کسی کرمفرما نے مجھے ڈیرہ اسمٰعیل خاں اور دریا خاں کو ملانے والے دریاۓ سندھ پر کشتیوں کے ہل کی تصویر ارسال کی ھے جس کا وجود 1980 تک تو ثابت ھوتا ھے ۔میں اس پر سے مزید 20 سال قبل 1960 میں گزرا تھا بارشوں اور سیلاب کا موسم گذر جانے کے بعد ایسا ھی ایک پل میں نے دریاۓ کابل پر نوشھرہ میں بھی بنتا بگڑتا دیکھا تھا۔جب پاٹ کم ھو جاتا تھا تو کشتیوں کو ملا کے ایک قطار میں کھڑا کر دیتے تھے اور تختے جڑ کے پل کا فرش بناتے تھےپھر اس پر مخصوص گھاس کی موٹی تہہ بچھا دی جاتی تھی اور مونج کی مضبوط رسیوں سے باندھ کے اس پر سارا دن پانی ڈالتے رھتے تھے ۔اس کے اوپر سے موٹر سایکل کار کیا ھیوی ٹریفک گذر جاتی تھی ،اس سے پل ھلتا تھا لیکن نہ تختہ کویؑ ٹوٹ کے الگ ھوتا تھا نہ کوےؑ کشتی جگہ چھوڑتی تھی۔
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...
پروفیسر عارف فرید ایوبی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے : پروفیسر عراق رضا زیدی شعبۂ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی میں مرحوم...
کتاب کے آغاز میں مصنف کی طرف سے 5 صفحات کا پیش لفظ ہے جس کا آغاز مشفق خواجہ کی...
محمد اکمل فخری کی مختصر کہانی، "استاد بمقابلہ ڈینگی" ایک طنزیہ اور مزاحیہ داستان کو سامنے لاتی ہے جو سماجی...
پنجابی زبان کے معروف شاعر اور ایم اے او کالج لاہور کے شعبہ پنجابی کے ریٹائرڈ استاد پروفیسر یونس احقر...
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے وفات :...
ہر نفس شورشِ آلامِ جہاں ہے ساقی حاصل دیدہ خوننا بہ فشان ہے ساقی پھر کوئی رنگ کہ رُک جائے...