ہم لوگ اتنے قنوطی ہو چکے ہیں کہ خدا کی پناہ
ہر معاملے میں ناشکری، ہر بات پر شکوہ اور شکایت، ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں نہ اپنی خوش قسمتی ہمیں نظر آتی ہے۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ آدھا گلاس خالی ہے۔ کبھی یہ نہیں سوچتے کہ آدھا گلاس پانی سے بھرا ہے۔ ہماری حالت اُس مایوس شخص جیسی ہے جسے اُسکے بیٹے نے خوش ہو کر بتایا کہ ہمارا کتا پانی پر چل سکتا ہے۔ اُس نے بُرا سا منہ بنا کر کہا کہ کاش! وہ تیر سکتا!لیکن میں نے یہ رویہ تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اب کُڑھنے اور جلنے کے بجائے ہر بات کا روشن پہلو دیکھا کروں گا۔ اس صحت مند رویے کا آغاز میں نے آج ہی سے کر دیا ہے۔
مجھے علی الصبح خبر ملی کہ بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں راکٹ کے حملے سے پورے کا پورا خاندان موت کے گھاٹ اتر گیا۔ یہ دو دن پیشتر کا واقعہ ہے۔ کچھ محب وطن افراد نے راکٹ چلائے جن میں سے ایک فلّو خان کے گھر کی چھت پر پھٹا۔ اسکی بیوی مائی خاتون اور چاروں بیٹیاں موقع ہی پر ہلاک ہو گئیں۔ دیکھئے اس خبر میں کتنا روشن پہلو ہے۔ خدا کا شکر ہے میں بلوچستان میں نہیں ہوں اور راکٹوں کے حملے سے بچا ہوا ہوں۔
کراچی کے علاقے کھارادر میں دو افراد تاجروں سے جگا ٹیکس وصول کر رہے تھے۔ ایک دکاندار نے انکار کیا تو جگا ٹیکس وصول کرنے والوں نے اُسے گولی مار کر موقع ہی پر ہلاک کر دیا۔ عوام اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے اُسے پکڑ لیا اور مار مار کر ختم کر دیا۔ اُسکے زخمی ساتھی نے اعتراف کیا کہ ہاں! وہ تاجروں سے غنڈہ ٹیکس وصول کیا کرتے تھے۔
گذشتہ ایک سال کے دوران کراچی سے سو سے زیادہ تاجر تاوان کے لئے اغوا کئے گئے۔ اب دیکھئے، اس میں روشنی کی تہہ در تہہ کئی پرتیں ہیں۔ میری پہلی خوش قسمتی یہ ہے کہ میں کراچی میں نہیں رہتا۔ اور دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ تاجر نہیں ہوں۔
خادم پنجاب نے لاہور میں کم آمدنی والے بے گھر افراد کے لیے بےمثال رہائشی منصوبے کا افتتاح کیا ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ لاہور میں رہتا ہوں اور میری خوش قسمتی ہے کہ لاہور ہی پنجاب ہے۔پنجاب کے بجٹ کا بڑا حصّہ لاہور پر صرف ہو رہا ہے۔شاہراہیں،انڈرپاس،پارک،باغات،مکانوں کے منصوبے،ہائوسنگ سوسائٹیاں،کالج، یونیورسٹیاں سب کچھ ایک ہی شہر میں بنایا جا رہا ہے۔خدا کا شکر ہے کہ میں میاںوالی، اٹک یا بہاولپورمیں نہیں رہتا جنہیں صرف پنجاب کو سب سے بڑا صوبہ ثابت کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف سندھ میں احتجاج کیا ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کی قیادت میں پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی نے ہائیکورٹ تک مارچ کیا۔ صوبے میں ہڑتال بھی کی گئی۔ اب اس معاملے میں بھی روشن پہلو واضح ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ پیپلز پارٹی نہیں ہوں ورنہ مجھ پر الزام لگتا کہ میں سپریم کورٹ کی توہین کر رہا ہوں۔ خوش قسمتی سے میں نون لیگ ہوں اور بہت آرام سے یہ سارا تماشا دیکھ رہی ہوں۔ کسی کو یاد ہی نہیں کہ عدالتوں کی توہین میں نے شروع کی تھی۔ ….
ادب کا قافلہ تھا سُست گام اے سیماب
رواجِ گرم روی میرے کارواں سے چلا
خدا کا شکر ہے یہ کوئی نہیں کہہ رہا کہ سپریم کورٹ پر باقاعدہ حملے کا رواج میرے زمانے میں پڑا تھا۔دیواریں پھلانگیں گئی تھیں۔ بسیں بھر بھر کر لائی گئی تھیں اور حملہ آوروں کو قیمے والے پراٹھے کھلائے گئے تھے تاکہ اُن کی انرجی بحال رہے۔
میری خوش قسمتی دیکھئے کہ میں ڈاکٹر نہیں ہوں۔ ڈاکٹروں سے زیادہ مظلوم اس ملک میں شاید ہی کوئی طبقہ ہو۔ ڈاکٹر بننے کےلئے جتنی محنت کرنا پڑتی ہے اور سات سال جس طرح پاگلوں کی طرح رات دن سوتے جاگتے پڑھائی کرنا پڑتی ہے، اخباروں میں سرکاری خرچ پر ڈاکٹروں کےخلاف پورے پورے صفحے کے مضحکہ خیز اشتہارات شائع کرانےوالے ”عالم فاضل“ اتنی پڑھائی اور اتنی محنت کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ڈاکٹروں کا کیریر شروع ہی گریڈ اُنیس (19) سے ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ڈاکٹر یہ ملک چھوڑ کر ترقی یافتہ دنیا کی طرف ہجرت کرتے رہیں گے اور جو رہ جائیں گے وہ مقابلے کا امتحان دے کر ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسر لگتے رہیں گے۔ اگر ڈاکٹروں کو اُنکے حقوق نہ دئیے گئے تو اس ملک کے قصبے اور دیہات ڈاکٹروں سے محروم ہی رہیں گے اور ملنگوں، عاملوں، جعلی پیروں، ان پڑھ حکیموں اور جُز وقتی ہومیو پیتھوں کی چاندی ہوتی رہے گی۔
آپ کہاں تک گنیں گے اور میں کہاں تک گنواﺅں گا؟ میری خوش قسمتیوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اس کےلئے صفحوں کے صفحے درکار ہیں۔ مثلاً یہی بات لے لیجئے کہ میرے بچے مدرسے میں نہیں پڑھتے، ورنہ اس ملک کے لاکھوں بچے مدارس میں ”زیر تعلیم“ ہیں۔ انہیں جس طرح کھانا دیا جاتا ہے، جو رہائش کی جگہ مہیا کی جاتی ہے، آٹھ سال، رات دن جو ”تربیت“ دی جاتی ہے، میرے بچے اُس سے محفوظ ہیں۔ ایک اور خوش قسمتی ملاحظہ کیجئے کہ میں قبائلی علاقے سے نہیں ہوں۔ باسٹھ سال میں قبائلی علاقوں کو کوئی کالج، کوئی یونیورسٹی کوئی انڈسٹری، کوئی شاپنگ مال، کوئی لائبریری نہیں دی گئی۔ وہ تو اللہ کا شکر ہے میں قبائلی علاقے میں نہیں رہتا ورنہ پجارو لے کر ووٹ ڈالنے والے اور لاکھوں روپے لے کر سینیٹر بنانے والے ملک اور خان مجھ عام قبائلی کی قسمت کے مالک ہوتے، میرے بچوں کو غلیل اور بندوق چلانا سکھائی جاتی اور وہ جو میرے بچوں کو قبائلی ثقافت کے نام پر غلیل اور بندوق کے ساتھ پوری دنیا کو دکھاتے ہیں، اُنکے اپنے بچے کتابوں اور لیپ ٹاپ کی معیت میں او لیول اور اے لیول کر کے امریکہ اور برطانیہ جا رہے ہوتے!
آپ گواہ رہئے گا کہ میں نے اپنا رویہ تبدیل کر لیا ہے۔ میں آج سے قنوطی نہیں ہوں۔ میں ہر معاملے کا روشن پہلو تلاش کیا کروں گا۔ یہ دیکھئے، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے برقی روشنی چلی گئی ہے۔ اس معاملے کا روشن پہلو یہ ہے کہ میں کالم کو یہیں ختم کیے دیتا ہوں۔
http://columns.izharulhaq.net/2011_03_01_archive.html
“