وقت کے شکنجوں نے
خواہشوں کے پھولوں کو
نوچ نوچ توڑا ھے
کیا یہ ظلم تھوڑا ھے؟
درد کے جزیروں نے
آرزو کے جیون کو
مقبروں میں ڈالا ھے
ظلمتوں کے ڈیرے ھیں
لوگ سب لٹیرے ھیں
سکون روٹھ بیٹھا ھے
ذات ریزہ ریزہ ھے
تار تار دامن ھے
درد درد جیون ھے
شبنمی سی پلکیں ھیں
قرب ھے نہ دوری ھے
زندگی ادھوری ھے
اب سمجھ آیا کہ
موت کیوں ضروری ھے
گھپ اندھیرے میں کپکپاتے ہاتھوں میں پکڑا وہ خط اسے بخوبی نظر آرہا تھا۔آنسووں سے تر چہرا الفاظ مٹانے کی کوشش کرتا جو جو اندھا دھند خط پر گر رہے تھے۔مگر وہ الفاظ نہیں جزبات تھے جو انمٹ تھے۔اس کا پور پور خط میں لکھے الفاظ میں محو تھا۔
"یہ جزبات اس لڑکی کے نام جس کے حصے میں کبھی جزبات نہیں آئے۔یہ الفاظ اس لڑکی کے نام جسے ذمہ داریوں کی زنجیروں سے باندھ کر بے الفاظ کر کردیا گیا۔یہ اظہار اس لڑکی کے نام جس سے محبت تو کی گئی مگر اظہار نہ کیا گیا۔یہ دینار اس لڑکی کے نام جس نے اپنی خواہشات کی بہت بڑی قیمت چکائی۔
یہ اعداد اس لڑکی کے نام جس نے شوق کی عمر میں صبرسیکھ لیا۔یہ موتی اس لڑکی کے نام جس کے آنسووں کو اسکی ذات کی طرح بے مول کیا گیا۔یہ معافی اس لڑکی کے نام جسے ہزار زیادتیوں کے کےبعد بھی معافی نصیب نہ ہوئی۔
یہ قبولیت اس لڑکی کے نام جسے کہا گیا "#کہو_قبول_ہے۔
تو اسنے کہا ہاں قبول ہے!۔
گاوں کے کچے کھیتوں اور کھلیانوں کی دلفریب خوشبو صبح صبح ہر آنگن کو مہکائے ہوئے تھی جہاں صبح صادق کے بعد ہی ہر شخص کھلے دل سے سورج کا استقبال کرتا نظر آتا تھا۔
گاوں کے کنارے بہتے اس چھوٹے سے دریا کا پانی سورج کی چمک میں سنہری رنگ بکھیرتا تو دیکھنے والے کی طبیعت کھل اٹھتی۔
کسی گلی میں چھوٹے چھوٹے بچے ہاتھ میں سپارہ اٹھائے اپنے قاری صاحب کے غضب سے بچنے کی دعائیں مانگ رہے ہوتے تو کہیں پرائمری سکول کے طلباء کندھے پر بستہ لٹکائے شہر جا کہ پڑھنے کے خواب سجاتے۔تو کسی کچی چھت پر کھڑا شریر لڑکا پتنگ اڑاتے ستاروں پر کمنڈ ڈالنے کی تدبیر کرتا۔کنویں پر پانی بھرتی عورتیں اپنی ہم جولیوں سے دکھ سکھ بانٹتی مشکیزے اٹھائے اپنے اپنے دیار کی طرف رواں دواں ہوتی تھیں۔بڑے شہروں کی مصروفیت شور نفسا نفسی کے ماحول سے دور اس گاوں کی تہذیب آج بھی پر سکون تھی۔
اسی گاوں کی کچی سڑک پر ہچکولے کھاتی ایک مرسیڈیز فراٹے بھرتی گزری ۔جس میں بیٹھی ایک معمر خاتون چہرے پر مسکان اور آنکھوں میں نمی لئے یہ سب منظر اپنے اندر اتار رہی تھی۔کیا ہوا بیگم صاحبہ؟
ڈرائیور نے گاڑی چلاتے اپنی مالکن کی آنکھوں کی نمی بخوبی دیکھ لی تھی۔
کچھ چیزیں کبھی نہیں بدلتی ہمیشہ اپنے اندر پہلی سی کشش لئے ہوتی ہیں بس ہم انسان ہی جلدباز واقع ہوئے ہیں۔
خاتون نے بات مکمل کر کے گاڑی کا شیشہ کھول دیا اور گہرے سانس لیکر مٹی کی روح افزاء خشبو اپنے اندر اتارنے لگی۔
یہ تو بجا فرمایا آپ نے۔
ڈرائیور نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس خاتون کے آنسو تو ضائل کر چکے تھے مگر دل میں اٹھتی ٹیس اور پچھتاوے کا علاج نہ کر سکیں چونکہ انکی اب نا تو کوئی دوا تھی اور نہ علاج۔
سنو شمشیر آگے دائیں طرف ایک قبرستان آئے گا وہاں گاڑی روک دینا۔
جی بیگم صاحبہ۔
اور اس نے حکم کی تعمیل کرتے گاڑی قبرستان کی جانب رواں کر دی۔
ویسے بیگم صاحبہ آپ آج سے پہلے تو یہاں کبھی نہیں آئی۔
نگہت جہاں کے چہرے پر کرب بھری مسکراہٹ در آئی۔
اٹھارہ سال پہلے آئی تھی۔وہ مختصر سا جواب دیکر خاموش ہو گئیں۔
کسی خاص کام سے آئیں ہیں آج؟۔
شمشیر علی کو بھی ناجانے کونسا تجسس گھیرے تھا وہ بھی پوچھتا چلا گیا۔
کچھ مانگنے آئی ہوں دعا کرو مجھے مل جائے
انشاءاللہ بیگم صاحبہ۔
سلو پتر میری چادر دینا زرا میں ان مویشویوں کا چارا پانی کر آوں۔
عفت جہاں گہرے سانس لیتے اپنی صاحبزادی سے گویا ہوئیں جو میٹرک کے امتحان دے کر آج کل گھر کی چارپائیاں توڑ رہی تھی۔
تو چادر کے بغیر کونسا اماں وہ تم سے چارہ نہیں لیں گے۔
وہ دھوپ سے بچنے کیلئے منھ پر کپڑا رکھے کروٹ لیکر لیٹ گئی۔
دن چڑھے سوتی رہتی ہے نہ خود کسی کام کی ہے نہ مجھے کرنے دیتی ہے تجھے مسلئہ کیا ہے۔
اتنی دفعہ تو بتایا ہے مسلئہ اماں کہ مجھے نہیں رہنا اب گاوں میں شہر چلتے ہیں مجھے آگے پڑھنا ہے کچھ بننا ہے یہ بھیڑ بکریوں میں زندگی نہیں ضائع کر سکتی میں۔
عفت جہاں لمحے بھر کو ماضی کے کرب میں مبتلا ہو گئیں۔
شہر کو جانے والے لوٹ کر نہیں آتے پتر۔
کیا بڑبڑا رہی ہو اماں ۔اس نے اپنی ماں کو جھنجوڑا۔
میں کہہ رہی ہوں بس بہت پڑھ لیا تو نے ابھی دو جماعتیں پڑھی ہیں تو تجھے شہر جانا کل کو زیادہ پڑھ گئی تو کہے گی مجھے پردیس بھیج دے ہر گز نہیں۔
اماں ساری دنیا جاتی ہے پڑھنے
سلویٰ اٹھ کر بیٹھ گئی شائد آج وہ مکمل بحث کے موڈ میں تھی۔
میں جا رہی ہوں اوپر تجھ سے الجھنے کا وقت نہیں ہے میرے پاس۔
عفت جہاں اسکی ضد سے بچتی چھت کو ہو لیں۔
سلویٰ انکا بات ٹالنا خوب سمجھتی تھی۔
جو مرضی کر لو اماں شہر تو میں پڑھنے جاوں گی۔
سلویٰ ابھی اپنے سوچوں کے تانے بانے بن رہی تھی جب گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔
لو جی شروع ہو گیا اماں کی سہیلیوں کا رونق میلہ۔
وہ کلستی بڑبڑاتی دروازہ کھولنے گئی۔
گاوں میں موجود یہ گھر کافی بڑا اور کشادہ تھا کسی حویلی نما کوٹھی کی طرح
صحن بڑا ہونے کی وجہ سے اسے دروازہ کھولنے میں وقت لگ گیا۔
سلویٰ نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک معمر خاتون کو کھڑے پایا۔
سلویٰ نے سر تا پیر اسکا جائزہ لیا ڈیزائنر ڈریس پر نفاست سے لیا ہوا دوپٹہ اور کندھوں پر ڈالی شال سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ یہ گاوں کی نہیں ہے ۔
یہ تو کسی زاویے سے اماں کی سہیلی نہیں لگتی۔
سلویٰ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔
اسلام علیکم جی کس سے ملنا ہے آپکو ؟
سلویٰ فورا سےگویا ہوئی جس پر وہ خاتون مسکرا دیں۔
وعلیکم اسلام عفت جہاں کا گھر یہی ہے؟
انکا نہایت ہی میٹھا لہجہ دیکھ کرسلویٰ وہیں جم گئی۔
یہ عفت جہاں کا ہی گھر ہے نا؟
ہیں ہاں جی آئیں آپ اندر ۔سلویٰ ہوش کی دنیا میں آئی۔
وہ انہیں لیتی اندر آئی اور صحن میں بٹھا دیا۔
اماں نیچے آو کوئی ملنے آیا ہے۔
سلویٰ کے پکارنے پر خاتون نے سر اٹھا کر اپنے سامنے کھڑی لڑکی کو غور سے دیکھا۔
"سلویٰ"
وہ خاتون دھیرے سے بولی مگر سلویٰ اپنا نام اسکے منھ سے سن چکی تھی۔
"تم سلویٰ ہو میری سلویٰ اتنی بڑی ہو گئی"وہ فورا اٹھ کر اسکا ماتھا چومنے لگی۔
خاتون کی آنکھوں میں آنسو تھے جبکہ سلویٰ کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔
میجر راحب احمد ایک بار پھر آپ نے کر دکھایا ۔آپ ایک بار پھر ہماری ٹیم کے سب سے جانباز اور ہمت والے آفیسر ثابت ہوئے ہیں۔
آرمی ہیڈکوارٹر کا یہ وسیع و عریض میدان اس وقت ملک کے دلیر سپاہیوں سے بھرا ہوا تھا جو اپنی قوم کو ایک خطرناک حملے سے بچانے کے بعد غازی بن کر لوٹے تھے۔چند خوشقسمت سپاہی جام شہادت نوش کر چکے تھے۔
اور یہ سب انکے نڈر سپاسالار میجر راحب احمد کے طفیل تھا جس کیلئے انہیں تمغہ امتیاز نوازہ گیا۔
جنرل آصف مرزا اسٹیج پر کھڑے انھہیں یہ انعام سونپ رہے تھے۔
آفیسرز یہ امتحانات کی شروعات ہے ابھی تو آپ نے اپنی زندگی کے کئی خطرناک مراحل سے گزرنا ہے کئی بازیاں جیتنی ہیں اور کچھ ہارنی بھی ہیں مگر اس سب میں آپکا دامن کبھی ہمت اور بہادری سے خالی نہیں ہونا چاہئے
ڈر سے آپکا رشتہ ٹھیک اسی طرح ہونا چاہیے جس طرح ملک کی طرف میلی آنکھ اٹھانے والے سے ہے صرف دشمنی کا۔
شہید ہونے والے ساہیوں کو ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں اللہ پاک انکے اہل خانہ کو صبر جمیل دے۔
جنرل آصف مرزا اب اسٹیج سے نیچے اتر چکے تھے۔
اب میجر راحب احمد انکی جگہ پر کھڑے تھے۔
فوجی کٹنگ اور کلین شیو چہرہ سیاہ اور نڈر آنکھیں جن میں جھانکنے والا از خود کپکپانے لگے۔
دراز قد سے وابستہ بلند و بالا حوصلے۔
اسلام و علیکم آفیسرز!تمام سپاہیوں نے سلیوٹ کر کے سلام کا جواب دیا۔
میں شائد کچھ زیادہ نہ کہہ پاوں کیونکہ میں کہنے سے زیادہ کرنے پر یقین رکھتا ہوں۔جب میں نے پہلے دن ایک فوجی کی حیثیت سے یہاں قدم رکھا تھا تو اپنے جزبات احساسات کو قربان کر دیا تھا۔
اور شائد یہی وجہ ہے کہ کسی بھی میدان میں مجھ پر کوئی کمزوری یا ڈر طاری نہیں ہوا۔میرا تن من دھن صرف اور صرف میرے ملک کیلئے ہے۔
اور آج ایک بار پھر میں آپ سب سے وعدہ کرتا ہوں میرا کوئی رشتہ کوئی جزبہ کبھی میرے اور ملک کی حفاظت کے درمیان نہیں آئے گا۔
میری ہر کمزوری موت کے گھاٹ اترے گی ۔
انشاءاللہ۔
تمام میدان تالیوں کی گونج سے جگمگا اٹھا۔
آج اس ہیڈکواڑٹر کا ایک اہم مشن پورا ہوا تھا اسلئے چند گروہ ہفتہ کی چھٹی لئے گھر جا رہے تھے۔جن میں میجر راحب احمد کا گروہ بھی شامل تھا۔
میجر راحب ؟
آفیسر زایان نے اسے پیچھے سے پکارا جب وہ جنرل آصف مرزا سے بات چیت میں مشغول تھا۔
جی آفیسر زیان۔
میجر یہ میری شادی کا انویٹیشن کاڑڈ اور یہ جنرل مرزا آپکا۔
بہت مبارک ہو جوان۔جنرل مرزا نے آفیسر زایان کو گلے لگا کر مبارکباد دی۔
میجر راحب نے بھی اسے اسےنئی زندگی کی خوب دعائیں دیں۔
بہت شکریہ۔
اسکا مطلب ہمارا جوان سنگل جائے گا اور ڈبل ہو کرواپس آئے گا۔
جنرل مرزا میجر راحب کو دیکھتے گویا ہوئے۔
جی سر ۔
ویسے سر یہ مشورہ آپکو میجر راحب کو بھی دینا چاہئے۔
آفیسر زایان نے راحب کو دیکھا تو تووہ اسے ہی گھور رہا تھا۔
وہ دونوں ایک ہی ٹیم میں ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے
دوست بھی تھے۔
جنرل مرزا کی موجودگی میں وہ تہزیب دکھا رہے تھے ورنہ ایک آدھ کا جبڑا ٹوٹ چکا ہوتا۔
ہاں بلکل کیوں نہیں میجر اب آپکو بھی ہمیں یہ خوشخبری دینی چاہئے۔
جی سر آپ زرا انھیں قائل کریں میں باقیوں کو مدعو کر کرلوں۔
وہ سر جھکا کر چلا گیا۔
شادی مطلب اپنی ایک کمزوری خود پیدا کرنا۔
آفیسر زایان کے جاتے ہی میجر راحب جنرل مرزا سے گویا ہوا
یہ بات مجھے سمجھ نہیں آتی آج کی جوان نسل شادی کو کوایک بوجھ کیوں سمجھتی ہے حالانکہ شادی تو کی ہی بوجھ بانٹنے کیلئے جاتی ہے۔
مگر میں اپنے بوجھ کی خاطر کسی اور کو رولنا نہیں چاہتا ۔میں کبھی شادی نہیں کرونگا۔
میجر راحب میدان میں پڑی مٹی کو پیروں سے اڑا رہا تھا۔
ہاہاہاہا جوانی کا خون جوشیلا ہوتا ہے میجر جب ہماری طرح بوڑھے ہو جاو گے نا تو تب ایک بیگم کی ضرورت ہوتی ہے
سوچو اس بارے میں۔
جنرل مرزا میجر راحب کا کندھا تھپکتے
چل دئے اور وہ اپنے گھر جانے کی تیاری کرنے لگا۔
میں وہ مسافر _________دشتِ غمِ محبت ہوں
جو گھر پہنچ کے بھی سوچے کہ گھر نہیں آیا!!
اے سلو کون آیا ہے باہر۔
عفت جہاں سیڑھیوں سے اترتی بولی۔
اماں وہ یہ۔۔۔۔۔
عفت جہاں نے دھوپ کے باعث آنکھیں سکیڑ کر نیچے دیکھا تو کوئی مانوس سا چہرہ انکی بصارت سے ٹکڑایا۔
وہ حیرانگی سے سوچتی ہوئی اس خاتون کے پاس آگئیں اور تب ہی انکا زہن اچانک بیدار ہوا اور سامنے کھڑی عورت کی پہچان کروا گیا۔
"آپا"
سلویٰ نے بھی حیرت سے عفت جہاں کو دیکھا۔
"نگہت آپا"
وہ دونوں فورا سے گلے لگ گئیں۔دونوں کی آنکھیں بھیگی اور دل ماضی کے کرب میں مبتلا تھے۔
چند لمحے یونہی گلے لگے رہنے کے بعد عفت جہاں فورا سے پیچھے ہٹیں۔
سلویٰ تم جاو یہاں سے ۔وہ جو بڑے مشکوک انداز سے ساری واردات دیکھ رہی اماں کا حکم ملتے ہی منھ بسور کر چلی گئی۔
کیسی ہو عفی؟
سلویٰ کے جاتے ہی نگہت جہاں گویا۔
بلکل ویسی جیسی اٹھارہ سال پہلے آپ چھوڑ کر گئیں تھیں بلکہ یقین کریں اس سے بھی بری
نگہت جہاں کی آنکھیں نم تھی۔
مجھے معاف کر دو عفی مجھے میری غلطیوں کی سزا مل گئی ہے میں نے احمد کو کھو دیا عفی۔نگہت جہاں زار وقطار رو رہی تھیں۔
کیا ہوا بھائی صاحب کو آپا؟عفت جہاں اپنی بہن کے پاس بیٹھ گئیں۔۔
دس سال پہلے ایک مشن پر نکلے تھے آج تک نہیں لوٹے۔نگہت جہاں کا شکستہ لہجہ اس بات کا شاہد تھا کہ وہ اب لوٹ کر آنے بھی نہیں والے۔
عفت جہاں کی سانس ساکن ہونے لگی۔
اور آپا آپ نے ہمیں واپس رابطہ بھی نہیں کیا۔
انا کے خول بہت سخت ہوتے ہیں بعض و اوقات اترنے میں ساری عمر کم پڑ جاتی ہے۔مگر تنہائی کی ضرب اسے بھی چور چور کر دیتی ہے۔
اور میری تنہائی نے مجھے چور چور کر دیا ہے عفی مجھے اپنی ساری نادانیوں کی سزا مل گئی ہے تم بھی مجھے۔وہ عفت جہاں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رو پڑیں اور الفاظ وہیں دم توڑ گئے۔
میں کون ہوتی ہوں معاف کرنے والی آپا آپکی زندگی تھی ہم الگ کرنا آپکی مرضی تھی جانے دیجیئے ماضی یاد کرنے سے صرف آنسو ہی ملیں تو میرا خیال ہے اسے وہیں ملیامیٹ کر دینا چاہئے۔
وہ دونوں بہنیں سر جوڑ کر سسک سسک کر رونے لگیں۔
انسے چند قدم دور سلویٰ دیوار سے کان لگائے بڑے غور سے سن رہی تھی۔
تو کیا مطلب یہ خوبصورت پڑھی لکھی شہری عورت میری خالہ ہے۔
ہائےےےےےےےے اللہ مر ہی نہ جاوں میں خوشی سے۔
وہ اتنی زور سے اچھلی کہ پاس پڑا گملہ زور سے گرا۔۔
اےے سلویٰ کیا توڑ دیا تو نے؟
صرف ایک لمحہ جی ہاں بس ایک لمحہ لگا تھا عفت جہاں کو اپنی رو میں واپس آتے۔
سلویٰ کھسیانی مسکراہٹ کے ساتھ دیوار کی اوٹ سے نمودار ہوئی۔
میں نے تو کچھ نہیں کیا وہ خود ہی سلویٰ نے چہرے پر ڈھیروں معصومیت سجا رکھی تھی۔
نگہت جہاں کو اسکا چہرہ دیکھ کر اپنے آنے کی وجہ یاد آئی۔
ادھر آو بچے۔انھوں نے سلویٰ کو اپنے پاس بلایا۔کیا کرتی ہے میری بیٹی؟
وہ اسکا کندھا سہلاتی بولیں۔
جی وہ بس میٹرک کے امتحانات دئے اس نے تو نتیجے کےانتظار میں ہے۔عفت بیگم فورا بولیں۔
آگے کیا ارادہ ہے کرنے کا۔
شہر جا کے پڑھوں گی۔سلویٰ کی زبان پھسلی اور عفت جہاں کی گھوری نے اسکا محاطہ کیا۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے مجھے میری بیٹی اپنی ہاتھ کی کی چائے نہیں پلائے گی؟
نگہت بیگم کی فرمائش پر عفت بیگم بوکھلائی اٹھیں۔
اففف آپا باتوں میں آپکو کچھ پوچھا نہیں ل
میں ابھی بنا کر لاتی ہوں ۔
وہ جانے لگیں تو نگہت بیگم نے انکا ہاتھ پکڑ کر روکھ لیا۔
تم نہیں سلویٰ بنائے گی مجھے تم سے بات کرنی ہے۔
سلویٰ شرافت کے سارے پردے پھاڑتی چائے بنانے چل دی۔
عفت میں تم سے کچھ مانگوں تو کیا تم مجھے دو گی؟
ارے آپا کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ مانگ کر تو دیکھیں۔
عفت سلویٰ مجھے دے دو۔
یہ جملہ عفت جہاں کے سر پر کسی چٹان برابر لگا۔
آپا؟؟
میں اپنے راحب کیلئے سلویٰ کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں۔میں بلکل خالی دامن رہ گئی ہوں عفت میرا ہر رشتہ مجھ سے چھوٹ گیا صرف ایک بیٹا ہے جو رشتوں کے مطلب سے بھی واقف نہیں ہے اگر وہ بھی کہیں دور نکل گیا تو میں کہاں جاوں گی؟
وہ پھر سے زار و قطار رنے لگیں۔
مطلب اس بار بھی آپ اپنے مقصد کیلئے آئی ہیں۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی سودا کرنے۔
عفت جہاں کی بات پر نگہت جہاں تڑپ کر رہ گئیں۔
عفت۔۔!!۔
بس آپا اٹھارا سال میں کبھی آپ نے ہمارا حال نہیں پوچھا مڑ کر دیکھا بھی نہیں آج آئیں بھی تو اپنے مقصد سے پر معاف کیجیئے آپا میں اپنی کم سن معصوم بیٹی کو آپکی خودغرضی اور مطلب کی بیڑیاں ہرگز نہیں پہناوں گی۔
نہیں عفت تم غلط سمجھ رہی ہو مجھے میں اپنے ٹوٹے رشتے ایک وسیلے سے جوڑنا چاہتی ہوں اور سلویٰ اسے تو میں اپنی بیٹی بنا کر لے جاوں گی ۔وہ شہر جا کر پڑھنا چاہتی ہے نا میں اسے پڑھاوں گی اسکی ہر خواہش پوری کروں گی۔
یہ بات چائے لاتی سلویٰ کے کانوں میں پڑی تو وہ وہیں شل ہو گئی۔
عفت مجھے خالی ہاتھ واپس مت بھیجو۔تم جانتی ہو سلویٰ سے مجھے کتنی محبت ہے۔
نگہت جہاں سسک رہی تھیں۔
یہ محبت اٹھارہ سال تک کس کونے میں دفن تھی اور آج اچانک پھر کیسے زندہ ہو گئی۔
عفت جہاں کا چہرہ ماضی کی تلخ یادوں کی بھٹی میں جلنے لگا تھا۔
تم وہی سفاک غلطی کر کررہی ہو عفت جو میں نے کی تھی خدارہ تم اتنی سنگ دل نہ بنو۔
خیر آپا یہ فیصلہ میں اکیلی نہیں کر سکتی سلویٰ کے ددھیال والے جو چاہیں گے وہی ہوگا۔میں ابھی بھی اپنے رشتوں کی پابند ہوں میں سب توڑ کر واپس جوڑنے کا ہنر نہیں سیکھ سکی ۔
یہ طنز تھا کہ تیر مگر نگہت جہاں کا سینہ چھلنی کر گیا تھا۔
میں جانتی ہوں میں خطاکار ہوں پر میں یہ بھی جانتی ہوں تم مجھے مزید سزا نہیں دوگی۔
نگہت جہاں نم آنھیں لئے وہاں سے چلی گئیں۔
اماں یہ تو چلی گئیں۔۔سلویٰ چائے کی ٹرے فورا آئی۔
جانے والوں کو جانا ہی ہوتا ہے۔
کیا مطلب؟؟
وہ بھی وہاں چلی گئیں۔
سلویٰ ناسمجھی کے عالم میں وہیں کھڑی رہ گئی۔
اسکی سماعتوں میں ابھی تک نگہت جہاں کی شہر لے جانے والی بات گھوم رہی تھی۔
اور ناچاہتے ہوئے بھی اسکی آنکھیں انجانے خواب خواب بننے لگی تھیں۔
خواب اور خواہش میں، فاصلہ نہیں ہوتا
عکس اور پانی کے،
درمیان آنکھوں میں، آئینہ نہیں ہوتا
سوچ کی لکیروں سے، شکل کیا بناؤ گے
درد کی مثلث میں، زاویہ نہیں ہوتا
بے شمار نسلوں کے، خواب ایک سے لیکن،
نیند اور جگراتا، ایک سا نہیں ہوتا