ہے جس کی نظر شعلۂ مستور کی شاہد
ہر موجِ نفس جلوہ سینا کا شرارا
حل کرتا ہے راتوں کو ستاروں کے معمے
ہے عرش بریں جس کے تخیل کا کنارا
ہر مصرعِ موزوں سے چھلکتی ہے گلابی
ہر شعر ہے اک کوثر و تسنیم کا دھارا
ہر لفظ ہے مستقبلِ زرّیں کا پیامی
ہر بات میں بیدارئ مسلم کا اشارا
منظر نامہ معرکہ کربلا
عجب خونچکاں کربلا کا سماں تھا تھے سب تشنہ لب اور دریا رواں تھا مصیبت کے ماروں کا اک کارواں...