نیویارک سٹی پوری طرح رات کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ۔مکمل اندھیرے اور خاموشی میں رات مزید بھیگتی جا رہی تھی ۔ایلسا اپارٹمنٹ کے اُس فلیٹ میں نائٹ بلب کے علاوہ کوئی دوسری روشنی نہیں تھی۔
اس اندھیرے میں بیڈروم سے ملحقہ چھوٹے سے کمرے میں فرش پر بچھے جائے نماز اور تپائی پر رکھے قرآن کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں رکھی تھی۔جائے نماز پر دو زانو بیٹھی زنیرہ کے ہاتھ دعا کے انداز میں اٹھے ہوئے تھے ۔گلابی دوپٹے میں لپٹے اسکے وجود پر دھیرے دھیرے رات کے دوسرے پہر کا فسوں اتر رہا تھا ۔اپنی آنکھیں بند کیے وہ رات کی خاموشی میں اپنی فریاد اس ہستی تک پہنچا رہی تھی جو علیم بھی ہے اور خبیر بھی۔جو اپنے بندوں کے شہِ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوتا ہے ۔
“مولیٰ تو نے مجھے جو دیا میں اس پر خوش ہوں اور جو میری قسمت میں نہیں تھا اس پر راضی ہوں ۔” آنسو کے گرم قطرے اسکی ہتھیلیوں پر ٹپکے تھے۔
“زنیرہ!!” یکدم کوئی زور سے چیخا تھا اور اسکا سارا ارتکاز ٹوٹ گیا۔دعا کے لئے اٹھے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرتی وہ فوراً کھڑی ہو گئی ۔اسے معلوم تھا کہ اگر اسنے ذرا دیر کی تو وہ ابھی پورا گھر سر پر اٹھا لیگا۔
جائے نماز لپیٹتی وہ بیڈروم میں گئی تھی ۔
“آدھی رات کو اپنے کن گناہوں کی معافی مانگتی رہتی ہو۔یا پھر مجھ سے پیچھا چھڑانے کے وظیفے پڑھتی رہتی ہو۔” واش روم سے باہر نکلتا جبران طنزیہ انداز میں کہہ رہا تھا ۔
“ایسا کچھ نہیں ہے ۔” اسنے دھیمے لہجے میں صفائی دی۔
اچانک کاٹ میں سویا احنف رونے لگا تھا ۔
“سب سے پہلے تو اپنے اِس منحوس بچے کو چپ کراؤ۔ “اسنے بیزاری سے اشارہ کیا ۔” پتہ نہیں کون سی مصیبت میں نے خود اپنے گلے سے لگا لی ہے ۔” آہستہ سے بڑبڑاتا وہ بیڈ کی طرف بڑھ گیا تھا۔
روتے ہوئے آٹھ ماہ کے احنف کو زنیرہ نے اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا۔اسے تھپکتی وہ اسے چپ کرانے کی کوشش کرنے لگی۔
” اسے یہاں سے لے جاؤ۔میری نیند خراب ہو رہی ہے ۔”آنکھوں پر بازو رکھے ہوئے وہ دہاڑا تھا۔
اسنے بے بسی سے اسے دیکھا اور احنف کو لے کر باہر چلی گئی تھی ۔
_________
وہ چھوٹا سا کمرہ بے ترتیبی سے بکھرا ہوا تھا۔بیڈ کی چادر آدھی فرش تک لٹکی ہوئی تھی اور پورے کمرے میں کتابیں اور مختلف چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔ہونٹ سکوڑے ہوئے اسنے تشویش سے کمرے کا جائزہ لیا ۔اسنے بغیر آستین کی ٹی شرٹ پر گھٹنوں تک شارٹس پہنے ہوئے تھے اور اپنے گولڈن بالوں کو اسنے کل ہی پرپل رنگ میں ڈائی کرایا تھا۔
اسنے اپنا لیپ ٹاپ میز پر رکھا اور اسکا کیمرہ آن کرنے سے پہلے صوفے پر موجود پزہ کا خالی ڈبہ، جوس کے آدھے بھرے کین اور اسی طرح کی چیزیں سرکا کر زمین پر گرائیں اور اپنا گٹار لئے ہوئے بیٹھ گیا۔اسکے پہلو میں اسکا پیارہ کتا اسپارک بھی اپنی گول چمکیلی آنکھوں سے اسکی جانب دیکھتا پنجوں کے بل بیٹھ گیا تھا۔
“اسپارک! سے می گڈ لک۔” اسنے کیمرہ آن کرتے ہوئے کہا ۔
اپنی فر والی دم ہلا کر اسپارک نے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔
“اوکے۔ون۔۔ٹو۔۔تھری۔اسٹارٹ!” اسنے گہری سانس لے کر ریکارڈ آئکن پر کلک کیا۔اور گٹار بجاتا ہوا جسٹن بیبر کا Love Yourself گانا شروع کر دیا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد اسنے پاؤز پر کلک کر دیا اور مایوسی سے اپنا سر دائیں بائیں ہلایا۔
“نہیں اسپارک! یہ کام نہیں کر رہا ہے ۔اس گانے پر مجھے کوئی ویوز نہیں ملنے والے ہیں۔” لیپ ٹاپ کی اسکرین اسنے فولڈ کر دی تھی۔
اسپارک اسکی گود میں چڑھتا ہوا تسلی دینے والے انداز میں اسکے چہرے پر اپنی ناک رگڑنے لگا تھا۔
“مجھے معلوم ہے دوست! تمہیں میرا ہر گانا اچھا لگتا ہے ۔مگر لوگ اب ان سب سے بور ہو چکے ہیں ۔مجھے اب کوئی نئی کوشش کرنی ہے ۔باکل نئی۔۔۔”وہ چند لمحے سوچنے کے سے انداز میں بیٹھا رہا۔پھر اٹھ کر اسنے اپنی الماری کھولی تھی۔کپڑوں اور کتابوں کے ایک ماؤنٹ ایورسٹ نے اسکا استقبال کیا۔ بیزاری سے ایک ایک چیزیں باہر نکال کر پھینکتے ہوئے بالآخر اسنے نوٹ بک اور پین تلاش کر لیا تھا۔الماری سے باہر نکال کر پھینکی گئی چیزوں کو اس نے واپس رکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔تکیہ پر نیم دراز اسکا پین تیزی سے نوٹ بک پر چلنے لگا۔ایک گھنٹے کی محنت کے بعد اس نے اپنا خود کا ایک گانا تیار کر لیا تھا۔آخری تنقیدی نظر اس پر ڈالتے ہوئے اسنے اپنا کندھا تھپکا۔”ویل ڈن ایلن۔”
اسنے اپنا گٹار اٹھا لیا اور اپنے گانے Because I’m yours کی دھن پر کسی پاپ اسٹار کے انداز میں تھرکنے لگا۔اسپارک بھی اسکے گرد اچھلتا اپنی دم ہلاتا اسکا ساتھ دے رہا تھا ۔
اسی وقت ایک زور کی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا اور کیٹ کمرے میں داخل ہوئی تھی۔کمرے کی حالت دیکھ کر اسکا سر گھوم گیا۔
“ایلن!!” وہ زور سے چیخی۔مگر اُس پر خاطر خواہ اثر نہیں ہوا تھا۔گٹار پر اسکی انگلیاں یونہی حرکت کر رہی تھیں ۔
“ایلن بند کرو یہ سب۔” وہ دوبارہ چیخی۔
وہ ڈھٹائی سے ہنستا اسکے قریب آیا اور اپنا ایک ہاتھ اسکی گردن کے گرد حمائل کر دیا۔ایک ہاتھ سے وہ اب بھی گٹار بجا رہا تھا ۔
“آئی لو یو مسز ہنری! یو آر مائن ڈئیر!!”اسکے کان کے قریب اپنا چہرہ کیے وہ گنگنایا۔
کیٹ کو ہنسی آگئی۔” میرے خیال میں ایلن یہ تمہارے ڈیڈ کی لائن ہونی چاہئے تھی ۔”
“وہ آپکے لئے نہیں گاتے اسلئے میں گا رہا ہوں ۔” اسنے اپنی گردن سے گٹار کی اسٹرپ نکالتے ہوئے کہا ۔
” سب سے پہلے تم اپنا کمرہ صاف کرو پھر تیار ہو جاؤ۔ہم چرچ جا رہے ہیں ۔” وہ فوراً سنجیدہ ہوئی۔
“مام ڈارلنگ! میں چرچ نہیں جا رہا ۔”اسنے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے اعلان کیا ۔
” ایلن۔۔۔”اسنے تنبیہی انداز اختیار کیا۔”ہولی فادر کی مہربانی سے تم آج پندرہ سال کے ہو گئے ہو۔تمہیں گاڈ کا شکریہ ادا کرنے کے لئے جانا چاہئے۔”
وہ جی بھر کے بدمزہ ہوا۔”ہولی فادر نے میرے لئے کیک خریدا ہے یا وہ مجھے میری برتھ ڈے وش کرنا چاہتے ہیں۔” اسنے جھک کر اسپارک کو اپنی گود میں اٹھا لیا۔
کیٹ نے غصے سے اسکے کندھے پر ہاتھ مارا۔
” تم اکیلے گھر پر کیا کروگے؟ ”
” اکیلے ۔۔۔”اسنے سوالیہ انداز میں کہا ۔”اکیلا کہاں ہوں؟ اسپارک ہے نا۔۔۔اور مجھے اپنی ایک ویڈیو شوٹ کر کے یوٹیوب پر ڈالنی ہے اور۔۔۔اور کچھ سیکرٹ میٹنگز ہیں ۔۔۔” اسنے اسکی طرف دیکھ کر بائیں آنکھ دبائی۔
“اور وہ سیکرٹ میٹنگز جولی کے ساتھ ہیں یا ڈورا کے ساتھ ۔”
“لنچ جولی کے ساتھ اور ڈنر ڈورا کے ساتھ ۔”اسنے ہنس کر کہا ۔
” کیوں نا میں ان دونوں کو ابھی تمہارے ساتھ ناشتہ کے لئے بلا لوں ۔”اسنے شرارت سے کہا۔
” مام! دو لڑکیوں کو اپنی وجہ سے لڑتا دیکھنا میں بالکل پسند نہیں کرونگا۔”اسنے بے نیازی سے اپنے شانے اچکاتے ہوئے کہا ۔
__________
اپنے ایک بازو میں بمشکل احنف کو تھامے اور دوسرے سے چکن بھونتی وہ بہت پریشان تھی۔احنف ایک بار پھر بیمار پڑ گیا تھا۔ بیماری کی حالت میں وہ اسے ایک لمحہ کو بھی نہیں چھوڑتا تھا۔بار بار اسکی نظریں گھڑی پر جا رہی تھیں ۔جبران بس کسی بھی لمحے آنے والا تھا اور کھانا تیار نہ ہونے کی صورت میں وہ کتنا ہنگامہ کر سکتا تھا اس سے زنیرہ اچھی طرح واقف تھی۔
بمشکل چکن تیار کر کے اسنے کھانا میز پر لگا دیا اور صوفے پر بیٹھی اپنی گود میں احنف کو لیے جبران کا انتظار کرنے لگی۔تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ آ گیا تھا اور حسبِ عادت اسکی کشادہ پیشانی پر بے شمار بل پڑے تھے۔
“اسے کیا ہوا ہے؟” اسنے کھردرے لہجے میں کہا ۔
“بخار ہو گیا ہے ۔جبران تم کھانا کھا لو پھر اسے ڈاکٹر کے پاس لے چلیں ۔” اسنے ہچکچاتے ہوئے کہا مبادا وہ بھڑک نہ جائے ۔
“اوکے۔” میز پر بیٹھتے ہوئے اسنے اثبات میں سر ہلایا۔اور اپنی پلیٹ میں چاول اور چکن نکال کر اسنے پہلا نوالہ منہ میں ڈالا ہی تھا کہ برا سا منہ بناتے ہوئے اسے اگل دیا۔
“یہ کھانا پکایا ہے تم نے ۔” اسنے غصے سے پلیٹ پرے کی۔
اور زنیرہ کو اسی لمحے یہ یاد آ گیا کہ وہ نمک ڈالنا بھول گئی تھی۔
” آئی ایم سوری جبران ۔۔۔احنف کی وجہ سے میں نمک ڈالنا بھول گئی۔” اسنے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسکے اوپر اسکی معذرت کوئی اثر نہیں کرنے والی ہے۔
“میرے بیٹے کے پیچھے اپنی غلطیاں نہ ہی چھپاؤ تو بہتر ہوگا۔” اسنے کرختگی سے کہا۔زنیرہ کی غلطیوں سے درگزر کرنا جبران علی نے کبھی نہیں سیکھا تھا۔
” تم بیٹھو۔۔۔دس منٹ میں مَیں تمہارے لیے کچھ اور بنا دیتی ہوں ۔” اسنے اپنا کپکپاتا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھ کر اسکا غصہ کم کرنے کی کوشش کی ۔
” شٹ اپ!”اپنے کندھے پر رکھا اسکا ہاتھ اسنے سختی سے جھٹکا۔
“کیا بناؤگی تم دس منٹ میں ۔۔۔پاستا۔۔نوڈلز یا چائے۔۔۔”وہ قہر انگیز انداز میں کہہ رہا تھا ۔
“تم ۔۔۔تم جو کہو۔۔۔”
“مجھے تمہارے ہاتھ کا پکا کچھ نہیں کھانا ہے۔” اسنے کہا اور اپنے سامنے رکھے گلاس پر زور سے ہاتھ مارا ۔کانچ کا گلاس ایک چھناکے سے کرچیوں میں تبدیل ہوا بالکل اسی طرح جس طرح زنیرہ نے اپنا دل کرچیوں میں بکھرتا محسوس کیا۔
پھر وہ رکا نہیں اور کار کی چابیاں اٹھاتا وہ گھر سے باہر نکل گیا ۔
فرش سے کانچ کے ٹکڑے چنتی زنیرہ کی انگلیاں زخمی ہوئیں ۔مگر اسکے لبوں پر کوئی شکوہ نہیں ابھرا اور نا ہی اسکے دل میں جبران کے لئے کوئی برا خیال آیا تھا ۔وہ اس شخص کے لئے کبھی کچھ غلط سوچ ہی نہیں سکتی تھی جسے تب اللہ نے اسکا سہارا بنایا تھا جب وہ دنیا میں اپنے ماں باپ کی موت کے بعد بالکل اکیلی رہ گئی تھی ۔وہ بھلے اسکے ساتھ جتنا برا سلوک کرتا یا جتنی تکلیفیں دیتا زنیرہ ادیب سب کچھ برداشت کر سکتی تھی۔کیونکہ اس کے پاس صبر و شکر جیسے دو بیحد انمول اثاثے تھے۔شکر اس چیز کا کہ اسکے سر پر ایک محفوظ اور عزت کی چھت تھی اور صبر اس چیز کا کہ اللہ اسکی آزمائش کر رہا ہے اور زنیرہ ادیب آزمائشیں برداشت کرنا خوب جانتی تھی۔
کرچیوں کو ڈسٹ بن میں ڈال کر وہ احنف کے پاس آئی جو بخار سے تپتا بس روئے ہی جا رہا تھا ۔
__________
اسٹین فورڈ یونیورسٹی کا آڈیٹوریم طلبہ سے بھرا ہوا تھا ۔اونچے اسٹیج پر بے حد تیز لائٹس لگی ہوئی تھیں ۔اور بقیہ پورا ہال اندھیرے میں ڈوبا تھا۔اسٹیج پر چند فنکاروں کا گروپ کسی گانے کی ابتدائی دھن بجا رہا تھا ۔طلبہ کی تالیوں میں وہ دھن قدرے دبتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ۔انکی یہ تالیاں ان فنکاروں کی ستائش کے لئے نہیں تھیں بلکہ وہ تو اس بینڈ کے لیڈ سنگر کا انتظار کر رہے تھے ۔یکدم پورے اسٹیج کی لائٹس بجھ گئی اور پورا ہال اونچے شور سے گونج اٹھا۔یہ انکے موسٹ فیورٹ آرٹسٹ کے آنے کا انداز تھا۔شور اور تالیاں مزید اونچی ہوتی گئیں ۔وہ سب ایک کورس میں “ایلن!! ایلن!!” چلا رہے تھے ۔آخر انکی بے صبری تمام ہوئی اور اسپاٹ لائٹ کی روشنی میں وہ اسٹیج پر نمودار ہوا تھا۔اب تو شور چھت کو پھاڑ دینے والا محسوس ہوا تھا۔اسکے ریڈ ڈائی کئے بال دائیں جانب گرے ہوئے تھے اور اسنے سیاہ شرٹ پر زرد شرگ اور گھٹنوں سے پھٹی جینز پہنی ہوئی تھی۔کانوں میں پہنا اسٹڈ اور گردن میں ایک عجیب سا نظر آنے والا ٹیٹو بہت نمایاں تھا۔اسنے گٹار پر اپنے گانے کی ایک دھن چھیڑی۔لوگوں کے شور کے ساتھ اسکی دھن کی ٹیون بھی بلند ہو رہی تھی ۔چند منٹوں تک وہ وہیں مائک پر کھڑا گٹار بجاتا گاتا رہا۔پھر اسنے مائک اسٹینڈ سے مائک نکالا اور اسٹیج سے اتر گیا۔اسپاٹ لائٹ بھی اسکے ساتھ حرکت کرتی اب اسٹیج کے نیچے آ گئی تھی۔
ڈانس کرتا، جھومتا وہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ گانے کے لیے کہہ رہا تھا ۔
“لیٹس ڈو اٹ ٹوگیدر گائز!!” اسنے بآواز بلند کہا۔اور پورا ہال O’ beautiful girl سے گونج اٹھا تھا۔ایک خوبصورت سی لڑکی کا ہاتھ پکڑتا وہ اسٹیج پر واپس چڑھ گیا۔
اسکے ہر اسٹیپ، ہر لائن پر سیٹیاں، تالیاں بجتی رہیں اور اکیس سال کا کم عمر ایلن ہنری اپنی اس کا کامیابی کے نشے میں جھومتا دوسروں کو بھی جھومنے پر مجبور کرتا رہا۔
رات کے قریب ایک بجے یہ کانسرٹ ختم ہوا تھا۔
کانسرٹ کے بعد وہ اپنے سب سے قریبی دوست پیٹر کے ساتھ بار میں آ گیا تھا ۔بار کاؤنٹر کے پاس لگے اسٹول پر بیٹھتے ہوئے ایلن نے بار ٹنڈر کو وہسکی بنانے کا آرڈر دیا۔
“روژا سے تم نے ایک دفعہ پھر لڑائی کر لی۔” پیٹر نے وہسکی کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے کہا ۔
“ایک تو میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ وہ اپنی اور میری لڑائی میں تمہیں ثالث بنا کر کیوں لے آتی ہے؟” اسنے جھنجھلاتے ہوئے کہا ۔
“کیوں کہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ میرے کہنے پر تم اس سے دوبارہ پیچ اپ کر لوگے۔”
” واقعی۔” وہ ہنسا۔”کہیں اسے ایسا تو نہیں لگتا کہ میں تمہاری ہر بات مان لیتا ہوں ۔”
” اگر اسے لگتا ہے تو بالکل صحیح لگتا ہے ۔کیا تم میری ہر بات نہیں مانتے؟”
“خوش فہمیوں میں جینا چھوڑ دو پیٹر۔”
” مجھے معلوم ہے ایلن تم کبھی اظہار تو نہیں کرتے۔مگر میں تمہاری زندگی میں اپنے مقام سے اچھی طرح واقف ہوں ۔”
” تمہیں لگتا ہے کہ میں اظہار نہیں کرتا ۔تو لو ۔۔۔”اسنے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔” پیٹر تمہیں شاید کبھی اس بات کا اندازہ نہ ہو کہ میں تم سے کتنی محبت کرتا ہوں ۔تم میری زندگی کا سب سے اہم حصہ ہو۔میں تمہارے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔اور۔۔۔”
” ایک منٹ ۔۔۔ایک منٹ ۔۔۔ایک پیگ میں تمہیں اتنی چڑھ گئی۔ذرا غور سے دیکھو میں پیٹر ہوں روژا پارک نہیں ۔” پیٹر نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے اسے روکا۔
ایلن چڑ گیا۔”اتنی مشکل سے تمہارے لئے وہ لائن بول رہا تھا اور تم نے ٹوک کر سارا موڈ غارت کر دیا ۔”
اسنے بار ٹنڈر کو اپنے گلاس میں اور وہسکی انڈیلنے کو کہا ۔ “لیکن صرف اس دفعہ تمہارے کہنے پر میں روژا سے اپنا جھگڑا ختم کر رہا ہوں ۔اسے سمجھا دینا کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔” اسنے گلاس اٹھاتے ہوئے کہا ۔
_________
سینڈوچ کی فلنگ بھر کر اسنے اسے سینڈوچ میکر میں ڈالا۔اور چولہے پر کافی کا پانی چڑھانے کے بعد اوون سے بیک کیا ہوا بسکٹ باہر نکال لیا تھا۔
” زنیرہ!! “جبران کی آواز آئی تھی۔وہ آنچ دھیمی کرتی اپنے کمرے میں آ گئی۔
“میری بلیک شرٹ پریس کر دو۔” اسنے تولیہ سے اپنے بال رگڑتے ہوئے کہا ۔
“کل تو تم نے بلیو شرٹ پریس کرنے کو کہا تھا ۔” اسنے گھڑی پر نظر ڈالی۔بلیو شرٹ وہ رات کو ہی پریس کر چکی تھی اور اب دوسری شرٹ پریس کرنے کا مطلب تھا کہ جبران کو دیر ہوتی۔اور اسکی ذمہ دار بھی وہی ٹھہرائی جاتی۔
” بلیک شرٹ مجھ پر زیادہ اچھی لگتی ہے ۔” اسنے تفاخر سے کہا۔
“بلیو شرٹ بھی تم پر سوٹ کرتی ہے ۔دوسری شرٹ پریس کرنے تک شاید تمہیں دیر ہو جائیگی ۔” اسنے اسے وقت کی کمی کا احساس دلانے کی کوشش کی ۔
“تم سے جتنا کہا جا رہا ہے اتنا ہی کرو۔” وہ اپنا موبائل چارجنگ سے نکالتا بیڈ پر بیٹھ گیا ۔
زنیرہ نے وارڈ روب سے شرٹ نکالی اور استری اسٹینڈ پر استری لگالی ۔
” ناشتہ تیار ہے؟ “جبران نے موبائل پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے پوچھا ۔
“ہاں تم تیار ہو جاؤ۔میں ناشتہ لگا دیتی ہوں ۔”اسنے جلدی جلدی اپنا ہاتھ چلاتے ہوئے کہا ۔
تب ہی احنف جاگ کر رونے لگا تھا۔
“یار! پہلے اسے دیکھو۔میری کال ڈسٹرب ہو رہی ہے ۔” جبران نے کوفت سے کہا۔اسکی کال آ گئی تھی ۔وہ موبائل کان سے لگائے بالکونی میں چلا گیا ۔
جبران کا موڈ خراب ہونے کے خوف سے وہ شرٹ ادھوری چھوڑ کر احنف کے پاس آ گئی۔اسکے منہ میں فیڈر ڈالتے اسے تھپکتے ہوئے اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ جبران کی پسندیدہ شرٹ پر استری اپنا نشان ثبت کر رہی ہے ۔
“تم نے کچھ جلا دیا ہے کیا۔” جبران اندر آتا کہہ رہا تھا ۔
اور زنیرہ نے اپنی جان حلق میں اٹکتی محسوس کی۔وہ کانپتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ استری اسٹینڈ تک آئی۔سرعت سے پلگ نکال کر اسنے شرٹ سے استری ہٹائی تھی۔مگر جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا تھا ۔
اپنی شرٹ کا یہ حال دیکھ کر پہلے جبران کا منہ کھلا تھا پھر اسنے اپنے جبڑے سختی سے بھینچ لیے ۔
“یہ کیا کر دیا تم نے!” وہ چیخا۔
زنیرہ کی ٹانگیں مزید تیزی سے کانپنے لگیں ۔اسے اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہنا مشکل لگنے لگا۔
سس۔۔۔سوری۔”وہ ہکلائی۔اسے جبران کے چہرے سے خوف آنے لگا تھا ۔
” تم کس قسم کی لڑکی ہو۔ہر ہفتہ تمہیں کچھ نہ کچھ نقصان کرنا ضروری لگتا ہے ۔اُس دن تم نے کھانا برباد کیا اور آج میری نئی شرٹ۔”وہ غضب آلود لہجے میں کہہ رہا تھا ۔
” ایک۔۔۔ایک اور بلیک شرٹ ہے۔وہ۔۔۔وہ پریس کر دوں ۔” اسنے ڈرتے ڈرتے کہا۔
“نہیں زنیرہ تمہیں فرق ہی نہیں پڑتا کہ اس گھر کو چلانے کے لئے میں کتنی محنت کرتا ہوں یا جو چیزیں تم برباد کرتی ہو وہ مجھے خیرات میں نہیں ملتیں۔اسے پیسوں سے خریدا جاتا ہے ۔” اسنے ہر لفظ چبا چبا کر ادا کیا ۔
” اس دفعہ مجھے معاف کر دو۔آئندہ خیال رکھوں گی ۔” اسکے لہجے میں خوف و ہراس سما رہا تھا ۔
” مگر مجھے لگتا ہے کہ تمہاری اس لاپروائی کو یوں معاف نہیں کیا جانا چاہئے ۔”اسنے عجیب سے لہجے میں کہا ۔
” جبران ۔۔تم ایسا نہیں کر سکتے۔” اسکے چہرے پر بیک وقت بے یقینی اور خوف اترا۔
“کیوں؟ میں ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ تم تو قرآن پڑھتی ہو۔اس میں لکھا ہے کہ اگر بیوی نافرمان ہو تو شوہر کو اسے سزا دینے کا پورا حق و اختیار ہے۔”وہ اسکی طرف ایک قدم بڑھا۔
وہ دو قدم پیچھے ہوئی اور نفی میں اپنا سر ہلایا۔وہ اور آگے بڑھا اور وہ پیچھے ہٹتی دیوار سے جا لگی ۔
جبران نے اسکے نزدیک پہنچ کر اسکا دایاں ہاتھ سختی سے پکڑ کر اسکی پشت پر موڑا ۔وہ تکلیف سے چیخی تھی۔
” جبران! آئی ایم سوری جبران!” وہ رو پڑی۔
مگر اسکے اوپر اسکے آنسوؤں یا منتوں کا کوئی اثر نہیں پڑنا تھا۔نا ہی اسے اس پر رحم آنا تھا۔اسکے بالوں کو مٹھی سے پکڑ کر جھٹکا دیتے ہوئے اسنے اسکا چہرہ اوپر کیا۔
“سوری جبران ۔” وہ سسکی۔
جبران نے پوری قوت سے اسکے منہ پر تھپڑ مارا ۔اسکا چہرہ دوسری طرف گھوم گیا تھا ۔
“مجھے معاف کر دو۔” اسنے نڈھال سی آواز میں کہا ۔
بغیر کچھ کہے جبران نے اسے بازو سے پکڑ کر دھکا دیا تھا۔وہ لڑکھڑاتی احنف کے کاٹ سے ٹکرائی۔کاٹ کے کونے سے اسکے ہونٹ پھٹ گئے اور اس سے خون رسنے لگا تھا۔
“میرے خیال میں اب تم آئندہ کوئی نقصان کرنے سے پہلے دس دفعہ سوچوگی۔”اسنے سرد لہجے میں کہتے ہوئے وارڈ روب کھولی اور اس سے بلیو شرٹ نکال لی تھی۔
“ناشتہ دوگی یا یونہی پڑی رہوگی۔” وہ چلایا۔
زنیرہ نے اپنے دوپٹے سے ہونٹوں سے رستے خون کو پونچھا اور کچن میں آ گئی تھی۔
سینڈوچ اور بسکٹ نکال کر اس نے اسے میز پر رکھا۔کافی کا پانی ابل کر سوکھ چکا تھا ۔دوسری کافی چڑھانے تک جبران آ گیا تھا۔
وہ میز پر کافی رکھ کر کچن سے باہر جانے لگی کہ جبران نے اسکی کلائی پکڑ کر اسے روکا۔
“میں کوئی کتا یا بھکاری نہیں ہوں کہ میرے آگے روٹی ڈال کر جا رہی ہو۔خاموشی سے بیٹھو یہاں۔”
وہ چپ چاپ بیٹھ گئی تھی ۔ایسا نہیں تھا کہ زنیرہ بزدل تھی یا اتنی مجبور تھی کہ جبران کی ہر بیجا زیادتیوں کو برداشت کرتی رہے۔بس وہ اسکی ہر زیادتی پر اللہ کی دی ہوئی وہ نعمتیں یاد کر لیتی جو اسے میسر تھیں ۔اسے امید تھی کہ اندھیری رات کے بعد اللہ اسے خوشیوں کی روشن صبح سے ضرور نوازیگا۔
وہ سر جھکائے بھیگے چہرے کے ساتھ بیٹھی رہی اور جبران پورے سکون اور بے نیازی سے ناشتہ کر رہا تھا ۔
_________
چاند کی مٹی سے ہوا؟
چاند کی زمین کی طرح کوئی فضا نہیں۔ زمین کی فضا میں کئی گیسیں ہیں جن میں سے ایک آکسیجن...