(Last Updated On: جنوری 16, 2023)
ڈائننگ ٹیبل کی مین سیٹ پر زلفقار صاحب بیٹھے تھے ، ان کے برابر میں ثمینہ بیٹھی تھی اور دوسری سائیڈ علی بیٹھا تھا جو ریحان کا چھوٹا بھائی ہوتا ہے ، سامنے کی طرف دردانہ اور ریحان بیٹھے ہوئے تھے ۔ نیلم میڈ نے ایک ہفتے کی چھٹی لی ہوئی تھی ۔ اسلیے آج کھانے میں بریانی حوریہ نے بنائی تھی ۔ وہ ٹیبل کے پاس کھانا سب کی ڈش میں ڈالنے لگی تھی ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اسے ریحان کی ڈش میں بریانی ڈالنی پڑی تھی ۔
واہ کیا بریانی بنی ہے ، علی نے خاموشی توڑی تھی ، اس بات پر حوریہ ہلکا سا مسکرائی تھی ۔ ہاں بیٹا بہت اچھی کوکنگ ہے تمہاری ۔ دردانہ بھی بولی تھی
شکریہ چچی ۔۔۔ حوریہ مسکراتے ہوئے بولی
کھانا کھاتے وقت اندازہ ہی نہیں ہوا ، سب میز سے اٹھ چکے تھے ، حوریہ اور اسکے برابر میں ریحان بھی کھانا کھانے میں مصروف تھا ابھی تک ۔ دونوں کی ایک عادت سیم نکلی ، کھانے میں دونوں آہستہ تھے ۔ حوریہ بھی موقع کا فائدہ اٹھائے بغیر نہ رہ سکی تھی ۔ میں نے دش میں بریانی سب کو ss
ڈال کر دی اسلیے سوچا آپ کو بھی ڈال دوں ، کسی خوش فہمی میں مت رہئے گا ۔
ریحان کے حلق سے جیسے ہی نوالہ نیچے اترا وہ حوریہ کی طرف مخاطب ہوا ، یہ آپ کی خوش فہمی ہے کے مجھے کوئی خوش فہمی ہے ، شاید پلیٹ کا آخری نوالہ تھا ۔ وہ یہ کہہ کر جا چکا تھا ۔
وہ دو منٹ تک خود کو کوستی رہی تھی کے پلٹ کر جواب کیوں نہیں دیا تھا ۔
برتن دھونے کی آواز مسلسل آرہی تھی ۔ وہ خالی پلیٹ ٹیبل سے اٹھا کر کچن کی طرف ای ۔ ریحان برتن دھورہا تھا ۔ وہ ڈ هگمگائ تھی اسے برتن دھوتے ہوئے دیکھ کر _ حوریہ نے شِنک کی دوسری سلپ پر ہی اپنی پلیٹ رکھ دی ۔
ادھر دیجیے اپنی پلیٹ ، شاید برتن پورے دھل گئے تھے ، اس نے پیچھے مڑ کر حوریہ کو دیکھ لیا تھا پلیٹ رکھتے ہوئے ۔
نہیں بہت شکریہ مجھے آپ کے احسان کی ضرورت نہیں ۔ حوریہ اترا کر بولی تھی ، رات کے گیارہ بج رہے تھے ، گھر کی ساری لائٹ اف تھیں سواۓ کچن کے ۔
مجھے احسان کرنے کی عادت نہیں ہے ، ریحان نے قریب اکر پلیٹ سلپ سے اٹھائ اور دھونے لگا ۔
اچھا بننے کی کوشش کر رہے ہو میرے سامنے ، حوریہ جستجو والے انداز میں بولی تھی ۔
اچھا انسان ، اچھا بننے کی کوشش کبھی نہیں کرتا ، بس کوشش صرف اتنی کرتا ہے کے اس کی طرف سے کسی کو تکلیف نہ ہو ۔ ریحان نے حوریہ کی بات پر جواب دیا ۔
مجھے تمہیں بتانا ہے ریحان ، اب کی بار وہ دھیمی آواز میں بولی تھی ، اس کے ذہن میں میشا کے الفاظ گھوم رہے تھے ، تمہیں فاران کی محبت کا سب کو بتانا ہوگا ، کب تک اپنے دل میں رکھو گی اور خاص طور پر اپنے اس کزن ریحان کو بتانا ہوگا جس سے تمہارا نکاح فکس ہورہا ہے ۔
معذرت چاہتا ہوں ، ابھی مجھے تھکن ہورہی ہے ۔ کل آپ سے بات ہوگی وہ یہ کہہ کر کچن سے گیا تھا
اور اس نے اپنی ہمت جمع کرنے سے پہلے خود کی ناکامی دیکھ لی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخر کب تک ؟ فاران نے چڑ کر کہا تھا ۔ آج فاران اور حوریہ دعا ریسٹورنٹ میں لنچ کرنے ائے تھے ۔
یار تم میری مجبوری کو کیوں نہیں سمجھ رہے ، ریحان کو یہ سب بتانا آسان نہیں ہے ۔ وہ نرمی سے بولی تھی
اگر اتنا ہی مشکل لگ رہا ہے تمہیں تو اس سے ہی شادی کرلو ۔ فاران خفگی سے بولا
پاگل !! تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو ، وہ چلائ تھی ۔
ہاں تو اور کیا کہوں ۔ وہ بھی چلا کر بولا تھا ۔
وہ ریسٹورنٹ کے اوپر والے پورشن میں بیٹھے تھے ، جہاں باقی سب میز خالی تھیں ، ان دو کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا
اچھا ٹھیک ہے نمبر دے دو مجھے اپنے اس کزن کا ۔۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد فاران بولا تھا
کبھی نہیں ، حوریہ نے دو لفظوں میں بات ختم کی تھی ۔
ٹھیک ہے تمہاری مرضی ہے ، اب تم جو بھی کرو ۔ فاران تپ کر بولا تھا
پلیز مجھے یوں رستے میں اکیلا مت چھوڑو ، مانا کے آزمائش مجھ پر ای ہے ، تمہیں صرف میرے ساتھ ایک ریت کی دیوار بن کر کھڑا ہونا ہوگا ، باقی میں خود سمبھال لوں گی ۔ حوریہ تڑپ کر بولی تھی ۔
میں ریت کی دیوار نہیں بن سکتا کیوں کے ریت کی دیوار بارش کےبرسنے سے گر جاتی ہے اور میں گرنا نہیں چاہتا ۔ پلٹے میں جواب آیا ۔
مطلب تم مجھے رستے میں چھوڑ رہے , باقی سفر مجھے خود کاٹنا ہوگا وہ گھبرا کر بولی ۔ اب کی بار حوریہ کی آنکھیں نم ہو چکی تھیں ۔
آزمائش جس کے حصے میں آتی ہے وہ خود سہتا ہے باقی اس سے جڑے رشتے تو بس اس کی آزمائش کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ہیں ۔ دھیمی سی آواز میں اس نے کہا تھا ۔
مطلب میری تکلیف تمهاری تکلیف ایک نہیں ہے ۔
نہیں تکلفیں سب کی اپنی ہوتی ہیں ، یہ تو بس خوشیاں ہوتی ہیں جن کو بانٹا جاتا ہے ۔
کتنے خود غرض ہو تم فاران ؟ اب کی بار اس کی آنکھ سے ایک آنسوں ٹپکا تھا
یہ بتاؤ تمہیں کتنا وقت چائیے اسے انکار کرنے میں ۔
پلیز میرے ناکام ہونے کا انتظار مت کرنا ۔ کوشش کروں گی کے جیت اس جنگ میں میری ہو ۔ وہ دھیمی سی آواز میں بولی تھی
جیت تو ان کو ملتی ہے جن کے ارادے پکے ہوتے ہیں اور تمہارے تو ارادے بھی کچے ہیں بالکل اس دھاگے کی طرح جو الجھ جانے کے بعد اکثر ٹوٹ جایا کرتے ہیں ۔
مجھے پتا ہے میں موم ہوں ، پگھل رہی ہوں ۔ فکر نہیں کرو کچھ دیر میں یہ بھڑکتی ہوئی اگ ختم ہوجائےگی اور میں پھر سے موم بن جاؤں گی ۔ حوریہ آنسوں پونچھتے ہوئے بولی
موم کا کام تو پگھلنا ہوتا ہے صرف ، کب تک تمہیں پگھلتا ہوا دیکھوں گا ۔ فاران نے پلٹے میں جواب دیا ۔
جب تک اس جنگ میں جیت نہیں جاتی تم ہمت مت ہارنا۔
چلو دیکھتے ہیں ۔ فاران طنزیہ مسکرایہ ۔
۔……
صبح کے چار بج رہے تھے ، ریحان کے کمرے کی لائٹ اٙن تھی ،
موقع اچھا ہے بات کرنے کا ریحان سے ،حوریہ لبوں میں بڑبڑائ تھی اوپر کوریڈور سے دیکھ کر ۔
ریحان کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوئے تھے شاید وہ تہجّد پڑرہا تھا ۔
حوریہ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی اسے دیکھ رہی تھی ، اسکا دل اچانک بے چین ہونے لگا وہ پھر سے اپنے کمرے کی طرف پلٹی اور موبائل کا سکرین لاک کھولا ،
اگر آپ کو آج فرصت ملے تو مجھ سے بات کرنا ۔ اس نے میسج ریحان کے نام سینڈ کیا ۔
_______
دیکھو حوریہ کس کا فون آرہا ہے ؟ ثمینہ سوٹ کیس بند کرتے ہوئے بولی تھی ۔
بارہ سالہ لڑکی حوریہ ہیلو ہیلو کرتی رہی آگے سے کوئی نہیں بول رہا تھا
ماما کوئی بول ہی نہیں رہا ۔ اس نے ماں کو فون پکڑانا چاہا
تمہارے بابا بھی نہ ، ثمینہ نے فون تھامتے ہوئے کہا
ارے ارے ، یہ ہاشم کا نمبر نہیں ہے ۔ تو پھر کون کر سکتا ہے ۔ اس نے خود سے سوال کیا
ٹک ٹک !! ہاں آجاؤ ، ثمینہ بیزاریت سے بولی
چچی وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چچا
ہاں ہاں بولو کیا چچا
ریحان ہانپتے کامپتے کمرے میں اندر آیا تھا ۔
حوریہ ریحان کو حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔
ارے بولو بھی ۔ ثمینہ اب کی بار چلائی تھی
چچا اس دنیا میں نہیں رہے
قیامت ٹوٹی تھی شاید ۔۔۔ بیٹا یہ الٹے سیدھے مذاق مجھ سے مت کیا کرو ۔۔ بری بات ہوتی ہے ۔ ثمینہ لرزی تھی ۔
چچی میں نے آج تک آپ سے ایسا مذاق کیا ہے کیا ؟ میں سچ کہہ رہا ہوں چچا کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور وہ ۔ اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ پندرہ سالہ ریحان بولا تھا
اب کی بار ثمینہ کی آنکھوں سے بارش ہوئی تھی
_____________
جی فرمائیں حوریہ ۔ ریحان نے سانس فضا کے سپرد کیا تھا ۔ وہ جوابً پلٹی تھی ، شاید بوکھلا گئی تھی ، کیوں کے لاؤنج پورا خالی تھا اور وہ ٹیبل کی صفائی کر رہی تھی ۔
تمہیں پتا ہے ریحان ! میں اپنے کزن فاران کو پسند کرتی ہوں ، وہ کانپتے ہوئے بولی ۔
مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ریحان نے جواب دیا ۔
ناک لمبی ، آنکھیں بادامی ، سرخ ہونٹ ، نورانی چہرہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔
حوریہ چونکی تھی ، پھر خود کو ضبط کر کے بولی اور صرف میں ہی نہیں وہ بھی مجھے پسند کرتا ہے ۔
اب بھی مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔ پلٹے میں جواب آیا ۔
تمہارا دل پتھر کا ہے یا تم انسان ہی نہیں ہو ، جو تمہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ۔ حوریہ نے طنزیہ کہا ۔
اب کی بار وہ خاموش تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
کس بات پر . فرق پڑنا چائیے ؟ ریحان نے خاموشی توڑی
یہی کے تمہاری ہونے والی بیوی کسی اور کو پسند کرتی ہے ۔
حوریہ نے پھر طنزیہ کہا تھا ۔
ہر کسی کا ایک ماضی ہوتا ہے ، اور مجھے تمہارے ماضی سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ وہ دھیمی سی آواز میں بولا تھا
فرق پڑتا ہے ، اور پڑنا بھی چائیے ۔۔۔ حوریہ چلائی تھی ۔
اگلے ہفتے دادا آرہے ہیں لاہور سے ۔ ان کو اس شادی کے لیے منع کرنا ہے تم نے۔ حوریہ ریحان پر حاوی ہونے کی کوشش کی تھی ۔
میں انکار نہیں کروں گا ، یہ میرا پہلا اور آخری فیصلہ ہے ۔ وہ اب بھی دھیمی سی آواز میں بولا ۔
تم نے نہیں کیا انکار تو میں کرلوں گی ۔ حوریہ نے جلانے والے انداز میں کہا تھا ۔
ریحان پھر سے مسکرایا تھا ،
وہ لاؤنج سے نکلنے لگا تھا کے پیچھے سے حوریہ نے دیوار پر کُشن مارا تھا ۔
بے جان چیزوں پر غصہ نکالنا اچھی بات نہیں ہوتی ۔ اس نے پلٹ کر کہا تھا اور کشن کو اپنی جگہ پر رکھا ۔
حوریہ اپنی فلیٹ چپل سے بھاگتے ہوئے سیڑھی کی جانب
بڑھی تھی کے اس کے ذہن میں فاران کے جملے انے لگے
“اس جنگ میں تم مجھے ہارتی ہوئی نظر آرہی ہو ۔ بالکل کچے دھاگے کی طرح ، اندر سے بھی بالکل کھوکھلی “۔
________
وہ آج پھر دعا ریسٹورنٹ میں فاران سے ملنے ای تھی
میشا کی شادی سے کتنے دن پہلے رہنے اؤ گی ۔ فاران نے حوریہ سے سوال کیا ؟
یار ابھی تو کچھ پتا نہیں کیوں کے میڈ آج کل چھٹیوں پر ہے اور دردانہ چچی سے پورا گھر نہیں سمبھالا جاتا ۔
اسلیے میرا آنا مشکل ہوگا ، شاید میں ڈائریکٹ حال میں ہی اؤں ۔ اس نے ریحان کو متنبہ کرنا چاہا ۔
حوریہ بھول رہی تھی کے وہ کس کو بتا رہی ہے ۔
ظاہر سی بات ہے اتنا بڑا گھر ہے ، دولت ہے اور کیا چائیے تمہیں ۔ ریحان نے طعنہ دیا تھا ۔
شٹ اپ وہ چلائ تھی ۔ تمہیں تو کوئی بات بتانا بھی مسلہ ہے ۔
مجھے صرف ایک ہی بات سے غرض ہے _ فاران خود غرضی کے عالَم میں بہت آگے نکل گیا تھا ۔ اس کے لیے کسی کے جذبات ، غم سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔