(Last Updated On: جنوری 16, 2023)
جی فرمائیے حوریہ ، ریحان دھیمی سی آواز میں حیا کے مقابل کھڑا ہوا تھا۔ عصر کی نماز پڑھ کر وہ اپنے پورشن کی جانب بڑھا ہی تھا کے حوریہ نے ریحان کو آواز دی تھی ۔ وہ سفید کپڑوں میں ملبوس شخص ، گندمی رنگ کا چہرہ ، ہاتھ میں کوئی برانڈڈ رسٹ پہنے ہوئے تھا ۔ اس وقت بھی نور اسکے چہرے پر کسی چمک کی طرح پھیل رہا تھا ۔ اسکی پلکیں جھکی ہوئی تھیں ۔ وہ دونوں جہاں کھڑے ہوئے تھے وہاں کچھ سامنے کی طرف موتیا پھول کے گملے رکھے ہوئے تھے ۔ جن کی مہک گھر پے بیٹھے لوگوں تک آرہی تھی ۔ ہواؤں میں عجیب سا نشہ تھا ۔
حوریہ کے بال کھلے ہوئے تھے وہ اپنے بالوں کو سمبھالنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولی ۔۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔ جی کیجیے وہ یہ بول کر خاموشی سے اسکی بات کا منتظر ہوا ۔ اسکی نظریں حیا کی طرف نہیں تھی بلکہ اردگرد کے پرندوں کو دیکھ رہا تھا ۔ سماعت اسی کی سرگوشی سننے کی تابع تھی ۔
مجھے یہ شادی نہیں کرنی. حوریہ ہونٹ بھینج کر بولی تھی
تو اس میں میں کیا کرسکتا ہوں ۔ وہ لاپرواہی سے بولا تھا
آپ دادا سے بولیں کے آپ یہ شادی نہیں کرسکتے اور آپ کو یہ فیصلہ بالکل نہ منظور ہے حیا کا چہرہ اب سرخ پڑھ رہا تھا
وہ اپنے آپ کو بہت مشکلوں سے تھامیں ہوئے تھی ۔ اسکی زندگی کا وہ دوسرا شخص تھا جس سے وہ آج پہلی بار ڈری تھی ۔
میں نے آج تک دادا کی کسی بات کو نہیں تالا بہتر ھے کے آپ یہ بندوق میرے کندھے سے ہٹا دیں
حیا ساکت کھڑی تھی شاید اسکے پاس الفاظوں کا ذخیرہ ختم ہوگیا تھا لیکن پھر اس نے لبوں کو کھولنے کی کوشش کی اور اسکی طرف متوجہ ہوئی تو وہ کب کا یہ جملہ بول کر جاچکا تھا
________________
میں نے کہہ دیا ہے بس اب ہم اس گھر میں زیادہ دن نہیں رہیں گے ۔ پلیز آپ گھر ڈھونڈنا شروع کردیں ۔ ثمینہ ایک ہی سانس میں ہاشم کو بولی تھی
ذرا سی دیر خاموشی کے بعد ہاشم بیڈ کے سامنے ہی کرسی لگا کر بیٹھا ۔
ثمینہ مسلسل ہاشم کے جواب کی منتظر تھی ۔
دیکھو ثمینہ بابا کی تو عادت ہے دانٹ دینے کی ، اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کے ہم ان کو اس طرح سے چھوڑ کر جائیں ۔ ویسے بھی ابھی اماں کو گزرے دن ہی کتنے ہوئے ہیں ۔
میری بیٹی کا مستقبل داؤ پر لگ رہا ہے ۔ نہ یہاں پڑھانے کا رواج ہے ۔ نہ کہیں جانے کی اجازت ملتی ہے ۔ اب تو مجھے اس گھر میں گھٹن سی ہونے لگی ہے ۔
اب کی بار ہاشم اپنا چشمہ میز پر رکھتے ہوئے بولا :
اگر تمہیں حوریہ کی پڑھائی کا ڈر ہے تو میں بابا کو مناؤں گا ۔ سب کچھ ٹھیک ہوجاۓ گا ۔ تمہیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یار وہ بہت عجیب سا شخص ہے ۔ اس کو میری کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
میشا اور حوریہ دونوں بیڈ پر ٹیک لگائے بیٹھی تھیں ۔ اور پاس میں ہی میز پر چاۓ کے دو کپ پڑے ہوئے تھے ۔ جو ابھی میشا بنا کر ائی تھی ۔
میشا حوریہ کے ماموں کی بیٹی تھی ۔ ہاشم کے انتقال کے بعد سمینہ ہمیشہ کے لیے اپنے بھائی کے پاس حوریہ کو لے کر آگئی تھی ۔ لیکن آج حوریہ میشا سے ملنے اسکے گھر آئی تھی ۔
یار حوریہ تمہیں کسی بھی طرح ریحان کو بتانا ہوگا کے تم فاران بھائی سے شادی کرنا چاہتی ہو ۔
تم کیا سمجھتی ہو یہ سب کچھ کرنا بہت آسان ہے ۔ حوریہ اب تلخی سے بولی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاؤنج کے کورنر پر ہی کچن تھا جہاں کچن کے برابر میں سیڑھیاں تھیں۔ اوپر کے تین کمرے تھے جہاں حوریہ اور اسکی ماں کے حصے میں تھے ۔
وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے اٙئی تھی ۔ بال اسکے اکثر کھلے ہی رہتے ، بلیک پاجامہ اور بلیک شرٹ میں ملبوس تھی ۔
اور ریحان کچن سے نکل کر بوتل لے کر لاؤنج سے گزر رہا تھا کے بولا ۔ محترمہ آپ نے مجھ سے کچھ کہا ؟
وہ پیچھے دو قدم حوریہ کے کھڑا ہوا تھا ۔
جی میں نے کہا کے مجھے بات گھمانے کی عادت نہیں ہے ۔
اور مجھے بھی بحث کرنے کی عادت نہیں ہے ۔ ریحان نے نظریں چُرا کر کہا۔
تو تمہیں کیا لگتا ہے میں بحث کر رہی ہوں ۔ وہ تلخ لہجے میں بولی ۔
اور آپ کو کیا لگتا ہے میں بات گھمارہا ہوں ۔ میرے الفاظ شاید آپ بھول رہی ہیں میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ۔ اگر آپ کو اس رشتے سے اعترض ہے تو آپ خود کہہ سکتی ہیں دادا سے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا بیٹا اس دنیا سے کیسے جا سکتا ہے ۔ وجاہت صاحب چلائے تھے ۔ وہ اخر کیوں نا چلاتے ۔ ان کا بیٹا ہارٹ اٹیک سے انتقال کر گیا تھا ۔
وہ بہت دیر تک چلائے تھے ۔ میرا بیٹا ۔۔ میرا ہاشم
وہ صدمے سے دو چار اپنے گھر کے کمرے کے کسی کونے میں پڑی تھی ۔
شاید وہ بھی مرنے والے کے ساتھ مرچکی تھی. وہ اس شور سے تنگ ہورہی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھو میں تمہیں کہہ رہا ہوں نا گھر کی علحیدگی کے علاوہ اور کوئی خواہش کروگی تو میں رد نہیں کروں گا ۔ اب کی بار ہاشم کے ماتھے پر بل بہت گہرے تھے ۔ وہ میز پر چشمہ رکھے کھڑکی کی طرف کھڑا ہوا تھا ۔
ہاشم صاحب ! انسان کو جس کی ضرورت ہوتی ہے نہ وہ صرف ضرورت ہی ہوتی ہے ، خواہش کبھی نہیں بن پاتی ۔
خواہش اور ضرورت میں فرق ہوتا ہے۔ شاید آپ کسی خواہش کی بات کر رہی ہیں لیکن یقین کریں میرا میں یہاں صرف ضرورت کی بات کر رہی ہوں ۔
ٹھیک ہے میں کروں گا بابا سے بات ۔ ہاشم یہ کہہ کر چلا گیا ۔ ایک خوشی کی لہر ثمینہ کے چہرے پر گزری تھی ۔
بھابی پانی ہی پی لیں جیسے اس کی سوچ پر کسی نے وار کیا تھا ۔ شاید وہ کسی جنگ کو یاد کر رہی تھی ۔ ایک ایسی جنگ جس میں اسکو جیت مل رہی تھی مگر یہ کیا وہ تو ہار گئی تھی ۔
شاید اسکے خواب تعبیر بنتے بنتے پھر سے خواب بن گیا تھا ۔
بارہ سال کی حوریہ ماں کے پاس آکر بیٹھی تھی ۔
مما مما ماما ، وہ اب کی بار اپنی ماں کو جنجھوڑ رہی تھی ۔
بھابی آپ ہم سب سے تو خفا ہیں مگر حوریہ کا کیا قصور ہے ۔ دردانہ دھیمی سی آواز میں بولی تھی
ہاں تو کیسے نہ ہوں خفا میں حوریہ سے ۔ وہ ہاشم کے مرنے کے بعد پہلی بار بولی تھی ۔ ایک ہفتہ ہو چکا تھا ہاشم کے انتقال کو ۔
میری بیٹی باپ کے مرنے کے بعد ایک بار بھی اپنی ماں کو دیکھنے نہیں ای ، کے ماں کس حال میں ہے ۔
حوریہ تو ہر وقت تم سے چمٹنے کے لیے آتی مگر تم ہی اسکو اپنے ہاتھوں سے پرے کرتی ۔
ثمینہ نے دردانہ کی بات سن کر حوریہ کو گلے لگالیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
اچھا نہ بس اب فائنل بات کروں گی ریحان سے ۔۔
حوریہ میشا کو فون پر تسلی دیتے ہوئے بولی تھی ۔
مجھے تو ایک یہ سمجھ نہیں آرہی کے ثمینہ پھپو کو کیا ہوگیا ہے وہ کیوں تمہارے دادا کی باتوں میں آگئی ہیں ۔
حوریہ خاموش تھی کیوں کے وہ اپنی ماں کے بارے میں کچھ بھی برا سننا نہیں چاہ رہی تھی ۔
۔…. ۔..
ماما ! آپ دادا کی باتوں میں کیوں آرہی ہیں ۔ وہ ثمینہ کی گود میں سر رکھ کر بولی تھی ۔
ثمینہ بھی حوریہ کے بالوں میں مساج کرنے لگی تھی ۔
کچھ دیر کی خاموشی ہوئی تھی ۔
بیٹا میں نے اپنے ماضی میں بہت غلطیاں کی ہیں ، اب ان غلطیوں کو سدھارنا چاہتی ہوں۔ ثمینہ یہ بات رنجیدہ ہوتے ہوئے بولی تھیں ۔
ماما ! آپ نے کوئی غلطی نہیں کی ۔ آپ نے تو صرف اپنا حق مانگا تھا ، وہ الگ بات ہے بابا کا انتقال ہوگیا اس دوران ۔ اس میں تو آپ کا کوئی قصور نہیں تھا ۔
یہ سب دادا کی وجہ سے ہوا ، ان کی سختیوں کی وجہ سے آپ نے یہ فیصلہ کیا تھا
نہیں بیٹا ! ان کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے ۔ قصور تو میرا ہے میں ان کی باتوں کو کبھی سمجھ ہی نہیں پائی ۔ انکے ہر فیصلوں کو پابندی کا نام دیتی رہی ۔ ان کے بیٹے کو بھی ان سے الگ کرنا چاہا ۔۔ بیٹا میں نے برا چاہا تھا ۔ سب کچھ اچھا ہونے کے باوجود بھی میں نے نئے گھر کا مطالبہ کیا ۔ ثمینہ کی آنکھوں سے آنسوں کا موتی گرا تھا ۔
حوریہ اب کی بار اپنا سر ماں کی گود سے اٹھا کر ان کے آنسوں صاف کرنے لگی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔