تھا۔ اس سے زیادہ تو زید کی جان اٹکتی تھی منیزے کی ہر رشتہ پریڈ سے پہلے۔ پچھلا ایک سال اسی بے بسی، ہیجان، خدشات اور بات نہ بننے پر سکھ کی سانس لینے کے دائرے میں ہی کھو گیا تھا۔ ہر دو ماہ بعد پھر وہی سب۔۔
” انکے نہیں ابا کے کہنے پر اور کون سا اس ٹارچر سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نکل آیا ہے جو وہ خوش ہوں پر خیر اب لگ رہا اس مسئلے نے حل ہو جانا”
عام سے انداز میں کہتے اسنے زید کا پہلے سے ملیامیٹ ہوا سکون مزید برباد کیا۔
” کیا مطلب؟”
اسنے دہل کر پوچھا۔
منیزے سامنے سمندر پر نظریں ٹکائے ہوئے نہ ہوتی تو ضرور اسکے انداز پر ٹھٹکتی۔
” ابا کے دوست کا بیٹا ہے عباد، انھوں نے ابا سے بات کی ہے اور ابا مجھے بہت سیٹسفائیڈ لگے ہیں، وہ ہاں ہی کریں گے۔۔”
اسنے مزید تفصیل دی۔
” اور آپ؟ آپ کو کیسا لگا وہ؟”
ابا ہاں کر رہے تھے تو منیزے کو برا نہیں لگنا تھا وہ بندہ، وہ جانتا تھا۔ اللہ!
“میں نہیں ملی پر ابا چاہ رہے میں ایک دفعہ مل لوں، ایک ویک تک کراچی آئے گا وہ، لیٹس سی۔۔”
یہ پہلی دفعہ ہوا تھا کہ روایتی انداز میں انکے خاندان کو گھر بلانے کے بجائے ابا چاہتے تھے کہ وہ خود الگ سے مل لے۔
” آپ کی کیا ایکسپیکٹیشنز ہیں؟”
وہ کرید رہا تھا۔
“کچھ نہیں پر ابا کہہ رہے تھے وہ میری ٹائپ کا ہے”
اسنے ابا کا انداز یاد کرتے مسکراتے ہوئے کہا۔
اسکی مسکراہٹ کے خط سوئی کی طرح کہیں اندر پیوست ہوئے۔
♤♤♤♤♤♤♤
نجانے کتنی دیر ہوئی تھی اسے لیپ ٹاپ لیے بیٹھے عباد ساجد کی فیس بک پروفائل سٹالک کرتے ہوئے۔
۔پچھلا ایک سال عجیب گزرا تھا۔ منیزے نے انجانے میں کب اور کیسے اسکے دل کا غیر مفتوحہ علاقہ فتح کر کے اسکی نرم زمین پر اپنے نام کا الم گاڑھا تھا وہ سمجھ نہیں پایا۔ وہ ساتھ ہو تو وقت کو پہیے لگ جاتے تھے، موسم میں معمول کی تپش نہیں رہتی تھی۔ چہرے پر مسکان کے علاوہ کوئی تاثر ٹھہر نہیں پاتا تھا۔ الوداع کہنے سے پہلے اگلی ملاقات کی آس سر اٹھانے لگتی تھی۔
وہ صرف دوستی تو نہیں تھی۔ دل تو اسے شاید اس کے ملنے کے چند ماہ بعد ہی دغا دے گیا تھا پر ادراک ہوئے فقط ایک سال ہوا تھا۔ پورا ایک سال۔
پہلے پہل اپنی محسوسات پر حیرت ہوئی، پھر دوستی میں ملاوٹ پر ندامت، پھر جذبات کو جھٹلایا گیا، آخر میں ان سیاہ آنچ دیتی نگاہوں کے تصور کے سامنے گھٹنے ٹیکے گئے اور اب یہ سب آنکھ مچولی کا کھیل ہی تو بن کر رہ گیا تھا۔
مقابل کے سامنے چہرے پر ملمعہ چڑھائے رکھنا۔ حالت قلب یکسر بدل جانے کے بعد سب پہلے سا ہونے کی اداکاری کرتے رہنا۔ سب کھل جانے پر منیزے کی مایوس ملامتی نظروں کا تصور۔ مزید کی خواہش میں میثر سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا خوف۔ کسی اور کے اسکا ہاتھ تھام لینے کا مسلسل دل کو لاحق خدشہ، جسکا کوئی مستقل سدباب وہ نہیں تلاش پاتا تھا۔
اور اب یہ عباد ساجد۔
انکل ٹھیک کہہ رہے تھے وہ واقعی منیزے کی ٹائپ کا تھا۔ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھنے والا اسی کی طرح کا سیلف میڈ انسان۔ کامن ویلتھ اسکالرشپ پر یو کے کی کسی بڑی یونیورسٹی سے سوشل سائنس میں کوئی فینسی ڈگری رکھنے والا۔ کئی تھنک ٹینکس میں ریسرچ فیلو کے طور پر کام کرنے کے علاوہ وہ لاہور کی سب سے بڑی پرائیوٹ جامعہ میں پڑھا رہا تھا۔ ملکی، بین الاقوامی جریودوں میں لکھتا تھا۔ تیس سال کی عمر میں وہ اکیڈیمیا میں وہ سب کر چکا تھا جو عام طور پر دس مزید سال کا متقاضی تھا۔
اور وہ، وہ کیا تھا؟ سٹوڈنٹ جسے ایک سال مزید لگنا تھا ڈگری ملنے میں اور پھر اسکے بعد بھی تو سرجن بننے تک پہاڑ سے مرحلے سر کرنے تھے۔ وہ سیلف میڈ تو کیا کچھ بھی نہیں تھا۔ اتنا امیر تھا جتنی امارت دیکھ کر منیزے کو دنیا میں موجود عدم مساوات پر غصہ آتا تھا۔ اسنے اتنی پر سہل زندگی گزاری تھی جسطرح کے لوگوں کی رائے منیزے پرویلجڈ اپنین privileged opinion جان کر سنتی بھی نہیں تھی۔ اسکے مطابق جو مشکلات نہیں دیکھتے وہ زندگی کو چاشنی کی لئی میں لپٹا ہوا برتتے ہیں انھیں کبھی خبر نہیں ہو پاتی کہ اس اوپری مٹھاس کے اندر کی حقیقت کیا ہے۔ وہ آسودگی کے بلبلے میں قید تیرتے ہوئے دنیا کو سرسری سا ہی دیکھ پاتے ہیں۔ وہ کبھی اسکے ساتھ اس بلبلے میں بند ہونے کو تیار نہیں ہوگی اور نہ اسے یہ بلبلا پھوڑ کر اس کے ساتھ زندگی کو برتنے پر راضی ہوگی کیونکہ اس کے لیے یہ خود غرضی تھی۔ وہ یہ ڈھیروں نادیدہ دیواریں کبھی نہیں گرا پائے گا اور یہ عباد، اسکا ہاتھ تھام کر اسے زید سے بہت دور لے جائے گا۔
اسنے لیپ ٹاپ پر نظر آتی اس خوش شکل سے شخص کی تصویر کو جوالہ آنکھوں سے گھورا اور ہاتھ مار کر اسکے فریم لیس چشمے کو اپنے گھونسے سے ٹوڑنے کی خواہش کو دباتے ہوئے لیپ ٹاپ ایک جھٹکے میں بند کر دیا۔
منیزے اس پروفیسر کو ضرور ہاں کر دے گی ،وہ کیا کریگا پھر؟
وہ ایک دم سیدھا ہوا۔ وہ بنا کوشش کے کیسے ہار سکتا تھا۔ وہ جب یوں ہی کسی کو بھی اپنی زندگی میں اتنا اہم مقام دینے کو راضی تھی تو ایک کوشش اسے بھی کرنی چاہیے تھی۔ وہ اداکار نہیں تھا وہ اپنے جذبے تاثرات کچھ بھی تو چھپا نہیں پاتا تھا وہ ساری عمر اپنی محبت اس ڈر سے نہیں چھپا سکتا تھا کہ کہیں منیزے کی دوستی نہ ہار بیٹھے۔ ہاں! ہوگئی تھی اسے منیزے سے محبت اور یہ اتنی قیمتی تھی کہ وہ بنا کسی سعی کے نہیں گنوا سکتا تھا۔ وہ منیزے سے بات کریگا، اسے کرنی چاہئے۔ وہ اس کے ہر ردعمل کے لیے تیار تھا، وہ اسکا غصہ، اسکی ملامت سہہ لے گا، رہ لے گا، نہیں رہ پائے گا تو اس کسک کے ساتھ زندہ نہیں رہ پائے گا کہ اس نے کوشش نہیں کی۔ اگر منیزے کے مثبت جواب دینے کا چانس منفی میں تھا وہ پھر بھی یہ لینے کو تیار تھا۔ اسے اس عباد ایٹسکٹرا کے کراچی آنے سے پہلے منیزے سے بات کرنی تھی۔
♤♤♤♤
” رحیم جی میری کاٹن شرٹس کہاں ہیں، مجھے ایک بھی نہیں مل رہی۔۔۔ رحیم جی۔۔ مجھے لیٹ ہو رہا ہے، آپ سن کیوں نہیں رہے”
کھلے دروازے سے آتی زید کی آواز گھر کی دوسری منزل پر گونج رہی تھی۔ سعدیہ اپنے گاون کی ڈور کستی اپنے کمرے سے نکل آئیں ۔
بچارہ بوڑھا رحیم جب تک سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا اسکی آواز میں مزید تیزی آچکی تھی۔
۔ وہ یوں اونچی آواز میں تو کبھی نہیں پکارتا تھا۔ انٹرکام تھا تو، اسے یاد بھی ہوتا تب ناں۔۔
سعدیہ نے رحیم کو سوالیہ نظروں سے دیکھا تو اسنے کندھے اچکا دیے۔ وہ اسے ہاتھ کے اشارے سے روکتیں خود داخل ہوئیں زید کے کمرے میں جہاں وہ ڈریسنگ روم میں الماری میں سر دیے کھڑا تھا۔
” کیوں چلا رہے ہو زید، سب ٹھیک ہے؟”
وہ ذرا سا دیکھ کر ایک الماری بند کر کے جھنجھلاہٹ سے دوسری کا پٹ وا کرتا پھر تیسری کا۔
” میری کاٹن شرٹس کہاں ہیں مام۔۔”
انھیں دیکھ کر اسنے اپنا سوال دہرایا۔
اسکے کمرے کی ترتیب کا سعدیہ خود خیال رکھتی تھیں۔ وہ جانتا تھا انھیں پتا ہوگا۔
” یہاں کونے میں رکھوائیں تھی تم پہنتے تو ہو نہیں ، تمھیں اچانک کیوں یاد آئیں، کوئی پریزنٹیشن ہے؟”
وہ ڈریسنگ کی دیوار کے سب سے کونے والی الماری کی طرف زید کے انداز نوٹ کرتیں بڑھیں، چہرے پر کتنا کچھ تھا اسکے۔
” نہیں، کہیں اور جانا ہے”
اسے آج منیزے کو سب بتانا تھا۔ یہ اظہار محبت ثابت ہوتا یا اقبال جرم یہ کہنا قبل از وقت تھا۔ اس کا ہیجان سو طرح کے خدشوں کا پیش خیمہ تھا۔
وہ ذرا سیرئیس حلیے میں اپنی بات رکھنا چاہتا تھا تاکہ منیزے اسے سنجیدگی سے لے، روٹین کی ٹی شرٹس پہنے نہیں۔
” کہاں؟”
وہ شرٹس ادھر ادھر کرتے اس سے پوچھ رہی تھیں۔
” مام شرٹ۔۔”
اسنے جواب دینے سے گریز کرتے شرٹ تھامنے کو ہاتھ بڑھایا۔
سعدیہ کی مسکراہٹ گہری ہوئی، وہ سمجھ رہی تھیں کہ یہ تیاری کیوں ہو رہی ہے۔ چند ماہ سے اسکے بدلے اطوار انکی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہے تھے۔ بس وہ یہ اندازہ نہیں لگا پائیں تھیں کہ اس سب کا مرکز کون تھی۔ اسکی کوئی کلاس فیلو؟ یا انکے سرکل میں کوئی؟ انکا بیٹا انھیں بری طرح سرپرائز کرنے والا تھا۔
” کیا بہت ضروری ہے؟”
انھوں نے چند شرٹس ہاتھ میں پکڑے دراز کھول کر اسکے لیے کفلنکس کا انتخاب کیا۔
انکے سرکل میں زید کی عمر کے لڑکے لڑکیاں دو سے تین ریلیشنشپس تو بھگتا ہی چکے تھے، یہ معمول تھا۔ انکا بیٹا ہی تھا جسے باپ کے پریشر میں کتابوں کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا تھا۔ وہ خوش تھیں زید میں یہ تبدیلی دیکھ کر۔
” جی”
اسکا اثبات میں جواب سنتے جوتوں کا کبرڈ کھول کر جوتے نکالے۔
“کیا بہت ارجنٹ ہے؟”
اب وہ ہاتھ میں پکڑی شرٹوں میں سے ایک زید کے ساتھ لگاتیں پوچھ رہی تھیں۔
انکی مدد پر زید ریلکیس ہوا، مام کا سٹائل سینس بہت سوبر تھا۔
“یس”
وہ بھی گردن جھکائے اس شرٹ کو دیکھ رہا تھا۔ سعدیہ نے نفی میں سر ہلاتے دوسری شرٹ اسکے ساتھ لگائی۔
” کیا بہت خوبصورت ہے؟”
سابقہ انداز میں تکرار کی طرح تیسرا سوال کیا۔
” ج۔۔۔۔مام!”
وہ روانی میں کہتے ہوئے جھینپا جس پر سعدیہ کا ہلکا سا قہقہہ گونجا۔
بیج رنگ کی شرٹ کو اوکے کرتے اسے پکڑائی۔
” بیسٹ آف لک”
شرارت سے ہاتھ اونچا کرکے اسکے بال بکھیرتے وہ چلی گئیں۔
♤♤♤♤♤♤♤♤
فون ہاتھ میں لیے علایہ عبید کی انسٹاگرام پروفائل سکرول کرتے وہ کسی بھی تصویر میں زید کی ذرا سی جھلک پر بھی جیسے پہروں ٹھہری تھی۔ وہ بہت سوشل لڑکی تھی۔
ہاسپٹل کی انگنت تصاویر میں زید بھی اکثر گروپ فوٹوز میں گہرے نیلے یونیفارم میں موجود تھا مدھم سے مسکراتے چہرے پر اداس بجھی آنکھیں کتنی نمایاں تھیں۔ ان کے جگنو تو اسنے اپنے ہاتھوں سے نوچے تھے۔
وہ بہت پرائیوٹ ہوگیا تھا۔ سوشل میڈیا پر سے اپنا ڈجیٹل فٹ پرنٹ کب کا ختم کر چکا تھا۔
منیزے کو لگتا تھا اپنی ساری پروفائلز یوں ڈیایکٹیویٹ deactivate کرکے وہ اسے سزا دے رہا تھا۔ وہ اسے چھوڑ گئی تھی تو اسکے حال سے واقف ہونے کا حق بھی نہیں رکھتی تھی۔
وہ پھر بھی نجانے کس امید سے اکثر اسکا نام سرچ کر لیا کرتی تھی۔
علایہ کے ائیر پورٹ پر تعارف کے بعد اسنے آج اسے انسٹاگرام پر ڈھونڈا تھا اور وہ اسے مل بھی گئی تھی۔ دو ہزار فالوورز کے ساتھ اسکی پروفائل پبلک تھی۔
انکی انقرہ کی کانفرنس کی تصاویر بھی وہاں تھی اور نیچے زید کے لکھے پیپر کا لنک بھی موجود تھا جس پر اسنے کلک کیا۔
تو وہ سرجن بن گیا تھا۔ سرجیکل انکالوجی میں اسپیشلائزیشن کر چکا تھا، سئیٹل کے کسی ہاسپٹل میں کام کرتا تھا۔ منیزے نے فخر سے اسکے آرٹیکل میں موجود اسکی تعارفی تفصیل پڑھی۔ اسکے دائیں بازو پر زید کے الٹے سیدھے ٹانکوں کے نشان آج بھی موجود تھے۔ وقت کتنا آگے بڑھ گیا تھا۔
وہ کتنے کم عرصے میں آج وہاں تھا جہاں منیزے اسے ہمیشہ سے دیکھنا چاہتی تھی۔ اسکے خالی ہاتھ بہت سے منفی احساسات سے پر تھے، بس رائیگانی ان میں کہیں نہیں تھی۔
♤♤♤♤♤
” نہیں مجھے ایکسٹرا معلومات نہیں چاہئے”
کمرے میں نیم اندھیرا کیے وہ آرم چئیر پر جھولتی ہوئیں کسی سے مخاطب تھیں۔
” جسٹ واچ ہر ہوم اینڈ موومنٹ”
انھوں نے مزید ہدایت دی۔
” مجھے صرف اسکے گھر سے باہر آنے جانے کی روٹین اور پیٹرن پتا کر کے دو اور بس۔۔ کسی ایکسٹرا ڈیٹیل میں خبردار جو تم گئے تو۔۔”
جھنجھلا کر مقابل کو دھمکایا۔
” ہاں۔۔ اور اگر وہ ائیر پورٹ کی طرف جائے تو مجھے فوراً انفارم کرو۔۔”
کچھ یاد آنے پر سابقہ ہدایات میں اضافہ کیا گیا۔
” مجھے بات دہرانے کی عادت نہیں ہے۔۔”
چند لمحے اگلے کی بات سن کر سختی سے اسے باور کرایا۔
“ٹھیک”
وہ کہتی فون رکھ چکی تھیں۔
یہ آخری کوشش کر دیکھنے میں ہرج ہی کیا تھا؟
♤♤♤♤♤♤
Aftab sikender آفتاب سکندر
Aftab sikender آفتاب سکندر