یہ دو تصویریں عرش سے فرش پر اتارے گۓ دو فرشتوں کی ہیں جو میرے جیسے ان گنت آدمی کہلانے والوں کو انسان بنانے کا الہامی فریضہ سر انجام دے کرسرخرو اسی دنیا کو لوٹ گۓ جہیاں بالاخر ہم سب کو جانا ہے لیکن ایک بار ندامت سے سرنگوں کہ ہم شاید ان کی توقعات پر پورا نہ اتر پاۓ جو ان کے شاگرد ہونے پر نازاں ہیں باییں جانب گورڈن کالج راولپنڈی کے پرنسپل آر آر آسٹوارٹ ہیں اور داییں جانب پروفیس خواجہ مسعود جو بہت بعد میں پرنسپل ہوۓ اور ایک طویل با برکت زندگی گزار کے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی عالم جاودانی کے مکیں ہوۓ۔1952 میں میٹرک کرنے کے بعد مجھے والد نے نیک نیتی پر مبنی اس یقین کے ساتھ مجھے اس نیک نام ادارے میں داخل کرایا کہ ان کا ہونہار سپوت ایک دن انجیییر بن کے اس شعر کو تعبیر دے گا کہ نام مطلوب ہے تو فیض کے اسباب بنا پل بنا۔ چاہ بنا۔۔۔
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...
پروفیسر عارف فرید ایوبی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے : پروفیسر عراق رضا زیدی شعبۂ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی میں مرحوم...
کتاب کے آغاز میں مصنف کی طرف سے 5 صفحات کا پیش لفظ ہے جس کا آغاز مشفق خواجہ کی...
محمد اکمل فخری کی مختصر کہانی، "استاد بمقابلہ ڈینگی" ایک طنزیہ اور مزاحیہ داستان کو سامنے لاتی ہے جو سماجی...
پنجابی زبان کے معروف شاعر اور ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ پنجابی کے ریٹائرڈ استاد پروفیسر یونس احقر...
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے وفات :...
ہر نفس شورشِ آلامِ جہاں ہے ساقی حاصل دیدہ خوننا بہ فشان ہے ساقی پھر کوئی رنگ کہ رُک جائے...