گوگل کا مصنوعی ذہانت پر مبنی پروگرام بریسٹ کینسر کی شناخت تجربہ کار ڈاکٹروں سے بہتر طور پر کر سکتا ہے
بریسٹ کینسر ایک موذی مرض ہے جو دنیا بھر میں ہر سوال لاکھوں خوادین کی موت کا سبب بنتا ہے- دنیا میں ہر سال 21 لاکھ خواتین میں بریسٹ کینسر کی تشخیص کی جاتی ہے اور سوا چھ لاکھ سے زیادہ خواتین بریسٹ کینسر کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترتی ہیں-
پچھلی چند دہائیوں میں بریسٹ کینسر کے خلاف مہم قدرے کامیاب رہی ہے اور بریسٹ کینسر سے اموات کی شرح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے- اس کی بڑی وجہ بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص ہے- کینسر کا مرض جس قدر جلد تشخیص ہو سکے اسی قدر اس کا علاج آسان ہوتا ہے اور مریض کے بچنے کا امکان بڑھ جاتا ہے-
بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے میموگرافی کی تکنیک استعمال کی جاتی ہے جس میں نسبتاً کم توانائی کی ایکس ریزے سے بریسٹ کے ٹشو میں کسی قسم کے غیر معمولی سٹرکچر کی تلاش کی جاتی ہے- اس اسکین کے تنائج کو ماہر ریڈیالوجسٹس سٹڈی کرتے ہیں اور غیر معمولی سٹرکچرز کی نشاندہی کرتے ہیں- ایسا کرنے کے لیے انہیں کئی سالوں کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور اس کے بعد کئی سالوں کا تجربہ درکار ہوتا ہے- لیکن بعض اوقات انتہائی تجربہ کار ریڈیالوجسٹس بھی میموگرام میں غیر معمولی سٹرکچرز کو نہیں پہچان پاتے- اس کے علاوہ کئی دفعہ نارمل ٹشو کی کثافت باقی ٹشو سے مختلف ہو تو ماہرین اسے بھی غیرمعمولی سٹرکچر سمجھ کر اسے کینسر زدہ ٹشو سمجھ بیٹھتے ہیں- دونوں صورتوں میں نتیجہ مریض کے لیے پریشانی کی صورت میں نکلتا ہے
اب گوگل نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک سسٹم تشکیل دیا ہے جو میموگرام میں کینسر زدہ ٹشو کی پہچان تجربہ کار ماہرین سے بھی زیادہ بہتر طور پر کر سکتا ہے- اس سسٹم کی ٹریننگ کے لیے اسے 76 ہزار میموگرامز کا ڈیٹا فیڈ کیا گیا جس میں ان مقامات کو اجاگر کیا گیا تھا جہاں ماہرین پہلے سے کچھ سٹرکچرز کی نشاندہی کینسر زدہ ٹشو کے طور پر کر چکے تھے- اس ڈیٹا سے اس سسٹم نے میموگرام میں کینسر زدہ ٹشو کی نشاندہی کرنا سیکھی- ٹریننگ کے بعد اس سسٹم کو 28 ہزار نئے میموگرام فیڈ کیے گئے جنہیں دیکھ کر ماہرین کینسر زدہ ٹشو کی نشاندہی کر چکے تھے لیکن مصنوعی ذہنات کے سسٹم کو ماہرین کی رائے سے آگاہ نہیں کیا گیا- اس سسٹم نے از خود ان اسکینز میں کینسر زدہ ٹشوز کی نشاندہی کی اور نہ صرف تمام کینسر زدہ ٹشوز کی درست نشاندہی کی بلکہ تقریباً نو فیصد اسکینز میں ایسے کینسر زدہ ٹشو دریافت کیے جنہیں ماہرین دریافت نہیں کر پائے تھے- اس کے علاوہ اس سسٹم نے تقریباً چھ فیصد کیسز میں ماہرین کے دریافت کردہ کینسر زدہ ٹشو کو نارمل ٹشو قرار دیا- ان تمام کیسز میں ماہرین کی رائے غلط اور مصنوعی ذہانت کی رائے درست پائی گئی- دوسرے لفظوں میں مصنوعی ذہانت کے سسٹم نے نسبتاً کم false positive پیدا کیے یعنی نارمل ٹشو کو کینسر زدہ ٹشو قرار دینے کی غلطیاں ماہرین کی نسبت کم کیں
اگرچہ یہ سسٹم فی الحال ایک تجرباتی سسٹم ہے جسے عام استعمال کی اجازت نہیں دی گئی ہے- لیکن گوگل کے سائنس دانوں کو امید ہے کہ مزید ٹرائلز کے بعد اس سسٹم کو ڈاکٹروں اور ریڈیالوجسٹ کے استعمال کے لیے حکومتی اجازت مل جائے گی اور اس سے بریسٹ کینسز کی جلد از جلد تشخیص ممکن ہو سکے گی- اس کے علاوہ نارمل ٹشو کو کینسر زدہ ٹشو قرار دینے کے کیسز میں بھی نمایاں کمی ہو گی
https://blog.google/technology/health/improving-breast-cancer-screening